Monday, October 25, 2010

کہیں ہم ناکام نہ ہوجائیں!: محمد آصف ریاض

کہیں ہم ناکام نہ ہوجائیں!
محمد آصف ریاض
asif343@gmail.com
09990431086
ایک عرصہ سے میں یہ سوچتا رہا ہوں کہ آخر یہ کیوں کر ممکن ہوا کہ انسان ہواؤں میں اڑنے لگا؟وہ پانیوں میں سرگرم ہوگیا؟وہ دنیا کے ایک کونے میں بیٹھ کر دنیا کے دوسرے کونے میں بیٹھے شخص سے معاملات کرنے لگا؟وہ پلک جھپکتے ہی ایک چیز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجنے لگا؟
ان سوالات کا جواب پانے کے لئے میں نے خدا کے تخلیقی منصوبہ پر غور کرنا شروع کردیا۔چنانچہ بہت غور و خوض کے بعد مجھے اپنے سوالوں کا جواب مل گیا۔واقعہ یہ ہے کہ خدا نے جب اس زمین کی تخلیق کی تو اپنے ابتدائی دور میں یہ زمین وہ نہیں تھی جس پر آج ہم اور آپ چلتے پھرتے ہیں ۔سائنسدانوں کے مطابق اپنے ابتدائی دور میں یہ زمین آگ کا گولہ تھی!۔اگر اس پر انسان کو بسا یا جا تا تو انسان جل بھن کر راکھ ہوجاتا۔خدا نے یہاں انسانوں کو بسانے کے لئے ایک پروسس چلا یا۔آسمان سے پانی برسا یا گیااور سمند ر بہائے گئے ۔ ماحولیات کو متوازن رکھنے کے لئے درخت اگائے گئے ۔رفتہ رفتہ زمین سرد ہوگئی یہاں تک کہ انسان کو اس پر بسا نا ممکن ہوا۔لیکن یہ کام اچانک نہیں ہوا بلکہ اس کے لئے بھی ایک پروسس چلایاگیا۔زمین چونکہ ابتدائی دور میں گرم تھی اس لئے پہلے اس پر جناتوں کو بسا یا گیا۔جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ جنات کی تخلیق آگ سے ہوئی ہے چنانچہ اس وقت زمین پر بسانے کے لئے وہ ایک فیٹسٹ(Fittest (مخلوق تھی !وہ انسانوں کی
بہ نسبت ہیٹ کو زیادہ برداشت کر سکتی تھی چناچہ خدانے اس زمین پر انسانوں سے پہلے جناتوں کو بسایا۔
جناتوں کو بلاسبب اس زمین پر نہیں بسا یا گیا تھا۔خدا کسی چیز کی تخلیق بلا سبب نہیں کرتا!اس کے ہر کام میں اعلیٰ تفکر پا یا جا تا ہے ۔اس کا کوئی کام بے مقصد نہیں ہوتا۔جیسا کہ قرآن میں ہے کہ ’’ہم نے دنیا کو کھیل تماشا کے طور پر نہیں بنا یا ۔اگر ہمیں یہی کرنا ہوتا تو ہم اسے اپنے پاس ہی کر لیتے‘‘۔اوریہ کہ ’’تم آسمان کی طرف اپنی نگاہ اٹھا کر دیکھو ،تمہیں اس میں کوئی خلل نظر نہیں آئے گا ،سو تم ایک بار پھر نگاہ اٹھا کر دیکھو تمہاری نگاہ تھک ہار کرتمہاری ہی طرف لوٹ آئے گی اور تم خدا کی تخلیق میں کوئی خلل نہیں ڈھونڈ پاؤگے‘‘(سورہ ملک)
خدا نے جناتوں کو ایک عظیم منصوبہ کے تحت اس زمین پر بسا یا تھا۔
وہ منصوبہ کیا تھا ؟
وہ منصوبہ یہ تھا کہ وہ زمین پر خداکے شکر گزار بندے بن کر رہیں۔وہ خدائی پیغام کو عام کریں،وہ کفر کی روش اختیار نہ کریں، وہ لوگوں کے ساتھ احسان کا معاملہ کریں، وہ لوگوں کوبھلائی کی طرف بلائیں اور انھیں برائی سے روکیں،لیکن جیسا کہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ جنات خدائی منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہے! وہ خدائی منصوبہ کو امپلی مینٹ نہ کر سکے،انھوں نے کھانے پینے اور کھیل تماشے کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔ انھوں نے شکر کے بجائے کفر کی روش اختیار کی ۔انھوں نے معرفت الہی کو پانے کے بجائے دنیا کو اپنی سرگرمی کا مرکز بنایا۔چنانچہ ان پر خدا کا غضب نازل ہوا۔وہ زمین پر Rejected lot بن کر رہ گئے ۔انھیں مسترد کردیا گیا۔ وہ امتحان میں ناکام ہوئے چنانچہ انھیں ڈرائیونگ سیٹ سے ہٹا دیا گیا۔
