Tuesday, October 26, 2010

حقوق کی لڑائی اُٹھا رکھے ہیں ہم نے کتنے کاسے۔۔۔! :عزیز بلگامی



ساری دنیا میں عام اتفاق رائے یہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمان بڑی کسمپرسی کی زندگی گزارتے ہیں۔اِدھر ہندوستانی مسلمان بھی اِ س حقیقت کے سلسلے میں دو رائے نہیں رکھتے کہ نہ صرف ہندوستان بلکہ سارے عالم کے مسلمان زبوں حالی کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔کل ملا کر کیفیت یہ ہے کہ پونے دوسو کروڑ نفوس پر مشتمل یہ عالمی قوم اپنی ذلّت و نکبت کے بد ترین دور سے گزر رہی ہے۔بد بختی کے اِس گہرے کالے سمندرمیں خوشحالی کے کچھ چمکدار جزیرے ہو سکتے ہیں،بلکہ ہیں،لیکن ان کے ہونے نہ ہونے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔پھر اِس پر مستزاد یہ کہ اِسے کم از کم اِس کسمپرسی کے ساتھ ہی سہی، چین سے جینے نہیں دیا جاتا بلکہ اِس کے خلاف ظلم و ستم کی بھٹیاں سلگتی رہتی ہیں۔کیونکہ طاقتور قومیں کمزور اقوام کو بہت کم برداشت کر پاتی ہیں۔اِس صورتحال سے گھبرا کر اِس قوم کے نوجوان یا تو ہتھیار اُٹھا لیتے ہیں یا کاسۂ گدائی تھامے ہوئے ظالم کی خوشنودی پر اُتر آتے ہیں۔چونکہ ہتھیار اُٹھالینا متعدد وجوہات کی بنا پر سب کے بس کی بات نہیں ہوتی، اِس لیے زیادہ تراِن کے لیے آخری چارۂ کار کے طور پر جو چیز باقی رہ جاتی ہے وہ حقوق کے حصول کی مہم ہی ہے ۔۔۔چاہے وہ پرامن ہی کیوں نہ ہو یا جمہوری سیٹ اپ میں حاصل اِجازت کے تحت ہی کیوں نہ چلائی جائے۔دلچسپ مگر عبرت انگیز بات یہ ہے کہ جو عناصر اِس صورتحال کو پیدا کرنے کے ذمہ دار ہیں اُن ہی سے مسلمان حق و انصاف کی اُمید رکھتے ہیں اور اِن ہی سے اپنے حقوق کے طلب گار بن جاتے ہیں۔نہ صرف ہندوستان بلکہ ہندوستان سے باہر بھی جہاں کہیں مسلمان آباد ہیں کم وبیش اِسی طریقۂ کارکے خوگر نظر آتے ہیں۔حقوق انسانی کے لشکر وں نے بھی اِنہیںآدابِ گدا گری کادرس خوب دے رکھا ہے کہ کیوں اور کس طرح ظالموں کو رام کیا جائے یا اِن سے اپنے حقوق کی لڑائی کس طرح چھیڑی جائے۔ اوّل تو یہ اِنہیں اقلیت و اکثریت کا فلسفہ سکھا تے ہیں،پھریہ باور کراتے ہیں کہ اقلیت کواکثریت کے در پر سوالی بن کر بس مانگتے رہنا چاہیے،چاہے اکثریت دینے پر راضی ہو کہ نہ ہو۔اِس ذہنیت کو فروغ دینے والوں کی ذہنی سطح اس قدر پست ہوتی چلی جاتی ہے کہ یہ بالآخر اقلیتوں کو بھیک منگوں کا گروہ بنا کررکھ دیتے ہیں۔اِس کا نفسیاتی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اقلیتیں مانگتے رہنے ہی کو ایک حق سمجھنے لگتی ہیں اوراِس کے لیے مہم جوئی میں مصروف ہو جاتی ہیں۔پھرجب یہ جدوجہد کامیاب ہوجاتی ہے تو اِس کی شکل یہ ہوتی ہے کہ اِن کے اِس حق کو ملک کے دستور میں جگہ نصیب ہوتی ہے اور انہیں اپنے حقوق طلب کرنے کی اجازت مل جاتی ہے۔ مطلب یہ کہ مانگتے رہنے ہی کو ایک حق کے طور پر اُجاگر کرتے ہوئے اُن کے سر کے تاج میں دستوری بھکاری کا طرہ ٹانک دیا جاتا ہے،تاکہ وہ خوب اچھی طرح محسوس کر لیں کہ اُنہیں اب مانگنے کا حق حاصل ہو گیاہے۔پھر اِس حق کے حصو ل کے لیے پارٹیاں بنتی ہیں، لیڈر شپ وجود میں آتی ہے اور احتجاجات ،نعرے،جلوس، وعدے، تجاویز ، جلسے، دھواں دار تقریریں، ہاؤہو کا بازار گرم ہوتا ہے۔اکثریت نواز سیاسی پارٹیوں کی سیاسی دکانیں خوب چمکتی ہیں۔مسلمانوں کے دانشور، سیاسی رہنما، مذہبی جماعتیں سب کے سب اِنہیں یہی درس دینے میں مصروف ہو جاتے ہیں کہ اُنہیں حقوق کی لڑائی لڑنی ہے جو اُنہیں از روئے دستور حاصل ہیں۔
