Tuesday, October 26, 2010

بابری مسجد معاملہ:مسلمانوں کا اگلا قدم کیا ہو؟:ڈاکٹر خواجہ اکرام


بابری مسجد معاملہ:مسلمانوں کا اگلا قدم کیا ہو؟

بابری مسجد کے فیصلے کے بعد عوامی سطح پر اس فیصلے کے بعد بحث و تمحیث کے کئی نئے گوشے وا ہو گئے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس فیصلے کے بعد کم از کم اتنا تو طے ہو گیا ہے کہ دنیا میں یہ واحد ایسا فیصلہ قرار پا یا ہے جس کی بنیاد حقائق کے بجائے اساطیری عقیدے پر ہے۔ اسی لیے ہر چہار جانب سے اس فیصلے پر گفتگو ہو رہی ہے ۔اس فیصلے کے حوالے سے دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس فیصلے کی آمد نے پورے ہندستان میں ایک سنسنی پھیلا دی تھی ، ریاستی اور مر کزی حکومت کے ساتھ ساتھ مختلف سماجی اور سیاسی تنظمیں ہر طرف سیکورٹی اور امن و امان کی دہائی دیتی نظر آرہی تھیں ۔ایودھیا سمیت تمام حساس شہر فوج کی چھاؤنی میں تبدیل ہو گیاتھا ۔ڈر یہ تھا کہ اس فیصلے سے امن و امان کی فضا خراب ہوسکتی تھی لیکن مقام شکر ہے کہ حکومت کی مستعدی نے ملک کی فضا کو خراب ہونے سے بچایا۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ یہ فیصلہ مسلمانوں کے توقعات کے بر خلاف تھا،اگر یہ فیصلہ اکثریتی فرقے کے خلاف ہوا ہوتا تو ملک میں سکون کا یہی ماحول ہوتا یا نہیں؟ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا ہے ۔ لیکن اس سے ایک نتیجہ جو نکل کر سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ حکومت اگر چاہ لے تو ملک میں کہیں بھی ، کسی بھی حالت میں اورکسی طرح کاہنگامہ نہیں ہوسکتا۔ اگر حکومت نے 1992ء میں بھی اس طرح کی مستعدی دیکھائی ہوتی تو شاید بابری مسجد شہید نہیں ہوتی۔جو احتیا ط حکومت کو اس وقت برتنی چاہیے تھی وہ تو نہیں کر سکی اور آج احتیاط کا یہ عالم کہ سچ بات کہنے سے بھی حکومت گریز کر رہی ہے۔ خیر یہ تو فیصلے کے حوالے سے چند پہلو تھے لیکن جہاں تک فیصلے کا تعلق ہے تو عدلیہ کے پورے احترام کے ساتھ یہ بر جستہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ فیصلہ کورٹ کا فیصلہ نہیں لگتا ۔ پورے مقدمے میں جو کہیں فریق نہیں یعنی ہندو مہا سبھا اس کو فریق بنا کر کورٹ نے زمین کے ٹکڑے کیسے دے دیئے اور صدیوں سے جہاں مسجد ہونے کے شواہد موجود ہیں اُسے نظر انداز کر کے ہندؤں کے آستھا کو نظر میں رکھتے ہوئے اور یہ بھی جانتے اور مانتے ہوئے کہ وہاں 1949 میں جبراً مورتی رکھی گئی تھی ، یہ فیصلہ کیسے سنا دیا گیا کہ وہاں رام کی جائے پیدائش ہے اور ٹھیک اسی جگہ، جہاں درمیانی گنبد تھا۔اے ایس آئی (ASI )کی رپورٹ جس کی بنیاد پر رام کے جنم استھان ہونے کی بات کہی گئی ہے وہ بھی بہت مبہم اور غیر واضح ہے ۔ اے ایس آئی کی رپورٹ میں کہیں کوئی ایسا واضح ثبوت نہیں ہے اور نہ کھدائی کے دوران وہاں سے کوئی مورتی بر آمد ہوئی ہے جس کی بنیاد پر یہ کہہ سکیں کہ شاید وہاں کوئی مندر رہا ہوگا۔ فیصلے کے بعد ملک کے تقریباً سو تاریخ دانوں نے تحریری طور پر اس پر اپنی آواز بلند کی ہے اور اے ایس آئی کی رپورٹ کی بنیاد پر مندر مانے جانے کی خلاف بات کی ہے ۔اس لیے اس رپورٹ کو جس طرح پیش کیا گیا اور جس انداز سے اس کی تشریح کی گئی ہے وہ سب قابل غور ہیں اسی لیے ہمیں آئینی طور پر یہ حق حاصل ہے کہ اس پر بات کریں ۔ اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں دوبارہ لے جانے کے حق کا مطلب یہی کہ ہم اس فیصلے پر بات کریں اور اپنے تحفظات کو آئینی اور قانونی طور پر پیش کریں ۔ ساٹھ سا ل کے طویل وقفے کے بعد جس طرح کا فیصلہ سنایا گیا ہے اس پر اعتراض اس لیے ہے کہ فیصلے میں جس طرح کے عینی اور تاریخی ثبوت کوبروئے کار لایا جانا چاہیے تھا وہ نہیں ہوا ۔خاص طور پر پوری زمین کا فیصلہ نہ کر کے صرف جس زمین پر مسجد تعمیر تھی ، اس کے متعلق فیصلہ سنانا اور باقی زمین کے حوالے سے خاموش رہ جانا ۔یہ تو بالکل پنچائیتی فیصلہ لگتا ہے کہ تم بھی خوش رہو اور تم بھی خوش رہو ، اگر ایسا ہی کرنا تھا تو بابری مسجد کی شہادت سے قبل فیصلہ کیوں نہیں سنا دیا گیا؟ میں ذاتی طور پر اس فیصلے سے مطمئین نہیں ہوں اور مجھے آئینی طور پر یہ حق حاصل ہے کہ اپنی بے اطمینانی کا اظہار کروں اور قانونی چارہ جوئی کی راہ ہموار کروں۔

