Friday, October 22, 2010

عدل و انصاف کے تقاضے او راسلام:مولانا ندیم الواجدی

عدالتی نظام میں بنیادی اہمیت عدل کو حاصل ہے، اسی لئے اسلام نے سب سے زیادہ زور عدل وانصاف کے تقاضوں کی تکمیل پر دیا ہے، قرآن کریم میں ایک جگہ ارشاد فرمایا: ’’اس( دین کی) طرف ان کو بلا یئے جس طرح آپ کو حکم ہوا ہے اس (خاص دعوت) پر ثابت قدم رہئے اور ا ن کی ( فاسد) خواہشوں کی اتباع نہ کیجئے اور آپ فرمادیجئے کہ میں ان سب کتابوں پر ایمان لاتاہوں جو اللہ نے نازل کی ہیں اور مجھ کو یہ بھی حکم ہواہے کہ میں تمہارے درمیان عدل وانصاف قائم کروں‘‘ (سورۃ الشوریٰ:۱۵)ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا: ’’ اللہ عدل واحسان اور اہل قرابت کو دینے کا حکم دیتا ہے، اور کھلی برائی ، مطلق برائی اور ( کسی پر) ظلم وزیادتی کرنے سے منع کرتاہے۔‘‘ ( سورۃ النحل: ۹۰)ان دونوں آیتوں میں عدل کا حکم دیاگیا ہے، عدل سے مراد یہاں عدل مطلق ہے جو فرد کو بھی شامل ہے اور معاشرے کو بھی ، چاہے وہ فرد حاکم ہو یا محکوم، مال دار ہو یا محتاج، طاقت ور ہو یا کم زور، مرد ہو یا عورت، اس عدل کا حکم سب کو ہے، قرآن کریم کی اس آیت کو مفسرین نے جامع ترین آیت کہا ہے جس میں اسلام کی تمام تعلیمات کا خلاصہ اور نچوڑ آگیا ہے، اسی لئے جمعہ وعیدین کے خطبوں میں یہ آیت سلف صالحین کے دور سے آج تک مسلسل تلاوت کی جاتی ہے، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کی جامع ترین آیت آیت ِ عدل ہے، حافظ ابو یعلی نے معرفۃ الصحابہ میں صحابی رسول حضرت اکثم بن صیفی ؓ کا واقعہ لکھا ہے کہ وہ اس آیت کی جامعیت سے متأثر ہوکر ہی دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے حضرت اکثمؓ اپنے قوم کے سردار تھے، جب ان کو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بارے میں معلوم ہوا تو انھوں نے صورت حال جاننے کے لئے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کا ارادہ کیا، لیکن قوم کے لوگوں نے کہا کہ آپ ہمارے بڑے ہیں آپ نہ جائیں، ہم میں سے کوئی جاکر معلومات حاصل کرلے گا اور آپ کو با خبر کردے گا، حضرت اکثمؓکو یہ مشورہ پسند آیا اور انھوں نے تحقیق حال کے لئے قبیلے کے دو آدمی منتخب کرکے روانہ کئے، یہ دونوں شخص سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم فلاں قبیلے سے حاضر ہوئے ہیں، اور ہم صرف دو باتیں پوچھنا چاہتے ہیں، من انت وما انت، آپ کو ن ہیں اور کیا ہیں، سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ پہلے سوال کا جواب تو یہ ہے کہ محمد بن عبداللہ ہوں اور دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ میں اللہ کا بندہ اوراس کا رسول ہوں، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُبِالْعَدْلِ، قاصدوں