Wednesday, October 27, 2010

ہم نے ایک روز رلایا تو برا مان گئے, تیشہ فکر: عابد انور



ہم نے ایک روز رلایا تو برا مان گئے تیشہ فکر عابد انور
سچ بات کتنی تلخ ہوتی ہے یہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور بھگوا نظریہ کے حامل جماعتوں، تنظیموں اور اس نظریے کے حامل افراد سے بہتر اس وقت کوئی نہیں جانتا۔وزیر داخلہ پی چدمبرم نے بھگوا دہشت گردی کے بارے میں کیا کہہ دیا کہ ہر طرف کہرام مچا ہوا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس نظریے کے حامل افراد کو سرے بازار کسی نے ننگا کردیا ہو اور اپنے برہنہ پن کو پوشیدہ رکھنے کے لئے ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں ۔ طیش میں منہ میں جو لفظ بھی آرہاہے ، بول رہے ہیں۔ انہوں نے ہر محاذ پر جنگ چھیڑ رکھی ہے ، سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس ہوں یا انٹر پر مختلف بحث و مباحثہ کے لئے مختلف سائٹس ہر جگہ زہر اگل رہے ہیں اس طرح بلبلارہے ہیں جیسے کسی زہریلے بچھو نے ڈنک مار دیا ہو۔ ان کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا ہے کہ وہ کیا کریں کیا نہ کریں۔ وزیر داخلہ کے ساتھ کس طرح کا سلوک کریں ۔ اس کی آڑ میں بھگوا تنطیمیں اپنا نشانہ محترمہ سونیا گاندھی اور مسلمانوں کو بھی بنانے سے گریز بھی نہیں کر رہی ہیں۔کیوں کہ یہ تنظیمیں ہر گناہ دیش بھکتی کے رنگ میں ڈوب میں کر کرتی ہیں۔ خواہ بم دھماکہ ہو، یا فسادات کے دوران حاملہ عورتوں کا پیٹ چاک کرنا ہو یا مسلم خواتین کی عصمت دری ہو یا پارکوں اور ریستورانوں میں لڑکیوں کے ساتھ بدتمیزی یا چھیڑ خانی یہ سب وہ پنیہ (ثواب) سمجھ کرکرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس کی موجودگی میں اور میڈیا کے کیمروں کے سامنے سب کچھ ہوتا ہے لیکن آج تک ان کے رنگروٹوں کو کوئی سزا نہیں ملی ہے۔ اس میں خاص بات یہ ہوتی ہے کہ ان کے سرغنوں او ر سربراہوں کا انہیںآشیروادبھی حاصل ہوتا ہے۔ ان کے خیال میں مسلمان دوسرے درجے کے شہری ہیں اور مسلمانوں کی تمام چیزیں ان کے لئے مباح ہے۔ گزشتہ ۳۶ برسوں سے عملاً ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔
سردست بھگوا تنظیموں کی دہشت گردانہ کارروائیوں کی تفصیل میں نہ جاکر وزیر داخلہ پی چدمبرم کے بیان کے بعد پیدا شدہ صورت حال پر ہی اپنی گفتگو کو محدود رکھنا چا ہتا ہوں میں بہت دنوں سے اس پر کام کر رہاہوں اور مختلف طرح کے اعداد و شمار اور حقائق جمع کر رہا ہوں جس پر آئندہ کبھی تفصیل سے لکھوں گالیکن اتنا ضرورواضح کرتا چلوں کہ پارلیمنٹ پر۱۰۰۲ میں حملے (اس کی تفتیش دہلی پولیس نے کی تھی جب کہ ایسا معاملہ تھا کہ بڑی ایجنسی اس کی تفتیش کرتی تاکہ اصل مجرم کا ہاتھ سامنے آتا ) کے بعد ملک گیر سطح کی آئی پی ایس افسران کی میٹنگ ہوئی تھی جس میں مسلمانوں سے نمٹنے کے لئے لائحہ عمل تیار کیا گیا تھا اور شدومد کے ساتھ مسلم دہشت گردی کا شور مچایا تھا۔ این ڈی اے کے دور اقتدار کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ مسلم نوجوانوں کی گرفتاری بڑے پیمانے پر ہوئی تھی کسی بھی مسلم نوجوان کو ایک پاؤ یا آدھا کلو بارود کے ساتھ پکڑ لیا جاتا اوروہ اس سے اس وقت کے وزیر داخلہ ایل کے اڈوانی، گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی ، پارلیمنٹ کو اڑانے، سچن تندولکر کو مارنے آرہا ہے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ہوا دی جائے ، ان کے خلاف رائے عامہ ہموار کیا جائے اور مسلم فرقے کو دہشت گرد کی شکل میں دیکھا یاجائے ۔ جہاں اس کاتمام ٹی وی نیوز چینلز (ایک دو کو چھوڑ کر) بھرپور ساتھ دے رہے تھے اورپولیس افسران کے بیان کو عدالت کا فیصلہ تسلیم کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف زہر گھولنے میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے تھے وہیں ٹی وی سیریلس اس کا ساتھ احسن طریقے سے دے رہے تھے۔ حتی کہ بچوں کے پروگرام ’’شاکالاکا بوم بوم ‘‘ ، ’’چاچا چودھری‘‘ اور بچوں کے دیگر پروگراموں میں دہشت گردانہ کارروائیوں کو انجام دینے والوں کو مسلمانوں کے طور پر دکھایا جاتا تھا۔ ان کے چہرے پر ڈارھی، سر پر گول ٹوپی اور گلے میں عربی رومال ضرور ہوتا تھا۔حقیقت تو یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کے علماء کا لباس ہے جن کا کسی طرح کے جرائم میں ملوث ہونے کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے یہ اپنی سرگرمی صرف زکوۃ و صدقات اور عطیات کی حصولیابی تک ہی محدود رکھتے ہیں۔ اس کا واضح مقصد یہ پیغام دینا تھا کہ جتنے بھی مذہبی لوگ ہیں وہ دہشت گرد ہیں۔ بچوں کے ذہن میں یہ منقش ہوجائے کہ یہ ہمارے دشمن ہیں اورسارے مسلمان دہشت گرد ہیں اس سے الگ رہنا چاہئے ۔اس کے بعدان کے لئے تمام شعبہ حیات میں راہیں مسدود کی جانے لگیں۔کہیں انہیں نوکری نہیں ملتی تو کہیں انہیں مکان نہیں ملتا۔
وزیر داخلہ پی چدمبرم نے گزشتہ دنوں واضح طور پر کہا کہ ملک کے متعدد مقامات ،خاص طورپر مسلمانوں کے مذہبی مقامات پر دھماکے کے لئے بھگوا دہشت گرد ذمہ دار ہیں۔اس کے کئی ثبوت بھی ہیں اور ان تنظیموں سے وابستہ کئی افراد کو اس ضمن میں گرفتاربھی کیا گیا ہے ۔بھگوا گروہ کے افراد اجمیر بم دھماکہ، مکہ مسجد بم دھماکہ،سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکہ، مالیگاؤں بم دھماکہ سمیت کئی بم دھماکے میں ملوث پا ئے گئے ہیں۔ میڈیا کے اسٹنگ آپریشن کے دوران ان کے ناپاک منصوبے ،عزائم اوربہیمانہ کارکردگی کھل کر سامنے آئی ہے۔ اگر یہ سارے مسلمان ہوتے تو سارے خاندان والوں کے ساتھ سلاخوں کے پیچھے ہوتے ۔وزیر داخلہ جس پر اندرون ملک کی سلامتی کی ذمہ داری ہوتی ہے، اس کے بیان میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے۔انہوں نے بھگوا کا لفظ استعمال کرکے ایک خاص طبقے کو گھیرے میں لیا ہے نہ کہ پورے ہندو سماج کو۔انہوں نے ہندو دہشت گردی کا لفظ استعمال نہیں کیا کہ طعن و تشنیع کا لامتناہی سلسلہ دراز کیا جائے۔ اس طرح نہیں کہ جس طرح کوئی بھی دہشت گردانہ کارروائی کے لئے اسلامی دہشت گردی کا لفظ استعمال کیا جاتا تھا۔ہندوستانی میڈیا سینہ ٹھوک کر اسلامی دہشت گردی کے اصطلاح کو استعمال کرتا تھا۔ یہاں تک کہا جاتا تھا کہ سارے مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں لیکن سارے پکڑے گئے دہشت گرد مسلمان ہیں۔ اس طرح کے الفاظ بی جے پی بھی استعمال کرتی تھی۔ اس سے وابستہ افراد، لیڈران، صحافی اوراینکر حضرات بلاکسی جھجھک اسلامی دہشت گردی کے الفاظ استعمال کرتے تھے اگر ان کا بس چلتا تو ہندوستانی مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے ہی مٹا دیتے۔حال ہی میں گرفتار کئے گئے کیرالہ کے مسلم لیڈر عبدالناصر مدنی کے بارے میں سٹی پولیس کمشنر نے کہا کہ مدنی کا بم دھماکہ میں کوئی ہاتھ نہیں ہے جب کہ بی جے پی کے ریاستی وزیر داخلہ وی ایس آچاریہ نے مدنی کو مجرم گردانا ۔ یہ مخصوص ذہنیت کی غماز ہے۔ ریاستی وزیر دا خلہ کا یہ بیان ان کے ماضی کی تربیت کی دین ہے۔
وزیر داخلہ پی چدمبرم نے داخلی سلامتی پر ریاستی پولیس سربراہان دو روزہ اجلاس سے خطا ب کرتے ہوئے مرکز اور ریاستوں کو متنبہ کیا تھاکہ ’’بھگواآتنک‘ کا نیا چہرہ سامنے آیا ہے اس سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ ملک میں پچھلے دنوں ہوئے کچھ بم دھماکوں میں بھگوا دہشت گردوں کا ہاتھ ہے اور ہمیں اس سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ بھگوا دہشت گردی ایک نئی قسم کی دہشت گردی ہے۔یہ وہ بیان تھا جس پر بی جے پی چراغ پا ہے اور اس کی چولیں ہل رہی ہیں۔ پارلیمنٹ سے لے کر سڑکوں تک ، انٹرنیٹ سائٹس سے لے کر سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس تک بھگوا نظریہ کے حامل افراد بوکھلائے پھر رہے ہیں۔ میڈیا کلب آف انڈیا میں ایک صاحب نے لکھا ہے کہ ’’اسلامی اور نکسلی دہشت گردی سے ملک کو آزاد کرانے میں بری طرح ناکام مکھوٹا وزیر داخلہ چدمبرم پھر سے بھگوا دہشت گردی کا راگ گانے لگے ہیں ان کی پیٹھ پر کون (سونیا گاندھی) ہے یہ کسی سے چھپا نہیں ہے اس کے ذریعہ پوری ہندو تہذیب کو ہی ذلیل کرنا چاہتے ہیں ان کی خواہش ہے کہ نئی نسل کے ذہن میں بھگوا رنگ کے تئیں نفرت پیدا ہوجائے‘‘۔ یہ جملے لکھ کر بحث شروع کی گئی ہے۔ اس پر بہت سے لوگوں کے تبصرے ہیں ایک دو نے حقیقت کا اعتراف کیا جب کہ بیشتر نے بھگوا دہشت گردی کہے جانے پر چدمبرم کے ساتھ مسلمانوں کو بھی گالیاں دی ہیں۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ بھگوا نظریے کے حامل افراد سے کسی مہذب زبان کی توقع کرنا فضول ہے ۔ ایک تبصرہ نگار نے بھگوا بریگیڈ کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی تو انہوں نے اس کے جواب میں لکھا ’’ مجھے لگتا ہے کہ تمہارا باپ ضرور مسلمان تھا جیسا کہ رام ولاس پاسوان اور ملائم سنگھ کاہے۔ تم ہمیشہ مسلم رپورٹوں کا جھنڈا لے کر آجاتے ہو، اپنی ماں سے کنفرم کرلینا اپنے باپ کے بارے میں‘‘۔ بیان وزیر داخلہ نے دیا ہے گالیاں مسلمانوں کو دی جارہی ہیں۔اس سے آپ بھگوا نظیموں کی تہذیب ، ذہنیت، خباثت، زبان و بیان اور آداب گفتگو کااندازہ لگاسکتے ہیں۔

اسی طرح فیس بک پر ایک صاحب نے لکھا ہے ’’ ترنگے میں سب سے اوپر بھگوا رنگ ہے کیا ترنگا بھی دہشت گرد ہے۔ ترنگا کو، لیڈر، پولیس اور سب ہی لوگ سلام کرتے ہیں کیا وہ سب دہشت گرد ہیں۔ اسی طرح فیس بک میںیہ بھی لکھا گیا ہے کہ شیواجی دہشت گرد تھے، بابارام دیو دہشت گرد ہیں، بھگوا خیالات اور رنگ پہننے والے سوامی ویویکانند بھی دہشت گرد تھے۔ میرے گلے میں بھگوا رنگ ہے میں دہشت گرد ہوں۔ اسی طرح کے الٹے سیدھے اور بے تکے اور سوال چنیں جواب دیگر سے انٹر نیٹ کے سائٹ بھرے پڑ ے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے یہ اپنے خلاف ایک لفظ بھی نہیں سن سکتے اور بدتمیزی اوربدتہذیبی میں کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ دراصل معاملہ یہ ہے کہ بھگوا بریگیڈ مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کومظالم نہیں گردانتے بلکہ وہ کار خیر اور ہندو سماج کے مفاد میں سمجھ کر سکتے ہیں۔ کیا مسلمان یا مسلمانوں کی غربت، جہالت، کمزوری اورناخواندگی کی بنیاد پر عیش کی زندگی گزارنے والی تنظمیں ان تنظیموں سے سبق سیکھیں گی۔مسلمانوں کے بارے میں دئے گئے بے تکے بیان کی مذمت اور مظالم کے معاملے میں ہر سطح پر متحدہوکر سامنے آئیں گی؟۔
بی جے پی کے تمام لیڈران آج چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں دہشت گردی کا کوئی مذہب ،کوئی رنگ نہیں ہوتا ۔ انہیں اس وقت کیوں نہیںیہ خیال آیا تھا جب مسلمانوں کے لئے یہی اصطلاح ببانگ دہل اور ہر پلیٹ فارم پر وہ استعمال کرتے تھے۔پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز ماحول پیدا کرنے میں ان لیڈروں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی نہیں تھی۔ بھگوا دہشت گردی کہنے جس طرح ماہی بے آب کے وہ تڑپ رہے ہیں اسی طرح ان لوگوں نے مسلمانوں کے درد اور دکھ کو سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کی ہے؟ لیکن جبلت کا کیا جائے جب تک یہ لیڈر مسلمانوں کو برا بھلا نہ کہہ دیں اس وقت تک ان کا کھانا ہضم ہی نہیں ہوتا۔
ڈی۔۴۶، فلیٹ نمبر۔ ۰۱ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۵۲
9810372335
E-mails
abidanwaruni@gmail.com
abid.anwar@yahoo.co.in