اس فیصلے کے بعد ہندستانی مسمانوں پر کئی طرح کے اثرات مرتب ہورہے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے اس لیے ابھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن اب تک جو میں سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ 1857 ءکی پہلی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد انگریزوں کی حکمت عملی سے مسلمان نفسیاتی طور پر جو دباؤمحسوس کر رہے تھے ویسا ہی کچھ ان دنوں ہندستانی مسلمانوں کا حال ہے ۔ ذرا غور کریں کہ فیصلے کے قبل پورے ہندستان میں یہ فضا بنی ہوئی تھی کہ چاہے فیصلہ جو بھی آئے ہم اس کا احترام کریں گے۔ ضرور احترام کیا جانا چاہیے کیونکہ ہم دنیا کے ایک بڑے جمہوری ملک میں رہتے ہیں ۔لیکن وشو ہندو پریشد ، ہندو مہا سبھا کے لوگ کھلے عام یہ کہہ رہے تھے کہ فیصلہ ہمارے حق میں آیا تو مانیں گے وگرنہ نہیں مانیں گے ۔ مسلمانوں نے فیصلے سے قبل جو بات کی تھی ،خلاف توقع فیصلہ آنے کے بعد بھی اُسی پرقائم ہیں اور قائم رہیں گے ۔ مگراس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ قانونی طورپر جس کا جواز حاصل ہے اس پر بھی غور نہ کریں ، مگر ابھی مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ ابھی تک وہ یقین کی منزل سے نہیں نکل پائے ہیں یعنی ابھی تک انھیں یہ یقین بھی نہیں ہورہا ہے کہ ایسا فیصلہ بھی ہوسکتا ہے؟ دوسری جانب کسی تنظیمی پلیٹ فارم سے متحدہ طور پر کوئی مضبوط آواز بھی سامنے نہیں آرہی ہے اس لیے ایک سراسیمگی کی کیفیت ہے اور ہندستانی مسلمان ایک نفسیاتی جبر کے دور سے گزر رہے ہیں۔بات صرف مسلمانوں کی ہی نہیں ہے اس ملک کے غیر مسلم شہریوں کی بھی بڑی تعداد ہے جو اس فیصلے کو حقیقیت سے دور سمجھتے ہیں اور وہ بھی جمہوری ملک کے عدلیہ کو لے کر پریشان ہیں کہ اگر ایسے فیصلے مان لیے گئے تو اس ملک کا کیا ہوگا؟ وہ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے فیصلے جمہوری اقدار کو ٹھیس پہنچائیں گے۔