سوچیے کہ یہ کس قوم کا حال ہے !!یہ اُس قوم کا حال ہے جس کا دستورِ زندگی ایک ایسی کتابِ پاک تھی جس میں اپنی ذات کے لیے کسی حق کو طلب کرنے کا کہیں اِشارہ تک نہیں ملتا۔ بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اِس کتاب نے اِس کے ماننے والوں کو صرف دینا سکھایا تھا، لینا یا مانگنا نہیں۔
اِس مضمون میں حقوق کے طلب کی مہم جوئیوں میں مصروف مسلمانوں کی ہم یاد دہانی کرانے کی کوشش کریں گے کہ کتاب اللہ نے حقوق طلبی کے سلسلے میں مسلمانوں کوکیا پیغام دیاتھااورخاتم النبین صلی اللہ علیہ و سلم نے اِن کے لیے کیا نمونہ چھوڑا ہے۔ پھرپیغمبروں نے اپنے اپنے زمانے میں کن مہمات کی قیادت کی تھی اور آج مسلمان کن مصروفیات میں اپنے آپ کو اُلجھا رکھا ہے۔
قرآن پاک کی اوّلین سورۃ ہی میں ہمیں ایک آیت کا ایک ایسا فقرہ ملتا ہے جس میں واضح طور پرکہا گیا ہے کہ مدد صرف خالقِ کائنات سے طلب کی جانی چاہیے:’’۔۔۔اِیاک نستعین‘‘ (تیری ہی ہم مدد چاہتے ہیں)۔جو قوم دن میں پچاسوں بار صرف خدا سے مدد طلب کرنے کادعویٰ کرتی ہے ،کیا اُس کے لیے یہ مناسب ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں میں کاسۂ گدائی لیے مختلف دروازوں پر بھیک مانگتی پھرے، چاہے یہ بھیک حقوق ہی کی کیوں نہ ہو۔یہ بات عقل میں سماتی بھی نہیں کہ کوئی کیسے کسی کو دینے کے قابل بن سکتا ہے جب کہ اِس کائنات کی ہر شے اُسی خالق و مالک کے در کی بھکاری ہے،جس کی مدد طلب کرنے کا ہم ہرلمحہ دعویٰ کرتے رہتے ہیں!پچپنویں سورۃ کی اُنتیسویں آیت میں اللہ تعالےٰ نے اِرشاد فرمایا ہے:’’آسمانوں اور زمین(کے چپہ چپہ میں)جو شے بھی موجود ہے(اُس کی بارگاہ میں)دستِ سوال دراز کیے کھڑی ہے ( تو دوسری جانب ان سائلوں کی دست گیری کرنے میں وہ ایک نئی شان کے ساتھ ہر دن (مسلسل برسرِ کار ہے)۔‘‘اِسی طرح بائیسویں سورۃ کی تیہترویں آیت بھی ہمارے لیے عبرت کا سامان فراہم کرتی ہے:’’اے کرّۂ ارض کے باشندو!ایک تمثیل پیش کی جاتی ہے،جسے توجہ سے سماعت کرو:اللہ کے بجائے(یہ جو تم)جن جن کوپکارتے رہتے ہو،یہ(سب کے سب) ایک مکھی کو معرضِ وجود میں لانے کے لیے مجتمع ہو جائیں(تو تم دیکھو گے کہ) وہ ایک مکھی کی بھی تخلیق ہر گزنہیں کر پائیں گے۔(تخلیق تو دور کی بات ہے) اگر کوئی مکھی اِن سے کوئی شے جھپٹ لے جائے تب بھی وہ اُس کی باز یافت نہیں کر سکیں گے۔(یہ تمثیل اِس حقیقت پر مہرتصدیق ثبت کردیتی ہے کہ کس قدر)ضعف زدگی کا مارا ہوا ہے، طلب گار بھی اور وہ بھی جس سے طلب کیا جارہا ہے۔‘‘