Tuesday, October 26, 2010

عصری تعلیم ، مسلمان اور پسماندگی :عابد انور


عصری تعلیم کی معنویت ہر دور میں رہی ہے۔ وقت بدلتا رہا لیکن اس تعلیم کی اہمیت کبھی کم نہیں ہوئی۔ کچھ لوگوں کا کہنا کہ عصری تعلیم سے دین او ر اسلام کا کوئی تعلق نہیں تو یہ ایک مفروضہ ہے جو سراسر غلط ہے ۔ اسلام کی چودہ سو سالہ سے زائدکی تاریخ میں ایک سے بڑھ کر ایک سائنس داں، فلسفی، حکماء ااور طبیب پیدا ہوئے۔مسلم دور حکومت میں اس موضوع پر کافی توجہ دی گئی اور اس وقت اس پر تحقیق و جستجو کا سلسلہ شروع کیا گیا جب پوری دنیا گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ امریکی خلائی تحقیق تنظیم ناسا اس وقت خلائی تحقیق میں سب سے نمایاں اور آگے ہے اور پوری دنیا میں دھوم مچا رہی ہے اور خلائی تحقیق کے ہر باب میں تاریخ رقم کی ہے ۔ لیکن تاریخ پر نظر ڈالیں تو اس تحقیق کی ابتدا خلفاء عباسیہ کے خلیفہ مامون رشید کے دور حکومت میں ہوچکی تھی اور انہوں نے سائنس ، منطق اور فلسفہ پر بڑے پیمانے پر ریسرچ کاکام شروع کرایا تھااس کے لئے باضابطہ ایک ادارہ کی بنیاد ڈالی تھی اور پوری دنیا سے ماہرین علوم و فنون اور مترجم بلائے گئے تھے۔ خلفیہ مامون نے خلائی تحقیق کے لئے ایک رصدگاہ بھی قائم کیا تھا۔ اس پر کافی تحقیق ہوئی تھی جو آگے چل کر مغرب کے کام آیا اور مغرب اسی علوم فنون تحقیق کے سہارے آج ہم پر حکومت کررہا ہے۔ کیوں کہ ہم پڑھنا ترک کردیا تھا۔بڑے بڑے جہاز بنانے چھوڑ دئے تھے۔ مہم جوئی ہم سے جدا ہوگئی تھی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت دیگر زبانیں سیکھنے کے لئے صحابہ کرام کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ صحابہ کرام اس دور میں عبرانی اور دیگر زبان سیکھتے تھے۔ اسلام نے عصری تعلیم کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے اور علوم کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ایک علم الادیان دوسرا ہے علم الابدان۔ یعنی پہلے دین کا علم اور دوسرا بدن کا علم یعنی طب اور میڈیکل۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم دور حکومت میں بہت بڑے بڑے حکماء، فلسفی اور طبیب پیدا ہوئے اوریہ اسپین کی مسلم حکومت کوہی اس کا سہرا جاتاہے کہ سب سے پہلے انہوں نے انجکشن دینے کا طریقہ رائج کیا اور پانی کو اوپر چڑھانے کا طریقہ ایجاد کیا ۔ اس کے علاوہ بہت سی ایسی چیزیں ایجاد کیں یا فارمولہ پیش کیا جسے اپنا کر مغرب کے سائنس دانوں نے بڑی سے بڑی چیزیں ایجاد کیں اور دنیا پر اپنا سکہ جمایا۔
مسلم دور حکومت میں یوں تو بہت سارے سائنس داں پیدا ہوئے ان میں سے چند کا نام بطور مثال پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں خالد بن یزدی، ابراہیم الفزاری، الخوارزمی، الفرغانی، الفارابی، ابوسعید الجرجانی، ابونصر منصور ، ابن الحیثم، عمرخیام، الخزینی، شمس الدین سمرقندی، جابر ابن حیان،ناصرالدین طوسی، ابن خلدون، الجبرا کے بانی الخوارز می، ابن سینا، الکندی، ابوریحان البیرونی، الحاجز، اور ابوالحسن الطبری وغیرہ شامل ہیں۔
اس کے بعد بھی اسلامی دور حکومت اس پر کام مسلسل جاری رہا لیکن مسلم حکومتوں کی انتشار اور خلفشار کی وجہ سے سائنس کے میدانوں میں جو کام ہوا تھا وہ آگے نہیں بڑھ سکا اور اسے مغرب کے سائنس دانوں نے اپنا لیا اور عربی کتابوں کا مطالعہ کرکے ان سے فارمولے لے لئے اور اسے اپنا فارمولہ اور اپنا نظریہ بناکر پیش کیا جس میں علامہ عراقی کا نظریہ کشش ثقل بھی شامل ہے ۔ نظریہ کشش ثقل کے کھوج کا سہرا مشہور سائنس داں نیوٹن کو دیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مشہور عربی سائنس داں علامہ عراقی اپنی تصنیف ’’غایتہ الامکان فی درایتہ المکان‘‘ میں ا س نظریہ کو پیش کرچکے تھے۔
ہندوستانی مسلمانوں کی زبوں حالی مختلف رپورٹوں اور کمیشنوں کے حوالے سے بیان کی جاتی رہی ہے حالیہ برسوں میں سچر کمیٹی اور رنگناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ سامنے آچکی ہے جس میں تعلیمی ، معاشی، معاشرتی اور دیگر سطحوں پر مسلمانوں کی پسماندگی سامنے آچکی ہے اور دونوں کمیٹیوں کو کانگریس کی قیادت والی ترقی پسند اتحاد حکومت نے قائم کیاتھا۔ لیکن اس پر صدق دل سے عمل نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کو اس کا فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے۔
مسلمانوں کو آج اعلی تعلیمی اداروں اور پیشہ وارانہ کورسیز میں داخلہ نہیں مل رہا ہے۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جن اداروں کو مسلمانوں نے اپنے پیسے سے قائم کیا تھا ان اداروں میں مسلم طلباء کے لئے دروازے بندکئے جارہے ہیں۔ حکومت نے ان مسلمانوں کو وہاں ایسے عہدوں پر بٹھایا ہے جو مسلمانوں کی جڑ کاٹنے میں کسی طرح کی رو رعایت سے کا م نہیں لیتے۔بلکہ حکومت ہند مسلمانوں سے متعلق اداروں میں تقرری کے تعلق سے لارڈ میکالے کے اس نظریہ پر عمل کرتی ہے (تھوڑی تبدیلی کے ساتھ) ’’رنگ ونسل کے لحاظ سے تو وہ مسلمان ہوں لیکن کام کاج کے لحاظ وہ مسلمانوں کے بدترین دشمن ہوں‘‘۔ اگر کسی نے سہواً مسلمانوں کا کوئی کام کردیا تو وہ اپنے انجام کو پہنچ گیا۔
مسلمان آزاد ہندوستان میں دلت سے بھی بدتر زندگی گزارنے کو مجبور ہیں اور ان کے ساتھ ہر سطح پر تعصب سے کام لیا جاتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ حکومت کی مسلمانوں کے تعلق سے اسکیموں کے نفاذ کے لئے ایسے مسلمانوں کو تعینات کیا جائے جو درحقیقت مسلمان ہوں نام نہاد نہیں۔وہ آزادانہ اور فراخدلانہ مسلمانوں سے تعلق رکھنے والے اسکیموں کو نافذ کرے۔
آزاد ہند کے صرف 63 سال میں ہندوستان کی اس حکمراں قوم کا مقام ملک کے درج فہرست قبائل اور درج فہرست ذاتوں کے مماثل ہوگیا ہے رنگناتھ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں میں 60 سال سے زیادہ عمر کے افراد کی تعداد تمام طبقات میں اقل ترین یعنی 5.75 فیصد ہے جبکہ قومی اوسط 7.5 فیصد ہے ۔ گھرانوں کی جسامت 3.5 فیصد ، خواندگی کی سطح 59.1 فیصد ، گریجویشن سطح کے تعلیم یافتہ افراد 3.6 فیصد ہے جو اقل ترین ہے ۔ تغذیہ کی صورتحال بدترین ہے ۔ مسلمانوں کی صرف 23.76 فیصد تعداد پکے مکان رکھتی ہے جو ملک کی اقل ترین تعداد ہے جبکہ کچے مکان رکھنے والوں کی تعداد ملک بھر میں سب سے زیادہ یعنی 34.63 فیصد اور کرایہ کے مکانوں میں زندگی گذارنے والے مسلمانوں کی تعداد بھی ملک بھر میں 43.74 فیصد ہے ۔ برقی و آبی سربراہی اور بیت الخلاء جیسی بنیادی سہولتیں صرف 22 فیصد مسلمانوں کو حاصل ہیں اور یہ اقل ترین تعداد ہے ۔ شہروں میں خط غربت کی سطح سے نیچے زندگی گذارنے والے مسلمانوں کی تعداد دیگر تمام طبقات سے زیادہ یعنی 36.92 فیصد ہے جبکہ قومی اوسط 25 فیصد ہے ۔ اس طرح مسلمان جو ہندوستان پر 800 سال سے زیادہ عرصہ حکومت کرچکے ہیں۔ آزادی کے بعد صرف 63 سال میں درج فہرست قبائل اور طبقات سے بھی زیادہ پسماندہ ہوچکے ہیں ۔ آخر کیوں ؟ یہ ایک لمحہ فکر یہ ہے ۔
مسلمان جب تک ہندوستان میں حکمراں رہے اس وقت مسلمان تعلیمی، معاشی، اور معاشرتی اعتبار سے بہتر رہے لیکن جیسے ان کے سر سے تاج چھنا ان کی حالت بدتر سے بدتر ین ہوتی چلی گئی۔ انگریزوں نے اپنے حریف ہونے کی پاداش میں مسلمانوں کو تہ و بالا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور رہی سہی کسر آزادی کے بعد ہندوستانی حکومت نے پوری کردی۔ آج مسلمان سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق دلت سے بدتر اور مہادلت ہیں یقیناًاس کا سہرا کانگریس کی حکومت کو جاتا ہے جنہوں نے ایسی پالیسی وضع کی کہ مسلمان ہر شعبہ میں حاشیہ پر چلے گئے۔ ان پر تعلیمی ، معاشی اور ترقی کے دروازے بند کردئے گئے۔ حکومت نے اس طرح سے اپنے آپ کو پیش کیا کہ جو بظاہر مسلمانوں کا مسیحا نظر آئے لیکن اندرون خانہ انہوں نے وہ کام کیا جو بدترین دشمن بھی نہیں کرسکتے تھے۔ اولاً جہاں جہاں مسلمانوں کا گھریلو صنعت یا علاقائی صنعت پر ذرا سا اختیار تھا وہاں منظم طور پر فسادات کرائے گئے اور اس بہانے مسلمانوں کی فیکٹریوں اور کارخانوں کو لوٹا گیا، آگ لگادی گئی اور برباد کردیا گیا۔ ان فسادات میں جہاں مسلمانوں کی افرادی قوت کا خاتمہ ہواتھا وہیں صنعتی اعتبار سے انہیں قعر معزلت میں دھکیل دیا گیا۔ گزشتہ ۶۰ برسوں میں یہی ہوتا آرہا ہے۔ مثال طور پر مرادآباد، بھاگلپور، بھیونڈی اور ہندوستان کے دیگر مقامات کے نام لئے جاسکتے ہیں جہاں مسلمان فیکٹریوں کے مالک تھے وہ کاری گر بننے پر مجبور ہوگئے۔
تعلیمی اعتبار سے حکومت نے یہ کیا کہ جہاں جہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ تھی وہاں اسکول ، کالج کومسلمانوں سے دور رکھا گیا تاکہ مسلم بچے ان پڑھ رہیں۔ پیشہ وارانہ کالج اور تکنکی ادارے وہاں نہیں کھولے گئے ۔ اس کے علاوہ ترقی کا رخ ہمیشہ ان علاقوں سے موڑا گیا جہاں مسلمان کثیر تعداد میں رہتے ہوں۔ اس طرح انہوں نے مسلمان اور مسلم علاقوں کو بہت خوبصورتی کے ساتھ نظر انداز کیا۔ آج جس مسلم علاقے میں جائیں وہاں آپ کو اسکول ، کالج اور تکنکی ادارے نہیں ملیں گیاالبتہ کوڑے کرکٹ اور غلاظت کا ڈھیر ضرور نظر آئے گا۔ حکومت نے اس طرح کی پالیسی اپنائی کہ مسلمان ترقی کے عام دھارے سے دور ہوتے چلے اور حکومت اعداد و شمار کے کھیل سے عوام کو گمراہ کرتی رہی۔ کسی محلے اور کسی علاقے میں تھوڑی بہت خوش حالی نظر آتی ہے توبیشتر وہ لوگ ہیں جو گلف میں رہتے ہیںیا ان کا کوئی رشتہ دار اور اعزاء بیرون ملک میں رہتا ہے یا کام کرتا ہے اور دن رات محنت کرکے وہ رقم بھیجتا ہے جس سے وہ لوگ پرسکون زندگی گزارتے ہیں۔
لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جہاں مسلمانوں کی جہالت، تعلیمی پسماندگی،معاشی ابتری اور معاشرتی زوال کے لئے جہاں حکومت ذمہ دار ہے وہیں مسلمانوں کی لیڈر شپ بھی کم ذمہ دار نہیں ہے۔ مسلم لیڈر شپ نے مسلمانوں کی ترقی کے بارے میں کبھی بھی سوچا ہی نہیں۔وہ تو خود کو سنوارنے اور اپنے آپ کو سیکولر ثابت کرنے کے لئے اپنے بچوں کی شادی غیر مسلموں میں کرکے ہی خوش ہوتے رہے مسلمانوں کا کبھی خیال تک نہیں آیا۔ ایک مسلمان اس وقت ملک کے آئینی عہدے پر فائز ہے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب بھی مسلمانوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کے تعلق سے ان کے سامنے شکایات پیش کی جاتیں وہ تو برملا کہتے کہ میں مسلمانوں کا چیرمین نہیں ہوں میں ادارے کا چیرمین ہوں (حالانکہ انہیں مسلمانوں (اقلیتوں) کی شکایات کے ازالہ کے لئے ہی چیرمین بنایا گیا تھا) اسی طرح سابقہ یو پی اے حکومت کے ایک مسلم وزیرکا تو یہ حال تھا کہ مسلمانوں کے نام سے بدک جاتے تھے جب کہ وہ مسلم ووٹ سے چن کر آئے تھے لیکن ۲۰۰۹ کے لوک سبھا انتخابات میں انہیں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ جو لوگ انہیں گھیرے رہتے تھے اور جن لوگوں کا وہ کام کرتے تھے ان ہی علاقے میں وہ بری طرح ہار گئے۔ اسی طرح ایک مسلم لیڈر نے وزارت حاصل کرنے کے لئے دہلی وقف بورڈ کے قبرستان کو حکومت دہلی کو پارک بنانے کے لئے دے دیا۔ جب کہ دہلی کے مسلمان قبرستان کے لئے پریشان ہیں انہیں اپنے مردوں کو دفن کرنے لئے جگہ تنگ پڑ رہی ہے۔ یہ تو صرف آٹے میں نمک کے برابر مثال ہے ورنہ تقریباً تمام مسلم لیڈروں کو آپ ایسا ہی پائیں گے۔ ان میں سرکاری علماء بھی شامل ہیں۔
آئیے اب ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال پر نظر ڈالتے ہیں۔ ۲۰۰۱ کی مردم شماری مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی خود بیان کرتی ہے اور مسلمانوں کے تعلق سے برتے جانے والے سوتیلے سلوک کا انکشاف کرتی ہے کہ تعلیمی لحاظ مسلمان سب سے پچھڑی ہوئی اور پسماندہ قوم ہے۔ ملک کی ۴۵ کروڑ غیر مسلم خواتین میں سے ۴۶ فیصد خواندہ ہیں جب کہ چھ سات کروڑ مسلم خواتین میں صرف ۴۱ فیصدخواندہ ہیں اور جس طرح تعلیمی سطح اعلی مدراج کی طرف بڑھتی ہے شرح خواندگی کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ ابتدائی سطح پرمسلم خواتین کا تناسب غیر مسلم خواتین سے ۱۱ فیصد کم ہے اور مڈل کی سطح پر یہ فاصلہ مزید بڑھ جاتا ہے۔ ۱۹ اور ۳۵ کے درمیان پہنچ جاتا ہے۔ مسلمانوں کی تعلیمی بدحالی اس اعداد و شمار سے بھی نمایاں ہوتی ہے کہ ہندوستان مسلم علی تعلیم یافتہ کی تعداد صرف ۶ء۳ فیصد ہے۔ ایک تجزیہ کار اور ماہرین تعلیم کے مطابق جنہوں نے مسلم خواتین کے تعلق سے ملک کے بہت اضلاع کاتعلیمی سروے کیا تھا مسلم خواتین کی ناخواندگی کا تناسب ۷۵ فیصد تک پہنچ گئی ہے جب کہ شمالی ہندوستان میں اس کی صورت حال اور بھی بھیانک ہوسکتی ہے۔ ہندوستان میں مسلم لڑکیوں کا اسکول میں رجسٹریشن کی فیصد ۶ء۴۰ فیصد تھی جب کہ مسلم غریب لڑکیوں کی فیصد صرف ۱۶ فیصد تھی۔ ان میں ۹۸ فیصد مسلم لڑکیاں سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتی ہے۔ دو فیصد لڑکیاں مدرسوں میں تعلیم حاصل کرتی ہیں کیوں کہ وہ اسکول کا خرچ برداشت کرنے کے قابل نہیں ہوتیں۔
سچر کمیٹی نے بھی مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی ابتری کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کمیٹی نے جب ۱۹۶۵ سے ۲۰۰۱ کے درمیان گاؤں اور شہروں میں لڑکیوں اور لڑکوں کے اسکولوں میں داخلے کا جائزہ لیا تو یہ بات ابھر کر سامنے آئی کہ مسلمان درج فہرست ذاتوں اور قبائل سے بھی بہت پیچھے ہیں۔ مثال کے طور پر شہروں میں ۱۹۶۵ میں درج فہرست ذات و قبائل لڑکیوں کا تناسب صرف ۴۰ فیصد جو ۲۰۰۱ میں بڑھ کر ۸۳ فیصد ہوگیا۔ اسی طرح میں ۱۹۶۵ میں لڑکیوں کا تناسب ۵۳ فیصد تھا جو ۲۰۰۱ میں بڑھ کر ۸۰ فیصد ہوگیا یعنی پسماندہ طبقات سے ۳ فیصدی کم۔
مسلم خواتین کی شرح خواندگی کی کمیت کا اندازہ ان ریاستوں کی شرح خواندگی سے لگایا جاسکتا ہے۔ چند ریاستوں میں مسلم خواتین کی شرح خواندگی پر نظر ڈالتے ہیں۔ ہریانہ میں مسلم خواتین ۵ء۲۱ فیصد، بہار میں ۵ء۱۳ فیصد، اترپردیس میں۳۷ فیصد ، جموں و کشمیر میں ۹ء۳۴ فیصد، ناگالینڈ میں ۳ء۳۳ فیصد، پنجاب میں ۴ء۴۳ فیصد، کیرالہ میں سب سے زیادہ مسلم خواتین خواندہ ہیں وہاں کی اس کی شرح خواندگی ۵ء۸۵ فیصد ہے جب کہ ہندو خواتین کی ۷ء۸۶ فیصد ہے، ایک فیصد سے زائد، تمل ناڈو میں مسلم خواتین ہندوستان خواتین سے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں مسلم خواتین کیِ شرح خواندگی ۹ء۸۲فیصد ہے جب کہ ہندو خواتین کی ۷۲ فیصد ہیں۔
بجٹ اجلاس کے موقع پر مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے حکومت کی جانب سے صدر جمہوریہ پرتبھا دیوی سنگھ پاٹل نے کہا تھا کہ اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لئے ۸۰ ہزار کروڑ روپے خرچ کئے گئے ہیں۔ حکومت یہ تو بتائے وہ پیسے کہاں خرچ کئے، کہاں اسکول کھولے گئے، کتنے مسلمانوں کو نوکریاں دی گئی ہیں، کتنے تعلیمی وظائف دئے گئے اور کتنے مسلمانوں کو بھلا ہوا۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ سب الفاظ اور اعداد شمار کی شعبدہ بازی ہے۔ حقیقت کا اس سے دور کا تعلق نہیں ہے۔ اگر اس رقم کا ایک چوتھائی حصہ بھی مسلمانوں پر خرچ کیا جاتا تو مسلمانوں کی حالت ابتر نہ ہوتی۔
یہ اعداد و شمار مسلمانوں کی تعلیمی، معاشی اور سماجی زبوں حالی بیان کرنے کے لئے کافی ہے۔ ان اعداد و شمار کی روشنی میں یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کو قومی اور ترقی کے دھارے میں لانے کے لئے ہر سطح پر ریزرویشن ضروری کیوں ہے۔ مسلمانوں کے تعلق سے اتنے سارے کمیشن اور کمیٹیاں اور ان کے سفارشات مسلمانوں کو ان کی اوقات دکھانے کے لئے ہے یا درحقیقت ان کی پسماندگی اور پچھڑے پن کے ازالے کے لئے۔ اگر حکومت ہند ان سفارشات پر صدق دلی سے عمل کرتی ہے تو یہ سمجھا جائے گا کہ وہ مسلمانوں کی بدتر صورت حال کو بدلنا چاہتی ہے ورنہ یہ سمجھا جائے گا کہ مسلمانوں کو اپنی اوقات میں رہنی چاہئیے ۔ گزشتہ ۶۰ سالوں میں ہم نے تمہیں کہاں سے کہاں تک پہنچا دیا اگر زیادہ بڑبڑانے کی کوشش کی تو مزید پستی کے کھائی میں دھکیل دیں گے جہاں تمہیں وجود کے لالے پڑیں گے۔
عابد انور
D-64/10 Abul Fazal Enclave Jamia Nagar, New Delhi- 110025
Mob. 9810372335,
abidanwaruni@gmail.com
abid.anwar@yahoo.co.in

