Saturday, August 24, 2013

As salamo Alikum
birdran e islam 
Sihin men Madrasa ki Tameeri Kam chal raha hai
Aap Logon Se Tawoon Ki Dar Kahst Hai
 wassalam

 Bank A/c
 Al-Kitab Foundation
A/C No.286502000000014
IFSC Code:10BA0002865
Indian Overseas Bank
Al-Kitab Foundation
At/Post: Sihin
Dist. Nawada-805103(Bihar) India

Mob No.+91-9934266250 Nawada 

Monday, July 29, 2013

بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر :فیصلے سے مسلمانوں میں اضطراب کی لہر تیشہ فکر عابد انور

بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر :فیصلے سے مسلمانوں میں اضطراب کی لہر
تیشہ فکر عابد انور
ملک میں انصاف مسلمانوں کیلئے ایک گولر کا پھول بنتا جارہا ہے۔ملک کے بیشتر محکموں کی کوشش ہوتی ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ کسی طرح سے بھی انصاف نہ ہو۔ سکھ فسادات میں سجن کمار کے معاملے میں انصاف کا خون قرار دینے والے سیاسی لیڈر، سماجی کارکن، ہائی کورٹ و سپریم کورٹ کے وکیل،میڈیا اور انتظامیہ کو کسی بے گناہ مسلم نوجوان کو سزادئے جانے میں انصاف کا عمل نظر آتا ہے۔ مئی کے مہینے میں جب دہلی کی ایک عدالت نے دہلی کینٹ کے سکھ فسادات کے ایک معاملے میں پانچ ملزموں کو قصوروار اور سجن کمار کو بری کردیا تھا اس وقت سکھ طبقہ نے کسی کو نہیں چھوڑا تھا۔ عدلیہ سے لیکر وزیر اعظم، سونیا گاندھی اور راہل گاندھی پر لعن دیا گیا تھا۔ انہوں نے نہ صرف انتظامیہ ، مقننہ، اور میڈیا کی ایسی کی تیسی کی تھی بلکہ کھلم کھلا انصاف کے نظام کو سکھ مخالف قرار دیا تھا۔اب یہی طبقہ بٹلہ ہاؤس فرضی تصادم میں جائز، سچ، اور صحیح ثابت کرنے کے لئے پولیس کی زبان میں زبان ملا رہا ہے۔ پرگیا سنگھ، ٹھاکر، سوامی اسیمانند، کرنل پروہت اور دیگر ہندو دہشت گردوں کی حمایت میں زمین و آسمان ایک کرنے والے بٹلہ ہاؤس فرضی تصادم پر فیصلے کو دہشت گردی کے خاتمے میں سنگ میل قرار دے رہے ہیں۔ افضل گرو کے بعد یہ پہلا ایسا فیصلہ ہے جس میں دلیل کی جگہ عوامی جذبات کو اہمیت دی گئی ہے اور فیصلے کی بنیادمکمل طور پر پولیس کے بیان پر رکھی گئی۔ اس میں جتنے بھی عینی گواہ تھے وہ سب پولیس والے تھے۔ جائے واقعہ ایسی کوئی چیز پیش نہیں کی گئی اور نہ ہی کسی گواہ کو پیش کیا گیا۔ جس طرح تمامْ شواہد کو نظر انداز کیاگیااس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر موہن چند شرما بھی زندہ ہوکر یہ کہتا کہ یہ تصادم فرضی ہے تب بھی اسے صحیح ٹھہرایا جاتا۔مسلمانوں کے اتنے دباؤ کے باوجود ہلی اور مرکزی حکومت عدالتی تحقیقات کرانے سے گریز کرتی ہے۔ ملک میں چھوٹی سی چھوٹی باتوں اور واقعہ کا عدالتی یا سی بی آئی انکوائری کرائی جاتی ہے آخر بٹلہ ہاؤس میں ایسا کیا ہے جو حکومت آزادانہ تحقیقات کرانے سے خائف ہے۔ یہی خوف بہت سے سربستہ راز کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ آخر حکومت آزادانہ انکوائری نہ کراکے کس کو بچانا چاہتی ہے۔ یہ ایسا واقعہ ہے جس کی اگر منصفانہ تحقیقات ہوگئی تو حکومت کے وزرائے سے لیکر خفیہ ایجنسیوں، اسپیشل سیل، آئی بی اور انسداد دہشت گردی دستہ کی کالی کرتوت عوام کے سامنے آجائے گی اور ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف بنا جانے والا سازش کے جال سے بھی پردہ ہٹ جائے گا۔ یہ فیصلہ بہت سارے دباؤ کا نتیجہ ہے۔ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کی تفتیش جس نے بھی کی وہ سب کے سب کاغذی کارروائی تھی۔ انسانی حقوق کمیشن نے بھی اس معاملے کی تفتیش کرنے کے بجائے پولیس کی فائل پر دستخط کردیا۔ اس معاملے میں شروع سے ہی طے تھا کہ انصاف کا خون کرنا ہے اس لئے مجسریٹی انکوائری بھی نہیں کروائی گئی جب کہ ضابطہ ہے کہ ہر غیر فطری موت کی مجسریٹی انکوائری کروائی جاتی ہے۔
دہلی پولیس نے 19 ستمبر 2008 میں جامعہ نگر کے بٹلہ ہاؤس علاقے میں مبینہ طور پر انڈین مجاہدین کے ساتھ تصادم میں دو شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا تھا۔اس تصادم کے معاملے میں جج راجندر کمار شاستری کی عدالت نے شہزاد احمد کو دہلی پولیس کے انسپکٹر موہن چند شرما کے قتل کا مجرم قرار دیا ہے۔ ٹلہ ہاؤس تصادم میں دلی پولیس کے انسپکٹر موہن چند شرما بھی بری طرح زخمی ہوگئے تھے اور بعد میں ہسپتال میں ان کی موت ہو گئی تھی۔ مڈبھیڑ پر کئی سوال بھی اٹھے تھے۔ دہلی پولیس کی فرد جرم کے مطابق شہزاد احمد اور ان کے ساتھیوں نے 13 ستمبر 2008 کو دہلی میں ہوئے سلسلہ وار بم دھماکوں کی سازش رچی تھی۔ ان دھماکوں میں 30 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ پولیس کا دعوی تھا کہ یہ پوری سازش بٹلہ ہاؤس کے مکان نمبر ایل ۔18 میں رچی گئی تھی۔ استغاثہ نے دعوی کیا کہ ان کے پاس اس بات کے کافی ثبوت ہیں کہ شہزاد تصادم کے وقت فلیٹ میں موجود تھے اور انہوں نے پولیس پر گولی چلانے کے بعد بالکنی سے چھلانگ لگا دی تھی۔ دوسری طرف دفاعی فریق نے دہلی پولیس کے دعوے پر کئی سوال اٹھائے تھے۔ اس کی دلیل ہے کہ بیلسٹک رپورٹ کے مطابق شرما کے جسم سے نکلی گولیاں جائے واردات سے ملی گن سے میل کھاتی ہیں نہ کہ شہزاد سے ملی گن سے۔ ساتھ ہی اس بات پر بھی سوال اٹھے ہیں کہ شرما نے بلیٹ پروف جیکٹ کیوں نہیں پہنا تھا اور ان کے دونوں ساتھی نہتے کیوں تھے؟ اپنی چارج شیٹ میں پولیس نے کہا تھا کہ اس تصادم کے دوران شہزاد اپنے دوست جنید کے ساتھ بالکنی سے کود کر فرار ہو گیا تھا۔(چار منزلہ مکان سے کوئی کود کر کیسے فرار ہوسکتا ہے) پولیس نے کہا تھا کہ یہ سب انڈین مجاہدین کے دہشت گرد تھے، جو احمد آباد اور دہلی دھماکوں میں تو شامل تھے۔ ان کی پلاننگ دہلی میں مزید دھماکے کرنے کی تھی۔ ستمبر 2008 کو بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کے دو سال بعد فروری 2010 میں اے ٹی ایس کی ٹیم نے شہزاد کو ان کے گاؤں خالص پور سے گرفتار کر لیا تھا۔ شہزاد پانچ بھائی بہنوں میں دوسرے نمبر پر ہے۔ اس کے والد سعودی عرب میں رہتے ہیں۔آخری جرح کے دوران استغاثہ نے کہا کہ اس کے پاس کافی ثبوت حالات اور فون کالز ریکارڈ ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شہزاد اسی فلیٹ میں رہتا تھا جس میں پولیس ریڈ کے لئے گئی تھی وہیں دفاعی وکیل نے بیلسٹک رپورٹ کی بنیاد پر عدالت کے سامنے دعوی کیا کہ پولیس افسران کے جسم سے ملی گولی جائے واردات سے ملی بندوق کی تھی، نہ کہ اس ہتھیار کی جو گرفتاری کے وقت شہزاد کے پاس سے ملا تھا۔ شہزاد کی طرف سے اس فلیٹ میں موجود ہونے کے الزام کی بھی تردید کی گئی۔ 