دراصل مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی تھی کہ وہ امیر ہو ں کہ غریب،صاحبِ مال ہوں کہ تنگ دست اُنہیں بس عطا کرتے رہنا ہے،اللہ کے ضرورت مند بندوں کو دیتے رہنا ہے۔ اللہ ایسے ہی رحم دل انسانوں کو پسند کرتا ہے۔کتاب اللہ میں لیتے رہنے کا کہیں ذکر ہی نہیں ملتا۔ سور�ۂ آل عمران کی آیت ایک سو چوتیس میں کتنے صاف الفاظ میں یہ بات کہی گئی ہے:’’جولوگ ہر حال میں انفاق کرتے ہیں، خواہ بد حال ہوں یا خوشحال، جو اپنے غصہ کو پی جاتے ہیں، اورانسانوں کے قصوروں کو معاف کردیتے ہیں۔ سلوکِ احسن کرنے والے ایسے ہی لوگ اللہ کو بڑے محبوب ہیں۔‘‘
اِس انسانیت نواز تعلیم کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی کچھ اس انداز میں ذہن سازی کی گئی تھی کہ لوگوں کو دیتے رہنے کے اِس عمل کا کوئی صلہ حاصل کرنے کی آرزو اُن کے حاشۂ خیال میں تک نہ آنے پائے۔بلکہ وہ لوگوں کو عطاکرتے ہوئے اعلان کریں کہ یہ سب کچھ صلے سے بے نیاز ہو کر کیا جارہا ہے۔رب تعالےٰ نے چھیاہترویں سورۃ کی نویں آیت میں ہمیں اِس کا درس دیا ہے:’’(اس طرح کی سوچ والے جب دوسروں کو عطیہ کرتے ہیں تو ان کا یہ قول ہوتا ہے کہ) جو کچھ بھی ہم تمہاری مدد کررہے ہیں، یہ اللہ کی توجہ اور اسکی رضا حاصل کرنے کیلئے ہے۔ ہم تم سے اس کا کوئی بدلہ یا تبادلہ نہیں چا ہتے اور نہ ہی تمہارا شکریہ اور ممنون کرم ہونا(ہمیں مطلوب ہے)۔ ‘‘
برا ہو مادہ پرستی کا کہ اُس نے بندگانِ خدا پر خرچ کرنے کونقصان کا سودا باور کرایا اور قلاش ہو نے کے خوف کو لوگوں کے دلوں میں کچھ یوں بٹھایا کہ لوگ بخیل بنتے چلے گیے ، جن میں کثیر تعداد میں اب مسلمان بھی شامل ہیں ۔ حالانکہ سورۂ بقرہ کی دو سو اکسٹھویں آیت میں صاف طور پربیان فرمایا گیا تھا: ’’جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ، اُن کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں۔ اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے افزونی عطا فرماتا ہے۔ وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی‘‘۔اِسی طرح پینسٹھویں سورہ کی تیسری اور چوتھی آیتوں میں اللہ نے مسلمانوں سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ :’’۔۔۔۔اور جو اللہ سے ڈر تا رہے گا اپنی ہرسرگرمی میں،تقویٰ کرتا ہوگا،تو اللہ پریشانی کے معاملات میں اُس کے لئے باہر نکلنے کا راستہ( یعنی EXIT )بنادیگا اور اسے ایسی جگہ سے رزق، Provisionsفراہم کریگا،جس کا اس نے سوچا بھی نہ ہوگا اور جوکوئی اللہ پر توکل کرتا ہو ، اُس پربھروسہ کرتا ہو،تو اللہ اس کو کافی ہوجائے گا۔۔‘‘
آج ہم اپنی بد بختی کا رونا روتے پھرتے ہیں۔ ہمیں شکایت ہے کہ زمین میں ہمیں قرار نصیب نہیں۔ہماری ہوا اُکھڑ گئی ہے۔لیکن ہمیں یہ تجزیہ کرنے کی کبھی توفیق نہیں ہوتی کہ یہ صورتحال آخر کیوں پیدا ہوئی اور اس کے اسباب کیا ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ جو قوم بندگانِ خدا کے لیے نفع بخش نہیں ہوتی وہ یا تو دنیا میں بے اثر ہو کر رہتی ہے یا مٹا کر رکھ دی جاتی ہے۔ تیرویں سورۃ الرعد کی ستراویں آیت کا مضمون اِسی حقیقت پر دلالت کرتا ہے: ’’ اللہ نے آسمان کی بلندیوں سے بارش نازل کی،سو اپنی اپنی مقدار میں ندی نالے بہہ نکلے اور اٹھا لایا بہاؤ جھاگ یاکچرا پھولا ہوااور معدنیات سے زیورات اور قیمتی کارآمد اشیاء بنانے کیلئے جب آگ میں تپایا جائے تو اُس میں بھی اسی طرح جھاگ ابھرتا ہے۔ اس طرح بیان کرتا ہے اللہ حق اور باطل کو۔ تو جو جھاگ یا کچرا ہوتا ہے وہ سوکھ کرمعدوم ہوجاتا ہے اور جو انسانوں کے لئے نفع بخش ہوتا ہے، اسے اللہ زمین میں ٹھہراؤ عطا کرتا ہے،Establish کرتا ہے(اُسے)،اس طرح بیان کرتا ہے اللہ مثالیں۔ ‘‘