حقوق کی لڑائی اُٹھا رکھے ہیں ہم نے کتنے کاسے۔۔۔! :عزیز بلگامی



ساری دنیا میں عام اتفاق رائے یہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمان بڑی کسمپرسی کی زندگی گزارتے ہیں۔اِدھر ہندوستانی مسلمان بھی اِ س حقیقت کے سلسلے میں دو رائے نہیں رکھتے کہ نہ صرف ہندوستان بلکہ سارے عالم کے مسلمان زبوں حالی کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔کل ملا کر کیفیت یہ ہے کہ پونے دوسو کروڑ نفوس پر مشتمل یہ عالمی قوم اپنی ذلّت و نکبت کے بد ترین دور سے گزر رہی ہے۔بد بختی کے اِس گہرے کالے سمندرمیں خوشحالی کے کچھ چمکدار جزیرے ہو سکتے ہیں،بلکہ ہیں،لیکن ان کے ہونے نہ ہونے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔پھر اِس پر مستزاد یہ کہ اِسے کم از کم اِس کسمپرسی کے ساتھ ہی سہی، چین سے جینے نہیں دیا جاتا بلکہ اِس کے خلاف ظلم و ستم کی بھٹیاں سلگتی رہتی ہیں۔کیونکہ طاقتور قومیں کمزور اقوام کو بہت کم برداشت کر پاتی ہیں۔اِس صورتحال سے گھبرا کر اِس قوم کے نوجوان یا تو ہتھیار اُٹھا لیتے ہیں یا کاسۂ گدائی تھامے ہوئے ظالم کی خوشنودی پر اُتر آتے ہیں۔چونکہ ہتھیار اُٹھالینا متعدد وجوہات کی بنا پر سب کے بس کی بات نہیں ہوتی، اِس لیے زیادہ تراِن کے لیے آخری چارۂ کار کے طور پر جو چیز باقی رہ جاتی ہے وہ حقوق کے حصول کی مہم ہی ہے ۔۔۔چاہے وہ پرامن ہی کیوں نہ ہو یا جمہوری سیٹ اپ میں حاصل اِجازت کے تحت ہی کیوں نہ چلائی جائے۔دلچسپ مگر عبرت انگیز بات یہ ہے کہ جو عناصر اِس صورتحال کو پیدا کرنے کے ذمہ دار ہیں اُن ہی سے مسلمان حق و انصاف کی اُمید رکھتے ہیں اور اِن ہی سے اپنے حقوق کے طلب گار بن جاتے ہیں۔نہ صرف ہندوستان بلکہ ہندوستان سے باہر بھی جہاں کہیں مسلمان آباد ہیں کم وبیش اِسی طریقۂ کارکے خوگر نظر آتے ہیں۔حقوق انسانی کے لشکر وں نے بھی اِنہیںآدابِ گدا گری کادرس خوب دے رکھا ہے کہ کیوں اور کس طرح ظالموں کو رام کیا جائے یا اِن سے اپنے حقوق کی لڑائی کس طرح چھیڑی جائے۔ اوّل تو یہ اِنہیں اقلیت و اکثریت کا فلسفہ سکھا تے ہیں،پھریہ باور کراتے ہیں کہ اقلیت کواکثریت کے در پر سوالی بن کر بس مانگتے رہنا چاہیے،چاہے اکثریت دینے پر راضی ہو کہ نہ ہو۔اِس ذہنیت کو فروغ دینے والوں کی ذہنی سطح اس قدر پست ہوتی چلی جاتی ہے کہ یہ بالآخر اقلیتوں کو بھیک منگوں کا گروہ بنا کررکھ دیتے ہیں۔اِس کا نفسیاتی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اقلیتیں مانگتے رہنے ہی کو ایک حق سمجھنے لگتی ہیں اوراِس کے لیے مہم جوئی میں مصروف ہو جاتی ہیں۔پھرجب یہ جدوجہد کامیاب ہوجاتی ہے تو اِس کی شکل یہ ہوتی ہے کہ اِن کے اِس حق کو ملک کے دستور میں جگہ نصیب ہوتی ہے اور انہیں اپنے حقوق طلب کرنے کی اجازت مل جاتی ہے۔ مطلب یہ کہ مانگتے رہنے ہی کو ایک حق کے طور پر اُجاگر کرتے ہوئے اُن کے سر کے تاج میں دستوری بھکاری کا طرہ ٹانک دیا جاتا ہے،تاکہ وہ خوب اچھی طرح محسوس کر لیں کہ اُنہیں اب مانگنے کا حق حاصل ہو گیاہے۔پھر اِس حق کے حصو ل کے لیے پارٹیاں بنتی ہیں، لیڈر شپ وجود میں آتی ہے اور احتجاجات ،نعرے،جلوس، وعدے، تجاویز ، جلسے، دھواں دار تقریریں، ہاؤہو کا بازار گرم ہوتا ہے۔اکثریت نواز سیاسی پارٹیوں کی سیاسی دکانیں خوب چمکتی ہیں۔مسلمانوں کے دانشور، سیاسی رہنما، مذہبی جماعتیں سب کے سب اِنہیں یہی درس دینے میں مصروف ہو جاتے ہیں کہ اُنہیں حقوق کی لڑائی لڑنی ہے جو اُنہیں از روئے دستور حاصل ہیں۔
سوچیے کہ یہ کس قوم کا حال ہے !!یہ اُس قوم کا حال ہے جس کا دستورِ زندگی ایک ایسی کتابِ پاک تھی جس میں اپنی ذات کے لیے کسی حق کو طلب کرنے کا کہیں اِشارہ تک نہیں ملتا۔ بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اِس کتاب نے اِس کے ماننے والوں کو صرف دینا سکھایا تھا، لینا یا مانگنا نہیں۔
اِس مضمون میں حقوق کے طلب کی مہم جوئیوں میں مصروف مسلمانوں کی ہم یاد دہانی کرانے کی کوشش کریں گے کہ کتاب اللہ نے حقوق طلبی کے سلسلے میں مسلمانوں کوکیا پیغام دیاتھااورخاتم النبین صلی اللہ علیہ و سلم نے اِن کے لیے کیا نمونہ چھوڑا ہے۔ پھرپیغمبروں نے اپنے اپنے زمانے میں کن مہمات کی قیادت کی تھی اور آج مسلمان کن مصروفیات میں اپنے آپ کو اُلجھا رکھا ہے۔
قرآن پاک کی اوّلین سورۃ ہی میں ہمیں ایک آیت کا ایک ایسا فقرہ ملتا ہے جس میں واضح طور پرکہا گیا ہے کہ مدد صرف خالقِ کائنات سے طلب کی جانی چاہیے:’’۔۔۔اِیاک نستعین‘‘ (تیری ہی ہم مدد چاہتے ہیں)۔جو قوم دن میں پچاسوں بار صرف خدا سے مدد طلب کرنے کادعویٰ کرتی ہے ،کیا اُس کے لیے یہ مناسب ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں میں کاسۂ گدائی لیے مختلف دروازوں پر بھیک مانگتی پھرے، چاہے یہ بھیک حقوق ہی کی کیوں نہ ہو۔یہ بات عقل میں سماتی بھی نہیں کہ کوئی کیسے کسی کو دینے کے قابل بن سکتا ہے جب کہ اِس کائنات کی ہر شے اُسی خالق و مالک کے در کی بھکاری ہے،جس کی مدد طلب کرنے کا ہم ہرلمحہ دعویٰ کرتے رہتے ہیں!پچپنویں سورۃ کی اُنتیسویں آیت میں اللہ تعالےٰ نے اِرشاد فرمایا ہے:’’آسمانوں اور زمین(کے چپہ چپہ میں)جو شے بھی موجود ہے(اُس کی بارگاہ میں)دستِ سوال دراز کیے کھڑی ہے ( تو دوسری جانب ان سائلوں کی دست گیری کرنے میں وہ ایک نئی شان کے ساتھ ہر دن (مسلسل برسرِ کار ہے)۔‘‘اِسی طرح بائیسویں سورۃ کی تیہترویں آیت بھی ہمارے لیے عبرت کا سامان فراہم کرتی ہے:’’اے کرّۂ ارض کے باشندو!ایک تمثیل پیش کی جاتی ہے،جسے توجہ سے سماعت کرو:اللہ کے بجائے(یہ جو تم)جن جن کوپکارتے رہتے ہو،یہ(سب کے سب) ایک مکھی کو معرضِ وجود میں لانے کے لیے مجتمع ہو جائیں(تو تم دیکھو گے کہ) وہ ایک مکھی کی بھی تخلیق ہر گزنہیں کر پائیں گے۔(تخلیق تو دور کی بات ہے) اگر کوئی مکھی اِن سے کوئی شے جھپٹ لے جائے تب بھی وہ اُس کی باز یافت نہیں کر سکیں گے۔(یہ تمثیل اِس حقیقت پر مہرتصدیق ثبت کردیتی ہے کہ کس قدر)ضعف زدگی کا مارا ہوا ہے، طلب گار بھی اور وہ بھی جس سے طلب کیا جارہا ہے۔‘‘
دراصل مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی تھی کہ وہ امیر ہو ں کہ غریب،صاحبِ مال ہوں کہ تنگ دست اُنہیں بس عطا کرتے رہنا ہے،اللہ کے ضرورت مند بندوں کو دیتے رہنا ہے۔ اللہ ایسے ہی رحم دل انسانوں کو پسند کرتا ہے۔کتاب اللہ میں لیتے رہنے کا کہیں ذکر ہی نہیں ملتا۔ سور�ۂ آل عمران کی آیت ایک سو چوتیس میں کتنے صاف الفاظ میں یہ بات کہی گئی ہے:’’جولوگ ہر حال میں انفاق کرتے ہیں، خواہ بد حال ہوں یا خوشحال، جو اپنے غصہ کو پی جاتے ہیں، اورانسانوں کے قصوروں کو معاف کردیتے ہیں۔ سلوکِ احسن کرنے والے ایسے ہی لوگ اللہ کو بڑے محبوب ہیں۔‘‘
اِس انسانیت نواز تعلیم کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی کچھ اس انداز میں ذہن سازی کی گئی تھی کہ لوگوں کو دیتے رہنے کے اِس عمل کا کوئی صلہ حاصل کرنے کی آرزو اُن کے حاشۂ خیال میں تک نہ آنے پائے۔بلکہ وہ لوگوں کو عطاکرتے ہوئے اعلان کریں کہ یہ سب کچھ صلے سے بے نیاز ہو کر کیا جارہا ہے۔رب تعالےٰ نے چھیاہترویں سورۃ کی نویں آیت میں ہمیں اِس کا درس دیا ہے:’’(اس طرح کی سوچ والے جب دوسروں کو عطیہ کرتے ہیں تو ان کا یہ قول ہوتا ہے کہ) جو کچھ بھی ہم تمہاری مدد کررہے ہیں، یہ اللہ کی توجہ اور اسکی رضا حاصل کرنے کیلئے ہے۔ ہم تم سے اس کا کوئی بدلہ یا تبادلہ نہیں چا ہتے اور نہ ہی تمہارا شکریہ اور ممنون کرم ہونا(ہمیں مطلوب ہے)۔ ‘‘
برا ہو مادہ پرستی کا کہ اُس نے بندگانِ خدا پر خرچ کرنے کونقصان کا سودا باور کرایا اور قلاش ہو نے کے خوف کو لوگوں کے دلوں میں کچھ یوں بٹھایا کہ لوگ بخیل بنتے چلے گیے ، جن میں کثیر تعداد میں اب مسلمان بھی شامل ہیں ۔ حالانکہ سورۂ بقرہ کی دو سو اکسٹھویں آیت میں صاف طور پربیان فرمایا گیا تھا: ’’جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ، اُن کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں۔ اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے افزونی عطا فرماتا ہے۔ وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی‘‘۔اِسی طرح پینسٹھویں سورہ کی تیسری اور چوتھی آیتوں میں اللہ نے مسلمانوں سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ :’’۔۔۔۔اور جو اللہ سے ڈر تا رہے گا اپنی ہرسرگرمی میں،تقویٰ کرتا ہوگا،تو اللہ پریشانی کے معاملات میں اُس کے لئے باہر نکلنے کا راستہ( یعنی EXIT )بنادیگا اور اسے ایسی جگہ سے رزق، Provisionsفراہم کریگا،جس کا اس نے سوچا بھی نہ ہوگا اور جوکوئی اللہ پر توکل کرتا ہو ، اُس پربھروسہ کرتا ہو،تو اللہ اس کو کافی ہوجائے گا۔۔‘‘
آج ہم اپنی بد بختی کا رونا روتے پھرتے ہیں۔ ہمیں شکایت ہے کہ زمین میں ہمیں قرار نصیب نہیں۔ہماری ہوا اُکھڑ گئی ہے۔لیکن ہمیں یہ تجزیہ کرنے کی کبھی توفیق نہیں ہوتی کہ یہ صورتحال آخر کیوں پیدا ہوئی اور اس کے اسباب کیا ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ جو قوم بندگانِ خدا کے لیے نفع بخش نہیں ہوتی وہ یا تو دنیا میں بے اثر ہو کر رہتی ہے یا مٹا کر رکھ دی جاتی ہے۔ تیرویں سورۃ الرعد کی ستراویں آیت کا مضمون اِسی حقیقت پر دلالت کرتا ہے: ’’ اللہ نے آسمان کی بلندیوں سے بارش نازل کی،سو اپنی اپنی مقدار میں ندی نالے بہہ نکلے اور اٹھا لایا بہاؤ جھاگ یاکچرا پھولا ہوااور معدنیات سے زیورات اور قیمتی کارآمد اشیاء بنانے کیلئے جب آگ میں تپایا جائے تو اُس میں بھی اسی طرح جھاگ ابھرتا ہے۔ اس طرح بیان کرتا ہے اللہ حق اور باطل کو۔ تو جو جھاگ یا کچرا ہوتا ہے وہ سوکھ کرمعدوم ہوجاتا ہے اور جو انسانوں کے لئے نفع بخش ہوتا ہے، اسے اللہ زمین میں ٹھہراؤ عطا کرتا ہے،Establish کرتا ہے(اُسے)،اس طرح بیان کرتا ہے اللہ مثالیں۔ ‘‘
ہم زمین پر بے اساس ہیں تو اِس کا سبب یہی ہے کہ ہم انسانیت کے لیے منفعت بخش نہیں رہے۔ ہم مانگنے والی قوم بن گیے، دینے والی نہیں۔ہم نے کتاب اللہ کو کیا چھوڑا کہ شیطان نے ہمیں اُچک لیا اور ہر چہار جانب سے یہی درس ہمیں ملنے لگا کہ ہم کو اپنی زندگی مانگتے ہوئے گزارنی ہے۔ دنیاسے ہمیں بس لینا ہے، دنیا کو دینا نہیں ہے۔
یہ بھی تو سوچیے کبھی تنہائی میں ذرا
دُنیا سے تم نے کیا لیا دنیا کو کیا دیا۔۔۔(حفیظؔ میرٹھی)
جس نبی (صلی اللہ علیہ و سلم )کی پیروی کا ہمیں دعوی ہے، وہ کیا تھے، اور اُنہوں نے کیا اُسوہ ہمارے لیے چھوڑا ۔اکیسویں سورۃ کی ایک سو ساتویں آیت میں خود رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ:’’ ہم نے(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) آپ کو سارے جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ ‘‘رحمت بناکر بھیجے جانے کا مطلب کیا ہے؟یہی نا کہ دنیا جن کی کرم فرمائیوں سے زیر بار ہو جائے۔کیا کوئی مانگنے والی قوم کسی کے لیے رحمت بن سکتی ہے؟نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم خرچ کرنے سے متعلق گفتگوؤں کو آیاتِ قرآنی اور احادیث کے ذریعہ اِس قدر عام فرما دیا تھا کہ آپ ؐ سے لوگ پوچھتے رہتے تھے کہ کیا اور کن مدوں پر خرچ کریں۔جیسا کہ سورہ البقرہ کی دوسو پندرھویں آیت میں نظر آتا ہے:’’ اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم ،لوگ آپؐ سے دریافت کرتے ہیں : ہم کیا خرچ کریں؟جواب دیجیے کہ جوخیر بھی(جیسے نیکی، حسنِ سلوک، بھلائی، مال یا وقت) تم خرچ کرو، اپنے والدین پر، رشتہ داروں پر، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرواور خیر(کے ان کاموں میں سے ) جوبھی کام تم انجام دو گے، اللہ اُس سے باخبر ہوگا۔‘‘پھر وارننگ بھی دیتے کہ کسی پر احسان جتانے کی ضرورت نہیں،سورۂ البقرہ کی دوسو چوسٹھویں آیت میں یہ وارننگ موجود ہے:’’اے ایمان والو! اپنے صدقات کو ، احسان جتا کر اورجذبات کو ٹھیس پہنچا کر اُس شخص کی طرح خاک میں نہ ملادو، جو اپنا مال محض لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتا ہے۔‘‘پھرکسی پر خرچ کرنے کی جو اسپرٹ تھی وہ سورۃ الدہر کی آٹھویں و نویں آیتوں میں کچھ اِس طرح بتائی گئی:’’ اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کوطعام فراہم کرتے ہیں اور اُن سے کہتے ہیں کہ ہم تمہیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ بدلہ چاہتے ہیں نہ ہدیۂ شکریہ۔‘‘
دوسری سورۃ البقرۃ کی ایک سو ستہترویں آیت میں نیکیوں کی جو حقیقت بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ:’’محض، اپنے چہروں کومشرق و مغرب کی سمت پھیر لینے کا نام نیکی نہیں ہے۔‘‘پھر اصل نیکیوں کی جو فہرست گنائی گئی ہے اِس کا بیشتر حصہ لوگوں کو دینے ہی سے عبارت ہے جیسے حبِّ الٰہی کی بنیاد پراپنے اقرباء کی مالی امداد،یتیموں کی مالی امداد،مسکینوں غریبوں اور محتاجوں کی مالی امداد،مسافروں(یا راستوں میں مختلف مقاصد کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والوں کی) مالی ضروریات اور Public Utilities itemsسے جڑی خدمات پر خرچ ،دستِ سوال دراز کرنے والوں کی (بخوشی)مالی اعانت،متنوع Liabilities کے نرغے میں پھنسے ہوئے لوگوں(یاقیدیوں) کا مالی (و قانونی) تعاون۔۔۔،زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام۔۔۔‘‘
اپنے اپنے زمانوں میں پیغمبروں نے کبھی اقتدارِ وقت سے کوئی حقوق طلب نہیں کیے۔ قرآن حکیم نے جن جن پیغمبروں کے تذکرے رکارڈ کیے ، یہ سب کے سب اِس حقیقت پر گواہ ہیں ۔ہر پیغمبر نے اپنے سرکش مخاطبین سے یہی کہا کہ میں جو کچھ پیش کر رہاہوں ، اِس کا تم سے میں کوئی اجر نہیں چاہتا۔میرا اجر تو اللہ کے پاس محفوظ ہے۔
آخر میں ہم وہ مشہور حدیث پیش کریں گے جس میں نہایت واضح الفاظ میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلمانوں کے طرزِ زندگی کو ایک صحیح سمت عطا کی ہے اور ان امور کے مطابق اپنی زندگی کا لائحہ عمل متعین کرنے میں ہماری عزت و آبرو کی بازیابی اور ہماری بقا کی ضمانت مضمر ہے:
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ اَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ قَالَ اَمَرَنِیْ رَبّیِْ بِتِسْعٍ:خَشْیَۃِ اللّٰہِ فِی السِّرِّ وَالْعَلَانِیَۃِ ۔ وَ ا لْکَلِمَۃِ الْعَدْلِ فِی الْغَضَبِ وَالرِّ ضٰی ۔وَالْقَصْدِ فِی الْفَقْرِ وَالْغِنٰی ۔ وَاَنْ اَصِلَ مَنْ قَطَعَنِیْ ۔ وَاُعْطِیَ مَنْ حَرُمَنِیْ۔وَاَعْفُوَ عَمَّنْ ظَلَمَنِیْ ۔ وَاَنْ یَّکُوْنَ صَمْتِیْ فِکْرًا۔ وَنُطْقِیْ ذِکْرًا۔وَنَظَرِیْ عِبْرَۃً وَّ اٰ مُرَ بِالْعُرْفِ وَ قِیْلَ بِالْمَعْرُوْفِ ۔(رواہ رزین)
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے رب نے مجھ کو نو باتوں کا حکم دیا ہے:۱)۔۔۔ چھپے اور کھلے، ہر حال میں اللہ سے ڈرتا رہوں۔۲)۔۔۔ناراضی اور خوشی ، ہر کیفیت میں انصاف کی بات کروں ۔۳)۔۔۔ تنگ دستی اور مالداری،ہر حالت میں میانہ روی اختیار کروں۔ ۴)۔۔۔ جو مجھ سے کٹے ،میں اس سے جڑوں ۔۵)۔۔۔ جو مجھے محروم رکھے ،میں اسے عطا کروں۔۶)۔۔۔ جو مجھ پر ظلم کرے ، میں اسے معاف کردوں ۔ ۷)۔۔۔ میری خاموشی غورو فکر کے لئے ہو۔۸)۔۔۔ میرا بولنا اللہ کی یاد اور ذکر کے تحت ہو۔۹)۔۔۔ میرا دیکھنا عبرت کا دیکھنا ہو، معروف اور اچھی باتوں کا حکم کرتا رہوں اور منکرات اور بری باتوں سے منع کرتا رہوں۔‘‘ (اسے امام رزین ؒ نے روایت کیا ہے ۔ بحوالہ جامع الاصول ۱۱ / ۶۸۷)
گدائی اُن کے در کی کیا بھلا دی
اُٹھا رکھے ہیں ہم نے کتنے کاسے۔۔۔(عزیزبلگامی)
Azeez Belgaumi
No 1 Second Floor 3rd B Cross
Dasappa Garden R.T. Nagar
Bangalore 560032
Email: azeezbelgaumi@hotmail.com
Mobile: +919900222551

()()()

قانونی بے انصافی کا حل قانونی چارہ جوئی: ذیشان مصباحی



بابری مسجد متنازع اراضی کاطویل ترین ۰۶سالہ مقدمہ ۰۳ستمبر۰۱۰۲ءکو فیصل ہوگیا-اس فیصلے پر ”کھودا پہاڑ نکلی چوہیا“ کی مثل پورے طور پر صادق آرہی ہے- اس مقدمے کو فیصل کرنے کے لیے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے لکھنو بنچ نے تین ججز جسٹس دھرم ویر شرما، جسٹس صبغت اللہ خان اور جسٹس سدھیر اگروال کو مقرر کیا تھا- فیصلے کا خلاصہ یہ ہے کہ بابری مسجد کے وسطی گنبد کے مقام کو جس کے بارے میں متعینہ طور پر بھگوان رام کی جائے ولادت ہونے کا ہندو فریق کی طرف سے دعویٰ کیا گیا تھا، وہ درست ہے، اس لیے وہاں پر جو رام کی مورتیاں رکھی گئی تھیں، وہیں رہیں گی، پوجا پاٹ بھی جاری رہے گا، البتہ بابری مسجد اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے گا- ایک حصہ ہندوؤں کو، دوسرا نرموہی اکھاڑا کو اور تیسرا مسلمانوں کو یا بلفظ دیگر دو حصے ہندوں کواور ایک حصہ مسلمانوں کو دے دیا جائے گا- اس مقدمے کے چار بنیادی سوالات تھے، جن کی تحقیقات ہونی تھی، وہ سوالات اور جج صاحبان کے جوابات حسب ذیل ہیں:

۱- کیا بھگوان رام اس مقام پر پیدا ہوئے تھے

جسٹس شرما: ہاں! یہی وہ جگہ ہے جہاں وہ پیدا ہوئے تھے-

جسٹس اگروال: ہندؤں کا عقیدہ و ایمان یہی ہے کہ رام یہاں پیدا ہوئے تھے-

جسٹس خان: ہندو ایک زمانے سے یہ مانتے رہے ہیں کہ بشمول متنازع زمین کے اجودھیا کے اس وسیع خطے میں کہیں نہ کہیں رام پیدا ہوئے تھے- البتہ ۹۴۹۱ءسے چند عشرے قبل سے ہندو یہ ماننے لگے کہ وسطی گنبد کی جگہ ہی اصل رام جنم بھومی ہے-

۲- کیا متنازع عمارت ایک مسجد تھی؟ اگر ہاں تو اس کی تعمیر کس نے اور کب کی تھی؟

جسٹس شرما: یہ عمارت بابر کے ذریعے بنائی گئی تھی- یہ اسلامی تعلیمات کے برخلاف تعمیر ہوئی تھی- اس لیے مسجد نہیں تھی-

جسٹس اگروال: یہ ثابت نہیں ہوسکا ہے کہ عمارت بابر کے ذریعے بنائی گئی تھی یا اس کے عہد حکومت میں بنائی گئی تھی-ویسے مسلمان ہمیشہ اسے مسجد سمجھتے رہے اور اس میں نماز پڑھتے رہے-

جسٹس خان: یہ واضح نہیں ہے کہ اس کی تعمیرکب ہوئی تھی، البتہ یہ یا تو بابر کے ذریعے تعمیر ہوئی تھی یا اس کے حکم سے تعمیر ہوئی تھی اور یہ عمارت مسجد تھی-

۳- کیا اس کی تعمیر کے لیے کسی ہندو مندر کو منہدم کیا گیا تھا؟

جسٹس شرما: اس کی تعمیر ایک پرانی عمارت کو منہدم کر کے ہوئی تھی، جس کے بارے میں آرکیلوجیکل سروے آف انڈیا نے یہ پروف کردیا ہے کہ وہ کوئی بڑی ہندو عمارت تھی-

جسٹس اگروال: اس کی تعمیر ایک غیراسلامی مذہبی عمارت، جو ایک ہندو مندر تھی، کو منہدم کرنے کے بعد ہوئی تھی-

جسٹس خان: یہ ہندو مندروں کے ملبے پر تعمیر ہوئی تھی، جو ملبے ایک زمانے سے وہاں پڑے ہوئے تھے- ملبے سے کچھ میٹریل دوران تعمیر استعمال بھی ہوئے تھے-

۴-مورتیاں کب رکھی گئیں؟

جسٹس شرما اور جسٹس اگروال: وسطی گنبد کے نیچے ۲۲ اور ۳۲ دسمبر ۹۴۹۱ءکی درمیانی شب میں رکھی گئی تھیں-

جسٹس خان: وسطی گنبد کے نیچے ۳۲ دسمبر ۹۴۹۱ءکے ابتدائی گھنٹوں میں رکھی گئی تھیں-

ان بنیادوں پر جو فیصلہ صادر ہوا ہے، اس میں جسٹس سدھیر اگروال اور جسٹس صبغت اللہ خان ایک طرف ہیں اور جسٹس دھرم ویر شرما ایک طرف- جسٹس اگروال اور جسٹس خان کا اکثریتی فیصلہ یہ ہے کہ متنازع اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے گا- ایک حصہ رام للا کو، دوسرا نرموہی اکھاڑا کو اور تیسرا مسلمانوں کے حوالے کردیا جائے گا- اس تقسیم میں اس بات کا خیال رکھا جائے گا کہ وسطی گنبد کی جگہ جسے رام جنم بھومی تسلیم کیا گیا ہے، اسے ہندوں کے حوالے کردیا جائے- اسی طرح رام چبوترا، سیتا رسوئی اور بھنڈارے کی جگہ کو نرموہی اکھاڑا کے حوالے کردیا جائے گا- متنازع اراضی جو2.77 ایکڑ کو محیط ہے، اس کا مکمل ون تھرڈ حصہ مسلمانوں کو ضرور دیا جائے گا- حتمی تقسیم کے لیے متعلقہ فریقین تین مہینے کے اندر اپنی عرضی ہائی کورٹ میں داخل کریںگے-

جسٹس دھرم ویر کا فیصلہ ذرا مختلف ہے، وہ پوری زمین رام للا اور اس کے نمائندوں کے حوالے کرنے کو کہتے ہیں- ان کے مطابق ہندوں کے علاوہ دوسرے فریق ہمیشہ کے لیے اس زمین سے الگ ہوجائیں اور کوئی Interfareیا Objectionنہ کریں اور نہ ہی رام جنم بھومی مندر کی تعمیر میں کوئی رکاوٹ پیدا کریں-

فیصلہ بابری مسجد پر ایک نظر:- بابری مسجد پر جو فیصلہ آیا ہے، وہ کئی اعتبار سے محل نظر ہے- سب سے اہم تبصرہ جو اس پر کیا گیا، وہ یہ ہے کہ یہ فیصلہ قانونی نہیں، پنچایتی ہے- گرام پنچایتوں میں اس وقت ایسا ہی فیصلہ آتا ہے جب مقدمے کا ایک فریق پنچایت کرنے والوں پر بھاری ہو اور دوسرا فریق کو ئی خستہ بے جان ہو- یہ فیصلہ مکمل طور پر یک طرفہ ہوا ہے- اس میں قانون کو نظرانداز کر کے ایک فریق کے آستھا کا احترام کیا گیا ہے، جب کہ دوسرے فریق کے جذبات کا بالکل ہی خیال نہیں رکھا گیا ہے- خصوصاً ایسی صورت میں جب کہ دوسرا فریق ہندوستانی جمہوریہ کے اقلیتی طبقے سے ہے اور صرف ہندوستانی عدلیہ اور سیکولر جمہوریہ پر اعتماد کے سہارے ہی اپنی زندگی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہے، اس کے جذبات کا بالکل خیال نہ رکھنا اس کے اندر مہجوری اور بے اعتمادی کے احساسات جگاتا ہے- اس فیصلے نے جہاں تاریخ اور قانون کو نظرانداز کر کے مسلمانوں کے موقف کو کمزور کیا ہے، وہیں ان کی ہمت، ارادہ اور اعتماد کو بھی بری طرح ٹھیس پہنچایا ہے- وہ خود کو قانونی عدم تحفظ کا شکار محسوس کررہے ہیں-

اس فیصلے کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ اگر آستھا کی بنیاد پر ہونے والے اس فیصلے کو تسلیم کرلیا گیا تو یہ مستقبل میں ہندوستانی عدلیہ کے لیے ایک بری نظیر بن کر سامنے آئے گا اور قانون وانصاف کی بجائے آستھا پر فیصلے دینا اس نظیر کی بنیاد پر جائز ہوجائے گا- اس سے مستقبل میں کب کب اور کہاں کہاں انصاف کے خون کا جواز نکل آئے گا، اس کا صرف تصور ہی کیا جاسکتا ہے-

اس فیصلے میں وسطی گنبد کی جگہ کو متعینہ طور پر بھگوان رام کا جنم استھان تسلیم کرلیا گیا ہے، جب کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ رام کی انسانی شخصیت تاریخی طور پر تسلیم شدہ نہیں ہے- خود فیصلے کے اندر بھی رام کو ایک دیوتا کے طور پر پیش کیا گیا ہے، ایسی صورت میں کسی متعینہ مقام کو ان کا جنم استھان کہنا منطقی طور پر احمقانہ بات ہے- دوسری بات یہ ہے کہ اگر دیوتا کے لیے جنم استھان کو ماننا جائز بھی ٹھہرے تو اس متعینہ مقام کو رام جنم بھومی قرار دینا کھلے طور پر انصاف کا خون ہے، کیوںکہ ہندو روایت میں بھی اس متعینہ جگہ کو رام جنم بھوم نہیں کہا گیا ہے- ۹۴۹۱ءسے کچھ سالوں پہلے سے ہندوں نے محض عقیدت کی بنیاد پر یہ دعویٰ کرنا شروع کیا اور ایک سو سال سے کم کی اس عقیدت کا احترام کرتے ہوئے اس دعوے کو تسلیم کرلیا گیا، جب کہ بہت ممکن ہے کہ آستھا کا یہ ڈھونگ شرپسند عناصر صرف مسجد کو منہدم کرنے یا اسے مندر میں تبدیل کرنے کے لیے رچے ہوں-

