Friday, October 22, 2010

سر سید مرحوم اور مولانا قاسم نانو توہیؒ، ایک دوسرے کی نظر میں:ڈاکٹر شمس الہدیٰ دریابادی



ہندوستان کی تعلیمی تاریخ میں سرسیّد مرحوم اور مولانا قاسم نانوتوی کے نام انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ 1857کے انقلاب اور ہنگامہ خیز واقعہ نے برصغیر کی سیاسی، سماجی اور معاشی صورت حال کو ایک نئی کروٹ دی۔ لوگوں کے اذہان بری طرح متاثر بلکہ مجروح ہوچکے تھے اور اس ناکامی کو قبول کرنے پر آمادہ نہ تھے، لیکن اسے کیا کہئے کہ مغل شہنشاہیت کے رعب و دبدبہ کا طلسم ٹوٹ گیا اور یہ حقیقت آشکارا ہوگئی کہ ’’حکم کمپنی بہادر کا‘‘ نافذ ہوچکا ہے۔ انگریزوں کے ظلم و تشدد اور ہر موڑ پر عتاب کا نشانہ بننے والے خصوصاً ہی تھے، جنہیں گوروں نے اقتدار سے محروم کردیا تھا۔ یہی نہیں انہیں ہر جگہ امتیاز کا سامنا کرنا پڑا۔ مسلمانوں کو پسماندگی، افسردگی اور احساس محرومی سے نجات دلانے کے لیے مصلحین نے قدم اٹھایا اور بڑے خلوص و تندہی سے اپنے اپنے طور پر حالات کو درست اور اسباب کو دور کرنے میں اپنے آپ کو وقف کردیا۔ ایسے ہی لوگوں میں سرسید مرحوم اور مولانا قاسم نانوتوی کے نام نہ صرف قابل ذکر ہیں، بلکہ ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیمی تاریخ کی نشاۃ ثانیہ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہے۔
سرسید مرحوم مسلمانوں کے تمام مسائل کے حل کی درستگی جدید تعلیم میں تلاش کرتے ہیں، جب کہ مولانا قاسم نانوتوی اس کے لیے احیائے علوم دین کو ضروری سمجھتے ہیں۔ اول الذکر انگریزوں سے تعلقات کو استوار کرنے کے خواہاں ہیں، جب کہ آخر الذکر انگریزوں سے کسی بھی طرح کی معاونت کو مضر گردانتے ہیں۔ سید صاحب نئے علوم کے ساتھ جدید تہذیب کو بھی اختیار کرنے کی دعوت دیتے ہیں تاکہ معیار زندگی بلند ہو اور احساس کمتری سے نجات ملے، اس کے برعکس مولانا نانوتوی علوم دین کے ساتھ اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے کو سود مند کہہ رہے ہیں، حقیقی معنوں میں یہی مسلمانوں کی بقا کا ضامن ہے،لیکن اس سے ہرگز یہ نہ سمجھ لینا چاہیے کہ نانوتوی کے رفقا نے سید صاحب کے تعلیمی مشن کی مخالفت کی یا سید صاحب نے نانوتوی کے نقطۂ نظر اور ان کی جدو جہد کو غیر ضروری سمجھا۔ ہاں سید صاحب کی مخالفت ہوئی، بلکہ شدید مخالفت ہوئی اور ان کی ذات کو مجروح کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی، لیکن ارباب دیوبند کا اس سے تعلق نہ تھا۔ مخالفت کرنے والوں میں دو نام قابل ذکر ہیں، ایک ڈپٹی کلکٹر حالیؔحیاتِ جاوید میں رقم طراز ہیں:’’مدرسۃ العلوم کے سب سے بڑے مخالف دو بزرگ تھے جو باجود ذی وجاہت اور ذی رعب ہونے کے علاوہ علومِ دینیہ سے بھی آشنا تھے، ایک مولوی امداد ڈپٹی کلکتہ کانپور اور دوسرے مولوی علی بخش خاں سب جج گورکھپور۔ اگرچہ دونوں حضرات مذہبی عقائدو خیال کے لحاظ سے ایک دوسرے کے ضد حقیقی تھے یعنی پہلے سخت وہابی اور دوسرے سخت بدعتی اور یہ ایسا اختلاف تھا کہ کسی بات پر دونوں کا اتفاق کرنا محال عادی معلوم ہوتا تھا باوجود اس کے مدرسۃ العلوم کی مخالفت پر دونوں ہم زبان اور متفق الکلمہ تھے۔‘‘
