Tuesday, October 26, 2010

ترکی کا سفر:ڈاکٹر خواجہ اکرام



قسطنطنیہ کی حسین وادیاں اور اس کی تاریخی وتہذیبی وراثتیں
تربتِ ایوب انصاری سے آتی ہے صدا
اے مسلماں!ملت اسلام کا دل ہے یہ شہر

قسطنطنیہ جسے آج ترکی کے نام سے جانا جاتا ہے۔دنیا کے چند بڑے شہروں میں اس کا شمار ہے۔اسے مسجدوں کا شہربھی کہاجاتاہے کیونکہ ہر ایک میل کے فاصلے پرشاندار مسجدیں ہیں۔ مسجدوں کی اتنی بہتات کے بعد بھی کوئی مسجد نمازیوں سے خالی نہیں رہتی۔ان مساجد کا طرز تعمیر بھی بالکل مختلف ہے۔ اس طرح کی مسجدیں ہم نے پہلی دفعہ دیکھیں۔ان تمام مساجد کا آرکی ٹیکٹ ایک جیسا ہے۔ ایک بڑا گنبد اور اس کے ارد گرد متعدد چھوٹے گنبد۔ یہ عثمانی دور کے مشہور آرکی ٹیکٹ "سنان" کی ایجاد ہے۔ اس طرز تعمیر کا مقصد یہ تھا کہ امام یا خطیب کی آواز گنبدوں سے ٹکراتی ہوئی دور تک چلی جائے۔ جب لاوؤڈ اسپیکر ایجاد نہیں ہوا تھا، اس وقت مسلمان انجینئروں نے اس انداز سے اس کی تعمیر کی تھی کہ دور کے سامعین تک امام کی آواز پہنچ جائے ۔

یہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اس شہر کو سات پہاڑوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ شہر سات پہاڑوں کے حلقے میں واقع ہے۔ بحر اسود، بحیرہ مرمرہ اور ٓبنائے باسفورس یہ تین سمندر اس شہر کے حُسن میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔یہ دنیا کا واحد شہر ہے جس کا نصف حصہ یوروپ اور نصف ایشیا میں ہے۔ یہ شہر عظیم اسلامی تاریخ کا روشن باب بھی ہے۔اس شہر کو قدرت نے حسن کی دلفریبیاں عطا کی ہیں۔ ظاہری حسن کے علاوہ یہ روحانی فیوض و برکات سے بھی مالا مال ہے۔ میزبان رسول حضرت ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا مزار مبارک بھی اسی شہر میں ہے۔ حرمین شریفین کے بعد ترکی میں یہ مقام سب سے اہم اور متبرک سمجھا جاتا ہے۔اس کے علاوہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم، خلفائے راشدین اور خاندان اہل بیت کے مقدس تبرکات کے علاوہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصائے مبارک ، حضرت یوسف علیہ السلا م کی پگڑی اور قرآن کریم کے کئی نادر نسخے یہاں موجود ہیں۔دنیا میں سب سے بڑے گنبد کی مسجد بھی یہیں موجود ہے۔ ترکی کو یہ اعجاز بھی حاصل ہے کہ دنیا بھر میں تصوف اور صوفیانہ روایات کے حوالے سے سب سے زیادہ پڑھے اور سمجھے جانے والے مولائے روم کا مزار مبار ک بھی یہیں ہے ۔

اس شہر کی مختصر تاریخ یہ ہے کہ قسطنطنیہ330ءسے395ءتک رومی سلطنت اور 395ئ1453ءتک بازنطینی سلطنت کا دارالحکومت رہا اور 1453ءمیں فتح قسطنطنیہ ( قسطنطنیہ 29 مئی 1453ءکو سلطنت عثمانیہ کے ہاتھوں فتح ہوا۔ صدیوں تک مسلم حکمرانوں کی کوشش کے باوجود دنیا کے اس عظیم الشان شہر کی فتح عثمانی سلطان محمد ثانی کے حصے میں آئی جو فتح کے بعد سلطان محمد فاتح کہلائے۔)کے بعد سے1923ءتک سلطنت عثمانیہ کا دارالخلافہ رہا۔ فتح قسطنطنیہ کے بعد سلطان محمد فاتح نے اس شہر کا نام اسلام بول رکھا ( جس کا مطلب ہے اسلام کا بول بالا )جو کہ آہستہ آہستہ استنبول میں تبدیل ہو گیا۔ شہر یورپ اور ایشیا کے سنگم پر شاخ زریں اور بحیرہ مرمرہ کے کنارے واقع ہے اور قرون وسطی میں یورپ کا سب سے بڑا اور امیر ترین شہر تھا۔ اس زمانے میں قسطنطنیہ کو شہروں کی ملکہ کہا جاتا تھا۔( بحوالہ ویکیپیڈیا) یہ شہر آج بھی ترقی یافتہ اور خوشحال ہے۔ فی کس مجموعی ملکی پیداور بارہ ہزار امریکی ڈالر ہے۔2010 ءکے لیے استنبو ل کو یوروپ کا مشترکہ تہذیبی دارالحکومت منتخب کیاگیا ہے۔ یہ واحد مسلم ملک ہے جو ناٹو کا رکن بھی ہے اور یوروپی یونین میں شامل ہونے کی دعویداری بھی رکھتا ہے۔یہ ملک اس لیے بھی مثالی ہے کہ اپنے تمام انتشار پر قابو پا کر ترقی کی جانب تیزی سے گامزن ہے۔

ترکی کے انھیں مقامات کے مطالعے اور احباب سے ان کی تفصیلات سنتے سنتے دل میں یہ خواہش بسی ہوئی تھی کہ کاش اس ملک دلفریب اور شہر جانفزا کی زیارت نصیب ہوجائے ، سو اللہ نے دل کی یہ مراد پوری کی۔اللہ کا بے حد و حساب شکر کہ اسلامی تاریخ میں جس شہر کا ذکر باربار سنا اور پڑھا اسے اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع بھی ملا۔ ایک بین الاقوامی ورکشاپ میں شرکت کی دعوت پردہلی سے ہم اور ڈاکٹر رضوان الرحمان اسسٹنٹ پرفیسر، سنٹرن فار عربی اینڈ افریقن اسٹڈیز ، 23مئی کو دہلی سے بذریعہ ترکش ائیر لائن صبح کی 4.45بجے استنبول کے لیے روانہ ہوئے۔ دل میں حسرت تھی کی جلد از جلد حضرت ایوب انصاری کے شہر میں پہنچیں ، لیکن سفر کی طوالت ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی ، اس کی ا یک وجہ یہ بھی تھی عام طور پر جہاز پر بیٹھنے کے ساتھ یہ احساس ہوتا ہے کہ چند گھنٹوں میں ہی منزل مقصود تک پہنچ جائیں گے ، مگر براہ راست پرواز سے بھی یہ سات گھنٹے کا سفر تھا۔ ڈاکٹر رضوان ایک تجربہ کار سیاح ہیں اس لیے جانے سے پہلے بار بار ہمیں یاد دلاتے رہے کہ22 کی رات ختم ہوتے ہی ایک بجے ہم لوگوں کو نکلنا ہے۔

کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بارہ بجے رات کے بعد کہیں جانا ہو تو اگلی تاریخ ہی یاد رہتی ہے اور میرے ساتھ اکثر ایسا ہوا بھی ہے کہ ایک دن بعد یا ایک دن پہلے ہی اسٹیشن یا ایئر پورٹ پہنچ گیا ہوں۔ ڈاکٹر رضوان کی بار بار کی تاکید نے سنیچر کی رات کو سونے بھی نہیں دیا اور سو بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ ایک ڈیڑھ بجے گھر سے ائیر پورٹ کے لیے نکلنا تھا۔ کہیں نیند نہ آجائے ،اور اس خیال سے بھی کہ جب تک گھر سے نکل نہیں جاتے ہیں ، گھر والے بھی سو نہیں سکیں گے۔لہٰذا ہم ڈیڑھ بجے ہی ائیر پورٹ کے لیے روانہ ہوگئے۔ ائیر پورٹ پر ہم جیسے ہی ترکش ائیر لائن کے کاؤنٹرپر پہنچے ڈاکٹر رضوان کے ایک ریسرچ اسکالر مل گئے جو یہاں ترجمے کے حوالے سے کام کرتے ہیں۔ انھوں نے تمام کاروائی بھی جلد مکمل کرا دی اور ہمیں اپنے آفس میں چائے بھی پلائی۔اب ہمارے پاس وقت بہت تھا۔ہم لوگ امیگریشن کے بعد لانج میں چہل قدمی کر رہے تھے کہ وہاں جے این یو کے پروفیسر دیپک سے ملاقات ہوئی۔ کچھ دیر ان سے بات کرکے وقت نکل گیا ، لیکن وہ ہم سے پہلے چین کے سفر پر روانہ ہوگئے۔

بعد ازاں ہم نے کہیں بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ ہم تھوڑی دیر ہی سکون سے بیٹھے تھے کہ ایک قافلہ اسی جگہ ورود ہوا۔ پہلی نظر میں انھیں دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ایک خاندان کے تقریبا ًبیس پچیس احباب مقدس سفر پر جارہے ہیں۔ زیارت حرمین شریفین کے لیے وہی جاتے ہیں جن کی قسمت اوج پر ہوتی ہے۔ ہم نے بڑے احترام سے بیچ کی کرسی خالی کر کے کنارے جگہ لے لی تاکہ یہ سب لوگ ایک جگہ بیٹھ جائیں ، مگر معذرت کے ساتھ یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ ان کے لوگوں کے بیٹھتے ہی ایک ایسا ماحول بنا جیسے یہ عمرہ کے لیے نہیں بلکہ گرمی کی چھٹی گزارنے کہیں جارہے ہوں۔ نہ کسی کے لب پر دعا اور نہ کسی کے اندر سنجیدگی سب کے سب اپنے ساتھ لائے کھانے کے پیکٹ کھول کر کھانے پینے میں مشغول ہوگئے۔ یہ کوئی بُری بات نہیں تھی لیکن بری بات یہ تھی کہ جہاں کھایا ڈبہ وہیں پھینکا اورچائے ، کولڈ ڈرنکس لے کر آگئے۔ میں نے بار بار اس صفائی کرنے والے کی چہرے کی ناگواری کو دیکھا جو ان کے پھینکے ہوئے ڈبوں کو بڑی ناگواری سے اٹھا رہا تھا اور بیچ بیچ میں اس قافلے میں شامل نوجوانوں اور خواتین کو دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں یہ بتا رہی تھیں کہ محض دو تین میٹر کی دوری پر ڈسٹ بین موجود تھا مگر انھوں نے اتنی بھی زحمت نہیں کی۔

آس پاس کے لوگ بھی ان کی تیز تیز آواز میں گفتگو کرنے سے پریشان ہوکر کسی او ر نششت پر جا بیٹھے۔ میں دل ہی دل میں یہ سوچ رہا تھا کہ ایک مقدس سفر پر جانے والے اگر اس طرح کا سلوک اوررویہ رکھیں گے تو لوگ کیا سوچیں گے۔؟ مجھے ان کے رویے سے افسوس اور صدمہ پہنچا۔ڈاکٹر رضوان بھی پہلو بدل رہے تھے ۔ اتنے میں ترک ہوا یلاری کا اناؤنسمنٹ ہوا اور ہم جہاز پر سوار ہونے کے لیے گیٹ نمبر چار سے روانہ ہوئے۔ ٹھیک وقت پر روانگی ہوئی۔ جب فضا کی بلندیوں پر پہنچ کر جہاز پُرسکون ہوا تو ترکی طرز کا ناشتہ پیش کیا گیا۔ اس کے بعد غنودگی طاری ہوئی کچھ دیر کے لیے ہم سوگئے۔

لیکن جب گھڑی دیکھی تو معلوم ہوا ابھی تو صرف دو گھنٹے ہی گزرے ہیں۔ ابھی ہمیں پانچ گھنٹے اور بھی انتظار کرنا ہے۔ جہاز جس سمت کو پرواز کر رہا تھاوہ ویسٹرلی ہواؤں کا رخ تھا اس لیے رفتار سست تھی اوردہلی سے استنبول جانے میں ایک گھنٹہ زائد وقت لگتا ہے اس کے بر عکس واپسی میں صرف چھ گھنٹے میں دہلی پہچنتے ہیں۔ ہماری گھڑی میں اس وقت تقریبا ًسات بج رہے تھے۔ ہم جیسے جیسے آگے کی طرف بڑھ رہے تھے ویسے ویسے صبح ہورہی تھی ہر جگہ ایک ہی جیسا وقت معلوم ہو رہا تھا۔ آسمان اس قدر صاف تھا اور دھوپ اتنی تیز تھی کہ باہر نظر نہیں ٹھہر رہی تھی۔ جہاز کے عملے نے کھڑکی کے شٹر بند کرادئے تھے تاکہ جو سونا چاہیں انھیں تیز روشنی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ لیکن ہم لوگوں کو چونکہ ٹو سیٹر پہ جگہ ملی تھی اس لیے تھوڑا شٹر کھول کر دیکھنے کی کوشش مگر تیز دھوپ کے سبب باہر دیکھنا محال تھا لہٰذا کچھ دیر بند کمرے کی طرح ائیر کرافٹ میں آنکھیں بند کیے دعائیں پڑھتے رہے۔ ہمارے ایک دوست جن کا نام نہیں لکھ سکتا کیونکہ وہ مشہور شخصیت کے مالک ہیں اور ساری دنیامیں لوگ انھیں جانتے ہیں بالخصوص ہندستان اور پاکستان میں بڑی تعداد جو ان کی صلاحیتوں کااحترام کرتے ہیں ، کئی دفعہ ان کے ساتھ ہوائی سفر کا اتفاق ہوا ہے۔ زمین پر جس بہادری سے رہتے ہیں اسی بہادری اور بے باکی سے ان کا قلم بھی چلتا ہے مگر ہوائی جہاز پر اُن کا ہواس گُم رہتا ہے۔ انھوں نے ایک دفعہ مجھ سے کہا کہ انسان ہوائی جہاز پر ہی موت سے زیادہ قریب رہتا ہے۔ ان کی بات یاد کر کے ہم بھی استغفار اور دعائیں پڑھتے رہے۔ہم نے جب اپنی گھڑی کی جانب دیکھا تو 11بج رہے تھے۔