ایسا نہیں ہے صرف مسلمانوں نے ہی اس تصادم پر سوال اٹھائے تھے بلکہ بی جے پی کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں نے اس پر سوال قائم کرتے ہوئے آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔کانگریس لیڈر دگ وجے سنگھ نے اس تصادم کو فرضی قرار دیا اورفیصلہ آنے کے بعد بھی وہ اس پر قائم ہیں۔ 4 فروری 2010 کو بھی دگ وجے سنگھ نے ایک بیان میں صاف کہا تھا کہ تصادم کو لے کر انہیں ہمیشہ سے شک تھا۔آنجہانی ارجن سنگھ نے بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کی جانچ کی مانگ کی تھی وہیں حکمراں پارٹی کے جنرل سکریٹری دگ وجے سنگھ نے بھی اس تصادم کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ۔نیوز چینل آئی بی این 7 کے خاص پروگرام ہاٹ سیٹ پر بھی دگوجے سنگھ نے بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر پر سوال کھڑے کئے تھے۔ انہوں نے فروری 2010میں اعظم گڑھ کے متاثرہ سنجرپور کے دورہ کے دوران کہا تھا کہ وہ اس تصادم کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں اور وہ کانگریس کے لیڈروں سے اس بارے میں تبادلہ خیال کریں گے۔ اس تصادم نے پورے ملک کے مسلمانوں کوہلاکر رکھ دیا تھا۔ سماج وادی پارٹی نے بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کو ہمیشہ سے فرضی ہی قرار دیا ہے اور آج ہی ہم اپنے اسی موقف پر اٹل ہیں۔ اسی موقف کی بنیاد پر ہم نے اس معاملہ کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ ایک بار نہیں بلکہ کئی بار کیا ہے، لیکن یو پی اے قیادت والی حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ملائم سنگھ کے مطابق مسلمانوں کو بے وقوف بنانے کے لئے یہ سیاسی کھیل کھیلا جا رہا ہے، جنہیں اس ملک میں صرف ووٹ بینک سمجھنا کانگریس کا شیوہ رہا ہے۔ یو پی اے حکومت بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کی تحقیقات کروانے کے اعلان میں پس و پیش سے کام لے رہی ہے جبکہ ایس پی نے 2008 میں تصادم کے فوراً بعد اپنے قائدین امر سنگھ (جو اب پارٹی میں نہیں ہیں) اور رام گوپال یادو کو دہلی روانہ کیا تھا جس کے بعد دونوں قائدین نے حالات کا جائزہ لینے کے بعد انکاؤنٹر کو فرضی قرار دیا تھا۔ ،راشٹریہ جنتا دل کے قومی صدر لالوپرساد یادو، لوک جن شکتی پارٹی کے رہنما رام ولاس پاسوان، بائیں بازو محاذ کے رہنماؤں ،نامور وکلاء، سماجی کارکنوں تمام شعہائے حیات سے وابستہ افراد نے اس تصادم پر شبہے کا اظہار کرتے ہوئے سوال اٹھایا تھا۔اپنی جان گنوانے والا انسپکٹر موہن شرما نے اپنی 21 سال کی پولیس کی ملازمت میں 60 دہشت گردوں کو مار گرایا تھا، جبکہ 200 سے زیادہ خطرناک دہشت گردوں اور مجرموں کو گرفتار بھی کیا تھا۔کرائم برانچ نے انکاؤنٹر میں شامل پولس والوں کے بیان درج کئے تھے ۔انہوں نے بتایا کہ پولیس کی طرف سے کل 23 راؤنڈ اور لڑکوں کی طرف سے کل آٹھ راؤنڈ گولیاں چلائی گئی تھی۔ساجد کے سر میں لگیں تین گولیاں اے کے 47 سے چلی تھیں جو حولدار نے چلائی تھیں۔