نے کہا کہ یہ آیت آپ دوبارہ تلاوت فرمائیں آپ نے کئی مرتبہ یہ آیت تلاوت فرمائی یہاں تک کہ ان کو حفظ ہوگئی، واپس جاکر انھوں نے اکثم بن صیفیؓ کو بتلایا کہ پہلے سوال کے ذریعے ہم آپ کا حسب نسب جاننا چاہتے تھے مگر انھو ںنے خاص توجہ نہ دی اور صرف اپنا نام بتلانے پر اکتفا کیا،مگر ہم تحقیق کرآئے ہیں کہ ان کا نسب بڑا عالی ہے اور بڑے محترم وشریف گھرانے سے ہیں، دوسرے سوال کے جواب میں انھوں نے کچھ جملے ارشاد فرمائے جو ہم آپ کے گوش گزار کرتے ہیں، چنانچہ قاصدوں نے یہ آیت پڑھ کر سنائی، اکثمؓ نے کہا ایسا لگتا ہے کہ وہ اچھے اخلاق کی تعلیم دیتے ہیں، اور برے اخلاق سے منع کرتے ہیں، تم سب ان کے دین میں داخل ہوجائو اورجلدی کرو تاکہ دوسروں سے مقدم رہو، ان کے تابع نہ کہلائو۔
حضرت عثمان بن مظعونؓ فرماتے ہیں کہ میں نے دوسروں کی دیکھا دیکھی اورشرما شرمی میں اسلام قبول کرلیاتھا، لیکن یہ نیا دین میرے دل میں پوری طرح راسخ نہ ہوسکاتھا، ایک روز میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر تھا کہ اچانک آپ پر نزولِ وحی کے آثار شروع ہوئے اور یہ آیت نازل ہوئی، میں یہ کیفیت دیکھ کر اور یہ آیت سن کر بے حد متأثر ہوا، اورمیرے دل میں اس نئے دین پر ایمان راسخ اورمستحکم ہوگیا، ولید بن مغیرہ نے ایک مرتبہ یہ آیت سنی تو اس نے اپنی قوم کے پاس جاکر کہا کہ بہ خدا اس میں ایک خاص قسم کی حلاوت ہے اور اس میں ایک خاص قسم کی رونق ہے، اس کی شاخیں نکلنے والی ہیں اور ان پر پھل لگنے والے ہیں، یہ کسی انسان کا کلام ہرگز نہیں ہوسکتا، ( تفسیر ابن کثیر بہ حوالہ معارف القرآن: ۵/ ۳۸۷)
اسلام میں عدل کا تصور ہمہ گیر اورآفاقی تصور ہے، اوراسی پر پورے دین کی عمارت مضبوطی کے ساتھ قائم ہے، اسی لیے قرآن کریم میں ایک جگہ ارشاد فرمایا: ’’اور انصاف کرو اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں۔‘‘ ( سورۃ الحجرات: ۹) یہ ایک طویل آیت کا ٹکڑا ہے، یہ آیت ایک خاص موقع پر نازل ہوئی ہے، کسی موقع پر مسلمانوں کے دو گروہوں میں تصادم ہوا، ایسی صورت میں جب کہ مسلمانوں کے دوگروہ آپس میں بہ سرپیکار ہوں اس وقت مسلمانوں کے امراء وحکام کو اور اگر امراء وحکام موجود نہ ہوں تو مسلمانوں کے سربرآور دہ لوگوں کو حکم دیاگیا ہے کہ وہ دونوں فریقوں کے درمیان مصالحت کرائیں، اوریہ مصالحت عدل وانصاف کے ساتھ ہونی چاہئے، یہ نہ ہو کہ کسی ایک فریق کو بے جا طورپر دبا دیا جائے اوردوسرے فریق کو من مانی کرنے کی چھوٹ دے دی جائے، بلکہ انصاف کے تمام تقاضے پورے کئے جانے چاہئیں اور صحیح صورت حال جاننے کے بعد تمام شواہد کی روشنی میں فیصلہ ہونا چاہئے، یہی عدل ہے، اور اللہ عدل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے، عدل کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ قیامت کے دن بھی کوئی شخص عدل وانصاف سے محروم نہیں کیا جائے گا، حالاں کہ اللہ قادر مطلق ہے، اور احکم الحاکمین ہے، روز جزا کا مالک بھی ہے، اس کا ہر فیصلہ نافذ العمل ہے، اس کے باوجود جب قیامت کے دن فیصلے کی گھڑی آئے گی تو انصاف کے ساتھ فیصلے ہوںگے، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: ’’ قیامت کے دن ہم میزان عدل قائم کریںگے، کسی پر قطعاً کوئی ظلم نہ ہوگا، اور اگر کسی کا کوئی عمل رائی کے دانے کے برابر ہوگا تو ہم اس کو وہاں حاضر کردیںگے ۔‘‘ ( الانبیائ: ۴۷)اس آیت میں لفظ قسط لایاگیا ہے، اس کے معنی بھی عدل وانصاف کے ہیں ، مطلب یہ ہے کہ قیامت کے روز وزنِ اعمال کے لئے جو ترازو قائم کی جائے گی وہ عدل وانصاف کے ساتھ وزن کرے گی، کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہوگی۔
ایک مومن کے ذمہ دارانہ احساس کا تقاضہ بھی یہی ہونا چاہئے کہ وہ ہر گھڑی ہر آن عدل وانصاف پر کار بند رہے، اس کے قلب ونگاہ میں کسی انسان کا مرتبہ اور اس کا جاہ وحشم نہ ہو بلکہ خالق کائنات کا خوف اوراس کی عظمت وجلال کا تصور ہو، تب ہی صحیح معنی میں عدل ممکن ہے، حضرت ابو بکرؓ منصبِ خلافت پر متمکن ہونے کے بعد اسی احساس کے نتیجے میں یہ ارشاد فرمانے پر مجبور ہوئے، اے ایمان والوسچائی امانت ہے، اورجھوٹ خیانت ہے، تم میں جو شخص کم زور ہے وہ اپنے آپ کو کم زور نہ سمجھے میں اس کا حق اسے دلائوں گا، اور جو طاقت ور ہے وہ خود کو طاقت ور نہ سمجھے میں اس سے دوسرے کا حق لے کر رہوںگا،اس سے معلوم ہوا کہ قیام عدل، خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی ذمہ داری ہے، اس ذمہ داری کا اوّلین تقاضا یہ ہے کہ طاقت ور کو اس کی طاقت کی وجہ سے اہمیت نہ دی جائے اس لئے کہ اگر کسی کا حق اس پر ہے تو وہ اس کی طاقت سے زیادہ طاقت ور ہے، اور یہ حق کم زور اورناتواں شخص کو اس سے زیادہ جری، طاقت ور اور بہادر بناتاہے، قرآن کریم میں عدل کو ہر جذبے سے سے مبرّا رکھا گیاہے، تاکہ عدل کرنے میں کوئی شخص کسی دھمکی سے مرعوب نہ ہو، کسی لالچ کے سامنے سرنگوں نہ ہو، غیض وغضب اور خوشی ومسرت کے لمحات اس کے جذبات پراثر انداز نہ ہوں، جس کسی کے حق میں فیصلہ کرے اس کا وہ فیصلہ انصاف کے ساتھ ہو، خواہ مجبوری کی حالت میں ہو یا خوشی کی صورت میں، فیصلہ کرنے والے کی پسند نا پسند کو اس فیصلے میں کوئی دخل نہ ہونا چاہئے، فرمایا: ’’ عدل کرو کیوں کہ عدل تقوے کے زیادہ قریب ہے۔‘‘( المائدہ: ۸)