ائیر کرافٹ میں سونے والے مسافروں کی بڑی تعدادایک نیند پوری کر کے اٹھ چکی تھی۔ ائیر ہوسٹس مشروبات و دیگر اشیا کے ساتھ ضیافت میں مشغول تھیں ، تب ہم نے کھڑکی کے شٹر کھول دیئے جب باہر کی جانب دیکھا توصاف و شفاف فضا تھی اس لیے باہر کے مناظر بالکل صاف دیکھائی دے رہے تھے۔خوبصورت پہاڑوں کے اوپر سے ہم گزر رہے تھے کہیں ہرے بھرے پہاڑ تو کہیں مٹیالے رنگ کے نشیب و فراز کے درمیان چھوٹے چھوٹے شہر نظر آرہے تھے ، کہیں پہاڑوں پر برف کی سفید چادر بچھی تھی انھیں مناظر کے درمیان ایک وسیع و عریض نیلے رنگ کا جھیل نظر آیا جو پہاڑوں کے درمیان ایک حسین نظارہ پیش کر رہا تھا۔ ہم نے ایک فلائٹ اسسٹنٹ جو اتفاق سے ہمارے سامنے سے گزر رہے تھے ، پوچھا یہ کونسی سی جھیل ہے۔ انھوں نے لا علمی کا اظہار کیا لیکن جب ہمارا اشتیاق دیکھا اور یہ جملہ سُنا کہ آپ روز اسی کے اوپر سے گزرتے ہیں اور آپ کو معلوم نہیں ؟تو انھوں نے بتایا کہ یہ بن جھیل ہے اورہم ترکی کے حدود میں داخل ہوچکے ہیں۔ ہر طرف جھیل اور پہاڑ چادر کی طرح بچھے ہوئے تھے ، چائے کی چسکیوں کا ہم مزہ ہی لے رہے تھے کہ ترکی میں دور دور پھیلے شہر نظر آنے لگے۔ کچھ ہی دیر میں پائلٹ نے اعلان کیاکہ ہم اتاترک ائیر پورٹ پر لینڈ کر نے والے ہیں۔تمام مسافر اپنی اپنی سیٹ بیلٹ باندھ چکے تھے۔اب ہمارا جہاز سمندر کے اوپر تھا اور آہستہ آہستہ نیچے کی طرف آرہا تھا ، ایسا لگا کہ اسی سمندر پر لینڈ کر جائے گا۔ یہ بحیرہ مر مرہ تھا ، بالکل اسی کے کنارے اتاترک ائیر پورٹ واقع ہے۔

الحمد للہ ہم بخیر و خوبی پہنچ گئے۔ ائیر پورٹ پر داخل ہوتے ہی ہم نے امیگریشن فارم کی تلاش کی لیکن معلوم ہو ایہاں ایسی کوئی فار ملِٹی کی ضرورت نہیں۔ ایک لائن سے کئی کاؤنٹر بنے ہوئے تھے ہم بھی ایک کاؤنٹر پر کھڑے ہو گئے۔ سوچا یہاں بھی کافی وقت لگے گا کیونکہ کچھ ہی دنوں قبل جدہ ائیر پورٹ کا تلخ تجربہ تھا جہاں تقریباً دو گھنٹے باہر نکلنے میں لگے تھے۔ مگر یہاں تو کاؤنٹر پر پاسپورٹ دیا الیکٹرونک مشین میں اسے سوئپ کیا اورمسکراتے ہوئے ہمیں خوش آمدید کہہ کر باہر جانے کا شارہ کیا۔ ہماری حیرت اور خوشی کی انتہا نہ رہی کیونکہ آج کل سیکورٹی کے نام پر مسافروں کے ساتھ کیا کیا نا زیبا حرکتیں نہیں ہوتیں۔ اس معاملے میں سُنا ہے امریکہ نمبر ون ہے اس کے بعد شاید جدہ ائیر پورٹ ہی ہو۔ پہلے فارم بھریں ، پھر لائن میں کھڑے شاہی انداز سے ان کے کام کرنے کے انداز کو دیکھتے رہیں ، ان کی بے مروتی اور حقارت آمیز رویے کو بر داشت کریں۔ ایسا کہ جیسے ساری دنیا میں وہی اشرف المخلوقات ہیں اور باقی لوگ ان کے خادم یا اس سے بھی بد تر ہیں۔ خیر یہاں کا رویہ دیکھ کرخوشی ہوئی۔

انتہائی خوبصورت ائیر پورٹ سلیقہ مند اور سلجھے ہوئے لوگ۔ کچھ ہی دیر میں ہماری نظر رحمت پر پڑی جو تختی پر ہمارا نام لیے ہمارے استقبال کے لیے کھڑے تھے۔ ان سے ملاقات ہوئی انھوں نے بتایا کہ وہ فاتح یونیورسٹی سے بی۔ اے کر رہے۔ انھوں نے ہمیں زمین دوز میٹرو کی جانب چلنے کو کہا۔ ائیر پورٹ کے اندر اندر ہی ہم میٹرو میں سوار ہوئے کچھ دیر بعد یہ میٹرو سرنگ سے باہر نکل کر شہر میں دوڑ رہی تھی۔ بہت صاف ستھری اور خالی جگہیں دیکھ کر ہم جلدی سے بیٹھ گئے ، کیونکہ ہمیں دہلی میٹرو کی بھیڑ بھاڑ کا اندازہ تھا۔ رحمت ہماری تیزی کو بھانپ گئے کیونکہ وہ بنگلہ دیش کے رہنے والے تھے اور ممبئی دہلی سے اچھی طرح واقف تھے ، انھوں نے کہا یہاں اتنی بھیڑ نہیں ملے گی اس لیے کہیں بھی اطمینان سے بیٹھ جائیں۔ کچھ دیر بعد ہم ایک اسٹیشن پر اترے اور وہیں سے ٹرام لی۔ یہ ٹرام بھی بہت خوبصورت او ر صاف ستھری تھی۔ چار پانچ اسٹیشن کے بعد فندیق زادہ پر اترے۔ اسٹیشن کے سامنے ہی کایاہوٹل تھا جہا ں ہمیں قیام کرنا تھا۔ کشادہ سڑک درمیان میں ٹرام کی مخصوص جگہ اور دونوں جانب چوڑی سڑکیں لیکن فووٹ اور بریج بھی بنا تھا۔ انھوں نے بتا یا کہ یہی ہوٹل ہے جہاں قیام کرنا ہے اور فوٹ اور بریج پر چڑھنے لگے ، میں نے کہا اس کی کیا ضروت ہے سڑک کراس کر لیتے ہیں۔

لیکن ہمیں بتایا گیا کہ اگر پولیس نے دیکھ لیا تو جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ فندیق زادہ ترکی کے یوروپی حصے میں واقع تھا۔پہلی نظر میں جو ہم نے سڑکوں کی صفائی اور آمد و رفت کے انتظام دیکھے وہ ہر لحاظ سے قابل تعریف اور ہمارے لیے حیرت کا سبب تھا۔ سڑکیں ایسی کہ سڑک پر بیٹھ جائیں بالکل گھر جیسی صفائی۔ خیر ہم ہوٹل میں داخل ہوئے ہمارے لیے کمرے پہلے ہی سے بُک تھے۔ کمرے پہ پہنچ کر ہی ہمیں بھوک کا احساس ہونے لگا تھا کیونکہ رات بھر کا سفر اور اس وقت ہماری گھڑی میں دن کے دو بج رہے تھے۔جبکہ ترکی کی گھڑی کے مطابق ساڑھے گیارہ بجے تھے۔ جب میں نے رحمت سے دوپہر کے کھانے کی بات کی تو تعجب کے ساتھ انھوں نے ہماری جانب دیکھا، لیکن جب ہم نے ہندستانی ٹائم بتایا تو انھوں نے ہمارے میزبان عثمان اولانا سے بات کی انھوں نے اسکندریہ ریسٹورینٹ لے جانے کو کہا اور یہ بھی بتادیا کہ ہمیں ترکی کی مشہور غذا ‘ دونئر ’ کھلانا ہے۔ نزدیک ہی وہ ریسٹورینٹ تھا ، ریسٹورینٹ پہنچ کر اندازہ ہوا کہ واقعی ہم پہلے بھوکے ہوئے لوگ داخل ہوئے ہیں۔