اس فیصلے کو بندر بانٹ فیصلہ کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا، فرق صرف یہ ہے کہ بندر بانٹ کی تمثیل میں دونوں فریق اپنے حصے سے محروم ہوجاتے ہیں، جب کہ اس تقسیم میں صرف ایک فریق محروم ہورہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو جی بہلانے کے لیے دو ججز نے ایک تہائی زمین دینے کا فیصلہ تو کیا ہے، مگر ایک جج دھرم ویر شرما نے پوری زمین ہندوں کے حوالے کردینے کی بات کہی ہے اور ویسے بھی مختلف ہندو قائدین نے مسلمانوں سے اپنے حصے سے دست بردار ہونے کا اخلاقی مطالبہ کرنا شروع کردیا ہے، دوسری طرف ہندو تنظیمیں قانونی طور پر مکمل ملکیت کے لیے سپریم کورٹ جانے کی بات کر رہی ہیں، خود مسلمان بھی تھک ہار کر یہی سوچنے پر مجبور ہوجائیںگے کہ جب مسجد کی جگہ رام مندر بن ہی جائے گا تو ایک تہائی زمین لے کر آخر ہم کیا بوئیںگے؟ اس لیے آج نہیں تو کل نام نہاد دانشوران ملت اس وسعت ظرفی کے لیے ضرور تیار ہوجائیںگے اور نتیجہ میں مسلمانوں کو صفر ملے گا-

آستھا کی بنیاد پر ہونے والایہ فیصلہ پوری دنیا کے سامنے ہندوستانی عدلیہ میں قانون کی زیر دستی کا اشتہار بن کر سامنے آیا ہے- اس سے ہندوستانی جمہوریہ کی سیکولر ساکھ بھی متاثر ہوگی اور دنیا کی سب سے بڑی اس جمہوریہ میں اقلیتوں کے حقوق کی پامالی بھی مشتہر ہوگی- اس جمہوریہ کی پیشانی سے گجرات میں حکومت کی زیر نگرانی اقلیتی فرقے کے قتل عام سے جو داغ لگا تھا، وہ ابھی دھل بھی نہ سکاتھا کہ آستھا کو بنیاد بنا کر اقلیتی فرقے کو اس کے حقوق سے محروم قرار دے کر اس پیشانی کو مزید بدنما بنادیا گیا- اس کے برخلاف اگر قانون کے مطابق فیصلہ آیا ہوتا تو اس سے گجرات سانحہ کے داغ کو بہت حد تک مٹایا جاسکتا تھا اور اس موقع پر مسلمانوں کے سینے پر جو زخم آیا تھا، بڑی حد تک اس کا مداوا بھی ہوجاتا، مگر یہ کیا کہ آستھا کے اس احترام نے تو ان کے زخم کو مزید کرید کر رکھ دیا اور ان کے اندر خوف، حرماں، مایوسی، قانونی عدم تحفظ، عدالتی بے انصافی اور اقلیت اور کمزور ہونے کے احساسات کو مزید جگادیا-اس فیصلے کا ایک منفی اثر یہ بھی ہے کہ اس نے متنازع زمین کو ہمیشہ کے لیے مقفل کرنے یا کسی اور صورت پر مصالحت کرنے کے امکان کو تقریباً ختم کردیا ہے- اس لیے کہ اس فیصلے سے جیسے ہندو فریق کے منہ میں خون لگ گیا ہے اور صلح کے بجائے قبضہ پر اس کا اصرار بڑھ گیا ہے-اس فیصلے کو بعض مبصرین سیاسی فیصلہ بھی کہہ رہے ہیں- ان کا اشارہ کانگریس کی اس میٹھی چھری کی طرف ہے، جس سے وہ ہمیشہ مسلمانوں کی قربانی کا نیک فریضہ انجام دیتی رہی ہے-

فیصلے پر رد عمل:اس فیصلے کا ہندوستانیوں کو شدت سے انتظار تھا- آخری وقت تک عدلیہ کے انصاف اور ہندوستانی عوام کی طرف سے فساد کی توقع لگائی جاتی رہی، لیکن نتیجہ دونوں صورت میں خلاف توقع نکلا- عدلیہ نے اپنے سیکولر کردار کو مشکوک قرار دے دیا، جب کہ ہندوستانی عوام نے اپنے بالغ نظری، تعلیمی ذہن، پختہ شعور اور سنجیدہ مزاج کا ثبوت فراہم کردیا- اس ضمن میں سب سے قابل تعریف کردار ہندوستانی مسلمانوں کا رہا- ان کے خلاف فیصلہ آنے کے باوجود ان کی طرف سے پورے ملک میں کوئی ایک بھی خلاف قانون قدم نہ اٹھایا جانا، ان کی سنجیدگی، مثبت طرز عمل اور بالغ شہریت کا کھلا اشاریہ ہے- مسلمانوں کی طرف سے اس پر جو بیانات آئے وہ بھی بہت ہی مثبت اور درست تھے- تقریباً تمام مسلم تنظیموں، نمائندوں اور افراد نے متفقہ طور پر یہی بات کہی کہ اس کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی جائے گی اور قانونی جنگ جاری رہے گی- اس ذیل میں استثناکے طور پر بعض ”دانشوران ملت“ کے بیانات ایسے آئے جو سیکولر اسٹیٹ کے کسی پختہ ذہن سے متوقع نہیں ہوسکتے- ان میں ایک معروف اسکالر مولانا وحیدالدین خان اور دوسرے معروف صحافی جناب عزیز برنی سرفہرست ہیں-فیصلہ آنے کے بعد ایک ٹیلی ویژن چینل کے نمائندے نے جب مولانا وحیدالدین خان سے یہ دریافت کیا کہ اسلامی قانون کے مطابق مسجد کی تعمیر کہاں ہونی چاہیے؟ اس پر خاں صاحب نے حسب توقع اپنا جواب مرحمت فرمایا: ”مسجد غصب کی ہوئی زمین پر نہیں بنائی جاسکتی- ویسے یہ معاملہ اتنا پیچیدہ ہوگیا ہے کہ اس کا فیصلہ اسلامی قانون سے نہیں دیاجاسکتا- یہ معاملہ حکومت کے حوالے کردینا چاہےے- حکومت ہی اس کا فیصلہ کرسکتی ہے-“ ظاہر ہے مولانا نے اپنے جواب میں سوال سے زیادہ اور غیرمتعلقہ باتوں کو شامل کرلیا- اس میں ایک طرف اس بات کا اشارہ اور اعتراف گناہ ناکردنی ہے کہ بابر نے زمین غصب کر کے مسجد کی تعمیر کی، جو بات اب تک کوئی ہندو نمائندہ بھی کہنے کی جرات نہیں کرسکا ہے، دوسری طرف اسلامی قانون سے بے وجہ دست برداری اور جدید حالات میں اس کی عدم نارسائی کی بات کی گئی ہے، جب کہ اسلامی شریعت میں تمام حالات کے لیے مسائل کاقابل انطباق حل موجود ہے،حتیٰ کہ اضطرار اور مجبوری کاحل بھی اسلامی شریعہ فراہم کرتی ہے- نہ اس ٹی وی نمائندے نے یہ سوال کیا تھا کہ اس مسئلے کا حل اسلامی شریعت میں کیا ہے؟ یا یہ کہ اسلامی شریعت سے اس مسئلے کا حل ممکن ہے یا نہیں؟ اس نے مسجد کی جائے تعمیر کے سلسلے میں ایک سادہ سوال کیا اور اس کی امید سے زیادہ حوصلہ افزا جواب عنایت فرما کر مولانا نے شاعر مشرق کے ان اشعار کی یاد تازہ کردی، جو دور غلامی میں مسلم ذہنیت کی تصویر کھینچتے ہیں:

از نگاہش دیدنی ہا در حجاب

قلب او بے ذوق و شوق انقلاب

سوز مشتاقی بکردارش کجا

نور آفاقی بگفتارش کجا

مذہب او تنگ چو آفاق او

از عشا تاریک تر اشراق او

زندگی بار گراں بر دوش او

مرگ او پروردہ آغوش او

۱- اس کی نگاہ سے تمام حسین مناظر اوجھل ہیں اور اس کا دل ذوق انقلاب سے محروم ہے-

۲- اس کے کردار سے اشتیاق و جستجو کی گرمی کہاں پیدا ہوسکتی ہے اور اس کی باتوں میں آفاقیت کا نور کہاں آسکتا ہے؟

۳- اس کا مذہب اس کی سوچ کی طرح تنگ ہے اور اس کی صبح اس کی رات سے بھی زیادہ تاریک ہے-

۴- زندگی اس کے کندھے پر ایک بھاری بوجھ ہے اور اس کی موت اسی کی آغوش کی پروردہ ہے-

فیصلے پر جناب عزیز برنی نے اپنے خلاف توقع اور استثنائی رد عمل کا اظہار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے اپنے طویل کالم میں ۲اکتوبر ۰۱۰۲ءکو ”کیا ضروری ہے سپریم کورٹ جانا- ذرا غور کریں!“ کے عنوان سے لکھا ہے- موصوف اس فیصلے کو ”تاریخ ساز“ قرار دیتے ہوئے رقم طراز ہیں: ”میں اپنی اس تحریر کی معرفت اپنے قارئین کی خدمت میں جو عرض کرنا چاہتا ہوں، وہ بھی میرے لیے اتنا ہی مشکل فیصلہ ہے، جتنا کہ اس تاریخ ساز فیصلہ کو انجام دینے والے جسٹس ایس یو خان، جسٹس دھرم ویر شرما اور جسٹس سدھیر اگروال کے لیے مشکل رہا ہوگا-“

اس کے بعد جو بات انہوں نے کہی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ فیصلہ تاریخ ساز اس لیے ہے کہ اگر اس کے خلاف، آستھا کو رد کرتے ہوئے قانون کی روشنی میں فیصلہ آتا تو ہندوستان کا امن و اتحاد غارت ہوجاتا- اگر ہم اس فیصلہ کو تسلیم کرکے ہندوں کے ساتھ مندر تعمیر میں تعاون کرتے ہوئے ہم خود اپنی مسجد تعمیر کرتے ہیں تو اس سے ایک اچھا تاثر جائے گا نیز ایک جگہ مسجد اور مندر کا وجود ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی علامت کے طور پر سامنے آئے گا- برخلاف اس کے اگر ہم سپریم کورٹ جاتے ہیں تو ایک تو فیصلے کے ساتھ ہماری عدم رضامندی کا اظہار ہوگا- ثانیاً ہم اگلی نسل کو پھر اسی مسئلے میں الجھا دیںگے اور پھر ایک لمبی مدت کے بعد اگر فیصلہ ہمارے حق میں آتا بھی ہے تو اس کے بعد جو صورت حال پیدا ہوگی، اس سے نمٹنا آسان نہ ہوگا- خون خرابہ یقینی ہوگا- امن غارت ہوگا اور مسلمانوں کا خون بہے گا- نیز فیصلے کا نفاذ بھی مشکل ہوگا- دونوں فریق میں کشیدگی الگ بڑھتی رہے گی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر فیصلہ وہاں سے بھی یہی آتا ہے یا اس سے بھی برا آتا ہے تو پھر ہم کہیں کے نہیں رہیںگے-

برنی صاحب نے جو کچھ کہا ہے، اس کے لیے ہم ان کی نیت پر شبہ نہیں کرسکتے- اپنی بات کو جن دلائل سے مستحکم کیا ہے، ان کی داد دیے بغیر بھی نہیں رہ سکتے، لیکن اس کے باوجود یہاں چند معروضات پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں، جو قابل نظرانداز نہیں ہیں-

۱-برنی صاحب جو بات آج کہہ رہے ہیں یہ تو انہیں سالوں پہلے کہنی چاہیے تھی- اس لیے کہ قانون کے مطابق فیصلہ آنے کی صورت میں جن خدشات کا اظہار فیصلے کے بعد کیا ہے، ان کا اظہار پہلے ہونا چاہیے تھا تاکہ ان خدشات کے مطابق متوقع فیصلے کے ضرر سے مسلمانوں کو بچایا جانا ممکن ہوجاتا اور مسلمان سالہا سال تک اپنی انرجی لاس کرنے سے بچ جاتے- زمین فریق مخالف کے حوالے کردیتے اور خود پر امن زندگی گزارتے-

سب کچھ لٹاکے ہوش میں آئے تو کیا کیے؟

۲- موصوف فیصلے کو تسلیم کرنے کی صورت میں جن خوش گوار خیالی مناظر سے خود کو لطف اندوز کر رہے ہیں انہیں کون بتائے کہ اگر مسلمان ان کا مشورہ تسلیم کربھی لیتے ہیں جب بھی ان مناظر کی زیارت سے ان کی آنکھیں محروم ہی رہیںگی- برنی صاحب کی یہ تحریر ۲ اکتوبر کو چھپی ہے جسے یقینی طور پر انہوں نے یکم اکتوبر کو لکھا ہوگا، مگر حیرت ہے کہ ان جیسے وسیع نظر صحافی سے یکم اکتوبر کے اخبار جو ۰۳ستمبر کے فیصلے کے فوراً بعد چھپا ہے، کی پہلے صفحے کی یہ خبر کیسے اوجھل رہ گئی؟

Though the Hindu side claimed to have won, it declared its intention to go in appeal to the Supreme Court, arguing that since Ram Janamasthan hav been accepted, the entire desputed site at Ayodhya should be handed over for the construction of a temple.(Times of India, New Delhi)

”گرچہ ہندو فریق نے فتح کا اعلان کردیا ہے، ساتھ ہی اس نے سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا اپنا عندیہ بھی ظاہر کردیا ہے تاکہ وہ یہ بات کہہ سکے کہ چوں کہ رام جنم استھان تسلیم کرلیا گیا ہے، اس لیے اجودھیا کی پوری متنازع زمین مندر تعمیر کے لیے حوالے کردینا چاہیے-“

خود برنی صاحب کے اخبار میں ان کے اس کالم کے ساتھ یہ خبر بھی چھپی ہے: ”اجودھیا کے مقدمہ میں ایک فریق ہندو مہاسبھا نے آج کہا کہ پوری متنازع زمین رام للا کی ہے اور یہاں مسجد کی تعمیر قابل قبول نہیں ہوسکتی ہندو مہاسبھا کو متنازع مقام کی تقسیم قبول نہیں ہے اور وہ سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرے گا-“

۳- برنی صاحب نے قانونی فیصلے کی صورت میں جن خدشات کا اظہارکیا ہے، وہ ممکن ضرور ہیں یقینی نہیں- پھر قیام امن کے لیے مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے جو تیاریاں کی تھیں، وہ بڑی حد تک اطمینان بخش تھیں- پھر یہ حکومت کی اپنی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنی عدالت کے قانونی فیصلے کو قانونی طور پر نافذ کرے اور اس کے خلاف شرپسندوں کی سازش کو ناکام بنائے- فیصلہ کرنے میں یا اس کو نافذ کرنے میں مسلمان کہیں سے کہیں تک نہیں تھے کہ انہیں مورد الزام ٹھہرانا درست ہو-

۴- سپریم کورٹ میں جانے کو صرف اس پہلو سے دیکھنا کہ اس سے عدالتی فیصلے سے عدم رضا مندی کا اظہار ہوتا ہے اور اگلی نسل کو اس مسئلے میں الجھانا ہے، یہ درست نہیں ہے- اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ مسلمان سیکولر ریاست میں اپنے قانونی حق کا استعمال جانتا بھی ہے اور کرتا بھی ہے اور ایسا کرنا اگلی نسل کو الجھانا نہیں ہے، بلکہ اسے انصاف کی لڑائی کے لیے ذہنی طور پر تیار کرنا ہے اور اس کے سامنے خود اپنی ذمہ داری سے سبک دوش ہونا ہے کہ اگلی نسل کہیں ہمیں بے وقوفی، جہالت اور بزدلی کا طعنہ نہ دے-

۵- فیصلے کے بعد جو ہندوستانیوں کا رد عمل آیا وہ ان کے شعور کی پختگی اور ان کی سنجیدگی کا واضح اشاریہ ہے- آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کی زبان سے بھی یہ الفاظ نکلے کہ ”اس فیصلے کو کوئی فتح و شکست کے طور پر نہ دیکھے اور نہ ہی کوئی ایسی بات کہے، جس سے دوسرے فریق کی دل آزاری ہو-“ یہ بات اس چیز کا واضح ثبوت ہے کہ ہندوستانی ذہن پہلے کی بہ نسبت زیادہ Mature، سنجیدہ اور حقیقت پسند ہوا ہے- اس لیے اگر مستقبل میں سپریم کورٹ سے قانون کی جیت ہوتی ہے تو اس کی وجہ سے ۶دسمبر کے دہرائے جانے کی توقع بہت ہی کم ہوگی- انتظام و انصرام کے حوالے سے حکومت کی حساسیت اس پر مزید ہے-

۶-ہر کیس میں اور ہر عدالت میں فتح و شکست دونوں امکانات ہوتے ہیں- یہی دونوں امکان سپریم کورٹ میں جانے کی صورت میں بھی ہیں- لہٰذا اس امکان کو بنیاد بنا کر سپریم کورٹ نہ جانے کی وکالت انتہائی حد تک سادہ لوحی ہے- یوں تو ہر شخص کو یہ مشورہ دینا پڑے گا کہ کسی بھی معاملے میں اور کسی بھی صورت میں تم عدالت کا رخ نہ کرو کہ اس سے تمہارے فریق سے کشیدگی بڑھے گی پھر یہ کہ ممکن ہے کہ تمہارے حق میں فیصلہ نہ ہو- پھر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سپریم کورٹ سے بہرحال قانون کی جیت متوقع ہے، لہٰذا وہاں جانا قطعا حماقت نہیں ہے- یہ سوچ کر رک جانا حماقت ہے کہ اگر فیصلہ ہمارے حق میں نہیں آیا تو کیا ہوگا؟

۷- برنی صاحب فیصلے کی دوسری صبح کے اپنے ہی اخبار کی یہ خبر بھی پڑھ لیں اور اپنی وسعت نظری کے تناظر میں کچھ اس کا حل بھی بتادیں:

”وشو ہندو پریشد نے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہاہے کہ کورٹ نے کروڑوں ہندوں کے عقیدے کا احترام کیا ہے اور یہ ہندوستانیوں کے لیے فخر کا موضوع ہے- آچاریہ گری راج کشور نے کہا ہے کہ مسلمان بھائیوں کے لیے اچھا موقع ہے کہ وہ ماضی کی باتیں بھول کر کاشی اور متھرا کا دعویٰ بھی چھوڑ دیں، جب کہ وی ایچ پی کے جنرل سکریٹری پروین توگڑیا نے کہا ہے کہ اس فیصلے سے ہندو سماج کو انصاف ملا ہے سنی وقف بورڈ کو ایک تہائی زمین دینے کے فیصلے پر تبصرے سے گریز کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلے فیصلے کے اس حصے کا مطالعہ کیا جائے گا، اس کے بعد پھر کوئی فیصلہ کیا جائے گا-“

(روزنامہ راشٹریہ سہارا، دہلی، یکماکتوبر ۰۱۰۲ئ)

۸- اس فیصلے کو اگر مسلمان بہ آسانی تسلیم کرلیتے ہیں تو آستھا پر کیا جانے والا یہ فیصلہ ایک نظیر بن جائے گا اور اس کی وجہ سے مستقبل میں مسلمانوں کو بہت سے حقوق اور عمارتوں سے دست بردار ہوجانا پڑے گا- برنی صاحب اس پہلو کو کمزور ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ”یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ شری رام جنم بھومی ایک ہی ہوسکتی ہے- ہم دیگر مساجد کے لیے اس معاملہ کو نظیر کیوں سمجھیں- پھر بھی اگر خدشہ ہو تو اس سمت میں مناسب پیش رفت کریں-“

(روز نامہ راشٹریہ سہارا، ۲ اکتوبر۰۱۰۲ئ)

برنی صاحب کے حضور اپنی طرف سے کچھ نہ کہہ کر ان کے اخبار کی اسی اشاعت میں چھپنے والے سنتوش بھارتیہ کے مضمون کا یہ اقتباس نذر کرتے ہیں:”اس فیصلے نے ایسے سوال کھڑے کیے ہیں، جن کا حل نکلنا ضروری ہے، وگرنہ ملک میں ایک نئے فرقہ وارانہ دور کی شروعات ہوجائے گی- جماعتیں عقیدت کے نام پر مسجدوں، بودھ مٹھوں اور جینیوں کے مندروں کے خلاف عدالت میں جائیںگی اور الٰہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو نظیر کی شکل میں استعمال کریںگی-“

زیر بحث فیصلے کی تین رکنی کمیٹی میں شامل جناب صبغت اللہ خان کاایک بیان ۲اکتوبر کے تقریباً تمام اخبارات نے چھاپا ہے، جس میں انہوں نے (اپنے) اس فیصلے کو صلح حدیبیہ سے تشبیہ دی ہے، جو صلح مسلمانوں کی طرف سے بظاہر دب کر ہوئی تھی اور دعوت اسلام کی وسیع اشاعت کا سبب اور بعد میں ظہور پذیر ہونے والی فتح مبین کا پیش خیمہ ثابت ہوئی تھی- جناب صبغت اللہ خان کے بقول یہ موقع ہے کہ مسلمان اپنی مظلومیت کو پیش کر کے دعوت اسلام کا زبردست کام کریں-

جسٹس صبغت اللہ خان نے مسلمانوں کے حضور اپنی صفائی کے لیے دراصل ایک درست واقعے سے ایک نادرست نتیجہ نکالنے کی غلطی کی ہے- اس واقعے کو صلح حدیبیہ کی نظیر اس لیے قرار نہیں دیاجاسکتا کہ صلح حدیبیہ سے جہاں دعوت اسلامی کی عام اشاعت اور مکة المکرمہ میں آمد و رفت کا آغاز ہو رہا تھا، وہیں مستقبل قریب میں پیش آنے والی فتح مبین کو نگاہ نبوت دیکھ رہی تھی- یہاں پر ایسا کوئی نیا امکان مسلمانوں کے لیے پیدا نہیں ہورہا ہے کہ اس فیصلے کو صلح حدیبیہ کی نظیر قرار دیا جائے، بلکہ اس کے برخلاف اس فیصلے کو نظیر بتا کر زندگی کا حصار ان کے گرد مزید تنگ سے تنگ کردیا جائے گا- آر ایس ایس، بجرنگ دل، وشوہندو پریشد اور اس طرح کی بی جے پی کی ذیلی شرپسند تنظیمیں ایک کیس کے بعد دوسرے کیس کے شور الرحیل بلند کرنے کے لیے ہمہ دم تیار ہیں- بس ایک صورت ہے کہ اس تناظر میں اس واقعے کو ایک حد تک صلح حدیبیہ سے تشبیہ دی جاسکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ان تنظیموں کی شرپسندی سے نجات کی ضمانت کو یقینی بنادیا جائے، جس طرح صلح حدیبیہ کے بعد اہل مدینہ اہل مکہ کی شرپسندی سے محفوظ ہوگئے تھے، مگر کیا یہ ممکن ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس کے بعد ہر سال ایک مسجد ہندوں کے حوالے کر کے مسلمانوں کو ایک نئی صلح حدیبیہ کرنی پڑے؟ صلح حدیبیہ کا نام لینے والے اس پہلو پر بھی سوچیں!