فتویٰ کی مہم انہیں دونوں حضرات نے چلائی تھی۔ دونوں لوگ فتوؤں کی آڑ میں سرسید کو خارج از اسلام کہتے تھے۔ یہ امر قابل لحاظ ہے کہ جن حضرات نے فتویٰ دیا ان کے سامنے سرسید کی ذات نہیں تھی، بلکہ جس دن عقائد فتویٰ جاری کیا جو استفتا میں درج ہے، لیکن ان دونوں حضرات نے فتوؤں کے ساتھ سرسید کے نام کو جوڑ کر ان کی ذات کو نشانہ بنایا۔
سرسید مرحوم اور مدرسہ دیوبند
سرسیدمرحوم کو کسی دینی درسگاہ سے بالکل اختلاف نہیں تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ جدید علوم کے ساتھ علوم دینیہ کی بھی اشاعت ہو، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مدرسۃ العلوم علی گڑھ میں اس کا شعبہ بھی قائم کیا۔ مدرسہ دیوبند کے وہ ہمیشہ حامی رہے ہیں اور اس کی کامیابی چاہتے تھے، چنانچہ جب مدرسہ دیوبند کے مہتمم مولانا رفیع الدین صاحب نے سرسید کے پاس مدرسہ کی سالانہ رپورٹ بھیجی، جس میں مدرسہ کی طرف سے مسلمانوں کی بے توجہی اور غفلت کا رونا رویا گیا تھا، اس کو پڑھ کر سرسید کے دل پر بہت اثرا ہوا، چنانچہ یکم جمادی الثانی ۱۲۹۰ھ کے تہذیب الاخلاق میں ’’عربی مدرسہ دیوبند اور مسلمانوں کا جھوٹا دعوۂ دین داری‘‘ کے عنوان سے تین صفحہ کا مضمون لکھا۔ یہ ایک درد بھری تحریر ہے، جس میں مسلمانوں کی بے حسی پر اظہار افسوس کیا ہے، وہ لکھتے ہیں: ’’اول بلحاظ مسلمانوں کے جوش مذہبی کو ہم سمجھتے تھے کہ جو مدرسہ ہم قائم کرنا چاہتے تھے، جس میں علوم انگریزی اور دیگر علوم دنیاوی بشمول علوم دینی پڑھائیںگے، اس پر متعصب دین دار اعتراض کرتے ہیں اور اس کو کرسٹانی مدرسہ ٹھہراتے ہیں اور اسی سبب سے لوگوں کو اس میں چندہ دینے سے منع کرتے ہیں تو عربی مدرسہ دیوبند جس میں بجز مسلمانی کے اور کچھ نہیں ہے، جس میں وہی پرانے علوم پڑھائے جاتے ہیں جن کو مسلمان چاہتے ہیں ۔ بڑے بڑے مسلمانوں نے ضرور مدد کی ہوگی۔ رپورٹ کو دیکھنے سے ہم کو نہایت مایوسی ہوئی… مسلمانوں پر نہایت افسوس ہے کہ ایسے مدرسہ میں جیسا کہ دیوبند کا عربی مدرسہ ہے اور جس میں مولوی محمد قاسم سا فرشتہ سیرت شخص نگران ہے اور مولوی محمد یعقوب صاحب سا شخص مدرس ہے، کچھ مدد نہ کریں۔‘‘
آگے طلبہ کی تعداد، صلاحیت اور انعامات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’قوم کا مسلمانی مدرسہ اور ایسی خراب اور محتاج حالت میں ہے۔ کہاں ہیں بڑے بڑے دین داری کا دعویٰ کرنے والے؟ اور کیوں مذہب اسلام کے مدرسہ کو ایسی حالت میں ڈال رکھا ہے… ہماری غرض اس تحریر سے مسلمانوں کو اس بات کی غیرت دلانا ہے کہ ان کے دونوں کام دین و دنیا سب خراب و ابتر ہیں، ان کو چاہیے کہ اس مدرسہ کی ایسی مددکریں اور ایسی اعلیٰ ترقی پر پہنچائیں جو اسلام کی رونق و شان کا نمونہ ہو۔‘‘