دونئر بنانے میں وقت لگ رہا تھا جب تک ریسٹورینٹ کے دستور کے مطابق تین طرح کا نان ایک بڑا دوسرا اس سے چھوٹا اور مزے میں الگ ، تیسرا بالکل چھوٹا جس کے اوپر قیمہ رکھ کر بیک کیا گیا تھا، اس کے ساتھ سلاد وغیرہ ٹیبل پر رکھ دیا گیا اور ہم گرم گرم نان دیکھ کر ٹوٹ پڑے اور تیزی سے کھانے لگے۔ شاید ریسٹورنیٹ مالک کو اندازہ ہو گیا کہ یہ نئے مسافر ہیں اور انھیں معلوم نہیں ہے۔ اس لیے وہ ہماری ٹیبل کے پاس آکر ترکی میں ہمارے میزبان سے مسکراتے ہوئے کچھ کہا اورچلے گئے۔ تب رحمت نے بتایا کہ جب تک دونئر تیار ہو رہا ہے اس وقت تک کے لیے یہ اسٹارٹر ہے لہٰذا آہستہ آہستہ کھائیں ایسا نہ ہو کہ دونئر کے آتے آتے آپ کاپیٹ ہی بھر جائے۔ چونکہ ریسٹراں میں ہم پہلے شخص تھے اس لیے انھیں تیاری میں کچھ زیادہ ہی وقت لگ گیا اور جب تک دونئر آتا ہم تقریبا شکم سیر ہوچکے تھے۔ خیر دونئر بھی کھایا اور مزے لے کر کھایا۔ یہ شاورما کی طرح ہی ہلکی آنچ پر گوشت کے بھونے ہوئے تراشے تھے اور ساتھ میں ساس اور سلاد۔ کھانے کے بعد ہم پر غنودگی طاری ہوئی اور ہم سو گئے رحمت کچھ دیر کے لیے کسی کام سے باہر گئے تھے۔ ترکی میں یہ ہمارے لیے بہت لمبا دن تھا کیونکہ جب ہم ساڑھے بارہ بجے پہنچے تو یہاں نو بج رہا تھا اور شام ساڑھے آٹھ بجے ہوئی۔رحمت کے آتے ہی ہم نے خواہش ظاہر کی کہ آج ہم فری بھی ہیں اور وقت بھی تو کہیں گھوم کر آجائیں۔ وہ ہمیں ترکی کی مشہور جگہ نیلی گنبد کی مسجد لے گئے۔یہ سلطان احمد مسجد نیلی مسجد کے نام سے معروف ہے۔ترکی زبان: Sultanahmet Camiiکہتے ہیں۔

اسے بیرونی دیواروں کے نیلے رنگ کے باعث نیلی مسجد کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ ترکی کی واحد مسجد ہے جس کے چھ مینار ہیں۔1616ءمیں اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔اس مسجد میں دس ہزار لوگوں کی گنجائش ہے۔ لمبائی 72 میٹر ، چوڑائی 64 میٹر۔ گنبد کی اونچائی 43 میٹر اور قطر 33 میٹر ہے۔ وکیپیڈیا کے مطابق جب تعمیر مکمل ہونے پر سلطان کو اس کا علم ہوا تو اس نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا کیونکہ اُس وقت صرف مسجد حرام کے میناروں کی تعداد چھ تھی لیکن چونکہ مسجد کی تعمیر مکمل ہو چکی تھی اس لیے مسئلے کا حل یہ نکالا گیا کہ مسجد حرام میں ایک مینار کا اضافہ کرکے اُس کے میناروں کی تعداد سات کر دی گئی۔ مسجد کے مرکزی کمرے پر کئی گنبد ہیں جن کے درمیان میں مرکزی گنبد واقع ہے مسجد کے اندرونی حصے میں زیریں دیواروں کو ہاتھوں سے تیار کردہ 20 ہزار ٹائلوں سے مزین کیا گیا ہے جو ازنک (قدیم نیسیا) میں تیار کی گئیں۔ دیوار کے بالائی حصوں پر رنگ کیا گیا ہے۔ مسجد میں رنگین اور منقش شیشے کی 200 سے زائد کھڑکیاں موجود ہیں تاکہ قدرتی روشنی اور ہوا کا گذر رہے۔ مسجد کے اندر اپنے وقت کے عظیم ترین خطاط سید قاسم غباری نے قرآن مجید کی آیات کی خطاطی کی۔ مسجد کے طرز تعمیر کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ نماز جمعہ کے موقع پر جب امام خطبہ دینے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو مسجد کے ہر کونے اور ہر جگہ سے امام کو با آسانی دیکھا اور سنا جا سکتا ہے۔ مسجد کے ہر مینار پر تین چھجے ہیں اور کچھ عرصہ قبل تک مؤذن اس مینار پر چڑھ کر پانچوں وقت اذان دیتے تھے۔ آج کل اس کی جگہ صوتی نظام استعمال کیا جاتا ہے جس کی آوازیں قدیم شہر کے ہر گلی کوچے میں سنی جاتی ہے۔ نماز کے وقت یہاں مقامی باشندوں اور سیاحوں کی بڑی تعداد بارگاہ الٰہی میں سربسجود ہوتی ہے۔ رات کے وقت رنگین برقی قمقمے اس عظیم مسجد کے جاہ و جلال میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔( بحوالہ وکیپیڈیا)۔

