Monday, October 25, 2010

ولی لیکس کے افشا کے بعد امریکہ لائق سزا وار ۔تیشہ فکر: عابد انور


بڑی طاقتوں کی سب سے بری عادت یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے غلط کاموں، ظلم و ستم، نازیباسلوک، غیر انسانی فعل ، انسانی حقوق کی پامالی اور دیگر سنگین جرائم کو کبھی بھی نہیں تسلیم کرتی اور وہ جو کام بھی کرنا چاہتی ہے کرگزرتی ہے خواہ اس پر دنیا کچھ بھی کہے، کتنے ہی واویلا کیوں نہ مچائے اور عالمی پیمانے اس کی کتنی بھی مذمت کیوں نہ کی جائے اس سے اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہی صورت حال اس وقت امریکہ اور اسرائیل کا ہے ۔ یہی رویہ دونوں ملکوں کی تباہی کی عبارت لکھ رہا ہے لیکن دونوں نے اپنی آنکھوں پر اتنی دبیز پٹی باندھ رکھی ہے وہ نوشتہ دیوارپڑھنے سے قاصر ہے یا جان بوجھ پڑھنے کی کوشش نہیں کر رہا ہے۔ اگر کوئی اسے دکھانے کی کوشش بھی کرتا ہے یہ طاقتیں اس کا دشمن بن بیٹھتی ہیں اور یہ کبھی نہیں چاہتیں کہ کوئی اسے آئینہ دکھائے۔ کوئی بھی شخص اپنا کریہہ چہرہ سیشے میں دیکھنا پسند نہیں کرتا ہے اس لئے وہ آئینہ ہی کو بھلا برا کہنے لگ جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آئینہ تو آئینہ ہے اس برائی سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہی حال اس وقت امریکہ کا ہے وہ زوال پذیر اپنی طاقت کی شان میں کچھ سننے کو تیار نہیں ہے۔ اسی لئے وہ وکی لیکس پر چراغ پا ہے۔
وکی لیکس نے امریکی مطالبوں، دھمکیوں اور درخواستوں کو نظر انداز کرتے ہوئے عراق سے متعلق اپنے چار لاکھ خفیہ دستیاویزات کا افشا کیا ہے۔ ان کا تعلق یکم جنوری ۲۰۰۴ سے لیکر۳۱ دسمبر ۲۰۰۹ تک کے درمیان کا ہے۔ اس دوران عراقیوں کے ساتھ برتے جانے والے سلوک کا جائزہ لیا گیا ۔ ان دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ کس طرح وہاں عراقی قیدیوں کو جیل خانہ میں بجلی کے جھٹکے دئے گئے۔ ڈرل مشینوں سے ان کے جسموں میں سوراخ کرنے کے علاوہ خفیہ اور دیگر اعضاء کاٹنے کے واقعات انجام دئے گئے۔ ولی لیکس نے اپنے دستاویزات میں کہا ہے کہ ۲۰۰۳ میں عراق کی جنگ میں ایک لاکھ نو ہزار افراد ہلاک ہوئے جن میں ۶۶ ہزار اکیاسی عام شہری تھے۔ اس کے مطابق امریکہ کے پاس عام شہریوں کی ہلاکت کا ریکارڈ موجود تھا لیکن اس نے نہ صرف اپنی آنکھ بند رکھی بلکہ اس سے بھی قطعی انکار بھی کرتا رہا۔ دستاویزات کے مطابق امریکی فوجیوں کو ا ن تمام مظالم کے بارے میں علم تھا لیکن وہ اسے نظر اندا کرتی رہی۔ وکی لیکس کے دستاویزات عراقی شہریوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک سے لے کر ان کے جسموں پر تشدد کے مختلف طریقے اختیار کرنے کی نشاہدہی کرتی ہیں۔
وکی لیکس ویب سائٹ کے بانی جولین اسانگ نے سی این این ایک انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ یہ دستاویزات ایک خون ریزی اور قتل عام کا پتہ دیتی ہیں جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ دستاویزات عراق کی جنگ کے چھ سالوں کے زمینی حقائق کی تفصیلات افشا کرتی ہیں۔ ان کے مطابق عراق کی جنگ میں جتنے افراد کاناحق خون بہا ہے تعداد میں جنگ افغان سے پانچ گنا زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان دستاویزات عراق کی جیلوں میں قیدیوں کئے گئے سلوک کو بیان کرتی ہیں۔ چھوٹی چھوٹی کوٹھریوں میں درجنوں قیدیوں کو کس طر ح بھر کررکھاجاتاہے، ان کے ہاتھ کمر سے بندھے ہوتے ہیں۔ جسم پر سگریٹ سے جلانے کے نشان ہیں، انہیں گھنٹوں گھٹنوں کے بل بیٹھایا جاتا ہے۔ ان کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوتی ہے۔ بہت سے قیدی علاج کی سہولت حاصل نہ ہونے کی وجہ سے زخموں کی تاب نہ لاکر دم توڑ دیتے ہیں۔ دستاویزات میں بہت ساری خفیہ اجتماعی قبر کی بات کہی ہے۔ دستاویزات میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکی ہیلی کاپٹر نے فروری ۲۰۰۷ میں بغداد میں امریکی فوج کے اڈے پر حملہ کرنے والے شدت پسندوں کو اس وقت گولیوں سے بھون دیا تھا جب وہ ہتھیار ڈال رہے تھے۔ اس کارروائی میں حصہ لینے والے ہیلی کاپٹر کا عملہ دو صحافیوں کے قتل میں بھی ملوث تھا۔
امریکی حکام سمیت عراقی اقتدار اعلی کی نیند اڑ گئی ہے۔ خاص طور پر عراقی وزیر اعظم نوری المالکی بہت پریشان نظر آرہے ہیں۔ ان مظالم کے لئے جتنا ذمہ دار امریکہ ہے اتنا ہی ذمہ داری نوری المالکی بھی ہے۔ کوئی بھی ملک کا وزیر اعظم اپنے شہریوں کو اس قدر ہلاک ہوتے کیسے دیکھ سکتا ہے۔ عراقی وزیر اعظم ان دستاویزات پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے جہاں ان دستاویزات کے افشا کی مذمت کی ہے وہیں انہوں نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ اس سے ملک میں حکومت ساز ی کے مسائل میں مزید اضافہ ہوگا۔ عراق میں رواں سال کے مارچ میں الیکشن ہوا تھا لیکن کسی پارٹی واضح اکثریت نہ ملنے کی وجہ سے آج تک حکومت کی تشکیل نہیں ہوئی ہے۔ نوری المالکی بطور امریکی پٹھو وزیر اعظم کے عہدے پر براجمان ہیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق عراق میں ان دستاویزات کے افشاء سے کسی کو حیرت نہیں ہوئی ہے البتہ یہ ضرور ہوا ہے کہ ملک میں سیاسی شعلوں کو مزید ہوا دے دی ہے۔
وکی لیکس نے اس سے قبل افغانستان میں خفیہ دستاویزات شائع کئے تھے جس سے امریکی ایوان میں کافی ہنگامہ ہوا تھا حالانکہ امریکہ دستاویزات شائع نہ کرنے کی درخواست کی تھی لیکن ولی لیکس نے سے نظر انداز کرتے ہوئے خفیہ دستاویزات افشا کردئے تھے۔ جس میں یہ بتایا کہ کس طرح امریکی فوجیوں نے افغان شہریوں کو وہلاک کیا اور پاکستان میں ہونے والے بم دھماکوں میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کس طرح ملوث ہے۔
امریکہ نے اپنی ذاتی انا کی تسکین کے لئے عراق جیسے مہذب اور خوش حال کوملک کھنڈرات کا مجموعہ بنادیا ہے۔ عراق پر جن تباہ کن ہتھیاروں کے ذخیرے کے الزامات لگائے گئے تھے وہ غلط ثابت ہوئے ۔ آج عراق بھوکوں ، ننگوں، بیماروں اور انتہائی پسندہ قوم کا ملک ہے ۔ جہاں بنیادی سہولت کی ہر جگہ فقدان نظر آتاہے۔ پینے کا صاف پانی، رہنے کو چھت، روزگار کی عدم دستیابی اژدہے کی طرح کھڑی ہے۔ عراق آج نفسیاتی مریضوں کا ملک ہے ۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق عراق میں پانچ لاکھ بچے اس جنگ سے متاثر ہوئے۔ ۱۹۹۰ کے خلیجی جنگ اور پھر ۲۰۰۳ میں جمہوریت بحال کرنے کے نام پر پورے عراق کو تخت و تاراج کیا گیا۔ عراق پر امریکی حملہ نے عراقی بچوں کے سر سے باپ کا سایہ اور ماں کی شفقت کو چھین لیا۔ جو ملک ترقی یافتہ ملک کے قطار میں تھا وہ تیسری دنیا کے ملکوں سے بھی بدتر صورت حال سے دوچار ہے ۔ جہاں غربت نے اس قدر قہر ڈھایا ہے کہ وہاں کی باحیا غیرت مند خواتین چند سکوں کے لئے جسم فروشی کرنے پر مجبور ہوگئی ہیں۔عراق آج بیواؤں کا ملک بن گیا ہے۔ یقیناً اس کا سہرا وزیر اعظم نور المالکی اور ان کے حامیوں کے سر جاتا ہے۔ انہوں نے امریکی نوازی میں عراق کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ وہاں صورت حال اس قدر بھیانک ہے کہ اس کا صحیح طریقے سے اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق عراق میں ۲۰ لاکھ بچے خوراک249 تعلیم 249 تشدد 249 بیماریوں اور جنسی استحصال جیسے مسائل سے دوچار ہیں۔ اس کی رپورٹ کے مطابق عراقی بچے اپنے ملک میں جاری خانہ جنگی249عدم استحکام اور ہنگامہ آرائی کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۷ میں سینکڑوں بچے ہلاک ہوئے جب کہ امریکی حمایت یافتہ عراقی حکام نے ایک ہزار تین سو پچاس بچوں کو حراست میں لیا۔ اس تشدد کے خوف سے ہر ماہ پچیس ہزار سے زائد بچے اور ان کے خاندان اپنا گھر و بار چھوڑ عراق کے دوسرے علاقے یا دوسرے ملک میں ہجرت کرجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ عراق میں خواتین اور بچوں کی صورت حال اتنی خراب ہوگئی ہے کہ عراقی لڑکیاں جسم فروشی جیسے مخرب اخلاق پیشہ اختیار کرنے پر مجبور ہیں اور عراقی بچے سیاحوں کے ہوس کا شکار ہورہے ہیں۔کسی ملک کی تباہی، انسانوں کا قتل عام، شہری سہولیات پر ضرب کاری اور ملک کے تمام ڈھانچے کو برباد کرنے کو ملک میں جمہوریت بحالی کہتے ہیں تو ایسی جمہوریت سے توبہ کرنا چاہئیے۔
امریکہ نے اپنے اثر رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے وکی لیکس کے بانی جولین آسنگ پر زمین تنگ کرنا شروع کردیا ہے لیکن شاید امریکہ یہ بھول گیا ہے کہ اس طرح کی حرکت سے کسی کو تھوڑی دیر کے لئے روکا جاسکتا ہے ،پریشان کیا جاسکتا ہے لیکن عزم میں کمی نہیں لاسکتا۔اس سے ان جیسے درجنوں لوگوں کے حوصلوں میں مزید ابال آئے گا اور درجنوں جولین پیدا ہوں گے جو امریکی اور صیہونی جبر و تشدد کا آشکارا کریں گے۔ مہذب ملک ہونے کا انہوں نے جو مکھوٹا پہن رکھا ہے نقاب پلٹ کر ان کا وحشیانہ چہرہ دنیا کے سامنے لائیں گے۔
تمام شواہد اور دستاویزات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ امریکہ نے اپنے مفادات اور اپنی ذاتی انا کی تسکین کے لئے عراق اور افغانستان کو تخت و تاراج کرنے کے لئے حملہ کیا تھا۔ورلڈ ٹریڈ ٹاورکے جس حملے میں القاعدہ کے ملوث ہونے کی بات کہی جارہی ہے اگر ہم اسے سچ مان بھی لیں توجب امریکہ اپنے تین ہزار شہریوں کی ہلاکت کے لئے کسی ملک کے لاکھوں انسانوں کا قتل کرسکتا ہے اورملک کو تباہ کرسکتا ہے تو اب جب کہ یہ بات صاف ہوچکی ہے کہ عراق میں کوئی مہلک ہتھیار نہیں تھا یہ سب جونےئر بش کی منصوبہ بندی تھی جس کا ساتھ برطانیہ کے امریکی دم چھلا سابق وزیر اعظم ٹونی بلےئر دے رہے تھے،تو اب اس جرم کے لئے دونوں ممالک کو کتنی سزا دینی چاہئے۔ وکی لیکس کی دستاویزات سے یہ بات بھی صاف ہوچکی ہے کہ برطانیہ نے نہ صر ف جرم میں امریکہ کا ساتھ دیا بلکہ اس کی فوج نے عراق میں غیر انسانی اور وحشیانہ سلوک انجام دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ جب سوڈان کے صدر کو کو خانہ جنگی کے سلسلے میں اقوام متحدہ کا سہارا لے کر جنگی جرائم کامرتکب قرار دے کر سزا سنایا جاسکتا ہے تو پھر دونوں ملکوں کے سابق صدر جارج واکر بش اور سابق وزیر اعظم ٹونی بلےئر کو کیوں نہیں؟۔جب تک دونوں ملکوں کو سزا نہیں دی جائے گی اس وقت عالمی انصاف کا تقاضہ پورا نہیں ہوگا۔ اقوام متحدہ اور اقوام متحدہ کی عالمی عدالت کا وجود کسی ڈھکوسلہ سے کم نہیں ہوگا۔
D-64/10 Abul Fazal Enclave Jamia Nagar, New Delhi- 110025
Mob. 9810372335,
abidanwaruni@gmail.com
abid.anwar@yahoo.co.in

No comments:

Post a Comment