بٹلہ ہاؤس انکاؤٹر شروع سے ہی شبہات کے گھیرے میں رہا۔ کچھ ماہر کہتے ہیں کہ ایسی صورت پورے معاملے کے بارے میں شک پیدا کرنے کی وجہ بنتی ہے۔ اگر پولیس صحیح ہے تو ایسی خامیوں کو فوری طور پر دور کیا جانا چاہئے تاکہ لوگوں کا اعتماد بحال ہو اور سچائی کو سامنے لایا جا سکے۔ برندا گروور کہتی ہیں، "اس معاملے میں چلی قانونی عمل ایک غلط روایت طے کرنے کی کوشش جیسی ہے۔ جن اداروں کو اس معاملے میں یہ یقینی بنانا تھا کہ قانون کا صحیح طریقے سے عمل ہو اور مکمل عمل ہو، ان کی توجہ اس معاملے کے سیاسی پہلو پر زیادہ ہے، قانونی پہلو پر کم " ۔کچھ لوگوں نے اس معاملے میں حق اطلاعات قانون کے تحت معلومات طلب پر پوسٹ مارٹم کی رپورٹ تک یہ کہہ کر دینے سے انکار کر دیا گیا تھاکہ اس سے تفتیش متاثر ہو سکتی ہے۔ جامعہ ٹیچر س سالڈیرٹی ایسوسی ایشن کی صدر منیشا سیٹھی نے کہا، "یہ بہت ہی مضحکہ خیز ہے اور ہمیں غصہ آ رہا ہے کہ این ایچ آر سی نے کس خفیہ ڈھنگ سے جانچ کی ہے کہ لوگوں کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی تھی۔ بٹلہ ہاؤس علاقے میں تو کمیشن کسی خاندان سے بھی ملا نہیں ہے۔ اعظم گڑھ لوگ کمیشن کے سامنے پیش ہونا چاہتے تھے، ثبوت دینا چاہتے تھے.۔ہم نے اس بارے میں تفصیلی رپورٹ بنائی تھی لیکن ہم سے بھی کسی نے نہیں پوچھا " ۔آرٹی آئی کارکن افرزو عالم سال کے مطابق اگر پوسٹ مارٹم رپورٹ کی بات کریں تو اس کے مطابق انسپکٹر موہن چند شرما کے بارے میں رپورٹ میں کہا ہے کہ بائیں کاندھے سے 10 سینٹی میٹر نیچے اور کندھے سے 8 سینٹی میٹر اوپر زخم کے بیرونی حصہ کی صفائی کی گئی۔شرما کو 19 ستمبر 2008 میں L۔18 میں زخمی ہونے کے بعد قریبی اسپتال ہولی فیملی میں داخل کیا گیا تھا۔ انہیں کندھے کے علاوہ پیٹ میں بھی گولی لگی تھی۔ رپورٹ کے مطابق پیٹ میں گولی لگنے سے خون زیادہ بہا اور یہی موت کا سبب بنا۔اب پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب شرما کو 10 منٹ کے اندر طبی امداد حاصل ہوگئی تھی اور حساس جگہ (Vital part) پر گولی نہ لگنے کے باوجود بھی ان کی موت کیسے ہو گئی؟ کس طرح ان کے جسم سے 3 لیٹر خون بہہ گیا۔سوال یہ بھی ہے کہ موہن چند شرما کو گولی کس طرف سے لگی، آگے یا پیچھے سے ۔کیونکہ عوام کی طرف سے اس طرح کی بھی باتیں آئی تھیں کہ شرما پولیس کی گولی کا شکار ہوئے ہیں۔جو شخص گولی لگنے کے بعد اپنے پیروں پر چل کر چار منزل عمارت سے اتر کر نیچے آیا اور کہیں بھی ایک قطرہ خون بھی نہ گرا ہو اور میڈیا رپورٹ کے مطابق شام پانچ بجے تک بالکل خطرے سے باہر ہو تو اس کی شام سات بجے اچانک موت کیسے ہو گئی؟۔جو لوگ خواہ عدالت ہو یا پولیس، وزیر ہویا سیاست داں ، خفیہ ایجنسی یا انسداد دہشت گردی دستہ شہزاد کے کودکر بھاگنے کے قائل ہیں ان سے کہا جائے وہ چوتھی منزل سے بغیر کسی حفاظتی قدم کے کود کر دکھائے۔
بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر ہندوستانی جمہوریت کے ماتھے وہ بدنماداغ ہے جو کبھی مٹایا نہیں جاسکتا۔ یہ فرضی تصادم ہندوستانی نظام انصاف کاکبھی پیچھا نہیں چھوڑے گا۔ خواہ اسے دبانے کی کتنی کوشش کی جائے جتنا ظلم و ستم ڈھایا جائے لیکن یو پی اے حکومت کو ایک ہالہ کی طرح گھیرے رہے گا۔ فرضی انکاؤنٹر کو مبینہ طور پر وزیر داخلہ کی سرپرستی میں انجام دیا گیا تھاکیوں کہ اس دن وزیر داخلہ پولیس ہیڈکوارٹر سے کنٹرول کر رہے تھے۔ حکومت نے اپنی نا اہلی اور ناکامی کو چھپانے کے لئے دو معصوم مسلم نوجوانوں کو مروا ڈالا تھا۔ ساجد اور عاطف دونوں طالب علم تھے۔19 ستمبر 2008 کو انجام دیا جانے والایہ انکاؤنٹر ابتداء سے سرخیوں میں رہا اور اس پر سوال اٹھتے رہے لیکن حکومت نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اس سلسلے میں قومی انسانی حقوق کمیشن کے رویہ پرسب زیادہ سوال اٹھے ۔ اس نے پولیس کے بیان کو من و عن تسلیم کرتے ہوئے اس انکاؤنٹر کو صحیح قرار دے دیا لیکن قدرت کا قانون حق کو اجاگر کرہی دیتا ہے۔ قومی انسانی حقوق کمیشن جہاں ایک طرف پولیس کے بیان کی بنیاد پراپنی رپورٹ تیار کی وہیں دوسری طرف تیار کردہ اپنی فرضی انکاونٹر کی فہرست میں بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کو شامل کرلیا۔ سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ قومی انسانی حقوق کمیشن نے اپنی تحقیق کے دوران متاثرین یا بٹلہ ہاؤس کے لوگوں سے کوئی تحقیق نہیں کی اور نہ اس سے منسلک و کلاء اور دیگر سماجی کارکنوں اور تصادم پر گہری نظر رکھنے والوں سے کوئی پوچھ گچھ کی ۔صرف پولیس کے بیان پر ہی اپنی رپورٹ تیار کردی اور عدالت میں پیش کردیا۔ ا س رپورٹ نے قومی انسانی حقوق کمیشن کوبھی شرمسار کردیا تھا۔مشہور وکیل پرشانت بھوشن نے کمیشن کی تفتیش پر ڈھیرے سارے سوالات کھڑے کئے۔ ساجد اور عاطف کے پوسٹ مارٹم رپورٹ نے بھی یہ ثابت کردیا کہ یہ تصادم فرضی تھا کیوں کہ گولی بہت قریب سے چلائی گئی تھی جب کہ انکاؤنٹر میں گولی دور سے چلائی جاتی ہے کیونکہ دونوں جانب سے گولیوں کا تبادلہ ہوتا ہے۔ تمام تصادم کے ماہرین اور ماہر ڈاکٹروں نے بھی اس سوال پر اٹھایا ہے ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ حکومت اس سے کترا رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دھماکہ سے پہلے تک پولیس کو کوئی اطلاع نہیں ہوتی لیکن دھماکہ ہوتے ہی نہ صرف دہشت گردوں کا نام معلوم ہوجاتا ہے بلکہ تنظیم کا اور اس کے آقا کے بارے میں بھی معلومات حاصل ہوجاتی ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پولیس جان بوجھ کر مسلم نوجوانوں کو نشانہ بناتی ہے کیوں کہ سمجھتی ہے کہ یہ لقہ تر ہے جس طرح چاہو اسے کھا جاؤ۔ماورائے عدالت قتل کرنے کا نظریہ ہندوستانی نظام جمہوریت اور انصاف کو کہاں لے جائے گا۔ اس طرح کے فیصلہ کا مقصد مسلم نوجوانوں کو جیل میں ڈال کر ان کی اور ان کے خاندان کی زندگی کو تباہ کرنا ہے۔ اگر اس طرح کے فیصلے کے بعد ملزم ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ سے بری بھی ہوجائے تو ان کی موت توہو ہی گئی۔ زندگی کا بیشتر حصہ جس میں وہ اپنے خاندان کے لئے کچھ کرسکتا تھا جیل میں تباہ ہوچکا ہوتا ہے۔ 
ڈی۔
۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۲۵ 
9810372335
abidanwaruni@gmail.com