ہم زمین پر بے اساس ہیں تو اِس کا سبب یہی ہے کہ ہم انسانیت کے لیے منفعت بخش نہیں رہے۔ ہم مانگنے والی قوم بن گیے، دینے والی نہیں۔ہم نے کتاب اللہ کو کیا چھوڑا کہ شیطان نے ہمیں اُچک لیا اور ہر چہار جانب سے یہی درس ہمیں ملنے لگا کہ ہم کو اپنی زندگی مانگتے ہوئے گزارنی ہے۔ دنیاسے ہمیں بس لینا ہے، دنیا کو دینا نہیں ہے۔
یہ بھی تو سوچیے کبھی تنہائی میں ذرا
دُنیا سے تم نے کیا لیا دنیا کو کیا دیا۔۔۔(حفیظؔ میرٹھی)
جس نبی (صلی اللہ علیہ و سلم )کی پیروی کا ہمیں دعوی ہے، وہ کیا تھے، اور اُنہوں نے کیا اُسوہ ہمارے لیے چھوڑا ۔اکیسویں سورۃ کی ایک سو ساتویں آیت میں خود رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ:’’ ہم نے(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) آپ کو سارے جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ ‘‘رحمت بناکر بھیجے جانے کا مطلب کیا ہے؟یہی نا کہ دنیا جن کی کرم فرمائیوں سے زیر بار ہو جائے۔کیا کوئی مانگنے والی قوم کسی کے لیے رحمت بن سکتی ہے؟نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم خرچ کرنے سے متعلق گفتگوؤں کو آیاتِ قرآنی اور احادیث کے ذریعہ اِس قدر عام فرما دیا تھا کہ آپ ؐ سے لوگ پوچھتے رہتے تھے کہ کیا اور کن مدوں پر خرچ کریں۔جیسا کہ سورہ البقرہ کی دوسو پندرھویں آیت میں نظر آتا ہے:’’ اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم ،لوگ آپؐ سے دریافت کرتے ہیں : ہم کیا خرچ کریں؟جواب دیجیے کہ جوخیر بھی(جیسے نیکی، حسنِ سلوک، بھلائی، مال یا وقت) تم خرچ کرو، اپنے والدین پر، رشتہ داروں پر، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرواور خیر(کے ان کاموں میں سے ) جوبھی کام تم انجام دو گے، اللہ اُس سے باخبر ہوگا۔‘‘پھر وارننگ بھی دیتے کہ کسی پر احسان جتانے کی ضرورت نہیں،سورۂ البقرہ کی دوسو چوسٹھویں آیت میں یہ وارننگ موجود ہے:’’اے ایمان والو! اپنے صدقات کو ، احسان جتا کر اورجذبات کو ٹھیس پہنچا کر اُس شخص کی طرح خاک میں نہ ملادو، جو اپنا مال محض لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتا ہے۔‘‘پھرکسی پر خرچ کرنے کی جو اسپرٹ تھی وہ سورۃ الدہر کی آٹھویں و نویں آیتوں میں کچھ اِس طرح بتائی گئی:’’ اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کوطعام فراہم کرتے ہیں اور اُن سے کہتے ہیں کہ ہم تمہیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ بدلہ چاہتے ہیں نہ ہدیۂ شکریہ۔‘‘