فیصلے کے بعدآنے والے چند ممتاز سیکولر ہندوں کے بیانات کو یہاں نقل کرنا فائدے سے خالی نہیں ہوگا-

ملائم سنگھ یادو:- اس فیصلہ میں قانون اور ثبوت پر عقیدت کو ترجیح دی گئی ہے اور اس فیصلہ سے مسلمان خود کو ٹھگا ہوا محسوس کر رہا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ مسلم طبقہ اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ جائے گا جہاں ثبوتوں اور قانون کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے گا، جس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا-

رام ولاس پاسوان:- اجودھیا میں بابری مسجد-رام جنم بھومی زمین کے مالکانہ حقوق کے تعلق سے کورٹ کے فیصلے سے مسلمانوں کو مایوسی ہوئی ہے، بی جے پی، آر ایس ایس، بجرنگ دل اور وی ایچ پی اسے اپنی جیت کے طور پر نہ دیکھیں- اس فیصلے سے مسلمانوں کو یقینا مایوسی ہوئی ہے، لیکن اسے وہ آخری فیصلہ نہ سمجھیں کیوں کہ فریق سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کی تیار کر رہی ہے-

پرشانت بھوشن(سینئر وکیل سپریم کورٹ):- سوال صرف عقیدے ہی کا نہیں ہے- یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے- اگر حکومت کو یہ فیصلہ کرنا ہوتا کہ کس کو کتنی جگہ دینی ہے تو وہ یہ فیصلہ ضرور کرسکتی تھی، لیکن کسی عدالت کو یہ اختیار نہیں ہے- یہ فیصلہ قانون کے نظریہ سے سپریم کورٹ میں نہیں ٹک سکتا- اگر عقیدے کی بنیاد پر فیصلے آنے لگے تو آگے چل کر ملک کے سیکولر تانے بانے کو بہت خطرہ لاحق ہوگا-

راجیو دھون(ماہر قانون):- یہ کچھ اس طرح کا فیصلہ ہے جیسا پنچایتیں سناتی ہیں-

مسلم قائدین اور بابری مسجد کیس کا مستقبل:- الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر تمام مکاتب فکر اور میدان زندگی سے وابستہ مسلم قائدین اور نمائندوں کا تقریباً متفقہ رد عمل یہ رہا کہ ہمیں انصاف کے لیے سپریم کورٹ کے دروازے پر دستک دینی چاہیے- یہ مسلمانوں کی طرف سے ہونے والا نہایت قابل تعریف اور مثبت رد عمل تھا- بابری مسجد کیس میں بالخصوص اور دیگر مشترکہ مسائل میں بالعموم اگر مستقبل میں مسلمانوں کا یہی رویہ رہتا ہے، جس کی توقع بھی ہے، تو ہندوستانی مسلمان حکومت و عدالت کے سامنے اپنا وزن اور وقار قائم رکھنے میں یقینی طور پر کامیاب رہیںگے اور سپریم کورٹ سے بابری مسجد معاملے میں انصاف کی امیدیں بھی مضبوط ہوجائیںگی-

قانونی جد و جہد کو جمہوری سیکولر ریاستوں میں بنیادی حق کے بطور تسلیم کیا گیا ہے- مسلمانوں کو اس حق کے دانش مندانہ استعمال میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے- پوری دنیا میں مسلمان کہیں حجاب کے لیے تو کہیں اسلامی سینٹرز اور مساجد کی تعمیر کے لیے قانونی جنگ لڑ رہے ہیں اور انہیں نہ تو کوئی بری نظر سے دیکھ رہا ہے اور نہ وہ احساس کمتری کا شکار ہیں- دنیا کی عظیم جمہوریہ ہندوستان کے مسلمانوں کو بھی اپنے اس حق کے استعمال میں جی جان سے اور فہم و فراست سے لگ جانا چاہیے- قانونی چارہ جوئی کوئی دہشت گردی یا تشدد نہیں، بلکہ بالغ شہریت کی علامت ہے اور جب قانونی چارہ جوئی ہی کی بات ہے تو سپریم کورٹ ہی کیا، اگر اس کے بعد بھی کوئی قانونی آپشن اور امکان باقی رہے تو مسلمانوں کو اس کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے- اس چیز کو بہت لوگ منفی طور پر لیتے ہیں کہ اس طرح تو سارے مسلمانوں کو ایک مسئلے میں ایک طویل مدت تک الجھائے رکھنا ہوگا- ایسے لوگوں سے گزارش ہے کہ وہ معاملات اور اصولوں کو مثبت طور پر دیکھنے کے عادی بنیں- یہ بات غلط ہے کہ اس میں سارے مسلمان الجھے رہیں گے- اس معاملے کو سنی وقف بورڈ اور مسلم پرسنل لابورڈ کے چند افراد دیکھیںگے، بلکہ وہ بھی ایک مشورہ کر کے معاملات کو وکلا کے حوالے کردیںگے جیسے دیگر قانونی مسائل میں ہوتا ہے- باقی ہندوستان کے تمام مسلمان اپنی اسی روز مرہ کی زندگی میں لگے رہیں گے- کسی کا کوئی کام معطل نہ ہوگا- یہ بہکاوے کی بات ہے کہ سارے مسلمان اس میں الجھے رہیں گے- اس سے مسلمانوں کی زندگی کا سفر رکے گا اور نہ ہی ان کے ارتقا کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوگی، پرابلم صرف منفی سوچنے والوں کے ذہن میں، ان کی خود ساختہ ہے-

ایسے افراد ذہنی طور پر احساس کمتری کا شکار ہیں- وہ خود کو بادشاہی دور سے محروم اور عہد غلامی میں محبوس محسوس کررہے ہیں- انہیں کون بتائے کہ آج کا مسلمان اگر ہندوستان کا بادشاہ نہیں ہے تو غلام بھی نہیں ہے- وہ سیکولر اسٹیٹ کا باشندہ ہے، جو من وجہٍ حکم راں اور شریک اقتدار ہے- سیکولر اسٹیٹ انہیں قانونی طور پر عدل و انصاف کی ضمانت دیتا ہے اور وہ پر امن جد و جہد اور احتجاج کے ذریعے انصاف اور حق پانے کے مجاز ہیں، اس میں دو رائے نہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ قانونی اور سیاسی سطح پر اب تک بہت سی ناانصافیاں ہوئی ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ انصاف کی جنگ بند کردیں یا وہ خود سپردگی پر آمادہ ہوجائیں- خودسپردگی کبھی بھی حل نہیں ہے- جو لوگ صلح حدیبیہ کو یک طرفہ طور سے خودسپردگی کا نام دیتے ہیں،وہ معاملات کو صرف ایک پہلو سے دیکھنے کے عادی ہیں-

ہندوستانی مسلمانوں کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ان کے ساتھ اب تک جو قانونی اور سیاسی ناانصافیاں ہوئی ہیں، ان میں اکثریتی فرقہ کے متعصبانہ برتاو کے علاوہ خود ان کے اندر معاملہ فہمی، اعلیٰ تعلیم، عزم و ارادہ، صحیح سمت میں کوشش، صحیح طرز فکر و عمل اور مخلصانہ جہد مسلسل کا فقدان بھی ایک بڑا سبب رہا ہے- جدید ہندوستان کے اکثریتی فرقے میں تعصب کم ہو رہا ہے، بہت سے ہندو مسلمانوں کو انصاف دینے کی باتیں کر رہے ہیں اور مسلمانوں کی نئی نسل اعلیٰ تعلیم کی تحصیل کے علاوہ سیکولر ریاست میں باوقار زندگی کے اسرار سے بھی واقف ہوگئی ہے- نئی نسل میں فکر و شعور اور عزم و ارادہ بھی بڑھا ہے- غلامانہ ذہنیت اور حاکمانہ غرور اس کے دماغ سے دور ہورہا ہے اور وہ آزادانہ اور منصفانہ غور و فکر کرنے لگی ہے، اس لیے حقوق کی بازیافت کے لیے قانونی چارہ جوئی وقت اور حالات کے عین مطابق ہے- حیرت ہے کہ ۲فیصد سکھ تو قانونی جنگ لڑ رہے ہیں، انہیں ان کا حق مل رہا ہے، وہ تعلیمی اور اقتصادی ترقیات سے بھی بہرہ ور ہو رہے ہیں اور۵۱ فیصد مسلمانوں پرخوف اور بزدلی ایسی طاری ہے کہ یا تو وہ قانونی جنگ سے بھاگنے کو تیار ہیں یا انہیں قانونی جنگ کا سلیقہ ہی نہیں معلوم- مسلمانوں کو یہ بات گرہ میں باندھ لینی چاہیے کہ سیکولر ریاست میں قانونی بے انصافی کا صرف ایک حل ہے اور وہ ہے قانونی چارہ جوئی- وہ جنگ نہ کریں، تشدد پر آمادہ نہ ہوں، لیکن پرامن احتجاج اور قانونی چارہ جوئی جو سیکولر ریاست انہیں حق کے طور پر عطا کرتی ہے اس سے کبھی بھی دست بردار نہ ہوں- یہ ایک ساتھ بزدلی بھی ہے اور حماقت بھی-

بابری مسجد معاملہ:مسلمانوں کا اگلا قدم کیا ہو؟:ڈاکٹر خواجہ اکرام


بابری مسجد معاملہ:مسلمانوں کا اگلا قدم کیا ہو؟

بابری مسجد کے فیصلے کے بعد عوامی سطح پر اس فیصلے کے بعد بحث و تمحیث کے کئی نئے گوشے وا ہو گئے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس فیصلے کے بعد کم از کم اتنا تو طے ہو گیا ہے کہ دنیا میں یہ واحد ایسا فیصلہ قرار پا یا ہے جس کی بنیاد حقائق کے بجائے اساطیری عقیدے پر ہے۔ اسی لیے ہر چہار جانب سے اس فیصلے پر گفتگو ہو رہی ہے ۔اس فیصلے کے حوالے سے دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس فیصلے کی آمد نے پورے ہندستان میں ایک سنسنی پھیلا دی تھی ، ریاستی اور مر کزی حکومت کے ساتھ ساتھ مختلف سماجی اور سیاسی تنظمیں ہر طرف سیکورٹی اور امن و امان کی دہائی دیتی نظر آرہی تھیں ۔ایودھیا سمیت تمام حساس شہر فوج کی چھاؤنی میں تبدیل ہو گیاتھا ۔ڈر یہ تھا کہ اس فیصلے سے امن و امان کی فضا خراب ہوسکتی تھی لیکن مقام شکر ہے کہ حکومت کی مستعدی نے ملک کی فضا کو خراب ہونے سے بچایا۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ یہ فیصلہ مسلمانوں کے توقعات کے بر خلاف تھا،اگر یہ فیصلہ اکثریتی فرقے کے خلاف ہوا ہوتا تو ملک میں سکون کا یہی ماحول ہوتا یا نہیں؟ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا ہے ۔ لیکن اس سے ایک نتیجہ جو نکل کر سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ حکومت اگر چاہ لے تو ملک میں کہیں بھی ، کسی بھی حالت میں اورکسی طرح کاہنگامہ نہیں ہوسکتا۔ اگر حکومت نے 1992ء میں بھی اس طرح کی مستعدی دیکھائی ہوتی تو شاید بابری مسجد شہید نہیں ہوتی۔جو احتیا ط حکومت کو اس وقت برتنی چاہیے تھی وہ تو نہیں کر سکی اور آج احتیاط کا یہ عالم کہ سچ بات کہنے سے بھی حکومت گریز کر رہی ہے۔ خیر یہ تو فیصلے کے حوالے سے چند پہلو تھے لیکن جہاں تک فیصلے کا تعلق ہے تو عدلیہ کے پورے احترام کے ساتھ یہ بر جستہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ فیصلہ کورٹ کا فیصلہ نہیں لگتا ۔ پورے مقدمے میں جو کہیں فریق نہیں یعنی ہندو مہا سبھا اس کو فریق بنا کر کورٹ نے زمین کے ٹکڑے کیسے دے دیئے اور صدیوں سے جہاں مسجد ہونے کے شواہد موجود ہیں اُسے نظر انداز کر کے ہندؤں کے آستھا کو نظر میں رکھتے ہوئے اور یہ بھی جانتے اور مانتے ہوئے کہ وہاں 1949 میں جبراً مورتی رکھی گئی تھی ، یہ فیصلہ کیسے سنا دیا گیا کہ وہاں رام کی جائے پیدائش ہے اور ٹھیک اسی جگہ، جہاں درمیانی گنبد تھا۔اے ایس آئی (ASI )کی رپورٹ جس کی بنیاد پر رام کے جنم استھان ہونے کی بات کہی گئی ہے وہ بھی بہت مبہم اور غیر واضح ہے ۔ اے ایس آئی کی رپورٹ میں کہیں کوئی ایسا واضح ثبوت نہیں ہے اور نہ کھدائی کے دوران وہاں سے کوئی مورتی بر آمد ہوئی ہے جس کی بنیاد پر یہ کہہ سکیں کہ شاید وہاں کوئی مندر رہا ہوگا۔ فیصلے کے بعد ملک کے تقریباً سو تاریخ دانوں نے تحریری طور پر اس پر اپنی آواز بلند کی ہے اور اے ایس آئی کی رپورٹ کی بنیاد پر مندر مانے جانے کی خلاف بات کی ہے ۔اس لیے اس رپورٹ کو جس طرح پیش کیا گیا اور جس انداز سے اس کی تشریح کی گئی ہے وہ سب قابل غور ہیں اسی لیے ہمیں آئینی طور پر یہ حق حاصل ہے کہ اس پر بات کریں ۔ اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں دوبارہ لے جانے کے حق کا مطلب یہی کہ ہم اس فیصلے پر بات کریں اور اپنے تحفظات کو آئینی اور قانونی طور پر پیش کریں ۔ ساٹھ سا ل کے طویل وقفے کے بعد جس طرح کا فیصلہ سنایا گیا ہے اس پر اعتراض اس لیے ہے کہ فیصلے میں جس طرح کے عینی اور تاریخی ثبوت کوبروئے کار لایا جانا چاہیے تھا وہ نہیں ہوا ۔خاص طور پر پوری زمین کا فیصلہ نہ کر کے صرف جس زمین پر مسجد تعمیر تھی ، اس کے متعلق فیصلہ سنانا اور باقی زمین کے حوالے سے خاموش رہ جانا ۔یہ تو بالکل پنچائیتی فیصلہ لگتا ہے کہ تم بھی خوش رہو اور تم بھی خوش رہو ، اگر ایسا ہی کرنا تھا تو بابری مسجد کی شہادت سے قبل فیصلہ کیوں نہیں سنا دیا گیا؟ میں ذاتی طور پر اس فیصلے سے مطمئین نہیں ہوں اور مجھے آئینی طور پر یہ حق حاصل ہے کہ اپنی بے اطمینانی کا اظہار کروں اور قانونی چارہ جوئی کی راہ ہموار کروں۔

اس فیصلے کے بعد ہندستانی مسمانوں پر کئی طرح کے اثرات مرتب ہورہے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے اس لیے ابھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن اب تک جو میں سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ 1857 ءکی پہلی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد انگریزوں کی حکمت عملی سے مسلمان نفسیاتی طور پر جو دباؤمحسوس کر رہے تھے ویسا ہی کچھ ان دنوں ہندستانی مسلمانوں کا حال ہے ۔ ذرا غور کریں کہ فیصلے کے قبل پورے ہندستان میں یہ فضا بنی ہوئی تھی کہ چاہے فیصلہ جو بھی آئے ہم اس کا احترام کریں گے۔ ضرور احترام کیا جانا چاہیے کیونکہ ہم دنیا کے ایک بڑے جمہوری ملک میں رہتے ہیں ۔لیکن وشو ہندو پریشد ، ہندو مہا سبھا کے لوگ کھلے عام یہ کہہ رہے تھے کہ فیصلہ ہمارے حق میں آیا تو مانیں گے وگرنہ نہیں مانیں گے ۔ مسلمانوں نے فیصلے سے قبل جو بات کی تھی ،خلاف توقع فیصلہ آنے کے بعد بھی اُسی پرقائم ہیں اور قائم رہیں گے ۔ مگراس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ قانونی طورپر جس کا جواز حاصل ہے اس پر بھی غور نہ کریں ، مگر ابھی مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ ابھی تک وہ یقین کی منزل سے نہیں نکل پائے ہیں یعنی ابھی تک انھیں یہ یقین بھی نہیں ہورہا ہے کہ ایسا فیصلہ بھی ہوسکتا ہے؟ دوسری جانب کسی تنظیمی پلیٹ فارم سے متحدہ طور پر کوئی مضبوط آواز بھی سامنے نہیں آرہی ہے اس لیے ایک سراسیمگی کی کیفیت ہے اور ہندستانی مسلمان ایک نفسیاتی جبر کے دور سے گزر رہے ہیں۔بات صرف مسلمانوں کی ہی نہیں ہے اس ملک کے غیر مسلم شہریوں کی بھی بڑی تعداد ہے جو اس فیصلے کو حقیقیت سے دور سمجھتے ہیں اور وہ بھی جمہوری ملک کے عدلیہ کو لے کر پریشان ہیں کہ اگر ایسے فیصلے مان لیے گئے تو اس ملک کا کیا ہوگا؟ وہ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے فیصلے جمہوری اقدار کو ٹھیس پہنچائیں گے۔

اس فیصلے سے مستقبل میں مسلمانوں کے لیےجس طرح کے قانونی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں وہ یہ کہ اب عدلیہ کی جانب جو نگاہیں اٹھیں گی وہ یہ سوچیں گی کہ فیصلہ شواہد کی بنیاد پر ہوگا یا آستھا کی بنیاد پر ۔ کیونکہ ایک تاریخی معاملے میں جب بات آستھا پر ہی آکر ٹھہری ہے تو کل آپ کا ذاتی مکان بھی کسی آستھا کے نذر ہوجائے گا تو آپ کیاکر سکتے ہیں ؟ کیونکہ آستھا کا کوئی جواز نہیں ہے۔ابھی تو میٹھی میٹھی سیاسی باتیں کر کے ہندو مہا سبھا ، وشو ہندو پریشد ، دھرم گرو سمیت بی جے پی کسی طرح اس قضیے کو سلجھا کر رام مندر تعمیر کر لیں گے لیکن اس کے بعد ؟ ابھی تو بنارس کی مسجد اور متھرا کی عید گاہ باقی ہے ! وہاں بھی تو ان کی آستھا ہے ۔ وہاں کیا کریں گے؟ اگر یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں بھی جوں کا توں رہتا ہے تو مسلمانوں پر کیا فرق پڑ ے گا؟ہمارے لیے تو ساری دنیا پڑی ہے کہیں بھی ہم سجدہ ریز ہو سکتے ہیں ۔ لیکن اس جمہوری ملک پر ایسی آنچ آئے گی جس کی تپش سے کوئی نہیں بچ سکے گا۔اس لیے سپریم کورٹ سے نظر ثانی کی امید کی جاسکتی ہے کیونکہ ہندستان دنیا کے چند بڑے جمہوری ملکوں میں سے ایک ہے جہاں جمہوری اقدار ہر فرداورہر ادارے پر فوقیت رکھتا ہے۔سپریم کورٹ سے بہر کیف یہ امید تو ہے کہ وہ حقائق کو سامنے رکھ کر فیصلہ سنائی گی۔

ساتھ ہی ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم قائدین سر جوڑ کر بیٹھیں اور پہلے عوام کو یہ یقین دلائیں کہ وہ ان کے سچے اور بے لوث قائد ہیں ۔ ابھی تک تو یہی واضح نہیں ہے کہ کیا مسلمانوں کے بھی کوئی قائد ہیں ؟ حیرت ہے اتنے بڑے فیصلے کے بعد بھی اب تک کوئی آواز نہیں اٹھ رہی ہے اور نہ ہی قانونی چارہ جوئی کے لیے مشترکہ کوشش ہورہی ہے۔اس لیے پہلے تو بکھرے ہوئے افراد او ر ادراے کو متحد ہونا چاہیے اور چونکہ ہم بھی اس ملک کے شہری ہیں اس لیے انصاف کے لیے ہر ممکنہ دروازے پر دستک دینے کی ضرورت ہے۔دانشمندی، اتفاق، اور دور اندیشی سے ہی کام لینے کی ضرورت ہے۔ایسے غیر مسلم لوگ جو اس فیصلے کو حقیقت پر مبنی تسلیم نہیں کرتے ان کو اپنے ساتھ ملانے کی ضرورت ہے اور ان کے ساتھ مل کر قانونی چارہ جوئی کی راہ تلاش کرنی چاہیے۔

ترکی کا سفر:ڈاکٹر خواجہ اکرام



قسطنطنیہ کی حسین وادیاں اور اس کی تاریخی وتہذیبی وراثتیں
تربتِ ایوب انصاری سے آتی ہے صدا
اے مسلماں!ملت اسلام کا دل ہے یہ شہر

قسطنطنیہ جسے آج ترکی کے نام سے جانا جاتا ہے۔دنیا کے چند بڑے شہروں میں اس کا شمار ہے۔اسے مسجدوں کا شہربھی کہاجاتاہے کیونکہ ہر ایک میل کے فاصلے پرشاندار مسجدیں ہیں۔ مسجدوں کی اتنی بہتات کے بعد بھی کوئی مسجد نمازیوں سے خالی نہیں رہتی۔ان مساجد کا طرز تعمیر بھی بالکل مختلف ہے۔ اس طرح کی مسجدیں ہم نے پہلی دفعہ دیکھیں۔ان تمام مساجد کا آرکی ٹیکٹ ایک جیسا ہے۔ ایک بڑا گنبد اور اس کے ارد گرد متعدد چھوٹے گنبد۔ یہ عثمانی دور کے مشہور آرکی ٹیکٹ "سنان" کی ایجاد ہے۔ اس طرز تعمیر کا مقصد یہ تھا کہ امام یا خطیب کی آواز گنبدوں سے ٹکراتی ہوئی دور تک چلی جائے۔ جب لاوؤڈ اسپیکر ایجاد نہیں ہوا تھا، اس وقت مسلمان انجینئروں نے اس انداز سے اس کی تعمیر کی تھی کہ دور کے سامعین تک امام کی آواز پہنچ جائے ۔

یہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اس شہر کو سات پہاڑوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ شہر سات پہاڑوں کے حلقے میں واقع ہے۔ بحر اسود، بحیرہ مرمرہ اور ٓبنائے باسفورس یہ تین سمندر اس شہر کے حُسن میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔یہ دنیا کا واحد شہر ہے جس کا نصف حصہ یوروپ اور نصف ایشیا میں ہے۔ یہ شہر عظیم اسلامی تاریخ کا روشن باب بھی ہے۔اس شہر کو قدرت نے حسن کی دلفریبیاں عطا کی ہیں۔ ظاہری حسن کے علاوہ یہ روحانی فیوض و برکات سے بھی مالا مال ہے۔ میزبان رسول حضرت ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا مزار مبارک بھی اسی شہر میں ہے۔ حرمین شریفین کے بعد ترکی میں یہ مقام سب سے اہم اور متبرک سمجھا جاتا ہے۔اس کے علاوہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم، خلفائے راشدین اور خاندان اہل بیت کے مقدس تبرکات کے علاوہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصائے مبارک ، حضرت یوسف علیہ السلا م کی پگڑی اور قرآن کریم کے کئی نادر نسخے یہاں موجود ہیں۔دنیا میں سب سے بڑے گنبد کی مسجد بھی یہیں موجود ہے۔ ترکی کو یہ اعجاز بھی حاصل ہے کہ دنیا بھر میں تصوف اور صوفیانہ روایات کے حوالے سے سب سے زیادہ پڑھے اور سمجھے جانے والے مولائے روم کا مزار مبار ک بھی یہیں ہے ۔

اس شہر کی مختصر تاریخ یہ ہے کہ قسطنطنیہ330ءسے395ءتک رومی سلطنت اور 395ئ1453ءتک بازنطینی سلطنت کا دارالحکومت رہا اور 1453ءمیں فتح قسطنطنیہ ( قسطنطنیہ 29 مئی 1453ءکو سلطنت عثمانیہ کے ہاتھوں فتح ہوا۔ صدیوں تک مسلم حکمرانوں کی کوشش کے باوجود دنیا کے اس عظیم الشان شہر کی فتح عثمانی سلطان محمد ثانی کے حصے میں آئی جو فتح کے بعد سلطان محمد فاتح کہلائے۔)کے بعد سے1923ءتک سلطنت عثمانیہ کا دارالخلافہ رہا۔ فتح قسطنطنیہ کے بعد سلطان محمد فاتح نے اس شہر کا نام اسلام بول رکھا ( جس کا مطلب ہے اسلام کا بول بالا )جو کہ آہستہ آہستہ استنبول میں تبدیل ہو گیا۔ شہر یورپ اور ایشیا کے سنگم پر شاخ زریں اور بحیرہ مرمرہ کے کنارے واقع ہے اور قرون وسطی میں یورپ کا سب سے بڑا اور امیر ترین شہر تھا۔ اس زمانے میں قسطنطنیہ کو شہروں کی ملکہ کہا جاتا تھا۔( بحوالہ ویکیپیڈیا) یہ شہر آج بھی ترقی یافتہ اور خوشحال ہے۔ فی کس مجموعی ملکی پیداور بارہ ہزار امریکی ڈالر ہے۔2010 ءکے لیے استنبو ل کو یوروپ کا مشترکہ تہذیبی دارالحکومت منتخب کیاگیا ہے۔ یہ واحد مسلم ملک ہے جو ناٹو کا رکن بھی ہے اور یوروپی یونین میں شامل ہونے کی دعویداری بھی رکھتا ہے۔یہ ملک اس لیے بھی مثالی ہے کہ اپنے تمام انتشار پر قابو پا کر ترقی کی جانب تیزی سے گامزن ہے۔

ترکی کے انھیں مقامات کے مطالعے اور احباب سے ان کی تفصیلات سنتے سنتے دل میں یہ خواہش بسی ہوئی تھی کہ کاش اس ملک دلفریب اور شہر جانفزا کی زیارت نصیب ہوجائے ، سو اللہ نے دل کی یہ مراد پوری کی۔اللہ کا بے حد و حساب شکر کہ اسلامی تاریخ میں جس شہر کا ذکر باربار سنا اور پڑھا اسے اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع بھی ملا۔ ایک بین الاقوامی ورکشاپ میں شرکت کی دعوت پردہلی سے ہم اور ڈاکٹر رضوان الرحمان اسسٹنٹ پرفیسر، سنٹرن فار عربی اینڈ افریقن اسٹڈیز ، 23مئی کو دہلی سے بذریعہ ترکش ائیر لائن صبح کی 4.45بجے استنبول کے لیے روانہ ہوئے۔ دل میں حسرت تھی کی جلد از جلد حضرت ایوب انصاری کے شہر میں پہنچیں ، لیکن سفر کی طوالت ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی ، اس کی ا یک وجہ یہ بھی تھی عام طور پر جہاز پر بیٹھنے کے ساتھ یہ احساس ہوتا ہے کہ چند گھنٹوں میں ہی منزل مقصود تک پہنچ جائیں گے ، مگر براہ راست پرواز سے بھی یہ سات گھنٹے کا سفر تھا۔ ڈاکٹر رضوان ایک تجربہ کار سیاح ہیں اس لیے جانے سے پہلے بار بار ہمیں یاد دلاتے رہے کہ22 کی رات ختم ہوتے ہی ایک بجے ہم لوگوں کو نکلنا ہے۔

کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بارہ بجے رات کے بعد کہیں جانا ہو تو اگلی تاریخ ہی یاد رہتی ہے اور میرے ساتھ اکثر ایسا ہوا بھی ہے کہ ایک دن بعد یا ایک دن پہلے ہی اسٹیشن یا ایئر پورٹ پہنچ گیا ہوں۔ ڈاکٹر رضوان کی بار بار کی تاکید نے سنیچر کی رات کو سونے بھی نہیں دیا اور سو بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ ایک ڈیڑھ بجے گھر سے ائیر پورٹ کے لیے نکلنا تھا۔ کہیں نیند نہ آجائے ،اور اس خیال سے بھی کہ جب تک گھر سے نکل نہیں جاتے ہیں ، گھر والے بھی سو نہیں سکیں گے۔لہٰذا ہم ڈیڑھ بجے ہی ائیر پورٹ کے لیے روانہ ہوگئے۔ ائیر پورٹ پر ہم جیسے ہی ترکش ائیر لائن کے کاؤنٹرپر پہنچے ڈاکٹر رضوان کے ایک ریسرچ اسکالر مل گئے جو یہاں ترجمے کے حوالے سے کام کرتے ہیں۔ انھوں نے تمام کاروائی بھی جلد مکمل کرا دی اور ہمیں اپنے آفس میں چائے بھی پلائی۔اب ہمارے پاس وقت بہت تھا۔ہم لوگ امیگریشن کے بعد لانج میں چہل قدمی کر رہے تھے کہ وہاں جے این یو کے پروفیسر دیپک سے ملاقات ہوئی۔ کچھ دیر ان سے بات کرکے وقت نکل گیا ، لیکن وہ ہم سے پہلے چین کے سفر پر روانہ ہوگئے۔

بعد ازاں ہم نے کہیں بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ ہم تھوڑی دیر ہی سکون سے بیٹھے تھے کہ ایک قافلہ اسی جگہ ورود ہوا۔ پہلی نظر میں انھیں دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ایک خاندان کے تقریبا ًبیس پچیس احباب مقدس سفر پر جارہے ہیں۔ زیارت حرمین شریفین کے لیے وہی جاتے ہیں جن کی قسمت اوج پر ہوتی ہے۔ ہم نے بڑے احترام سے بیچ کی کرسی خالی کر کے کنارے جگہ لے لی تاکہ یہ سب لوگ ایک جگہ بیٹھ جائیں ، مگر معذرت کے ساتھ یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ ان کے لوگوں کے بیٹھتے ہی ایک ایسا ماحول بنا جیسے یہ عمرہ کے لیے نہیں بلکہ گرمی کی چھٹی گزارنے کہیں جارہے ہوں۔ نہ کسی کے لب پر دعا اور نہ کسی کے اندر سنجیدگی سب کے سب اپنے ساتھ لائے کھانے کے پیکٹ کھول کر کھانے پینے میں مشغول ہوگئے۔ یہ کوئی بُری بات نہیں تھی لیکن بری بات یہ تھی کہ جہاں کھایا ڈبہ وہیں پھینکا اورچائے ، کولڈ ڈرنکس لے کر آگئے۔ میں نے بار بار اس صفائی کرنے والے کی چہرے کی ناگواری کو دیکھا جو ان کے پھینکے ہوئے ڈبوں کو بڑی ناگواری سے اٹھا رہا تھا اور بیچ بیچ میں اس قافلے میں شامل نوجوانوں اور خواتین کو دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں یہ بتا رہی تھیں کہ محض دو تین میٹر کی دوری پر ڈسٹ بین موجود تھا مگر انھوں نے اتنی بھی زحمت نہیں کی۔

آس پاس کے لوگ بھی ان کی تیز تیز آواز میں گفتگو کرنے سے پریشان ہوکر کسی او ر نششت پر جا بیٹھے۔ میں دل ہی دل میں یہ سوچ رہا تھا کہ ایک مقدس سفر پر جانے والے اگر اس طرح کا سلوک اوررویہ رکھیں گے تو لوگ کیا سوچیں گے۔؟ مجھے ان کے رویے سے افسوس اور صدمہ پہنچا۔ڈاکٹر رضوان بھی پہلو بدل رہے تھے ۔ اتنے میں ترک ہوا یلاری کا اناؤنسمنٹ ہوا اور ہم جہاز پر سوار ہونے کے لیے گیٹ نمبر چار سے روانہ ہوئے۔ ٹھیک وقت پر روانگی ہوئی۔ جب فضا کی بلندیوں پر پہنچ کر جہاز پُرسکون ہوا تو ترکی طرز کا ناشتہ پیش کیا گیا۔ اس کے بعد غنودگی طاری ہوئی کچھ دیر کے لیے ہم سوگئے۔

لیکن جب گھڑی دیکھی تو معلوم ہوا ابھی تو صرف دو گھنٹے ہی گزرے ہیں۔ ابھی ہمیں پانچ گھنٹے اور بھی انتظار کرنا ہے۔ جہاز جس سمت کو پرواز کر رہا تھاوہ ویسٹرلی ہواؤں کا رخ تھا اس لیے رفتار سست تھی اوردہلی سے استنبول جانے میں ایک گھنٹہ زائد وقت لگتا ہے اس کے بر عکس واپسی میں صرف چھ گھنٹے میں دہلی پہچنتے ہیں۔ ہماری گھڑی میں اس وقت تقریبا ًسات بج رہے تھے۔ ہم جیسے جیسے آگے کی طرف بڑھ رہے تھے ویسے ویسے صبح ہورہی تھی ہر جگہ ایک ہی جیسا وقت معلوم ہو رہا تھا۔ آسمان اس قدر صاف تھا اور دھوپ اتنی تیز تھی کہ باہر نظر نہیں ٹھہر رہی تھی۔ جہاز کے عملے نے کھڑکی کے شٹر بند کرادئے تھے تاکہ جو سونا چاہیں انھیں تیز روشنی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ لیکن ہم لوگوں کو چونکہ ٹو سیٹر پہ جگہ ملی تھی اس لیے تھوڑا شٹر کھول کر دیکھنے کی کوشش مگر تیز دھوپ کے سبب باہر دیکھنا محال تھا لہٰذا کچھ دیر بند کمرے کی طرح ائیر کرافٹ میں آنکھیں بند کیے دعائیں پڑھتے رہے۔ ہمارے ایک دوست جن کا نام نہیں لکھ سکتا کیونکہ وہ مشہور شخصیت کے مالک ہیں اور ساری دنیامیں لوگ انھیں جانتے ہیں بالخصوص ہندستان اور پاکستان میں بڑی تعداد جو ان کی صلاحیتوں کااحترام کرتے ہیں ، کئی دفعہ ان کے ساتھ ہوائی سفر کا اتفاق ہوا ہے۔ زمین پر جس بہادری سے رہتے ہیں اسی بہادری اور بے باکی سے ان کا قلم بھی چلتا ہے مگر ہوائی جہاز پر اُن کا ہواس گُم رہتا ہے۔ انھوں نے ایک دفعہ مجھ سے کہا کہ انسان ہوائی جہاز پر ہی موت سے زیادہ قریب رہتا ہے۔ ان کی بات یاد کر کے ہم بھی استغفار اور دعائیں پڑھتے رہے۔ہم نے جب اپنی گھڑی کی جانب دیکھا تو 11بج رہے تھے۔

ائیر کرافٹ میں سونے والے مسافروں کی بڑی تعدادایک نیند پوری کر کے اٹھ چکی تھی۔ ائیر ہوسٹس مشروبات و دیگر اشیا کے ساتھ ضیافت میں مشغول تھیں ، تب ہم نے کھڑکی کے شٹر کھول دیئے جب باہر کی جانب دیکھا توصاف و شفاف فضا تھی اس لیے باہر کے مناظر بالکل صاف دیکھائی دے رہے تھے۔خوبصورت پہاڑوں کے اوپر سے ہم گزر رہے تھے کہیں ہرے بھرے پہاڑ تو کہیں مٹیالے رنگ کے نشیب و فراز کے درمیان چھوٹے چھوٹے شہر نظر آرہے تھے ، کہیں پہاڑوں پر برف کی سفید چادر بچھی تھی انھیں مناظر کے درمیان ایک وسیع و عریض نیلے رنگ کا جھیل نظر آیا جو پہاڑوں کے درمیان ایک حسین نظارہ پیش کر رہا تھا۔ ہم نے ایک فلائٹ اسسٹنٹ جو اتفاق سے ہمارے سامنے سے گزر رہے تھے ، پوچھا یہ کونسی سی جھیل ہے۔ انھوں نے لا علمی کا اظہار کیا لیکن جب ہمارا اشتیاق دیکھا اور یہ جملہ سُنا کہ آپ روز اسی کے اوپر سے گزرتے ہیں اور آپ کو معلوم نہیں ؟تو انھوں نے بتایا کہ یہ بن جھیل ہے اورہم ترکی کے حدود میں داخل ہوچکے ہیں۔ ہر طرف جھیل اور پہاڑ چادر کی طرح بچھے ہوئے تھے ، چائے کی چسکیوں کا ہم مزہ ہی لے رہے تھے کہ ترکی میں دور دور پھیلے شہر نظر آنے لگے۔ کچھ ہی دیر میں پائلٹ نے اعلان کیاکہ ہم اتاترک ائیر پورٹ پر لینڈ کر نے والے ہیں۔تمام مسافر اپنی اپنی سیٹ بیلٹ باندھ چکے تھے۔اب ہمارا جہاز سمندر کے اوپر تھا اور آہستہ آہستہ نیچے کی طرف آرہا تھا ، ایسا لگا کہ اسی سمندر پر لینڈ کر جائے گا۔ یہ بحیرہ مر مرہ تھا ، بالکل اسی کے کنارے اتاترک ائیر پورٹ واقع ہے۔

الحمد للہ ہم بخیر و خوبی پہنچ گئے۔ ائیر پورٹ پر داخل ہوتے ہی ہم نے امیگریشن فارم کی تلاش کی لیکن معلوم ہو ایہاں ایسی کوئی فار ملِٹی کی ضرورت نہیں۔ ایک لائن سے کئی کاؤنٹر بنے ہوئے تھے ہم بھی ایک کاؤنٹر پر کھڑے ہو گئے۔ سوچا یہاں بھی کافی وقت لگے گا کیونکہ کچھ ہی دنوں قبل جدہ ائیر پورٹ کا تلخ تجربہ تھا جہاں تقریباً دو گھنٹے باہر نکلنے میں لگے تھے۔ مگر یہاں تو کاؤنٹر پر پاسپورٹ دیا الیکٹرونک مشین میں اسے سوئپ کیا اورمسکراتے ہوئے ہمیں خوش آمدید کہہ کر باہر جانے کا شارہ کیا۔ ہماری حیرت اور خوشی کی انتہا نہ رہی کیونکہ آج کل سیکورٹی کے نام پر مسافروں کے ساتھ کیا کیا نا زیبا حرکتیں نہیں ہوتیں۔ اس معاملے میں سُنا ہے امریکہ نمبر ون ہے اس کے بعد شاید جدہ ائیر پورٹ ہی ہو۔ پہلے فارم بھریں ، پھر لائن میں کھڑے شاہی انداز سے ان کے کام کرنے کے انداز کو دیکھتے رہیں ، ان کی بے مروتی اور حقارت آمیز رویے کو بر داشت کریں۔ ایسا کہ جیسے ساری دنیا میں وہی اشرف المخلوقات ہیں اور باقی لوگ ان کے خادم یا اس سے بھی بد تر ہیں۔ خیر یہاں کا رویہ دیکھ کرخوشی ہوئی۔

انتہائی خوبصورت ائیر پورٹ سلیقہ مند اور سلجھے ہوئے لوگ۔ کچھ ہی دیر میں ہماری نظر رحمت پر پڑی جو تختی پر ہمارا نام لیے ہمارے استقبال کے لیے کھڑے تھے۔ ان سے ملاقات ہوئی انھوں نے بتایا کہ وہ فاتح یونیورسٹی سے بی۔ اے کر رہے۔ انھوں نے ہمیں زمین دوز میٹرو کی جانب چلنے کو کہا۔ ائیر پورٹ کے اندر اندر ہی ہم میٹرو میں سوار ہوئے کچھ دیر بعد یہ میٹرو سرنگ سے باہر نکل کر شہر میں دوڑ رہی تھی۔ بہت صاف ستھری اور خالی جگہیں دیکھ کر ہم جلدی سے بیٹھ گئے ، کیونکہ ہمیں دہلی میٹرو کی بھیڑ بھاڑ کا اندازہ تھا۔ رحمت ہماری تیزی کو بھانپ گئے کیونکہ وہ بنگلہ دیش کے رہنے والے تھے اور ممبئی دہلی سے اچھی طرح واقف تھے ، انھوں نے کہا یہاں اتنی بھیڑ نہیں ملے گی اس لیے کہیں بھی اطمینان سے بیٹھ جائیں۔ کچھ دیر بعد ہم ایک اسٹیشن پر اترے اور وہیں سے ٹرام لی۔ یہ ٹرام بھی بہت خوبصورت او ر صاف ستھری تھی۔ چار پانچ اسٹیشن کے بعد فندیق زادہ پر اترے۔ اسٹیشن کے سامنے ہی کایاہوٹل تھا جہا ں ہمیں قیام کرنا تھا۔ کشادہ سڑک درمیان میں ٹرام کی مخصوص جگہ اور دونوں جانب چوڑی سڑکیں لیکن فووٹ اور بریج بھی بنا تھا۔ انھوں نے بتا یا کہ یہی ہوٹل ہے جہاں قیام کرنا ہے اور فوٹ اور بریج پر چڑھنے لگے ، میں نے کہا اس کی کیا ضروت ہے سڑک کراس کر لیتے ہیں۔

لیکن ہمیں بتایا گیا کہ اگر پولیس نے دیکھ لیا تو جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ فندیق زادہ ترکی کے یوروپی حصے میں واقع تھا۔پہلی نظر میں جو ہم نے سڑکوں کی صفائی اور آمد و رفت کے انتظام دیکھے وہ ہر لحاظ سے قابل تعریف اور ہمارے لیے حیرت کا سبب تھا۔ سڑکیں ایسی کہ سڑک پر بیٹھ جائیں بالکل گھر جیسی صفائی۔ خیر ہم ہوٹل میں داخل ہوئے ہمارے لیے کمرے پہلے ہی سے بُک تھے۔ کمرے پہ پہنچ کر ہی ہمیں بھوک کا احساس ہونے لگا تھا کیونکہ رات بھر کا سفر اور اس وقت ہماری گھڑی میں دن کے دو بج رہے تھے۔جبکہ ترکی کی گھڑی کے مطابق ساڑھے گیارہ بجے تھے۔ جب میں نے رحمت سے دوپہر کے کھانے کی بات کی تو تعجب کے ساتھ انھوں نے ہماری جانب دیکھا، لیکن جب ہم نے ہندستانی ٹائم بتایا تو انھوں نے ہمارے میزبان عثمان اولانا سے بات کی انھوں نے اسکندریہ ریسٹورینٹ لے جانے کو کہا اور یہ بھی بتادیا کہ ہمیں ترکی کی مشہور غذا ‘ دونئر ’ کھلانا ہے۔ نزدیک ہی وہ ریسٹورینٹ تھا ، ریسٹورینٹ پہنچ کر اندازہ ہوا کہ واقعی ہم پہلے بھوکے ہوئے لوگ داخل ہوئے ہیں۔

دونئر بنانے میں وقت لگ رہا تھا جب تک ریسٹورینٹ کے دستور کے مطابق تین طرح کا نان ایک بڑا دوسرا اس سے چھوٹا اور مزے میں الگ ، تیسرا بالکل چھوٹا جس کے اوپر قیمہ رکھ کر بیک کیا گیا تھا، اس کے ساتھ سلاد وغیرہ ٹیبل پر رکھ دیا گیا اور ہم گرم گرم نان دیکھ کر ٹوٹ پڑے اور تیزی سے کھانے لگے۔ شاید ریسٹورنیٹ مالک کو اندازہ ہو گیا کہ یہ نئے مسافر ہیں اور انھیں معلوم نہیں ہے۔ اس لیے وہ ہماری ٹیبل کے پاس آکر ترکی میں ہمارے میزبان سے مسکراتے ہوئے کچھ کہا اورچلے گئے۔ تب رحمت نے بتایا کہ جب تک دونئر تیار ہو رہا ہے اس وقت تک کے لیے یہ اسٹارٹر ہے لہٰذا آہستہ آہستہ کھائیں ایسا نہ ہو کہ دونئر کے آتے آتے آپ کاپیٹ ہی بھر جائے۔ چونکہ ریسٹراں میں ہم پہلے شخص تھے اس لیے انھیں تیاری میں کچھ زیادہ ہی وقت لگ گیا اور جب تک دونئر آتا ہم تقریبا شکم سیر ہوچکے تھے۔ خیر دونئر بھی کھایا اور مزے لے کر کھایا۔ یہ شاورما کی طرح ہی ہلکی آنچ پر گوشت کے بھونے ہوئے تراشے تھے اور ساتھ میں ساس اور سلاد۔ کھانے کے بعد ہم پر غنودگی طاری ہوئی اور ہم سو گئے رحمت کچھ دیر کے لیے کسی کام سے باہر گئے تھے۔ ترکی میں یہ ہمارے لیے بہت لمبا دن تھا کیونکہ جب ہم ساڑھے بارہ بجے پہنچے تو یہاں نو بج رہا تھا اور شام ساڑھے آٹھ بجے ہوئی۔رحمت کے آتے ہی ہم نے خواہش ظاہر کی کہ آج ہم فری بھی ہیں اور وقت بھی تو کہیں گھوم کر آجائیں۔ وہ ہمیں ترکی کی مشہور جگہ نیلی گنبد کی مسجد لے گئے۔یہ سلطان احمد مسجد نیلی مسجد کے نام سے معروف ہے۔ترکی زبان: Sultanahmet Camiiکہتے ہیں۔