Thursday, July 18, 2013

Ramzan Mubarak

As salamo Alikum Ramzan Mubarak 
Taleem Ke Farogh Aur Musalmanoon Ki Taraqqi Ke Liya
Al-Kitab Foundation  
ki mada Karen !
 Bank A/c
 Al-Kitab Foundation
A/C No.286502000000014
IFSC Code:10BA0002865
Indian Overseas Bank Nawada 
--
Al-Kitab Foundation
At/Post: Sihin
 Dist. Nawada-805103(Bihar) India
Mob No.+91-9934266250

Saturday, June 15, 2013

Mohammadiya Institute of Technology (MIT)

                                           
http://www.messar.ac.in/                                                                    

Mohammadiya Institute of Technology


Mohammadiya Institute of Technology

Mohammadiya Institute of Technology (MIT) offers courses at the Under-Graduate levelAt the Under Graduate level, the college offers different combinations of courses in engineering stream. The commencement of all courses is in the month of September/October of every year. The annual Examinations are conducted by JNT University, Hyderabad.
Course curriculum mainly the college follows all the general rules and regulations according to the JNT University to which the college is affiliated. In addition our faculty follows their own experiments and methods according to their expertise, experience and innovative methods.
UG Programmes Offering
Engineering
Programs/
Leading to
Programme/
Course
Duration
intake/Seats
available in
different
Quota
Computer Science and
Engineering | B.Tech. (CSE)
4 years60
Electronics and Communication
Engineering | B.Tech. (ECE)
4 years120
Electrical and Electronics
Engineering | B.Tech. (EEE)
4 years60
Mechanical
Engineering | B.Tech. (ME)
4 years120
Curriculum
Please click here to go our course/programme download section…
Page top
Al Kitab Foundation
Ashrafi Manzil Near Badi Masjid Mughlakhar  
Nawada-805110 (BIHAR) INDIA