اس فیصلے سے مستقبل میں مسلمانوں کے لیےجس طرح کے قانونی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں وہ یہ کہ اب عدلیہ کی جانب جو نگاہیں اٹھیں گی وہ یہ سوچیں گی کہ فیصلہ شواہد کی بنیاد پر ہوگا یا آستھا کی بنیاد پر ۔ کیونکہ ایک تاریخی معاملے میں جب بات آستھا پر ہی آکر ٹھہری ہے تو کل آپ کا ذاتی مکان بھی کسی آستھا کے نذر ہوجائے گا تو آپ کیاکر سکتے ہیں ؟ کیونکہ آستھا کا کوئی جواز نہیں ہے۔ابھی تو میٹھی میٹھی سیاسی باتیں کر کے ہندو مہا سبھا ، وشو ہندو پریشد ، دھرم گرو سمیت بی جے پی کسی طرح اس قضیے کو سلجھا کر رام مندر تعمیر کر لیں گے لیکن اس کے بعد ؟ ابھی تو بنارس کی مسجد اور متھرا کی عید گاہ باقی ہے ! وہاں بھی تو ان کی آستھا ہے ۔ وہاں کیا کریں گے؟ اگر یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں بھی جوں کا توں رہتا ہے تو مسلمانوں پر کیا فرق پڑ ے گا؟ہمارے لیے تو ساری دنیا پڑی ہے کہیں بھی ہم سجدہ ریز ہو سکتے ہیں ۔ لیکن اس جمہوری ملک پر ایسی آنچ آئے گی جس کی تپش سے کوئی نہیں بچ سکے گا۔اس لیے سپریم کورٹ سے نظر ثانی کی امید کی جاسکتی ہے کیونکہ ہندستان دنیا کے چند بڑے جمہوری ملکوں میں سے ایک ہے جہاں جمہوری اقدار ہر فرداورہر ادارے پر فوقیت رکھتا ہے۔سپریم کورٹ سے بہر کیف یہ امید تو ہے کہ وہ حقائق کو سامنے رکھ کر فیصلہ سنائی گی۔

ساتھ ہی ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم قائدین سر جوڑ کر بیٹھیں اور پہلے عوام کو یہ یقین دلائیں کہ وہ ان کے سچے اور بے لوث قائد ہیں ۔ ابھی تک تو یہی واضح نہیں ہے کہ کیا مسلمانوں کے بھی کوئی قائد ہیں ؟ حیرت ہے اتنے بڑے فیصلے کے بعد بھی اب تک کوئی آواز نہیں اٹھ رہی ہے اور نہ ہی قانونی چارہ جوئی کے لیے مشترکہ کوشش ہورہی ہے۔اس لیے پہلے تو بکھرے ہوئے افراد او ر ادراے کو متحد ہونا چاہیے اور چونکہ ہم بھی اس ملک کے شہری ہیں اس لیے انصاف کے لیے ہر ممکنہ دروازے پر دستک دینے کی ضرورت ہے۔دانشمندی، اتفاق، اور دور اندیشی سے ہی کام لینے کی ضرورت ہے۔ایسے غیر مسلم لوگ جو اس فیصلے کو حقیقت پر مبنی تسلیم نہیں کرتے ان کو اپنے ساتھ ملانے کی ضرورت ہے اور ان کے ساتھ مل کر قانونی چارہ جوئی کی راہ تلاش کرنی چاہیے۔

No comments:

Post a Comment