مسجد کے احاطے خوبصورت پھولوں اور درختوں کے قطار سے سجے تھے۔صفائی ایسی کہ ناقابل بیان۔ جگہ جگہ فوارے لگے ہوئے تھے۔ یہاں ہم نے خوش رنگ گلاب کو دیکھا جو پودے کے بجائے چھوٹے پیڑ سے لگے ہوئے تھے۔آج تک ہم نے گلاب کا ایسا بانسائی نما درخت نہیں دیکھا تھا۔ طرح طرح کے پھول ہمیں اپنی جانب دعوت نظارہ دے رہے تھے۔ہر طرف سیاحوں کی بھیڑ بھاڑ تھی لیکن نماز کا وقت ہوتے ہی مسجد نمازیوں سے بھر جاتی ہے۔نماز کے وقت سیاحوں کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔مسجد کی دوسری جانب ایا صوفیہ ہے لیکن ہم اس شام ایا صوفیہ نہیں جاسکے۔ دوسرے دن اپنی مصروفیات سے فارغ ہونے کے بعد اپنے میزبان عثمان اولانا کے ساتھ ایا صوفیہ گئے۔ ایاصوفیا کی عظیم عمارت عیسائیوں نے چرچ کے طور پر بنائی تھی۔ (یہ ایک سابق مشرقی آرتھوڈوکس گرجا ہے)۔ لوگ اسے چوتھی صدی عیسوی کی تعمیر بتاتے ہیں لیکن کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس وقت کی کوئی تعمیر صحیح سالم نہیں بلکہ اس کی تعمیر نو یا مرمت کی جاتی رہی ہ ے۔ کہا جاتا ہے کہ حوادث کے نذر ہوجانے کے بعد قسطنطین اول کے بیٹے قسطنطیس ثانی نے اسے تعمیر کیا تاہم 532ءمیں یہ گرجا گھربھی فسادات و ہنگاموں کی نذر ہوگیا۔ اسے جسٹینین اول نے دوبارہ تعمیر کرایا اور 27 دسمبر 537ءکو یہ مکمل ہوا۔یہ گرجا اشبیلیہ کے گرجے کی تعمیر تک ایک ہزار سے زیادہ سال تک دنیا کا سب سے بڑا گرجا گھررہا۔ایاصوفیہ متعدد بار زلزلوں کا شکار رہا جس میں 558ءمیں اس کا گنبد گرگیا اور 563ءمیں اس کی جگہ دوبارہ لگایا جانے والا گنبد بھی تباہ ہوگیا۔ 989ءکے زلزلے میں بھی اسے نقصان پہنچا۔1453ءمیں قسطنطنیہ کی عثمانی سلطنت میں شمولیت کے بعد ایاصوفیہ کو ایک مسجد بنادیا گیا اور اس کی یہ حیثیت 1935ءتک برقرار رہی۔ سلطان محمد فاتح نے 1453ءمیں استنبول کو فتح کیا تو سلطان نے اس کے اندر جمعہ کی نماز پڑھی اور حکم دیا کہ اسے بدل کر مسجد کی صورت دے دی جائے۔اس وقت سے یہ عمارت مسجد کے طور پر استعمال ہونے لگی۔ اس کے بعد مصطفی کمال اتاترک کی حکومت آئی۔ انہوں نے 1934 میں ایک نیا حکم نافذ کیا۔اس کے تحت ایا صوفیہ کو میوزیم(عجائب گھر) قرار دے دیاگیا۔ فروری 1935 میں میوزیم کے طور پر اس کے دروازے کھولے گئے۔ایاصوفیہ کو بلاشک و شبہ دنیا کی تاریخ کی عظیم ترین عمارتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔لاطینی زبان میں اسے Sancta Sophia اور ترک زبان میں Ayasofya کہا جاتا ہے۔اس کے خوبصورت گنبد کا قطر 31 میٹر (102 فٹ) ہے اور یہ 56 میٹر بلند ہے۔

اس کے بعد ہم توپ کاپی میوزیم گئے جہاں قدیم ترک حکومتوں کے آثار ہیں۔ لیکن اس کی سب بڑی اہمیت مقدس تبرکات کے سبب ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تبرکات موجود ہیں ، لیکن سب سے زیادہ اس میوزیم میں ہیں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا لباس مطہر ، دندان مبارک ، تلورا اور نعلین مبارک موجود ہیں۔ حضرت فاطمہ کو جہیز میں ملا قرآن پاک کا جزدان ، ردائے مبارک، حضرت امام حسن اورامام حسین ،حضرت علی اور خلفائے راشدین کی تلواریں اور دیگر اشیا کے علاوہ عصائے موسیٰ ،حضرت یوسف علیہ السلام کی پگڑی اور بہت سے تبرکات ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ ان تبرکات کی زیارت نصیب ہوئی۔

توپ کاپی سے نکلتے ہی نماز ظہر کا وقت ہو گیا تھا۔ ہم پاس کی ایک قدیم مسجد میں نماز ادا کرنے گئے۔ یہ بہت پرانی مسجد تھی کئی صدی پہلے کی مسجد تھی لیکن اندر اور باہر سے ہر طرح جدید اس لیے تھی کیونکہ جدید سہولیات موجود تھیں۔ کسی مسجد میں یہ میرا پہلا احساس تھا کہ کچھ اور دیر تک مسجد میں ٹھہر جائیں اور مستقل نفل ادا کرتے رہیں۔ مسجد کے مین دروازے پر دبیز چمڑے کا پردہ تھا تاکہ اے سی کی ہوا باہر نہ جاسکے۔ اسی سے متصل وضو خانہ تھا۔ وضو خانہ دیکھ کر حیرت ہوئی۔ انتہائی صاف ستھرا اور بیٹھنے کے لیے اونچی اونچی سنگ مرمر سے بنی کرسیاں ، سامنے آویزاں شیشے اور ٹیشو پیپر رکھے ہوئے تھے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ عام طورپر گھروں کے ٹائلیٹس میں اتنی صفائی نہیں ہوتی۔ مسجد میں داخل ہوئے تو دل خوش ہوا۔دبیز سبز رنگ اور سرخ رنگ کی قالین بچھی ہوئی تھی۔ اتنی دیدہ زیب آرائش تھی کہ ہر طرف ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا۔ نماز سے فارغ ہوکر مسجد کا معائنہ کر رہا تھا تو دیکھا اوپر سے کچھ خواتین باہر نکل رہی ہیں ،میں نے اپنے میزبان سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ یہاں ہرمسجد میں عورتوں کے نماز پڑھنے کے لیے خصوصی اہتمام ہوتا ہے۔ہم نے دیکھا کہ جدید طرز کا لباس پہنی ہوئی، سر پر حجاب لگائی ہوئی خواتین نماز ادا کر کے باہر نکل رہی ہیں۔ میری حیرت کی انتہا نہیں رہی۔ میری حیرت میں اس وقت اور بھی اضافہ ہوا جب امام صاحب کو دیکھا کہ وہ بھی جینس پینٹ اور شرٹ پہنے ہوئے ہیں۔ نماز کے وقت اوپر سے عبا پہن لیا اور گول ترکی ٹوپی لگا لی۔ مسجد سے باہر نکل کر سامنے ہی ٹرام کا اسٹیشن تھا۔ ہم ٹرام کے ذریعے ایوب سلطان پہنچے۔ وہاں ایک ریسٹورینٹ میں کھانے کے لیے بیٹھے۔ سامنے ہی سلطان ایوب مسجد تھی۔ کھانے کی ٹیبل پر میرے میزبان نے ایک بینر کی طرف اشارہ کیااور پوچھا آپ جانتے ہیں یہ کیا ہے ؟ ظاہر ہے ہم دونوں نے جواب نفی میں دیا تو انھوں نے بتا یا کہ یہ غزہ میں مجبور اور مظلوم مسلمانوں کی امدا د کے لیے بینر لگا ہو اہے۔ اس کے بعد جو انھوں نے بتا یا وہ زیادہ حیرت انگیز تھا ، انھوں نے کہا کہ ترکی کے لوگ غزہ کے مسلمانوں کی بڑی مدد کرتے ہیں۔ اس بینر کے لگتے ہی چند ہی دنوں میں اتنے پیسے اور سامان آگئے کہ ایک جہاز میں نہیں بھیجا جاسکا۔