قیامت کے روز عدل پر ور انسان ہی اس روز کی ہول ناکیوں سے محفوظ رہنے والے ہیں اور وہی لوگ روز جزاء کی راحت وآرام پانے والے اور مالک یوم جزاء کی رضاحاصل کرنے والے ہیں، ایک حدیث میں ہے کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن سات آدمی ایسے ہوں گے جنھیں اس دن اللہ اپنے سایۂ رحمت میں جگہ دیںگے جس دن اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا، ان سات آدمیوں میں سے ایک عدل کرنے والا امام ہے، ( بخاری :۶/ ۲۴۹۶ رقم: ۶۴۲۱ ) اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ عدل کرنے والے اللہ کے یہاں نورانی منبروں پر جلوہ افروز ہوںگے، عدل کرنے والے وہ لوگ ہیں جو ا پنے فیصلوں میں انصاف کرتے ہیں، اپنے اہل وعیال کے ساتھ انصاف سے پیش آتے ہیں اور عدل سے روگردانی نہیں کرتے ( مسلم:۳/ ۱۴۵۸ رقم:۱۸۲۷ ) اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جنت والے تین ہیں ایک وہ شخص جو قدرت رکھنے کے باوجود عدل کرے اوراسے عدل کے تقاضوں تک پہنچنے کی توفیق دے دی گئی، دوسرا وہ شخص جو رحم دل ہو، اور تمام قرابت داروں کے ساتھ رحم وکرم کا معاملہ کرتا ہو، اور تیسرا وہ عیال دار جو تنگ دستی کے باوجود دست سوال دراز نہ کرتاہو (مسلم: ۴/۲۱۹۷ رقم ۲۸۶۵ )
کیا ہے یہ عدل جس کی اس قدر فضیلتیں ہیں اور جس پر اس قدر زور دیاگیا ہے، اس لفظ کے لغوی اور اصلی معنی ہیں برابری کرنا، اسی لفظ کی مناسبت سے لوگوں کے نزاعی معاملات میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے کو عدل کہاجاتا ہے، قرآن کریم کی آیت: وَاَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ میں یہی معنی مراد ہیں، ابن عربی نے لکھا ہے کہ اگر چہ عدل کے معنی برابری کرنے کے ہیں، لیکن مختلف نسبتوں سے اس کا مفہوم مختلف ہوجاتاہے،مثلاً اگر انسان اپنے نفس اوراپنے رب کے درمیان عدل کرے تو اس کے معنی یہ ہوںگے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حق کو اور اس کے احکام کی بجا آوری کو اپنی خواہشات پر ترجیح دیتاہے، اسی طرح خود انسان کا اپنی ذات اور اپنے نفس کے مابین عدل یہ ہے کہ اس کو مہلکات سے محفوظ رکھے، جسمانی اور روحانی ضرر سے بچائے، وہ کام نہ کرے جو اس کے لئے مضر ہوں، اپنے نفس سے انصاف کا مطالبہ کرے، اپنے کسی فعل قول سے کسی کو ضرر نہ پہنچائے کوئی ایذا اور تکلیف نہ دے، یہ تمام باتیں بھی عمل کے دائرے میں آتی ہیں، لیکن اصل عدل یہ ہے کہ جب دو فریق کسی معاملے میں فیصلے کے طلب گار بن کر آئیں تو اسے چاہئے کہ وہ اپنی طبیعت کے میلان ، یا کسی داخلی اورخارجی دبائو اور محّرکات واثرات سے آزاد ہوکر فیصلہ کرے، قرآن کریم میں جہاں جہاں بھی عدل اور قسط کا لفظ آیاہے اس میں یہی مضمون پیش نظر رکھا گیاہے، مثال کے طورپر اگر آپس میں کچھ معاملات طے ہوں اورلکھے جارہے ہوں تو شریعت نے حکم دیا کہ ان معاملات کو زیر تحریر لانے والا عادل اورمنصف مزاج ہونا چاہئے فرمایا: ’’ تم میں سے کسی لکھنے والے کو انصاف کے ساتھ لکھنا چاہئے‘‘ (البقرۃ: ۲۸۲) اسی طرح فرمایا : ’’اور اگر خود لکھنا نہ جانتا ہو تو اس کا ولی عدل کے ساتھ یہ بات لکھوادے‘‘ (البقرۃ: ۲۸۲) گواہ کی گواہی میںبھی عدل کو ضروری قراردیاگیا ہے، فرمایا: ’’ اوراپنے میں سے دو عادل گواہ بنالو اور اللہ کے واسطے ٹھیک ٹھیک گواہی دو‘‘ ( الطلاق: ۲)عدل وانصاف کے پیمانوں پر عمل کرنا اجتماعی زندگی ہی میں ضروری نہیںہے بلکہ اپنی نجی زندگی میں بھی عدل کے تمام تقاضوں کو بہ روئے کار لانا ضروری ہے، فرمایا: ’’ اورگر تم اس بات سے ڈرو کہ عدل نہ کرسکوگے توایک ہی ( بیوی) پر قناعت کرو۔‘‘ (النساء: ۳)
ان تمام تفصیلات سے اندازہ ہوتاہے کہ اسلام نے محکومین کے درمیان عدل کے قیام کو بڑا ضروری قرار دیا ہے، امام المسلمین ، اور حاکم وقت کا دینی فریضہ ہے کہ وہ لوگوں کو عدل فراہم کریں، اورعدل کی اوّلین بنیاد یہ ہے کہ کسی بھی فریق پر ظلم نہ ہو، اس لئے کہ ظلم کبھی معاف نہیں ہوسکتا، دنیا میں بھی اس کے برے نتائج سامنے آتے ہیں، اورقیامت کے روز تو ادنیٰ درجے کا ظلم بھی ظلمات بن کر ظالم کی نگاہوں میں سما جائے اور اسے بینائی سے محروم کردے گا اورجب تک اللہ تعالیٰ مظلومین کو ان کا حق نہ دلادیںگے ظالموں کو کہیں جائے پناہ نہ ملے گی، حضرت ابو ہریرہؓ کی ایک روایت میں ہے کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’تین آدمیوں کی دعا رد نہیں کی جاتی ، روزدار کی دعا جب تک رو زے سے ہے، امام عادل کی دُعا، اورمظلوم کی دعاء‘‘ (ترمذی: ۴/ ۶۷۲رقم: ۲۵۲۶ ) دُعا ایک ہتھیار ہے جسے شریعت نے امام عادل کے ہاتھوں میں بھی تھمادیاہے چاہے تو وہ اس ہتھیار کو استعمال کرکے اپنا دفاع کرسکتاہے اورخود کو مستجاب الدعاء کے درجے پر فائز کرسکتاہے، دوسری طرف مظلوم کو بھی یہ ہتھیار دیاگیاہے تاکہ وہ بھی اپنا دفاع کرسکے، اورظالم کے خلاف اس ہتھیار کو استعمال کرسکے، دوسری طرف عدل کے فضائل ، اورعادل کے مناقب بیان کرکے حاکم کو اس ہتھیار کے استعمال کرنے کی ترغیب بھی دی ہے ، اسی طرح ظلم سہنے والے کو بھی محروم نہیں کیا گیا، اور اسے یہ ہتھیار استعمال کرنے پر پوری طرح آمادہ کرنے کی کوشش بھی کی گئی ، قرآن کریم میں ہے: ’’ اللہ فحش گوئی کو پسند نہیں کرتا الاَّ یہ کہ وہ شخص ظلم کیاگیاہو‘‘ (سورۃ النساء: ۱۴۸) یعنی اسے اجازت ہے کہ وہ اپنے اوپر کئے گئے مظالم کی داستانیں کھول کھول کر بیان کرے، خواہ ان داستانوں میں ظالم کی شرم ناک حرکتیں کتنے ہی کھلے لفظوںمیں کیوں نہ بیان کی گئی ہوں، دوسری طرف حدیث شریف میں یہ بھی فرمایا گیا کہ مظلوم کی دعا اللہ تعالیٰ بادلوں سے اوپر اٹھالیتے ہیں، اوراس کے لئے آسمان کے دروازے کھول دیتے ہیں، اور ارشاد فرماتے ہیں کہ اپنی عزت کی قسم میں اپنے بندے کی مدد ضرور کروں گا، اگر چہ کچھ وقت کے بعد کروں۔ (ترمذی: ۵/ ۵۷۸رقم :
۳۵۹۸بشکریہ چوتھی دنیا

No comments:

Post a Comment