خدا نے انھیں بڑی طاقت سے نوازاہ تھا۔انھیں پنکھ نہیں دیا گیا تھا لیکن وہ آسمان پر اڑتے تھے۔ مچھلیوں کی طرح ان کی بناوٹ نہیں تھی لیکن وہ سمندر میں دوڑتے پھرتے تھے۔وہ اتنے طاقتور تھے کہ ایک چیز کو پل بھر میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا دیتے تھے۔جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے درباریوں سے کہا (جس میں جنات اور انسان دونوں تھے)، کون ہے جو ملکہ کے یہاں پہنچنے سے پہلے اس کا تخت اٹھا کر لے آئے تو ایک جنات نے کہا کہ ’’میں دربار ختم ہونے سے پہلے پہل اس کا تخت اٹھا لاؤں گا‘‘۔اس بیان سے جناتوں کی قوت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ سینکڑوں میل کے فاصلہ پر رکھے ایک تخت کو وہ پل بھر میں لانے کی بات کر رہے ہیں۔مزید وضاحت کے لئے دیکھئے ،(سورہ نمل) ۔
خدا نے انھیں عظیم ذمہ داری دی تھی اور اس کے ساتھ ہی انھیں اختیارات بھی دئے تھے کہ بغیرقوت ا وراختیارات کے ذمہ داری کو ادا نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن جنات اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر سکے اور مغضوب ہوئے ۔
اب ان کی سیٹ پر انسان کو بیٹھا یا گیا تاکہ جس خدائی منصوبہ کو امپلی مینٹ کر نے میں جنات ناکام رہے تھے، انسان اسے کامیابی کے ساتھ پائے تکمیل تک پہنچائے۔چنانچہ ضروری تھا کہ انھیں بھی وہ اختیارات دئے جاتے جو جناتوں کو دئے گئے تھے۔انسان جناتوں کی طرح پانی میں دوڑ بھاگ نہیں کر سکتاتھا۔وہ ان کی طرح آسمان میں نہیں اڑ سکتا تھا۔وہ ان کی طرح دنیا کے ایک کونے میں بیٹھ کر دنیا کے دوسرے کونے میں بیٹھے شخص سے معاملات نہیں کر سکتا تھا ۔ وہ پلک جھپکتے ہی ایک چیز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں بھیج سکتا تھا۔ چنانچہ خدا نے اسے لوہے کا علم سکھا یا تاکہ وہ اس سے جہاز بنائے اور پانی میں دوڑے۔خدانے اسے پٹرولیم ،گیس اور توانائی کا استعمال بتا یا تا کہ وہ آسمان میں پرندوں کی طرح بلکہ ان سے زیادہ سرعت سے اڑے۔انھیں کمیونی کیشن کے ایج میں پہنچا یا تا کہ وہ دنیا کے ایک کونے میں بیٹھ کر دنیا کے دوسرے کونے میں بیٹھے شخص سے معاملات کرے اور ایک سامان کو پلک جھپکتے ہی ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچا دے!
مثلاً کل مجھے اچانک ایک ایسی دستاویز کی ضرورت پڑ گئی جو پٹنہ میں رکھی تھی اور میں دلی میں بیٹھا تھا ۔مجھے گھبراہٹ ہوئی ۔ میں نے فوراً اپنے ایک دوست کوفون کیا ۔اس نے کہا گھبراؤ مت تم اپنے کمپیوٹر پر بیٹھے رہو میں پلک جھپکتے ہی اسے بھیج رہا ہوں اور اس نے واقعی ایسا ہی کیا۔مجھے اس واقعہ پر اس علم والے کی بات یاد آگئی جس نے سلیمان کے دربار میں جنات کے مقابلہ میں کہا تھا کہ میں پلک جھپکتے ہی اسے لادوں گا اور اس نے واقعی ایسا ہی کیا تھا۔ملاحظہ فرمائیں (سورہ نمل)
خدانے جنات کو ہٹا کر انسان کو پورے اختیارات کے ساتھ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا دیا ہے۔ اب انسان جناتوں کی طرح ہی حالت امتحان میں ہے ۔اگر انسان خدائی منصوبہ کو امپلی منٹ کر نے میں ناکام رہا۔اگر اس نے شکر کے بجائے کفر کی روش اختیار کی تو اسے بھی مسترد کردیا جائے گا اور اسے جہنم کی اس آگ میں ڈال دیا جائے گا جو بہت سیاہ اور کالی ہے ،جہاں آدمی کو اپنا ہاتھ بھی نظر نہ آئے گا!

No comments:

Post a Comment