Wednesday, October 27, 2010

ہم نے ایک روز رلایا تو برا مان گئے, تیشہ فکر: عابد انور



ہم نے ایک روز رلایا تو برا مان گئے تیشہ فکر عابد انور
سچ بات کتنی تلخ ہوتی ہے یہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور بھگوا نظریہ کے حامل جماعتوں، تنظیموں اور اس نظریے کے حامل افراد سے بہتر اس وقت کوئی نہیں جانتا۔وزیر داخلہ پی چدمبرم نے بھگوا دہشت گردی کے بارے میں کیا کہہ دیا کہ ہر طرف کہرام مچا ہوا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس نظریے کے حامل افراد کو سرے بازار کسی نے ننگا کردیا ہو اور اپنے برہنہ پن کو پوشیدہ رکھنے کے لئے ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں ۔ طیش میں منہ میں جو لفظ بھی آرہاہے ، بول رہے ہیں۔ انہوں نے ہر محاذ پر جنگ چھیڑ رکھی ہے ، سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس ہوں یا انٹر پر مختلف بحث و مباحثہ کے لئے مختلف سائٹس ہر جگہ زہر اگل رہے ہیں اس طرح بلبلارہے ہیں جیسے کسی زہریلے بچھو نے ڈنک مار دیا ہو۔ ان کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا ہے کہ وہ کیا کریں کیا نہ کریں۔ وزیر داخلہ کے ساتھ کس طرح کا سلوک کریں ۔ اس کی آڑ میں بھگوا تنطیمیں اپنا نشانہ محترمہ سونیا گاندھی اور مسلمانوں کو بھی بنانے سے گریز بھی نہیں کر رہی ہیں۔کیوں کہ یہ تنظیمیں ہر گناہ دیش بھکتی کے رنگ میں ڈوب میں کر کرتی ہیں۔ خواہ بم دھماکہ ہو، یا فسادات کے دوران حاملہ عورتوں کا پیٹ چاک کرنا ہو یا مسلم خواتین کی عصمت دری ہو یا پارکوں اور ریستورانوں میں لڑکیوں کے ساتھ بدتمیزی یا چھیڑ خانی یہ سب وہ پنیہ (ثواب) سمجھ کرکرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس کی موجودگی میں اور میڈیا کے کیمروں کے سامنے سب کچھ ہوتا ہے لیکن آج تک ان کے رنگروٹوں کو کوئی سزا نہیں ملی ہے۔ اس میں خاص بات یہ ہوتی ہے کہ ان کے سرغنوں او ر سربراہوں کا انہیںآشیروادبھی حاصل ہوتا ہے۔ ان کے خیال میں مسلمان دوسرے درجے کے شہری ہیں اور مسلمانوں کی تمام چیزیں ان کے لئے مباح ہے۔ گزشتہ ۳۶ برسوں سے عملاً ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔
سردست بھگوا تنظیموں کی دہشت گردانہ کارروائیوں کی تفصیل میں نہ جاکر وزیر داخلہ پی چدمبرم کے بیان کے بعد پیدا شدہ صورت حال پر ہی اپنی گفتگو کو محدود رکھنا چا ہتا ہوں میں بہت دنوں سے اس پر کام کر رہاہوں اور مختلف طرح کے اعداد و شمار اور حقائق جمع کر رہا ہوں جس پر آئندہ کبھی تفصیل سے لکھوں گالیکن اتنا ضرورواضح کرتا چلوں کہ پارلیمنٹ پر۱۰۰۲ میں حملے (اس کی تفتیش دہلی پولیس نے کی تھی جب کہ ایسا معاملہ تھا کہ بڑی ایجنسی اس کی تفتیش کرتی تاکہ اصل مجرم کا ہاتھ سامنے آتا ) کے بعد ملک گیر سطح کی آئی پی ایس افسران کی میٹنگ ہوئی تھی جس میں مسلمانوں سے نمٹنے کے لئے لائحہ عمل تیار کیا گیا تھا اور شدومد کے ساتھ مسلم دہشت گردی کا شور مچایا تھا۔ این ڈی اے کے دور اقتدار کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ مسلم نوجوانوں کی گرفتاری بڑے پیمانے پر ہوئی تھی کسی بھی مسلم نوجوان کو ایک پاؤ یا آدھا کلو بارود کے ساتھ پکڑ لیا جاتا اوروہ اس سے اس وقت کے وزیر داخلہ ایل کے اڈوانی، گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی ، پارلیمنٹ کو اڑانے، سچن تندولکر کو مارنے آرہا ہے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ہوا دی جائے ، ان کے خلاف رائے عامہ ہموار کیا جائے اور مسلم فرقے کو دہشت گرد کی شکل میں دیکھا یاجائے ۔ جہاں اس کاتمام ٹی وی نیوز چینلز (ایک دو کو چھوڑ کر) بھرپور ساتھ دے رہے تھے اورپولیس افسران کے بیان کو عدالت کا فیصلہ تسلیم کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف زہر گھولنے میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے تھے وہیں ٹی وی سیریلس اس کا ساتھ احسن طریقے سے دے رہے تھے۔ حتی کہ بچوں کے پروگرام ’’شاکالاکا بوم بوم ‘‘ ، ’’چاچا چودھری‘‘ اور بچوں کے دیگر پروگراموں میں دہشت گردانہ کارروائیوں کو انجام دینے والوں کو مسلمانوں کے طور پر دکھایا جاتا تھا۔ ان کے چہرے پر ڈارھی، سر پر گول ٹوپی اور گلے میں عربی رومال ضرور ہوتا تھا۔حقیقت تو یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کے علماء کا لباس ہے جن کا کسی طرح کے جرائم میں ملوث ہونے کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے یہ اپنی سرگرمی صرف زکوۃ و صدقات اور عطیات کی حصولیابی تک ہی محدود رکھتے ہیں۔ اس کا واضح مقصد یہ پیغام دینا تھا کہ جتنے بھی مذہبی لوگ ہیں وہ دہشت گرد ہیں۔ بچوں کے ذہن میں یہ منقش ہوجائے کہ یہ ہمارے دشمن ہیں اورسارے مسلمان دہشت گرد ہیں اس سے الگ رہنا چاہئے ۔اس کے بعدان کے لئے تمام شعبہ حیات میں راہیں مسدود کی جانے لگیں۔کہیں انہیں نوکری نہیں ملتی تو کہیں انہیں مکان نہیں ملتا۔