اسے بیرونی دیواروں کے نیلے رنگ کے باعث نیلی مسجد کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ ترکی کی واحد مسجد ہے جس کے چھ مینار ہیں۔1616ءمیں اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔اس مسجد میں دس ہزار لوگوں کی گنجائش ہے۔ لمبائی 72 میٹر ، چوڑائی 64 میٹر۔ گنبد کی اونچائی 43 میٹر اور قطر 33 میٹر ہے۔ وکیپیڈیا کے مطابق جب تعمیر مکمل ہونے پر سلطان کو اس کا علم ہوا تو اس نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا کیونکہ اُس وقت صرف مسجد حرام کے میناروں کی تعداد چھ تھی لیکن چونکہ مسجد کی تعمیر مکمل ہو چکی تھی اس لیے مسئلے کا حل یہ نکالا گیا کہ مسجد حرام میں ایک مینار کا اضافہ کرکے اُس کے میناروں کی تعداد سات کر دی گئی۔ مسجد کے مرکزی کمرے پر کئی گنبد ہیں جن کے درمیان میں مرکزی گنبد واقع ہے مسجد کے اندرونی حصے میں زیریں دیواروں کو ہاتھوں سے تیار کردہ 20 ہزار ٹائلوں سے مزین کیا گیا ہے جو ازنک (قدیم نیسیا) میں تیار کی گئیں۔ دیوار کے بالائی حصوں پر رنگ کیا گیا ہے۔ مسجد میں رنگین اور منقش شیشے کی 200 سے زائد کھڑکیاں موجود ہیں تاکہ قدرتی روشنی اور ہوا کا گذر رہے۔ مسجد کے اندر اپنے وقت کے عظیم ترین خطاط سید قاسم غباری نے قرآن مجید کی آیات کی خطاطی کی۔ مسجد کے طرز تعمیر کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ نماز جمعہ کے موقع پر جب امام خطبہ دینے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو مسجد کے ہر کونے اور ہر جگہ سے امام کو با آسانی دیکھا اور سنا جا سکتا ہے۔ مسجد کے ہر مینار پر تین چھجے ہیں اور کچھ عرصہ قبل تک مؤذن اس مینار پر چڑھ کر پانچوں وقت اذان دیتے تھے۔ آج کل اس کی جگہ صوتی نظام استعمال کیا جاتا ہے جس کی آوازیں قدیم شہر کے ہر گلی کوچے میں سنی جاتی ہے۔ نماز کے وقت یہاں مقامی باشندوں اور سیاحوں کی بڑی تعداد بارگاہ الٰہی میں سربسجود ہوتی ہے۔ رات کے وقت رنگین برقی قمقمے اس عظیم مسجد کے جاہ و جلال میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔( بحوالہ وکیپیڈیا)۔

مسجد کے احاطے خوبصورت پھولوں اور درختوں کے قطار سے سجے تھے۔صفائی ایسی کہ ناقابل بیان۔ جگہ جگہ فوارے لگے ہوئے تھے۔ یہاں ہم نے خوش رنگ گلاب کو دیکھا جو پودے کے بجائے چھوٹے پیڑ سے لگے ہوئے تھے۔آج تک ہم نے گلاب کا ایسا بانسائی نما درخت نہیں دیکھا تھا۔ طرح طرح کے پھول ہمیں اپنی جانب دعوت نظارہ دے رہے تھے۔ہر طرف سیاحوں کی بھیڑ بھاڑ تھی لیکن نماز کا وقت ہوتے ہی مسجد نمازیوں سے بھر جاتی ہے۔نماز کے وقت سیاحوں کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔مسجد کی دوسری جانب ایا صوفیہ ہے لیکن ہم اس شام ایا صوفیہ نہیں جاسکے۔ دوسرے دن اپنی مصروفیات سے فارغ ہونے کے بعد اپنے میزبان عثمان اولانا کے ساتھ ایا صوفیہ گئے۔ ایاصوفیا کی عظیم عمارت عیسائیوں نے چرچ کے طور پر بنائی تھی۔ (یہ ایک سابق مشرقی آرتھوڈوکس گرجا ہے)۔ لوگ اسے چوتھی صدی عیسوی کی تعمیر بتاتے ہیں لیکن کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس وقت کی کوئی تعمیر صحیح سالم نہیں بلکہ اس کی تعمیر نو یا مرمت کی جاتی رہی ہ ے۔ کہا جاتا ہے کہ حوادث کے نذر ہوجانے کے بعد قسطنطین اول کے بیٹے قسطنطیس ثانی نے اسے تعمیر کیا تاہم 532ءمیں یہ گرجا گھربھی فسادات و ہنگاموں کی نذر ہوگیا۔ اسے جسٹینین اول نے دوبارہ تعمیر کرایا اور 27 دسمبر 537ءکو یہ مکمل ہوا۔یہ گرجا اشبیلیہ کے گرجے کی تعمیر تک ایک ہزار سے زیادہ سال تک دنیا کا سب سے بڑا گرجا گھررہا۔ایاصوفیہ متعدد بار زلزلوں کا شکار رہا جس میں 558ءمیں اس کا گنبد گرگیا اور 563ءمیں اس کی جگہ دوبارہ لگایا جانے والا گنبد بھی تباہ ہوگیا۔ 989ءکے زلزلے میں بھی اسے نقصان پہنچا۔1453ءمیں قسطنطنیہ کی عثمانی سلطنت میں شمولیت کے بعد ایاصوفیہ کو ایک مسجد بنادیا گیا اور اس کی یہ حیثیت 1935ءتک برقرار رہی۔ سلطان محمد فاتح نے 1453ءمیں استنبول کو فتح کیا تو سلطان نے اس کے اندر جمعہ کی نماز پڑھی اور حکم دیا کہ اسے بدل کر مسجد کی صورت دے دی جائے۔اس وقت سے یہ عمارت مسجد کے طور پر استعمال ہونے لگی۔ اس کے بعد مصطفی کمال اتاترک کی حکومت آئی۔ انہوں نے 1934 میں ایک نیا حکم نافذ کیا۔اس کے تحت ایا صوفیہ کو میوزیم(عجائب گھر) قرار دے دیاگیا۔ فروری 1935 میں میوزیم کے طور پر اس کے دروازے کھولے گئے۔ایاصوفیہ کو بلاشک و شبہ دنیا کی تاریخ کی عظیم ترین عمارتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔لاطینی زبان میں اسے Sancta Sophia اور ترک زبان میں Ayasofya کہا جاتا ہے۔اس کے خوبصورت گنبد کا قطر 31 میٹر (102 فٹ) ہے اور یہ 56 میٹر بلند ہے۔

اس کے بعد ہم توپ کاپی میوزیم گئے جہاں قدیم ترک حکومتوں کے آثار ہیں۔ لیکن اس کی سب بڑی اہمیت مقدس تبرکات کے سبب ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تبرکات موجود ہیں ، لیکن سب سے زیادہ اس میوزیم میں ہیں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا لباس مطہر ، دندان مبارک ، تلورا اور نعلین مبارک موجود ہیں۔ حضرت فاطمہ کو جہیز میں ملا قرآن پاک کا جزدان ، ردائے مبارک، حضرت امام حسن اورامام حسین ،حضرت علی اور خلفائے راشدین کی تلواریں اور دیگر اشیا کے علاوہ عصائے موسیٰ ،حضرت یوسف علیہ السلام کی پگڑی اور بہت سے تبرکات ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ ان تبرکات کی زیارت نصیب ہوئی۔

توپ کاپی سے نکلتے ہی نماز ظہر کا وقت ہو گیا تھا۔ ہم پاس کی ایک قدیم مسجد میں نماز ادا کرنے گئے۔ یہ بہت پرانی مسجد تھی کئی صدی پہلے کی مسجد تھی لیکن اندر اور باہر سے ہر طرح جدید اس لیے تھی کیونکہ جدید سہولیات موجود تھیں۔ کسی مسجد میں یہ میرا پہلا احساس تھا کہ کچھ اور دیر تک مسجد میں ٹھہر جائیں اور مستقل نفل ادا کرتے رہیں۔ مسجد کے مین دروازے پر دبیز چمڑے کا پردہ تھا تاکہ اے سی کی ہوا باہر نہ جاسکے۔ اسی سے متصل وضو خانہ تھا۔ وضو خانہ دیکھ کر حیرت ہوئی۔ انتہائی صاف ستھرا اور بیٹھنے کے لیے اونچی اونچی سنگ مرمر سے بنی کرسیاں ، سامنے آویزاں شیشے اور ٹیشو پیپر رکھے ہوئے تھے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ عام طورپر گھروں کے ٹائلیٹس میں اتنی صفائی نہیں ہوتی۔ مسجد میں داخل ہوئے تو دل خوش ہوا۔دبیز سبز رنگ اور سرخ رنگ کی قالین بچھی ہوئی تھی۔ اتنی دیدہ زیب آرائش تھی کہ ہر طرف ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا۔ نماز سے فارغ ہوکر مسجد کا معائنہ کر رہا تھا تو دیکھا اوپر سے کچھ خواتین باہر نکل رہی ہیں ،میں نے اپنے میزبان سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ یہاں ہرمسجد میں عورتوں کے نماز پڑھنے کے لیے خصوصی اہتمام ہوتا ہے۔ہم نے دیکھا کہ جدید طرز کا لباس پہنی ہوئی، سر پر حجاب لگائی ہوئی خواتین نماز ادا کر کے باہر نکل رہی ہیں۔ میری حیرت کی انتہا نہیں رہی۔ میری حیرت میں اس وقت اور بھی اضافہ ہوا جب امام صاحب کو دیکھا کہ وہ بھی جینس پینٹ اور شرٹ پہنے ہوئے ہیں۔ نماز کے وقت اوپر سے عبا پہن لیا اور گول ترکی ٹوپی لگا لی۔ مسجد سے باہر نکل کر سامنے ہی ٹرام کا اسٹیشن تھا۔ ہم ٹرام کے ذریعے ایوب سلطان پہنچے۔ وہاں ایک ریسٹورینٹ میں کھانے کے لیے بیٹھے۔ سامنے ہی سلطان ایوب مسجد تھی۔ کھانے کی ٹیبل پر میرے میزبان نے ایک بینر کی طرف اشارہ کیااور پوچھا آپ جانتے ہیں یہ کیا ہے ؟ ظاہر ہے ہم دونوں نے جواب نفی میں دیا تو انھوں نے بتا یا کہ یہ غزہ میں مجبور اور مظلوم مسلمانوں کی امدا د کے لیے بینر لگا ہو اہے۔ اس کے بعد جو انھوں نے بتا یا وہ زیادہ حیرت انگیز تھا ، انھوں نے کہا کہ ترکی کے لوگ غزہ کے مسلمانوں کی بڑی مدد کرتے ہیں۔ اس بینر کے لگتے ہی چند ہی دنوں میں اتنے پیسے اور سامان آگئے کہ ایک جہاز میں نہیں بھیجا جاسکا۔

آپ جانتے ہیں یہ وہی فریڈم فلوٹیلا جہاز تھا جس پر اسرائیل نے وحشیانہ حملہ کیا تھا۔ جس کی ساری دنیا میں مذمت کی گئی ہے۔خیر پُر لطف ترکی کھانے کا مزہ لینے کے بعد ہم ایوب سلطان مسجد کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ وہی مسجد ہے جہاں میزبان رسول حضرت ایوب انصاری ؓ کا مزار مبار ک ہے۔ ایوب سلطان مسجد شاخ زریں کے قریب قدیم شہر قسطنطنیہ کی فصیلوں کے باہر واقع ہے۔ یہ جگہ استنبول شہر کے یورپی حصے کے موجودہ ضلع ایوب میں ہے۔ یہ مسجد 1453ءمیں عثمانیوں کے ہاتھوں قسطنطنیہ کی فتح کے بعد 1458ءمیں تعمیر کی گئی۔ یہ مسجد عین اس جگہ تعمیر کی گئی جہاں صحابہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ 60ءمیں محاصرہ قسطنطنیہ کے دوران شہید ہو گئے تھے۔ ان کا مزار ترکوں کے لیے انتہائی مقدس و پُر عقیدت مقام ہے۔ اس کے اندر داخل ہونے کے لیے الگ دروازہ ہے اور نکلنے کے لیے الگ دروازہ ۔ مرداورخواتین ایک ہی دروازے سے داخل ہوتے ہیں۔ جب ہم اندر داخل ہوئے تو دیکھا بڑی تعداد میں ایک طرف ٹوپیاں رکھی ہوئی ہیں اور دوسری جانب ڈھیر سارے دوپٹے لٹکے ہوئے ہیں۔ جو خواتین بغیر دو پٹہ کے جاتی ہیں انھیں دو پٹہ اوڑھنے کو دیا جاتا۔ہم بھی سلام کے لیے حاضر ہوئے۔ اطمینان سے فاتحہ پڑھا ، اطمینان اس لیے کہ ہندستان کی طرح وہاں مزاروں پہ ہنگامہ بر پا نہیں رہتا۔

اتنی جگہوں کی زیارت کے بعد ہم تھک چکے تھے اور اپنے میزبان کا بھی خیال رکھنا تھا اس لیے ہم ایوب سلطان سے سیدھے ہوٹل آئے۔ تھوڑی دیر آرام کیا۔ سوچا اب شام ہو گئی ہوگی۔ لیکن وہاں تو دن اتنا لمبا ہوتا ہے کہ ہم دن سے تھک گئے۔ ہوٹل سے باہر آئے او ر تھوڑی دیر ہم اور ڈاکٹر رضوان یوں ہی بلا وجہ گھومتے رہے۔ ہم بہت دیر تک فوٹ اور بریج پر کھڑے رہے۔ٹرام ، بس اور اپنی گاڑیوں سے آنے جانے والے لوگوں کو دیکھتے رہے۔ بہت غور کرنے کے بعد بھی ہم یہ پتا لگانے میں ناکام رہے کہ یہاں کون غریب ہے اور کون امیر۔ ہر شخص خوش لباس اور شاداں و فرحاں نظر آیا۔ عام طور پر ہمارے یہا ں لوگوں کو دیکھ کران کی حالت زار کااندازہ لگا سکتے ہیں۔ ہندستان میں عام شاہراہوں پر یا ریلوے اسٹیشن پر کھڑے ہوجائیں تو امیر و غریب کا فرق معلوم ہو جائے گا۔ مگر اللہ کا شکر ہے ا س ملک میں کم از کم ایسی بات نہیں ہے۔ ہم نے بعد میں وہاں کے لوگوں سے دریافت کیا تو معلوم ہو اکہ یہاں کے لوگ معاشی اعتبار سے خوشحال ہیں۔ ایک دن ہم اور ڈاکٹر رضوان خوش گپی کرتے ہوئے ترکی کے حالات پر تبصرہ کر رہے تھے کہ ڈاکٹر رضوان نے ہم سے کہا مجھے ترکی میں ایک شخص پر بڑارحم آتا ہے۔ میں نے پوچھا کون ؟ انھوں نے کہا کہ صرف ایک شخص ایسا ہے جو سڑکوں پہ کچھ ڈھونڈتا رہتا ہے اور اسے کچھ نہیں ملتا۔ میری حیرت بڑھی تو انھوں نے بتا یا کہ صفائی کرنے والے پہ ! مجھے ا س بات پر بے ساختہ ہنسی آئی اور واقعی غور کیا تو ایسا ہی لگا کہ صفائی کرنے والے مستقل کوڑے ڈھوندتے رہتے ہیں اسی لیے سڑکوں پہ کوئی گندگی نظر نہیں آتی۔ مغرب بعد ہمیں ہوٹل کے لابی میں آنے کو کہا گیا تھا اور یہ بتایا گیا تھا کہ حیدر آبا د سے انڈیا لاگ فاؤنڈیشن کی دعوت پر ایک گروپ آرہا ہے۔ ان کے ساتھ ہمیں رات کے کھانے کے لیے کہیں جاناتھا۔ شام کو جب لابی میں آئے تو حیدرآباد کے مہمانوں سے ملاقات ہوئی۔ اس گروپ میں اردو کے سنئر پروفیسر خالد سعید اور مولانا آزاد یونیورسٹی کے پبلک ریلیشن آفیسر جناب عابد عبد الواسع بھی تھے۔ پروفیسر خالد سعید صاحب کو میں پہلے سے جانتا تھا مگر عابد عبد الواسع سے پہلی ملاقات تھی۔ ان سے مل کر ایسا لگا جیسے برسوں سے شناسائی ہے۔

خیر ہم سب جناب عیسیٰ اور نورالدین صاحب کے ساتھ آبنائے باسفورس کے کنارے ایک شاندار ہوٹل میں پر تکلف عشائیہ میں شریک ہوئے۔ سمندر کے کنارے ، خوبصورت ہوٹل اور ترکی کی خوشگوارفضا میں یہ عشائیہ ایک یادگار بن گیا۔ رات ہوٹل میں سکون سے گزار ا۔ دسرے دن بھی وقت نکال کر ہم جناب عثمان اولانا کے ساتھ استنبول یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں پہنچے۔ وہاں اردو کے اساتذہ سے ملاقات ہوئی۔ یونیورسٹی ہمارے ہوٹل سے نزدیک ہی تھا۔ لیکن شاید ہم تنہا یونیورسٹی نہیں جا سکتے تھے۔ کیونکہ وہاں کاجو نظام دیکھا طبعیت خوش ہوئی۔ کوئی بیرونی شخص اندر داخل ہی نہیں ہوسکتا۔ اور نہ کمپاؤنڈ میں کوئی کچھ شرارت کر سکتا ہے۔ ہمیں ڈیپارٹمنٹ سے فون آنے کے بعد باضابطہ شناخت کے ساتھ اندر جانے دیا گیا۔ جب یہ معلوم ہو اکہ یہاں شعبہ ارود میں تقریبا ً اسی طالبعلم ہیں تو خوشی ہوئی کہ اس شہر میں بھی اردو کی تعلیم ہوتی ہے۔ ا س کے بعد ہم فاتح یونیورسٹی گئے جو ایک پرائیوٹ یونیورسٹی ہے۔ اس یونیورسٹی کے قیام کو ایک دہائی سے کچھ زیادہ عرصہ ہوا ہے لیکن جس انداز کی عمارت تھی اور جس طرح تعلیم دی جاتی ہے یہ جان کر بے انتہا خوشی ہوئی۔ یہاں تعلیم کا معیار بہتر ہے۔ یہاں کئی پروفیسر ز سے ملاقات رہی۔ ترکی میں تقریبا ً سبھی لوگ تعلیم یافتہ ہیں۔ کیونکہ ہائی اسکول تک تعلیم حکومت کی جانب سے لازمی ہے اگر کوئی والدین اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھیجتے تو انھیں جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اسی طرح وہاں تما م شہریوں کے لیے لازم ہے کہ ایک خاص مدت شاید تین مہینے یا چھ مہینے کی آرمی ٹرینگ لینی ہوتی ہے۔ جب ہم انقرہ جارہے تھے تو دیکھا کہ ایک شخص کے ساتھ کئی لوگ ڈنکا بجاتے اورخوشی مناتے کسی کو چھوڑنے آئے تھے اس وقت ہمیں اس خوشی کا سبب معلوم نہیں ہوسکا ، ہم نے سوچا شاید کوئی فٹ بال کھلاڑی ہے۔ لیکن بعد میں معلوم ہواکہ وہ ٹرینگ کے لیے جا رہا تھا۔

استنبول میں اب تک کے قیام سے اندازہ ہو گیا تھا کہ ترکی کی شبیہ بدل رہی ہے۔ ترکی کو عام طورپر لوگ یوروپی طرز کے لیے زیادہ جانے جاتے ہیں۔ لیکن اب وہاں کے لوگ اسلام کی طرف راغب ہورہے ہیں۔ ہم نے وہاں دونو ں طرح کے لوگ دیکھے۔ ایک وہ جو مذہب کی جانب جھکاؤ رکھتے ہیں اوردوسرے جو مذہبی تو نہیں لیکن مذہب بیزار نہیں ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ ہمارے ہندستان میں لباس اور داڑھی ٹوپی سے مذہبی شخص کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ لیکن ترکی میں ایسے تہجد گزاروں کو بھی دیکھا جن کے لباس اور حلیے سے ان کے مذہبی ہونے نہ ہو نے کا تعین نہیں کرسکتے۔ تقریباً لوگ داڑھی مونچھ نہیں رکھتے۔ لڑکیاں زیادہ تر جینس پینٹ اورٹی شرٹ پہنتی ہیں۔ جن کا جھکاؤ مذہب کی جانب ہے وہ سر پر حجاب باندھتی ہیں۔ نئی نسل جو مذہب کی طرف کم لگاؤ رکھتے ہیں وہ بڑے آزاد خیال ہیں ، لڑکے لڑکیوں میں اختلاط عام ہے بڑے بے تکلف ہوکر آپس میں ملتے ہیں۔ہر شاپنگ مال اور دوکان میں لڑکیوں کو کام کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔ان کے معاشرے پر یوروپی طرز حاوی ہے۔ ہمارے ترکی دوست نے بتایا کہ کچھ برسوں کی ہی بات ہے کہ یونیورسٹی اور کالج میں لڑکیاں سر پر حجاب باندھ کر نہیں جاسکتی تھیں۔ لیکن اب جو باندھنا چاہتی ہیں ان پر کسی طرح کا دباؤنہیں ہے۔ ان تمام بے تکلفی اور آزاد خیالی کے بعد ہم نے ترکی میں جو چیز دیکھی وہ یقینا قابل ستائش ہے۔ طرح طرح کے لباس میں لڑکیاں ہر جگہ نظر آجاتی تھیں مگر کہیں کسی کو سیٹی بجاتے یا کسی کو جملہ کستے نہیں سنا۔ کئی دنوں تک تو ہم نے کسی پولیس والے کو کسی سڑک پر نہیں دیکھا ،یہاں تک کہ تاریخی عمارتوں کے آس پاس بھی پولیس کا سایہ نظر نہیں آیا ، ہمارے یہاں پولیس کی جو وحشت اور دہشت ہے وہ وہاں نظر نہیں آیا۔ اس سے اندازہ ہوا کہ یہاں عام طور پر لوگ امن پسند ہیں اسی لیے ہمارے شہروں کی طرح ہر جگہ پولیس کی گاڑیاں دوڑتی ہوئی نظر نہیں آئیں۔