آپ جانتے ہیں یہ وہی فریڈم فلوٹیلا جہاز تھا جس پر اسرائیل نے وحشیانہ حملہ کیا تھا۔ جس کی ساری دنیا میں مذمت کی گئی ہے۔خیر پُر لطف ترکی کھانے کا مزہ لینے کے بعد ہم ایوب سلطان مسجد کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ وہی مسجد ہے جہاں میزبان رسول حضرت ایوب انصاری ؓ کا مزار مبار ک ہے۔ ایوب سلطان مسجد شاخ زریں کے قریب قدیم شہر قسطنطنیہ کی فصیلوں کے باہر واقع ہے۔ یہ جگہ استنبول شہر کے یورپی حصے کے موجودہ ضلع ایوب میں ہے۔ یہ مسجد 1453ءمیں عثمانیوں کے ہاتھوں قسطنطنیہ کی فتح کے بعد 1458ءمیں تعمیر کی گئی۔ یہ مسجد عین اس جگہ تعمیر کی گئی جہاں صحابہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ 60ءمیں محاصرہ قسطنطنیہ کے دوران شہید ہو گئے تھے۔ ان کا مزار ترکوں کے لیے انتہائی مقدس و پُر عقیدت مقام ہے۔ اس کے اندر داخل ہونے کے لیے الگ دروازہ ہے اور نکلنے کے لیے الگ دروازہ ۔ مرداورخواتین ایک ہی دروازے سے داخل ہوتے ہیں۔ جب ہم اندر داخل ہوئے تو دیکھا بڑی تعداد میں ایک طرف ٹوپیاں رکھی ہوئی ہیں اور دوسری جانب ڈھیر سارے دوپٹے لٹکے ہوئے ہیں۔ جو خواتین بغیر دو پٹہ کے جاتی ہیں انھیں دو پٹہ اوڑھنے کو دیا جاتا۔ہم بھی سلام کے لیے حاضر ہوئے۔ اطمینان سے فاتحہ پڑھا ، اطمینان اس لیے کہ ہندستان کی طرح وہاں مزاروں پہ ہنگامہ بر پا نہیں رہتا۔

اتنی جگہوں کی زیارت کے بعد ہم تھک چکے تھے اور اپنے میزبان کا بھی خیال رکھنا تھا اس لیے ہم ایوب سلطان سے سیدھے ہوٹل آئے۔ تھوڑی دیر آرام کیا۔ سوچا اب شام ہو گئی ہوگی۔ لیکن وہاں تو دن اتنا لمبا ہوتا ہے کہ ہم دن سے تھک گئے۔ ہوٹل سے باہر آئے او ر تھوڑی دیر ہم اور ڈاکٹر رضوان یوں ہی بلا وجہ گھومتے رہے۔ ہم بہت دیر تک فوٹ اور بریج پر کھڑے رہے۔ٹرام ، بس اور اپنی گاڑیوں سے آنے جانے والے لوگوں کو دیکھتے رہے۔ بہت غور کرنے کے بعد بھی ہم یہ پتا لگانے میں ناکام رہے کہ یہاں کون غریب ہے اور کون امیر۔ ہر شخص خوش لباس اور شاداں و فرحاں نظر آیا۔ عام طور پر ہمارے یہا ں لوگوں کو دیکھ کران کی حالت زار کااندازہ لگا سکتے ہیں۔ ہندستان میں عام شاہراہوں پر یا ریلوے اسٹیشن پر کھڑے ہوجائیں تو امیر و غریب کا فرق معلوم ہو جائے گا۔ مگر اللہ کا شکر ہے ا س ملک میں کم از کم ایسی بات نہیں ہے۔ ہم نے بعد میں وہاں کے لوگوں سے دریافت کیا تو معلوم ہو اکہ یہاں کے لوگ معاشی اعتبار سے خوشحال ہیں۔ ایک دن ہم اور ڈاکٹر رضوان خوش گپی کرتے ہوئے ترکی کے حالات پر تبصرہ کر رہے تھے کہ ڈاکٹر رضوان نے ہم سے کہا مجھے ترکی میں ایک شخص پر بڑارحم آتا ہے۔ میں نے پوچھا کون ؟ انھوں نے کہا کہ صرف ایک شخص ایسا ہے جو سڑکوں پہ کچھ ڈھونڈتا رہتا ہے اور اسے کچھ نہیں ملتا۔ میری حیرت بڑھی تو انھوں نے بتا یا کہ صفائی کرنے والے پہ ! مجھے ا س بات پر بے ساختہ ہنسی آئی اور واقعی غور کیا تو ایسا ہی لگا کہ صفائی کرنے والے مستقل کوڑے ڈھوندتے رہتے ہیں اسی لیے سڑکوں پہ کوئی گندگی نظر نہیں آتی۔ مغرب بعد ہمیں ہوٹل کے لابی میں آنے کو کہا گیا تھا اور یہ بتایا گیا تھا کہ حیدر آبا د سے انڈیا لاگ فاؤنڈیشن کی دعوت پر ایک گروپ آرہا ہے۔ ان کے ساتھ ہمیں رات کے کھانے کے لیے کہیں جاناتھا۔ شام کو جب لابی میں آئے تو حیدرآباد کے مہمانوں سے ملاقات ہوئی۔ اس گروپ میں اردو کے سنئر پروفیسر خالد سعید اور مولانا آزاد یونیورسٹی کے پبلک ریلیشن آفیسر جناب عابد عبد الواسع بھی تھے۔ پروفیسر خالد سعید صاحب کو میں پہلے سے جانتا تھا مگر عابد عبد الواسع سے پہلی ملاقات تھی۔ ان سے مل کر ایسا لگا جیسے برسوں سے شناسائی ہے۔

خیر ہم سب جناب عیسیٰ اور نورالدین صاحب کے ساتھ آبنائے باسفورس کے کنارے ایک شاندار ہوٹل میں پر تکلف عشائیہ میں شریک ہوئے۔ سمندر کے کنارے ، خوبصورت ہوٹل اور ترکی کی خوشگوارفضا میں یہ عشائیہ ایک یادگار بن گیا۔ رات ہوٹل میں سکون سے گزار ا۔ دسرے دن بھی وقت نکال کر ہم جناب عثمان اولانا کے ساتھ استنبول یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں پہنچے۔ وہاں اردو کے اساتذہ سے ملاقات ہوئی۔ یونیورسٹی ہمارے ہوٹل سے نزدیک ہی تھا۔ لیکن شاید ہم تنہا یونیورسٹی نہیں جا سکتے تھے۔ کیونکہ وہاں کاجو نظام دیکھا طبعیت خوش ہوئی۔ کوئی بیرونی شخص اندر داخل ہی نہیں ہوسکتا۔ اور نہ کمپاؤنڈ میں کوئی کچھ شرارت کر سکتا ہے۔ ہمیں ڈیپارٹمنٹ سے فون آنے کے بعد باضابطہ شناخت کے ساتھ اندر جانے دیا گیا۔ جب یہ معلوم ہو اکہ یہاں شعبہ ارود میں تقریبا ً اسی طالبعلم ہیں تو خوشی ہوئی کہ اس شہر میں بھی اردو کی تعلیم ہوتی ہے۔ ا س کے بعد ہم فاتح یونیورسٹی گئے جو ایک پرائیوٹ یونیورسٹی ہے۔ اس یونیورسٹی کے قیام کو ایک دہائی سے کچھ زیادہ عرصہ ہوا ہے لیکن جس انداز کی عمارت تھی اور جس طرح تعلیم دی جاتی ہے یہ جان کر بے انتہا خوشی ہوئی۔ یہاں تعلیم کا معیار بہتر ہے۔ یہاں کئی پروفیسر ز سے ملاقات رہی۔ ترکی میں تقریبا ً سبھی لوگ تعلیم یافتہ ہیں۔ کیونکہ ہائی اسکول تک تعلیم حکومت کی جانب سے لازمی ہے اگر کوئی والدین اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھیجتے تو انھیں جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اسی طرح وہاں تما م شہریوں کے لیے لازم ہے کہ ایک خاص مدت شاید تین مہینے یا چھ مہینے کی آرمی ٹرینگ لینی ہوتی ہے۔ جب ہم انقرہ جارہے تھے تو دیکھا کہ ایک شخص کے ساتھ کئی لوگ ڈنکا بجاتے اورخوشی مناتے کسی کو چھوڑنے آئے تھے اس وقت ہمیں اس خوشی کا سبب معلوم نہیں ہوسکا ، ہم نے سوچا شاید کوئی فٹ بال کھلاڑی ہے۔ لیکن بعد میں معلوم ہواکہ وہ ٹرینگ کے لیے جا رہا تھا۔