وزیر داخلہ پی چدمبرم نے گزشتہ دنوں واضح طور پر کہا کہ ملک کے متعدد مقامات ،خاص طورپر مسلمانوں کے مذہبی مقامات پر دھماکے کے لئے بھگوا دہشت گرد ذمہ دار ہیں۔اس کے کئی ثبوت بھی ہیں اور ان تنظیموں سے وابستہ کئی افراد کو اس ضمن میں گرفتاربھی کیا گیا ہے ۔بھگوا گروہ کے افراد اجمیر بم دھماکہ، مکہ مسجد بم دھماکہ،سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکہ، مالیگاؤں بم دھماکہ سمیت کئی بم دھماکے میں ملوث پا ئے گئے ہیں۔ میڈیا کے اسٹنگ آپریشن کے دوران ان کے ناپاک منصوبے ،عزائم اوربہیمانہ کارکردگی کھل کر سامنے آئی ہے۔ اگر یہ سارے مسلمان ہوتے تو سارے خاندان والوں کے ساتھ سلاخوں کے پیچھے ہوتے ۔وزیر داخلہ جس پر اندرون ملک کی سلامتی کی ذمہ داری ہوتی ہے، اس کے بیان میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے۔انہوں نے بھگوا کا لفظ استعمال کرکے ایک خاص طبقے کو گھیرے میں لیا ہے نہ کہ پورے ہندو سماج کو۔انہوں نے ہندو دہشت گردی کا لفظ استعمال نہیں کیا کہ طعن و تشنیع کا لامتناہی سلسلہ دراز کیا جائے۔ اس طرح نہیں کہ جس طرح کوئی بھی دہشت گردانہ کارروائی کے لئے اسلامی دہشت گردی کا لفظ استعمال کیا جاتا تھا۔ہندوستانی میڈیا سینہ ٹھوک کر اسلامی دہشت گردی کے اصطلاح کو استعمال کرتا تھا۔ یہاں تک کہا جاتا تھا کہ سارے مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں لیکن سارے پکڑے گئے دہشت گرد مسلمان ہیں۔ اس طرح کے الفاظ بی جے پی بھی استعمال کرتی تھی۔ اس سے وابستہ افراد، لیڈران، صحافی اوراینکر حضرات بلاکسی جھجھک اسلامی دہشت گردی کے الفاظ استعمال کرتے تھے اگر ان کا بس چلتا تو ہندوستانی مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے ہی مٹا دیتے۔حال ہی میں گرفتار کئے گئے کیرالہ کے مسلم لیڈر عبدالناصر مدنی کے بارے میں سٹی پولیس کمشنر نے کہا کہ مدنی کا بم دھماکہ میں کوئی ہاتھ نہیں ہے جب کہ بی جے پی کے ریاستی وزیر داخلہ وی ایس آچاریہ نے مدنی کو مجرم گردانا ۔ یہ مخصوص ذہنیت کی غماز ہے۔ ریاستی وزیر دا خلہ کا یہ بیان ان کے ماضی کی تربیت کی دین ہے۔
وزیر داخلہ پی چدمبرم نے داخلی سلامتی پر ریاستی پولیس سربراہان دو روزہ اجلاس سے خطا ب کرتے ہوئے مرکز اور ریاستوں کو متنبہ کیا تھاکہ ’’بھگواآتنک‘ کا نیا چہرہ سامنے آیا ہے اس سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ ملک میں پچھلے دنوں ہوئے کچھ بم دھماکوں میں بھگوا دہشت گردوں کا ہاتھ ہے اور ہمیں اس سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ بھگوا دہشت گردی ایک نئی قسم کی دہشت گردی ہے۔یہ وہ بیان تھا جس پر بی جے پی چراغ پا ہے اور اس کی چولیں ہل رہی ہیں۔ پارلیمنٹ سے لے کر سڑکوں تک ، انٹرنیٹ سائٹس سے لے کر سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس تک بھگوا نظریہ کے حامل افراد بوکھلائے پھر رہے ہیں۔ میڈیا کلب آف انڈیا میں ایک صاحب نے لکھا ہے کہ ’’اسلامی اور نکسلی دہشت گردی سے ملک کو آزاد کرانے میں بری طرح ناکام مکھوٹا وزیر داخلہ چدمبرم پھر سے بھگوا دہشت گردی کا راگ گانے لگے ہیں ان کی پیٹھ پر کون (سونیا گاندھی) ہے یہ کسی سے چھپا نہیں ہے اس کے ذریعہ پوری ہندو تہذیب کو ہی ذلیل کرنا چاہتے ہیں ان کی خواہش ہے کہ نئی نسل کے ذہن میں بھگوا رنگ کے تئیں نفرت پیدا ہوجائے‘‘۔ یہ جملے لکھ کر بحث شروع کی گئی ہے۔ اس پر بہت سے لوگوں کے تبصرے ہیں ایک دو نے حقیقت کا اعتراف کیا جب کہ بیشتر نے بھگوا دہشت گردی کہے جانے پر چدمبرم کے ساتھ مسلمانوں کو بھی گالیاں دی ہیں۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ بھگوا نظریے کے حامل افراد سے کسی مہذب زبان کی توقع کرنا فضول ہے ۔ ایک تبصرہ نگار نے بھگوا بریگیڈ کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی تو انہوں نے اس کے جواب میں لکھا ’’ مجھے لگتا ہے کہ تمہارا باپ ضرور مسلمان تھا جیسا کہ رام ولاس پاسوان اور ملائم سنگھ کاہے۔ تم ہمیشہ مسلم رپورٹوں کا جھنڈا لے کر آجاتے ہو، اپنی ماں سے کنفرم کرلینا اپنے باپ کے بارے میں‘‘۔ بیان وزیر داخلہ نے دیا ہے گالیاں مسلمانوں کو دی جارہی ہیں۔اس سے آپ بھگوا نظیموں کی تہذیب ، ذہنیت، خباثت، زبان و بیان اور آداب گفتگو کااندازہ لگاسکتے ہیں۔