دونوں کی شخصیت ایک دوسرے کی نظر میں
جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے کہ سرسید کی ذات کو اربابِ دیوبند نے کبھی بھی طنز و تعریض اور ملامت کا نشانہ نہیں بنایا، بلکہ ان کے کام، خلوص اور مسلمانوں کے تئیں ہمدردی کو ہمیشہ سراہا ہے، لہٰذا مولانا نانوتوی سرسید کی تعریف میں ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں:’’سید صاحب کی اولوالعزمی اور دردمندیٔ اسلام کا معتقد ہوں اور اس وجہ سے ان کی نسبت اظہار محبت کروں تو بجا ہے۔‘‘
اس طرح سرسید مرحوم بھی مولانا نانوتوی کے دل سے معتقد تھے۔ مولانا قاسم نانوتوی کے انتقال پر بہت لوگوں نے تعزیتی تحریریں لکھیں، لیکن جو تحریر سرسید نے لکھی وہ بے مثال ہے۔ شاید کسی اور نے ایسی تعزیتی تحریر نہ لکھی ہو، یہ اس بات کی غماز ہے کہ سرسید مرحوم اور مولانا نانوتوی میں کس قدر تعلق تھا۔ یہ تحریر علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ 24اپریل1880کے 468صفحات پر شائع ہوئی اس کے چند اقتباسات نقل کرتا ہوں، سرسید لکھتے ہیں:’’افسوس ہے کہ جناب ممدوح(مولانا قاسم نانوتوی) نے 15اپریل1880کو ضیق النفس کی بیماری میں بمقام دیوبند انتقال فرمایا۔ زمانہ بہتوں کو رویا ہے اور آئندہ بھی بہتوں کو روئے گا، لیکن ایسے شخص کے لیے جس کے بعد اس کا کوئی جانشین نظر نہ آئے تو نہایت رنج و غم اور افسوس کا باعث ہوتا ہے۔‘‘
ان کے کمال بزرگی کا اعتراف کرتے ہوئے اسی مضمون میں آگے لکھتے ہیں:’’مولوی محمد قاسم مرحوم نے اپنی کمال نیکی اور دین داری اور تقویٰ اور ورع اور ملسکینی سے ثابت کردیا کہ اس دلی کی تعلیم و تربیت کی بدولت مولوی محمد اسحق صاحب کی مثل اور شخص کو بھی خدا نے پیدا کیا ہے، بلکہ چند باتوں میں ان سے زیادہ۔‘‘
مدرسہ دیوبند کو ان کی یادگار بتاتے ہوئے اس سے مکمل تعاون کی اپیل کرتے ہیں:’’دیوبند کا مدرسہ ان کی نہایت عمدہ یادگاری ہے اور سب لوگوں کا فرض ہے کہ ایسی کوششیں کریں کہ وہ مدرسہ ہمیشہ قائم اور مستقل رہے اور اس کے ذریعہ سے تمام قوم کے دل پر ان کی یادگاری کا نقش جما رہے۔‘‘
الغرض سرسید مرحوم اور مولانا نانوتوی میں بعض اختلافات کے باوجود مقصدیت میں بڑی حد تک یگانگت اور مماثلت پائی جاتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس نے ایک دوسرے کے لیے عزت و احترام اور توقیر کا جذبہ پیدا کیا اور ان دونوں کے خلوص و للہیت اور ہندوستان میں مسلمان اور اسلام کے مستقبل کی فکر نے ہی علی گڑھ اور دیوبند کو وہ مقام عطا کیا اور اس نے وہ خدمات انجام دیںکہ کوئی بھی ان دونوں کی ہمسری نہ کرسکا۔

بشکریہ چوتھی دنیا

No comments:

Post a Comment