استنبول میں اب تک کے قیام سے اندازہ ہو گیا تھا کہ ترکی کی شبیہ بدل رہی ہے۔ ترکی کو عام طورپر لوگ یوروپی طرز کے لیے زیادہ جانے جاتے ہیں۔ لیکن اب وہاں کے لوگ اسلام کی طرف راغب ہورہے ہیں۔ ہم نے وہاں دونو ں طرح کے لوگ دیکھے۔ ایک وہ جو مذہب کی جانب جھکاؤ رکھتے ہیں اوردوسرے جو مذہبی تو نہیں لیکن مذہب بیزار نہیں ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ ہمارے ہندستان میں لباس اور داڑھی ٹوپی سے مذہبی شخص کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ لیکن ترکی میں ایسے تہجد گزاروں کو بھی دیکھا جن کے لباس اور حلیے سے ان کے مذہبی ہونے نہ ہو نے کا تعین نہیں کرسکتے۔ تقریباً لوگ داڑھی مونچھ نہیں رکھتے۔ لڑکیاں زیادہ تر جینس پینٹ اورٹی شرٹ پہنتی ہیں۔ جن کا جھکاؤ مذہب کی جانب ہے وہ سر پر حجاب باندھتی ہیں۔ نئی نسل جو مذہب کی طرف کم لگاؤ رکھتے ہیں وہ بڑے آزاد خیال ہیں ، لڑکے لڑکیوں میں اختلاط عام ہے بڑے بے تکلف ہوکر آپس میں ملتے ہیں۔ہر شاپنگ مال اور دوکان میں لڑکیوں کو کام کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔ان کے معاشرے پر یوروپی طرز حاوی ہے۔ ہمارے ترکی دوست نے بتایا کہ کچھ برسوں کی ہی بات ہے کہ یونیورسٹی اور کالج میں لڑکیاں سر پر حجاب باندھ کر نہیں جاسکتی تھیں۔ لیکن اب جو باندھنا چاہتی ہیں ان پر کسی طرح کا دباؤنہیں ہے۔ ان تمام بے تکلفی اور آزاد خیالی کے بعد ہم نے ترکی میں جو چیز دیکھی وہ یقینا قابل ستائش ہے۔ طرح طرح کے لباس میں لڑکیاں ہر جگہ نظر آجاتی تھیں مگر کہیں کسی کو سیٹی بجاتے یا کسی کو جملہ کستے نہیں سنا۔ کئی دنوں تک تو ہم نے کسی پولیس والے کو کسی سڑک پر نہیں دیکھا ،یہاں تک کہ تاریخی عمارتوں کے آس پاس بھی پولیس کا سایہ نظر نہیں آیا ، ہمارے یہاں پولیس کی جو وحشت اور دہشت ہے وہ وہاں نظر نہیں آیا۔ اس سے اندازہ ہوا کہ یہاں عام طور پر لوگ امن پسند ہیں اسی لیے ہمارے شہروں کی طرح ہر جگہ پولیس کی گاڑیاں دوڑتی ہوئی نظر نہیں آئیں۔

استنبول میں قیام کے تیسرے روز ہم ویو پوئنٹ دیکھنے گئے۔یہ ایشیائی حصے میں ہے ، یہ انھیں سات پہاڑوں میں سے ایک ہے ، جس کا ذکر میں نے پہلے کیا ہے۔ یہ حصہ اب سیاحوں کی کشش کا مرکز بن چکا ہے۔یہاں سے استنبول کے یوروپی حصے کا حسین منظر دیکھا جا سکتا ہے۔ یہاں سے نیلی گنبد کی مسجد ،ایا صوفیہ اور ساحل سمندر پر بسے شہر کے خوبصورت نظارے کو دیکھا جا سکتا ہے۔ یہاں سے دیکھتے ہوئے جو چیز سب سے زیادہ باعث کشش ہے وہ یہاں کی سرخ اور مٹیالے رنگ کی ایک جیسی عمارتیں اور ہر جگہ مسجدوں کے بلنداور دیدہ زیب مینار ے اسلامی شان و شکوت کی منہ بولتی تصویر یں نظر آتی ہیں۔ استنبو ل سے جاتے ہوئے ہم اس تاریخی پُل سے گزرے جو یوروپ اور ایشیا کو آپس میں جوڑتا ہے یہ تقسیم کا علاقہ انتہائی خوبصورت ہے۔ پل اتنی اونچائی پر ہے کہ اس کے نیچے سے بڑے بڑے جہاز گزر سکتے ہیں۔ پل کے عین کنارے ایک انتہائی خوبصورت مسجد ہے جسے جہاز پر سوار ہوکر نزدیک سے دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ اس مسجد کا صحن عین سمندر میں واقع ہے۔ ویو پوائنٹ سے ہم اسکودر ، ایشائی جانب سمند رکا وہ کنارہ جہاں سے سیاح چھوٹے چھوٹے جہازوں پر بیٹھ کر سیر کرتے ہیں۔ ہم بھی اس کنارے پر پہنچے ہمارے لیے میزبانوں نے ایک خاص جہاز کا انتطام کر رکھا تھا۔

ہمارے ساتھ انڈیا لاگ کی جانب سے حیدر آباد سے آئے مہمان بھی تھے اور ہمارے دوست جناب عابد عبد الواسع بھی ہمرہی کا لطف بڑھارہے تھے۔ ہم اور عبدالواسع، ڈاکٹر رضوان ،پروفیسر خالد سعید ، وٹل راؤ،ستیہ پرکاش اور عثمان اولانا نے جہاز کے عرشیے پر ہی بیٹھنا پسند کیا۔ باقی لوگ جہاز کی نچلی منزل پر حسین مناظر کا لطف لے رہے تھے۔ ہوائیں اتنی تیز تھیں اورکشتی جس طرح ہچکولے لے رہی تھی کہ اوپر کھڑا ہونا مشکل تھا۔ لیکن ہم لوگ اس وقت کا انتظار کر رہے تھے کہ کشتی مسجد کے کنارے پہنچے تو ہم اس کی تصویر لے سکیں۔تقسیم بریج کراس کرتے ہی کچھ دوری سے گولڈن ہارن کا علاقہ شروع ہوتا ہے۔ یہ پرانے شہر کا منظر ہے۔ ہم لوگ تقسیم پُل کے پاس سے ہی واپس لوٹے اس کے بعد گرلز ٹاور دیکھنے گئے ۔ یہ سمندر کے بیچ ایک چھوٹے سے جزیرے پر واقع ہے ۔ یہ اونچے مینار کی طرح بنا ہوا جس میں تین منزل ہے ۔ اس مینار کے بارے میں مشہور ہے کہ قدیم دور کے بادشاہ کو اس کے نجومی نے بتایاکہ آپ کی لڑکی موت سانپ کاٹنے سے ہوگی ۔ بادشاہ نے اس ڈر سے سمند کے بیچ اس کے لیے ایک گھر بنوایا ۔ ہر صبح اس کا معمول تھا کہ اپنی لڑکی کے لیے پھولوں کا گلدستہ بھیجتاتھا ۔ ایک دن اسی گلدستے میں ایک سانپ چھپا تھا ۔ کب لڑکی نے اس گلدستے کو لیا تو سانپ نے ڈس لیا اور اس کی مو ت ہو گئی ۔ اسی مناسبت سے اس ٹاور کو گرلز ٹاور کہا جاتا ہے۔