اسی طرح فیس بک پر ایک صاحب نے لکھا ہے ’’ ترنگے میں سب سے اوپر بھگوا رنگ ہے کیا ترنگا بھی دہشت گرد ہے۔ ترنگا کو، لیڈر، پولیس اور سب ہی لوگ سلام کرتے ہیں کیا وہ سب دہشت گرد ہیں۔ اسی طرح فیس بک میںیہ بھی لکھا گیا ہے کہ شیواجی دہشت گرد تھے، بابارام دیو دہشت گرد ہیں، بھگوا خیالات اور رنگ پہننے والے سوامی ویویکانند بھی دہشت گرد تھے۔ میرے گلے میں بھگوا رنگ ہے میں دہشت گرد ہوں۔ اسی طرح کے الٹے سیدھے اور بے تکے اور سوال چنیں جواب دیگر سے انٹر نیٹ کے سائٹ بھرے پڑ ے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے یہ اپنے خلاف ایک لفظ بھی نہیں سن سکتے اور بدتمیزی اوربدتہذیبی میں کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ دراصل معاملہ یہ ہے کہ بھگوا بریگیڈ مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کومظالم نہیں گردانتے بلکہ وہ کار خیر اور ہندو سماج کے مفاد میں سمجھ کر سکتے ہیں۔ کیا مسلمان یا مسلمانوں کی غربت، جہالت، کمزوری اورناخواندگی کی بنیاد پر عیش کی زندگی گزارنے والی تنظمیں ان تنظیموں سے سبق سیکھیں گی۔مسلمانوں کے بارے میں دئے گئے بے تکے بیان کی مذمت اور مظالم کے معاملے میں ہر سطح پر متحدہوکر سامنے آئیں گی؟۔
بی جے پی کے تمام لیڈران آج چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں دہشت گردی کا کوئی مذہب ،کوئی رنگ نہیں ہوتا ۔ انہیں اس وقت کیوں نہیںیہ خیال آیا تھا جب مسلمانوں کے لئے یہی اصطلاح ببانگ دہل اور ہر پلیٹ فارم پر وہ استعمال کرتے تھے۔پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز ماحول پیدا کرنے میں ان لیڈروں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی نہیں تھی۔ بھگوا دہشت گردی کہنے جس طرح ماہی بے آب کے وہ تڑپ رہے ہیں اسی طرح ان لوگوں نے مسلمانوں کے درد اور دکھ کو سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کی ہے؟ لیکن جبلت کا کیا جائے جب تک یہ لیڈر مسلمانوں کو برا بھلا نہ کہہ دیں اس وقت تک ان کا کھانا ہضم ہی نہیں ہوتا۔
ڈی۔۴۶، فلیٹ نمبر۔ ۰۱ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۵۲
9810372335
E-mails
abidanwaruni@gmail.com
abid.anwar@yahoo.co.in

No comments:

Post a Comment