Thursday, May 23, 2013

kiya aap ke liye yeh mumkin hai kih

                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                        

Wednesday, January 16, 2013

یہ تم نے کیا کہہ دیا


یہ تم نے کیا کہہ دیا!
ایم ودودساجد
16
دسمبرکاواقعہ سب سے نمایاں واقعہ ثابت ہوالیکن ایسا نہیں ہے کہ ملک میں کہیں اور یاخود دہلی میں اس نوعیت یا اس شدت کاکوئی دوسرا واقعہ نہ ہوا ہو۔ایک رپورٹ کے مطابق دہلی میں ہی ہر روز نصف درجن سے زائد عصمت دری کے واقعات ہوتے ہیں۔عصمت دری کے بعد قتل کے واقعات بھی کچھ کم نہیں ہوتے ۔ بیشتر کی تورپورٹ ہی درج نہیں ہوپاتی۔پولس کا جورویہ ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
پنجاب کی ایک عصمت دریدہ لڑکی کو جب پولس کے ناقابل ذکر سوالات کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے خود کشی کرلی۔بہار میں ایک فوجی افسر کی شادی شدہ بیٹی کے ساتھ اس کے شوہر اور دوستوں نے جو کچھ کیا وہ تو دہلی کے واقعہ سے بھی زیادہ خوفناک ہے۔ یوپی کے ایک واقعہ میں پولس نے غمزدہ ماں باپ کو یہ کہہ کرتھانہ سے بھگادیا کہ تمہاری لڑکی اپنے یار کے ساتھ بھاگ گئی ہوگی۔ اگلے روز وہ لڑکی نیم برہنہ حالت میں مردہ ملی۔ اب تو ہر روز جس طرح پرانے واقعات کی تفصیل کھل کر سامنے آرہی ہے اس سے پولس اور معاشرہ کا اور زیادہ مکروہ چہرہ سامنے آیا ہے۔ان تمام حالات پر آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے ایک بیان دے کر بہت سوں کو اپنا مخالف بنالیاہے۔موہن بھاگوت کے بیان کے دو حصے ہیں۔انہوں نے کہا تھا کہ عصمت دری کے واقعات انڈیا میں ہوتے ہیں بھارت میں نہیں۔ان کا اشارہ شہری اوردیہی علاقوں کے جداگانہ طرزمعاشرت کی طرف تھا۔بیان کے دوسرے حصہ میں انہوں نے کہا تھا کہ شادی( نکاح) دراصل شوہر بیوی کے درمیان ایک مقدس معاہدہ ہے۔اس کی رو سے بیوی گھر کے تمام کام کاج کی ذمہ دار ہوتی ہے اور شوہر کے ذمہ بیرونی کام کاج اور کمانا ہوتاہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس معاہدہ کی رو سے عورت اس کے گھر کی آبرو رکھتی ہے اور مرد خود اس عورت کی آبرو کا محافظ ہوتا ہے۔میرے پیش نظر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ایک قول ہے‘ آپ نے فرمایا انظر الی ما قال‘لا تنظر الی من قال یعنی یہ دیکھو کہ کیا کہا گیا ہے‘یہ نہ دیکھو کہ کس نے کہا ہے۔اس فطری کشش رکھنے والے قول کے سامنے میں نہیں سمجھ پارہا ہوں کہ آر ایس ایس کے سربراہ کے بیان کی تائید کیوں کر نہ کی جائے؟
بھاگوت کے اس بیان پر احباب نے مذمتوں کا جو سلسلہ شروع کیا ہے وہ حیرتناک ہے۔ایسے بیانات کو ’بے تکا‘اور نہ جانے کیا کیا کہا جارہا ہے۔سیاستداں تو سیاسی اسباب سے اس کی مخالفت کر رہے ہیں لیکن ہمارے اپنے احباب ‘ جو اخلاقی درس دیتے نہیں تھکتے ‘کس بنیاد پر اس بیان کی مخالفت کر رہے ہیں؟کیا صرف اسلئے اس بیان کی مذمت کی جانی چاہئے کہ وہ آر ایس ایس کے سربراہ نے دیا ہے؟کیا ہم اخلاقی اقدار اور اسکے تقاضوں کو اسلئے اختیار نہیں کریں گے کہ ہمارے سیاسی اور سماجی مخالفین بھی اس کا دم بھرتے ہیں؟ یہ طریقہ نامناسب اور غلط ہے۔معقول بات اگرشکستہ دیوار پر بھی لکھی ملے تو اسے قبول کرنا چاہئے۔ سونے کے محل پر لکھاہوا برا مشورہ آخر کس کام کا؟ ادھرگجرات کے روحانی گرو آسارام نے کہا ہے کہ عصمت دری کے خلاف مزید سخت قانون بنایا گیا تو اس کا ناجائز استعمال بھی ہوگا۔آسارام کی بات صحیح ہے۔آخرٹاڈا‘پوٹااور UAPA کے اس ملک میں اس کی کیا ضمانت ہے کہ خواتین کے تحفظ کے نام پر بنائے گئے سخت قانون کا ناجائز استعمال نہیں ہوگا؟
آئیے اب تھوڑا آگے بڑھتے ہیں۔کانگریس پارٹی کے سینئر قائددگوجے سنگھ نے کچھ اور ہی فرمادیا۔انہوں نے بھاگوت کے بیان کی روشنی میں آر ایس ایس اور طالبان کو ایک ہی سکہ کے دو رخ بتایاہے۔مجھے اس موقعہ پر۲۰۱۰میں اپنے دورہ امریکہ کے دوران لاس اینجلس یونیورسٹی میں افغانستان کی ایک خاتون صحافی سے تفصیلی ملاقات یاد آتی ہے۔نوشین عرب زادہ ‘سوویت یونین کے تسلط کے دوران کابل میں پلی بڑھیں مگر جرمن اور ہسپانوی ادب میں ہیمبرگ اور کیمبرج یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔انہوں نے بی بی سی کیلئے بھی کام کیا اور اب امریکہ میں ریسرچ کر رہی ہیں۔امریکہ کے اس طویل سفر کی میرے پاس بڑی یادگاراور دلچسپ تفصیلات ہیں جن کو کتابی شکل میں لانے کی فرمائشوں کے سبب اب تک باضابطہ قلم بند کرنے کا موقعہ نہیں ملا۔لیکن یہاں موقع کی مناسبت سے وہ بتانا مقصود ہے جو نوشین نے اس ملاقات میں بتایاتھا۔اس نے بڑے فخر سے کہاتھا کہ" میں ایسی افغان لڑکیوں کو جانتی ہوں کہ جو کابل سے برقعہ اوڑھ کر امریکہ آئی تھیں لیکن اب وہ کابل میں جاکرDRINKکرتی ہیں‘ اب کابل یونیورسٹی میں جنسی استحصال اور تشدد بڑھ گیا ہے‘ طالبان کے زمانے میں کوئی بھی خاتون یا دوشیزہ رات کے کسی بھی حصہ میں اکیلی 