دوسری سورۃ البقرۃ کی ایک سو ستہترویں آیت میں نیکیوں کی جو حقیقت بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ:’’محض، اپنے چہروں کومشرق و مغرب کی سمت پھیر لینے کا نام نیکی نہیں ہے۔‘‘پھر اصل نیکیوں کی جو فہرست گنائی گئی ہے اِس کا بیشتر حصہ لوگوں کو دینے ہی سے عبارت ہے جیسے حبِّ الٰہی کی بنیاد پراپنے اقرباء کی مالی امداد،یتیموں کی مالی امداد،مسکینوں غریبوں اور محتاجوں کی مالی امداد،مسافروں(یا راستوں میں مختلف مقاصد کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والوں کی) مالی ضروریات اور Public Utilities itemsسے جڑی خدمات پر خرچ ،دستِ سوال دراز کرنے والوں کی (بخوشی)مالی اعانت،متنوع Liabilities کے نرغے میں پھنسے ہوئے لوگوں(یاقیدیوں) کا مالی (و قانونی) تعاون۔۔۔،زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام۔۔۔‘‘
اپنے اپنے زمانوں میں پیغمبروں نے کبھی اقتدارِ وقت سے کوئی حقوق طلب نہیں کیے۔ قرآن حکیم نے جن جن پیغمبروں کے تذکرے رکارڈ کیے ، یہ سب کے سب اِس حقیقت پر گواہ ہیں ۔ہر پیغمبر نے اپنے سرکش مخاطبین سے یہی کہا کہ میں جو کچھ پیش کر رہاہوں ، اِس کا تم سے میں کوئی اجر نہیں چاہتا۔میرا اجر تو اللہ کے پاس محفوظ ہے۔
آخر میں ہم وہ مشہور حدیث پیش کریں گے جس میں نہایت واضح الفاظ میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلمانوں کے طرزِ زندگی کو ایک صحیح سمت عطا کی ہے اور ان امور کے مطابق اپنی زندگی کا لائحہ عمل متعین کرنے میں ہماری عزت و آبرو کی بازیابی اور ہماری بقا کی ضمانت مضمر ہے:
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ اَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ قَالَ اَمَرَنِیْ رَبّیِْ بِتِسْعٍ:خَشْیَۃِ اللّٰہِ فِی السِّرِّ وَالْعَلَانِیَۃِ ۔ وَ ا لْکَلِمَۃِ الْعَدْلِ فِی الْغَضَبِ وَالرِّ ضٰی ۔وَالْقَصْدِ فِی الْفَقْرِ وَالْغِنٰی ۔ وَاَنْ اَصِلَ مَنْ قَطَعَنِیْ ۔ وَاُعْطِیَ مَنْ حَرُمَنِیْ۔وَاَعْفُوَ عَمَّنْ ظَلَمَنِیْ ۔ وَاَنْ یَّکُوْنَ صَمْتِیْ فِکْرًا۔ وَنُطْقِیْ ذِکْرًا۔وَنَظَرِیْ عِبْرَۃً وَّ اٰ مُرَ بِالْعُرْفِ وَ قِیْلَ بِالْمَعْرُوْفِ ۔(رواہ رزین)
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے رب نے مجھ کو نو باتوں کا حکم دیا ہے:۱)۔۔۔ چھپے اور کھلے، ہر حال میں اللہ سے ڈرتا رہوں۔۲)۔۔۔ناراضی اور خوشی ، ہر کیفیت میں انصاف کی بات کروں ۔۳)۔۔۔ تنگ دستی اور مالداری،ہر حالت میں میانہ روی اختیار کروں۔ ۴)۔۔۔ جو مجھ سے کٹے ،میں اس سے جڑوں ۔۵)۔۔۔ جو مجھے محروم رکھے ،میں اسے عطا کروں۔۶)۔۔۔ جو مجھ پر ظلم کرے ، میں اسے معاف کردوں ۔ ۷)۔۔۔ میری خاموشی غورو فکر کے لئے ہو۔۸)۔۔۔ میرا بولنا اللہ کی یاد اور ذکر کے تحت ہو۔۹)۔۔۔ میرا دیکھنا عبرت کا دیکھنا ہو، معروف اور اچھی باتوں کا حکم کرتا رہوں اور منکرات اور بری باتوں سے منع کرتا رہوں۔‘‘ (اسے امام رزین ؒ نے روایت کیا ہے ۔ بحوالہ جامع الاصول ۱۱ / ۶۸۷)
گدائی اُن کے در کی کیا بھلا دی
اُٹھا رکھے ہیں ہم نے کتنے کاسے۔۔۔(عزیزبلگامی)
Azeez Belgaumi
No 1 Second Floor 3rd B Cross
Dasappa Garden R.T. Nagar
Bangalore 560032
Email: azeezbelgaumi@hotmail.com
Mobile: +919900222551

()()()

No comments:

Post a Comment