استنبول میں قیام کے تیسرے روز ہم ویو پوئنٹ دیکھنے گئے۔یہ ایشیائی حصے میں ہے ، یہ انھیں سات پہاڑوں میں سے ایک ہے ، جس کا ذکر میں نے پہلے کیا ہے۔ یہ حصہ اب سیاحوں کی کشش کا مرکز بن چکا ہے۔یہاں سے استنبول کے یوروپی حصے کا حسین منظر دیکھا جا سکتا ہے۔ یہاں سے نیلی گنبد کی مسجد ،ایا صوفیہ اور ساحل سمندر پر بسے شہر کے خوبصورت نظارے کو دیکھا جا سکتا ہے۔ یہاں سے دیکھتے ہوئے جو چیز سب سے زیادہ باعث کشش ہے وہ یہاں کی سرخ اور مٹیالے رنگ کی ایک جیسی عمارتیں اور ہر جگہ مسجدوں کے بلنداور دیدہ زیب مینار ے اسلامی شان و شکوت کی منہ بولتی تصویر یں نظر آتی ہیں۔ استنبو ل سے جاتے ہوئے ہم اس تاریخی پُل سے گزرے جو یوروپ اور ایشیا کو آپس میں جوڑتا ہے یہ تقسیم کا علاقہ انتہائی خوبصورت ہے۔ پل اتنی اونچائی پر ہے کہ اس کے نیچے سے بڑے بڑے جہاز گزر سکتے ہیں۔ پل کے عین کنارے ایک انتہائی خوبصورت مسجد ہے جسے جہاز پر سوار ہوکر نزدیک سے دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ اس مسجد کا صحن عین سمندر میں واقع ہے۔ ویو پوائنٹ سے ہم اسکودر ، ایشائی جانب سمند رکا وہ کنارہ جہاں سے سیاح چھوٹے چھوٹے جہازوں پر بیٹھ کر سیر کرتے ہیں۔ ہم بھی اس کنارے پر پہنچے ہمارے لیے میزبانوں نے ایک خاص جہاز کا انتطام کر رکھا تھا۔

ہمارے ساتھ انڈیا لاگ کی جانب سے حیدر آباد سے آئے مہمان بھی تھے اور ہمارے دوست جناب عابد عبد الواسع بھی ہمرہی کا لطف بڑھارہے تھے۔ ہم اور عبدالواسع، ڈاکٹر رضوان ،پروفیسر خالد سعید ، وٹل راؤ،ستیہ پرکاش اور عثمان اولانا نے جہاز کے عرشیے پر ہی بیٹھنا پسند کیا۔ باقی لوگ جہاز کی نچلی منزل پر حسین مناظر کا لطف لے رہے تھے۔ ہوائیں اتنی تیز تھیں اورکشتی جس طرح ہچکولے لے رہی تھی کہ اوپر کھڑا ہونا مشکل تھا۔ لیکن ہم لوگ اس وقت کا انتظار کر رہے تھے کہ کشتی مسجد کے کنارے پہنچے تو ہم اس کی تصویر لے سکیں۔تقسیم بریج کراس کرتے ہی کچھ دوری سے گولڈن ہارن کا علاقہ شروع ہوتا ہے۔ یہ پرانے شہر کا منظر ہے۔ ہم لوگ تقسیم پُل کے پاس سے ہی واپس لوٹے اس کے بعد گرلز ٹاور دیکھنے گئے ۔ یہ سمندر کے بیچ ایک چھوٹے سے جزیرے پر واقع ہے ۔ یہ اونچے مینار کی طرح بنا ہوا جس میں تین منزل ہے ۔ اس مینار کے بارے میں مشہور ہے کہ قدیم دور کے بادشاہ کو اس کے نجومی نے بتایاکہ آپ کی لڑکی موت سانپ کاٹنے سے ہوگی ۔ بادشاہ نے اس ڈر سے سمند کے بیچ اس کے لیے ایک گھر بنوایا ۔ ہر صبح اس کا معمول تھا کہ اپنی لڑکی کے لیے پھولوں کا گلدستہ بھیجتاتھا ۔ ایک دن اسی گلدستے میں ایک سانپ چھپا تھا ۔ کب لڑکی نے اس گلدستے کو لیا تو سانپ نے ڈس لیا اور اس کی مو ت ہو گئی ۔ اسی مناسبت سے اس ٹاور کو گرلز ٹاور کہا جاتا ہے۔

شام کی بس سے انقرہ کے لے روانہ ہوئے۔ یوں تو ہمیں قونیا جانا تھا لیکن ایک دن کا وقت تھا سوچا انقرہ دیکھتے جائیں۔ لہذا ہم نے ایشائی حصے سے انقرہ کی بس لی۔ یہاں کی بسیں بھی کیا خوب ہیں۔ ہر طرح کی سہولت کے ساتھ ساتھ انتہائی آرام دہ۔ہر سیٹ پر ٹیلی ویڑ ن اسکرین موجود تھی جس میں چھ سات چینل براہ راست آرہے تھے۔ استبول انقرہ روڈ خوبصورت پہاڑ کی وادیوں سے ہوکر گزرتا ہے راستے میں کئی جگہ ایسا محسوس ہو اجیسے ہم سرنگ سے گزر رہے ہوں کیونکہ دونوں جانب سے بلند ا ور ہر بھرے درختوں سے مزین پہاڑکھڑے تھے ، البتہ کچھ ہی دیر بعد ایک ایسے سرنگ میں ہماری بس داخل ہوئی جس کی لمبائی چار کیلو میٹر کے آس پاس تھی۔ پہاڑی سلسلوں کے درمیان کئی چھوٹے بڑے جھیل بھی قدرت کے حسین مناظرپیش کر رہے تھے۔ اس لیے ہم ٹی وی دیکھنے کے بجائے باہر کے نظارے سے لطف انداز ہو رہے تھے۔رات دس بجے انقرہ شہر میں داخل ہوئے۔ بس اسٹینڈ کی جانب جب ہماری بس جارہی تھی تو مجھے ایسا لگا جیسے غلط جگہ یہ بس داخل ہو رہی ہے کیونکہ یہ بس اسٹینڈ بالکل ائیر پورٹ جیسا تھا۔ دومنزلہ عمارت اور بہت ہی وسیع و عریض رقبے میں پھیلا ہوا تھا۔بس اسٹینڈ کا نقشہ بالکل ائیر پورٹ جیسا تھا۔ ہم نے پہلی دفعہ ایسا بس اسٹینڈ دیکھا تو حیرت ہوئی۔ بس سے اُتر کر ہم اپنے میزبان کا انتظار کر رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں دو صاحبان آئے اور انھوں نے کہا “ اِ ندستانی ’ وہاں کے لوگ ہندستانی کو اندستانی کہتے ہیں۔ اس کے بعد ہم ان کے ساتھ ہولیے۔ اکسیلیٹر کے ذریعے اوپری منزل پر گئے اور باہرنکل کر ان کی گاڑی میں بیٹھ گئے۔ اسوقت مجھے یہ شعر یاد آیا اوربار بار ڈاکٹر رضوان کو سنا کر لطف لیتا رہا :

زبان ِیار ِمن ترکی و من ترکی نمی دانم
چہ خوش بودے اگر بودے زبانش در دہان ِ من

وجہ یہ تھی کہ جو دو صاحبان ہمیں لینے آئے تھے انھیں انگریزی بالکل نہیں آتی تھی ہم اشاراتی زبان میں کام چلا رہے تھے۔ ترکی میں مشکل یہ ہے کہ کم ہی لوگ ترکی کے علاوہ کوئی اور زبان جانتے ہیں۔ خیر ہم گیسٹ ہاؤس گئے اور رات آرام کیا۔ صبح ناشتے سے فارغ ہوکر شہر کی جانب جانے کا ارداہ تھا۔ اتفاق سے ایک ایسے صاحب مل گئے جنھیں عربی زبان آتی تھی ، ان سے ڈاکٹر رضوان نے عربی میں بات کر کے شہر کے بارے میں معلوم کرنا چاہا تاکہ کم سے کم وقت میں اور ایک ہی دن میں ہم لوگ انقرہ شہر دیکھ لیں۔ ہمارے ساتھ انڈیا لاگ کے ایک دوست انقرہ کے ایک اسکول دیکھانے لے گئے جو فتح اللہ گلین صاحب کی تعلیمی تحریک کے تحت قائم ہوا ہے۔ ان کی تعلیمی تحریک اتنی مضبوط ہے کہ اس پلیٹ فارم کے تحت پوری دنیامیں ہزاروں اسکول قائم ہیں جو بہترین تعلیم و تربیت کے مثالی ادارے ہیں۔اس اسکول کو دیکھا جہاں ہر طرح کی جدید سہولتیں دستیاب تھیں اور اسکول کیا ہمارے یہاں تو کارپوریٹ کے ایسے دفتر بھی نہیں ہوتے۔ بہت ہی خوبصورت اور جگہ جگہ قالین بچھی ہوئی ،کلاس روم میں تمام جدید تر آڈیو ویڈیو سہولیات ،انتہائی قابل اساتذہ۔ ان سے مل کر اندازہ ہو اکہ اسکول کا ایسا بھی معیار ہوتا ہے۔ اسی اسکول کے کینٹن میں ہم نے دوپہر کا لذیز کھانا کھایا۔ اس کے بعد میوزیم اور انقرہ کی مارکیٹ کی سیر کی۔ شہر کی جامع مسجد میں نماز پڑھی ہمارے ساتھ ایک ترک بزنس مین تھے جن کی گاڑی میں ہم گھوم رہے تھے ، یہ صرف ترکی زبان جانتے تھے اس لیے فاتح یونیورسٹی کے ایک طالبعلم کو ہمارے مترجم کے طور پر ساتھ کر دیا گیا تھا۔ نماز پڑھنے کے بعد منبر کے نزدیک ہی ہم کچھ دیر بیٹھے رہے۔ ہمارے میزبان نے بتایا کہ جس قالین پر آپ بیٹھے ہوئے ہیں یہ مسجد نبوی میں ریاض الجنہ کی قالین ہے اور اس کی ساتھ سرخ رنگ کی قالین بھی مسجد نبوی سے تحفے میں یہاں آئی ہے۔

چونکہ مسجد نبوی کے لیے قالین یہیں سے بن کر جاتی ہے لہٰذا جب جب وہاں قالین تبدیل کی جاتی ہے تحفے میں یہاں قالین بھیجی جاتی ہے۔ اس کے برابر ہی واٹر کنٹینر رکھا تھا جس میں زمزم تھا ہم نے شکم سیر ہوکر زمزم بھی پیا۔ نماز کے بعد ہم نے ٹرالی میں سفر کرنے کا ارادہ بنایا۔ چونکہ انقرہ نشیب و فراز کا علاقہ ہے اس لیے اس ٹرالی پر سوار ہو کر شہر کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ دو کیلو میٹر لمبے راستے پر ہم نے ٹرالی کا مزہ لیا۔ شام کو انقرہ کی ایک مسجد میں عصر کی نماز کے لیے رکے۔ اسی احاطے میں ایک بزرگ کا مزار ہے جو بہت ہی قدیم ہے۔ یہ مسجد کئی سو سال پُرانی تھی اس لیے وہاں مرمت کا کام چل رہا تھا۔ لیکن نمازیوں کو کوئی تکلیف نہ ہو اس لیے عمدہ قسم کے شامیانے سے ایک عارضی مسجد بنائی گئی تھی۔ مجھے حیرت ہوئی کہ اس عارضی مسجد میں بھی تمام طرح کی سہولیات تھیں اوریہ عارضی مسجد بھی باضابطہ ایک مسجد تھی۔ اس پر اتنے پیسے خرچ کیے گئے ہوں گے کہ ہم اتنے میں ایک نئی مسجد بنا سکتے ہیں۔ خیر یہ ترکوں کی دریا دلی کا ثبوت ہے۔ البتہ یہاں مردوں او ر عورتوں کے لیے الگ لاگ عارضی مسجد تھی۔نماز کے بعد ہم مزار پر فاتحہ کے لیے حاضر ہوئے۔رات دیر گئے ہم گیسٹ ہاؤس واپس آئے۔علی الصباح قونیا کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ راستہ بھی ویسا ہی پُر بہار تھا ۔ راستے میں ہم نے دیکھا کہ ہر طرف سر سبز وشادب کھیتی کی زمینیں تھیں اور بیچ بیچ میں چھوٹے چھوٹے گاؤں تھے۔ لیکن شاید انھیں گاؤں کہنا مناسب نہیں ہوگا کیونکہ ان کے مکانات بھی ویسے ہی خوبصورت تھے اور آنے جانے والی سڑکیں بھی نہایت عمدہ تھیں۔ چھوٹی سی آبادی کے بیچ بھی ایک مسجد ضرور تھی۔

قونیا پہنچ کر مولانا روم یونیورسٹی گئے۔ پروفیسر بہا ءالدین آدم وائس چانسلر اور سرہادتیکی لیوغلو جنرل سکریٹری سے ملاقا ت ہوئی انھوں نے اس یونیورسٹی کے قیام کے بارے میں ہمیں بتا یا کہ یہ ابھی ایک سال پُرانی یونیورسٹی ہے۔ اس یونیورسٹی کے تعلیمی منصوبے کے بارے میں بتایا اور جب اس کی عمارت کی بات کی تو ہماری حیرت کی انتہا نہیں رہی۔ اس یونیورسٹی میں ابھی تعمیر کا کام چل رہا تھا۔ انھوں نے یہ بتایا کہ یہ پوری عمارت اس سے پہلے ایک شاپنگ مال تھا۔ جسے ایک صاحب خیر نے یونیورسٹی کے نام پر وقف کر دیا ہے۔ یہ جان کر واقعی حیرت انگیز خوشی ہوئی کہ ایسے بھی لوگ ہیں جن کے اندر ایسا دینی جذبہ موجود ہے۔ اس کے بعد ہم نے جمعہ کی نماز سے فارغ ہوکر کھانا کھایا اور کچھ دیر بعد مولانا روم کے مزار پر حاضری کے لیے روانہ ہوئے۔ مولانا روم جن کو بار بار پڑھا اور تصوف کے حوالے سے جن کا ذکر بار بار سُنا ان کے دربار میں حاضری کی خوشی تھی ہم چاہ رہے تھے جلد پہنچ جائیں۔ بس میں بیٹھے دور سے ہی اس گنبد کو دیکھنا چاہتے تھے مگر سڑکوں پر ہر جگہ ہرے بھرے درخت تھے اس لیے دور سے گنبد نہیں دیکھائی دیا۔ جب ہماری بس رکی تو سامنے وہ گبند بھی تھا اور اس مولانا روم کے مزار کے احاطے کی وسیع و عریض مسجد کی دیواریں۔ ہم اندر داخل ہوئے۔اور پہلے مزار پر حاضری کے لیے پہنچے۔ اندر داخل ہوتے ہی مارہرہ مطہرہ کہ یاد آگئی۔ ایک ہی چھت کے نیچے بہت سارے مزار تھے۔ ہماری بائیں جانب کے مزارت پر سفید رنگ کی پگڑی اور دائیں جانب کے مزارت کے سرہانے سبز رنگ کی پگڑی بندھی تھی۔ ہم نے جب دریا فت کیا تو معلوم ہو کہ جو ان کے خاندان کے بزرگ ہیں ان کے مزار کے سرہانے سفید رنگ کی پگڑی ہے اور جو ان کے سلسلے کے بزرگ ہیں ان کے سرہانے سبز رنگ کی پگڑی ہے۔ اور دائیں جانب بالکل آخری حصے میں مولانا روم کا مزار تھا۔

یہ مزار تقریباً چھ فٹ اونچا اور آٹھ فٹ لمبا تھا۔ مزارپر قرآنی آیات لکھے ہوئے سبز رنگ کی چادر تھی اور سرہانے مزار پر ایک گول سا حصہ نکلا ہو ا تھا جس پر سفید رنگ کی پگڑی بندھی ہوئی تھی۔ زمین میں یہاں سے وہاں تک مزار سے بالکل متصل قالین بچھا ہوا تھا۔ یہاں فاتحہ پڑھنے کے بعد اسی احاطے میں آگے مولانا روم کے تبرکات تھے۔کچھ ان کے کپڑے، جبہ ،ٹوپی کے علاوہ ایک بہت ہی لمبی تسبیح تھی جو لکڑیوں سے بنی ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ نئے ( بانسری نما آلہءموسیقی) مضراب اور دف۔ کچھ ہی دور کے فاصلے پر قرآن پاک کے کئی نادر نسخے اور مثنوی مولانا روم کے کئی نسخے تھے۔ فاتحہ پڑھنے کے بعد ہم دوسرے کنارے پر ایک بڑے ہال میں داخل ہوئے جہاں انسانی شکل کے کئی لوگوں کی شبیہ بنائی گئی تھی۔ ایک گول میز کے کنارے مولانا روم اور ان کے شاگرد تھے اور دوسری جانب ان کے خدام اور مطبخ تھا۔یہ دیکھ کر مجھے سمجھ میں نہیں آیا کہ ایسا کیوں بنایا گیا ہے۔ کسی نے اس کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تو میں نے یہ قیاس کیا کہ شاید اس لیے ہو کہ یہاں ہمیشہ پوری دنیا سے لوگ مولانا روم کے مزار پر آتے ہیں اور مسلمانوں سے زیادہ غیر ملکی اور یوروپی آتے ہیں۔آج کے زمانے میں تصوف پر یوں بھی بہت زور ہے تو جو شخص بھی تصوف کے بارے میں کچھ جاننا یا پڑھنا چاہتا ہے تو وہ مولانا روم کو ضرور پڑھتا ہے۔ اس لیے شاید ان کی سمجھ کے لیے میوزیم کی طرز پر اس کو ڈیولپ کیا گیا ہو۔

قونیا کا صوفی رقص جو پوری دنیا میں مشہور ہے ، اسے وہاں دیکھنے کا موقع تو نہیں ملا مگر اس رقص کی تصویریں پورے قونیا شہر میں دیکھنے کو ملی۔مزار سے متصل ایک بازار ہے جہاں سے کئی چیزیں خریدیں اور حیرت اس بات پر ہوئی کہ ہمارے یہاں نظام الدین اولیا یا خواجہ غریب نواز کے مزار پر فاتحہ کے لیے جو لقم دانہ ملتا ہے ، ویسا ہی لقم وہاں ہر طرف بِک رہا تھا۔ لیکن وہاں کے لقم کا جو مزہ ہے وہ یہاں نہیں ہے۔ ترکی میں بھی اسے لقم ہی بولا جاتا ہے۔ وہاں کسی مزارپر پھول چڑھانے یافاتحہ کے لئے کچھ اندر لے جانے کی اجازت نہیں۔ مولانا روم کا مزار چونکہ ایک بڑی مسجد کے احاطے میں ہے اس لیے ان کے مزار کی چھت پر سبز رنگ کا ایک مینار بنا ہواہے۔ شام کو ہمارے میزبان جناب عصمت کھانے کے لیے ایک شاندار ریسٹراں لے گئے اور کہا کہ چلیں آج قونیا اور ترکی کی ایک مشہور ڈش کھلاتے ہیں۔ انھوں نے ترکی پیز ا کا آڈر دیا۔ کچھ ہی دیر میں پیز ا کے ساتھ لذیذ چٹنی ہمارے سامنے تھی۔ یہ پیز ا نان کی طرح تھا جس پر گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے تھے واقعی بڑ ا لذیذ تھا۔ کھانے کے درمیان عصمت صاحب نے بتایا کہ اس پیزے کا ڈیمانڈ اب یوروپ میں بھی ہونے لگا ہے اور ترکی کے لوگ مغربی طرز کا پیزا کم ہی کھاتے ہیں۔ رات کے پُر لطف کھانے کے بعد ہم نے اگلے دن کے سفر کی فکر کیونکہ دوسرے دن ہی ہمیں شام کی فلائٹ سے دہلی کے لیے روانہ ہونا تھا۔ ہم نے سوچا رات ہی کو بس سے استنبول کے لیے روانہ ہو جائیں۔ لیکن ہم کافی تھک چکے تھے اس لیے یہ مشورہ ہوا کہ صبح کی فلائٹ سے استنبول جائیں گے۔

لہٰذا جب ہم نے اپنے دوست عثمان اولانا کو جہاز کے ٹکٹ بک کرنے کی گزارش کی۔انھوں ٹکٹ بک کر کے پی این آر نمبر ایس ایم ایس کر دیا۔ اس کے بعد فون پر ہمیں بتا یا کہ جہاز کا ٹکٹ بس سے سستا ہے۔ بس کا کرایہ 80 ترکی لیرا تھا اور جہاز کا صرف 59 لیرا۔ یہ ہمارے لیے حیرت کی بات تھی۔ لیکن معلوم ہو اکہ لوگ بس سے زیادہ سفر کرتے ہیں اور دور کی بسیں بہت آرام دہ اور جہاز کی طرح چائے پانی کے علاوہ لنچ وغیرہ کا بھی باضابطہ اہتمام کرتے ہیں۔ خیر ہم صبح کی فلائٹ سے گیارہ بجے استنبول پہنچ گئے۔بھائی عثمان اولانا ہمار انتظار کررہے تھے۔ ان کے ساتھ انٹر نیشل ائیر پورٹ جانا تھا۔ لیکن ہمارے پاس وقت ابھی بہت تھا اس لیے وہ ہمیں ترکی کے مشہور اسپائس بازار لے گئے جو سلطان فاتح بریج جو یوروپی حصے پر واقع ہے۔ یہاں ہمیں کچھ پاکستانی لوگ اردو بولتے ہوئے ہمیں کچھ خریدنے کی دعوت دے رہے تھے۔ ہم نے پہلی دفعہ یہاں کسی کو اردو بولتے ہوئے سُنا۔ اس لیے ان سے رغبت ہوئی اور ان کی دوکانوں سے بچوں کے لیے کچھ تحائف خریدے۔ بھائی عثمان نے بھی ترکی کی مشہور چائے کی پیالی ( فنجان ) خرید کر تحفے میں ہمیں پیش کیا۔ اور 4 بجے ہم انٹرنیشنل ائیر پورٹ پہنچ گئے۔ ترکی کو الوداع کہتے ہوئے تکلیف ہورہی تھی مگر اس دعا کے ساتھ جہاز پر روانہ ہوئے کہ خد ا پھر سبیل پید اکرے اور ہم ترکی کی خوشگوار فضااور خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہوسکیں۔
عالمی اخبار