گھوم سکتی تھی‘طالبان سب کچھ تھے مگر بدعنوان نہیں تھے"۔نوشین کے بیان کو ہم یہیں روکتے ہیں۔اور اب دگوجے سنگھ سے پوچھتے ہیں کہ انہیں ہندوستان میں کون سا معاشرہ مطلوب ہے؟وہ معاشرہ جس میں ہندوستانی لڑکیاں یونیورسٹیوں‘بازاروں اور گھروں میں DRINKکریں؟یا وہ جس میں خواتین اپنے ماں باپ‘بہن بھائی‘اور اپنی اولاد اور شوہروں کے درمیان اخلاقی اقدار کا نمونہ بن کر رہیں؟وہ معاشرہ جس میں ہماری عورتیں گھر وں کی رونق بن کررہیں یا وہ جس میں ہماری عورتیں بازاروں میں سج سنور کر اتریں؟دگوجے صاحب! ہم نہیں جانتے کہ طالبان کون ہیں‘ہمیں ان کا دفاع بھی مقصود نہیں ہے۔ہمیں اپنے ملک اور اس کی اقدار کی فکر ہے۔لیکن آپ کے دماغ کا فتور یہ ہے کہ آپ کو ہر رنگ میں اسلام اور مسلمانوں کا تصور ستاتا ہے ‘لہذا آپ کے منہ سے یہ ’بے تکی‘ باتیں نکلتی ہیں۔یہاں موقع نہیں ہے لیکن اتنا سمجھ لیجئے کہ جس اسلام سے آپ بیزار ہیں خواتین کو اس سے زیادہ آزادی ‘برابری اور عزت کہیں اور نہیں ملی۔اگر ماں اپنے بچے کو دودھ پلانے سے انکار کردے تو شوہر شرعی طورپر اس کو مجبور نہیں کرسکتا۔یہ تو اس کی شدت محبت اور اس کا احسان ہے کہ وہ اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہے۔ آپ سے ایک سوال اور کرنا ہے۔عصمت دری کے واقعہ کے خلاف مظاہرہ میں بینروں پر لکھے اس نعرہ کے بارے میں کیا خیال ہے"ٹھیک ہے میرا سینہ چست ہے‘میری ٹانگیں کھلی ہوئی ہیں لیکن اس کایہ مطلب نہیں کہ میں ہر ایک کیلئے اپنی ٹانگیں پھیلادوں گی"۔کیا آپ ایساہی معاشرہ تشکیل دینا چاہتے ہیں؟کیونکہ ایک صالح معاشرہ آپ کو طالبانی معاشرہ نظرآتا ہے۔ غور کیجئے اور اقدار سے نفرت کے اس خناس کو ذہن سے نکالئے جس نے ہمارے وطن عزیز کو کہاں سے کہاں سے پہنچا دیا ہے۔عصمت دری کے زیربحث واقعہ پر ملک بھر کی سڑکوں پر مظاہرہ کرنے والوں سے بھی ایک سوال ہے کہ کیا گجرات کی بدنصیب بلقیس خاتون کا واقعہ دہلی کے واقعہ سے کم شرمناک اور خوفناک تھا؟۲۰۰۲میں پانچ سو سے زائد افراد کے ایک ہجوم نے اس کے آٹھ ماہ کے حمل سے ایک معصوم کو چیر پھاڑ کر نکالا اور پھر اس کو نذر آتش کردیا۔اس کے بعد خود بلقیس کی آبرو کو تارتار کیا گیا۔اس وقت نہ کسی دگوجے کوطالبان نظر آئے اور نہ کسی موہن بھاگوت کو بھارت کا یہ چہرہ نظرآیا۔یہ ہے بلقیس اور دامنی کا فرق۔کیااسی ہمالیائی فرق کی لرزہ براندام بنیادوں پرنئے انڈیا اور نئے بھارت کی تشکیل کرنا چاہتے ہو؟wadoodsajid@gmail.com
--