شام کی بس سے انقرہ کے لے روانہ ہوئے۔ یوں تو ہمیں قونیا جانا تھا لیکن ایک دن کا وقت تھا سوچا انقرہ دیکھتے جائیں۔ لہذا ہم نے ایشائی حصے سے انقرہ کی بس لی۔ یہاں کی بسیں بھی کیا خوب ہیں۔ ہر طرح کی سہولت کے ساتھ ساتھ انتہائی آرام دہ۔ہر سیٹ پر ٹیلی ویڑ ن اسکرین موجود تھی جس میں چھ سات چینل براہ راست آرہے تھے۔ استبول انقرہ روڈ خوبصورت پہاڑ کی وادیوں سے ہوکر گزرتا ہے راستے میں کئی جگہ ایسا محسوس ہو اجیسے ہم سرنگ سے گزر رہے ہوں کیونکہ دونوں جانب سے بلند ا ور ہر بھرے درختوں سے مزین پہاڑکھڑے تھے ، البتہ کچھ ہی دیر بعد ایک ایسے سرنگ میں ہماری بس داخل ہوئی جس کی لمبائی چار کیلو میٹر کے آس پاس تھی۔ پہاڑی سلسلوں کے درمیان کئی چھوٹے بڑے جھیل بھی قدرت کے حسین مناظرپیش کر رہے تھے۔ اس لیے ہم ٹی وی دیکھنے کے بجائے باہر کے نظارے سے لطف انداز ہو رہے تھے۔رات دس بجے انقرہ شہر میں داخل ہوئے۔ بس اسٹینڈ کی جانب جب ہماری بس جارہی تھی تو مجھے ایسا لگا جیسے غلط جگہ یہ بس داخل ہو رہی ہے کیونکہ یہ بس اسٹینڈ بالکل ائیر پورٹ جیسا تھا۔ دومنزلہ عمارت اور بہت ہی وسیع و عریض رقبے میں پھیلا ہوا تھا۔بس اسٹینڈ کا نقشہ بالکل ائیر پورٹ جیسا تھا۔ ہم نے پہلی دفعہ ایسا بس اسٹینڈ دیکھا تو حیرت ہوئی۔ بس سے اُتر کر ہم اپنے میزبان کا انتظار کر رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں دو صاحبان آئے اور انھوں نے کہا “ اِ ندستانی ’ وہاں کے لوگ ہندستانی کو اندستانی کہتے ہیں۔ اس کے بعد ہم ان کے ساتھ ہولیے۔ اکسیلیٹر کے ذریعے اوپری منزل پر گئے اور باہرنکل کر ان کی گاڑی میں بیٹھ گئے۔ اسوقت مجھے یہ شعر یاد آیا اوربار بار ڈاکٹر رضوان کو سنا کر لطف لیتا رہا :

زبان ِیار ِمن ترکی و من ترکی نمی دانم
چہ خوش بودے اگر بودے زبانش در دہان ِ من

وجہ یہ تھی کہ جو دو صاحبان ہمیں لینے آئے تھے انھیں انگریزی بالکل نہیں آتی تھی ہم اشاراتی زبان میں کام چلا رہے تھے۔ ترکی میں مشکل یہ ہے کہ کم ہی لوگ ترکی کے علاوہ کوئی اور زبان جانتے ہیں۔ خیر ہم گیسٹ ہاؤس گئے اور رات آرام کیا۔ صبح ناشتے سے فارغ ہوکر شہر کی جانب جانے کا ارداہ تھا۔ اتفاق سے ایک ایسے صاحب مل گئے جنھیں عربی زبان آتی تھی ، ان سے ڈاکٹر رضوان نے عربی میں بات کر کے شہر کے بارے میں معلوم کرنا چاہا تاکہ کم سے کم وقت میں اور ایک ہی دن میں ہم لوگ انقرہ شہر دیکھ لیں۔ ہمارے ساتھ انڈیا لاگ کے ایک دوست انقرہ کے ایک اسکول دیکھانے لے گئے جو فتح اللہ گلین صاحب کی تعلیمی تحریک کے تحت قائم ہوا ہے۔ ان کی تعلیمی تحریک اتنی مضبوط ہے کہ اس پلیٹ فارم کے تحت پوری دنیامیں ہزاروں اسکول قائم ہیں جو بہترین تعلیم و تربیت کے مثالی ادارے ہیں۔اس اسکول کو دیکھا جہاں ہر طرح کی جدید سہولتیں دستیاب تھیں اور اسکول کیا ہمارے یہاں تو کارپوریٹ کے ایسے دفتر بھی نہیں ہوتے۔ بہت ہی خوبصورت اور جگہ جگہ قالین بچھی ہوئی ،کلاس روم میں تمام جدید تر آڈیو ویڈیو سہولیات ،انتہائی قابل اساتذہ۔ ان سے مل کر اندازہ ہو اکہ اسکول کا ایسا بھی معیار ہوتا ہے۔ اسی اسکول کے کینٹن میں ہم نے دوپہر کا لذیز کھانا کھایا۔ اس کے بعد میوزیم اور انقرہ کی مارکیٹ کی سیر کی۔ شہر کی جامع مسجد میں نماز پڑھی ہمارے ساتھ ایک ترک بزنس مین تھے جن کی گاڑی میں ہم گھوم رہے تھے ، یہ صرف ترکی زبان جانتے تھے اس لیے فاتح یونیورسٹی کے ایک طالبعلم کو ہمارے مترجم کے طور پر ساتھ کر دیا گیا تھا۔ نماز پڑھنے کے بعد منبر کے نزدیک ہی ہم کچھ دیر بیٹھے رہے۔ ہمارے میزبان نے بتایا کہ جس قالین پر آپ بیٹھے ہوئے ہیں یہ مسجد نبوی میں ریاض الجنہ کی قالین ہے اور اس کی ساتھ سرخ رنگ کی قالین بھی مسجد نبوی سے تحفے میں یہاں آئی ہے۔

چونکہ مسجد نبوی کے لیے قالین یہیں سے بن کر جاتی ہے لہٰذا جب جب وہاں قالین تبدیل کی جاتی ہے تحفے میں یہاں قالین بھیجی جاتی ہے۔ اس کے برابر ہی واٹر کنٹینر رکھا تھا جس میں زمزم تھا ہم نے شکم سیر ہوکر زمزم بھی پیا۔ نماز کے بعد ہم نے ٹرالی میں سفر کرنے کا ارادہ بنایا۔ چونکہ انقرہ نشیب و فراز کا علاقہ ہے اس لیے اس ٹرالی پر سوار ہو کر شہر کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ دو کیلو میٹر لمبے راستے پر ہم نے ٹرالی کا مزہ لیا۔ شام کو انقرہ کی ایک مسجد میں عصر کی نماز کے لیے رکے۔ اسی احاطے میں ایک بزرگ کا مزار ہے جو بہت ہی قدیم ہے۔ یہ مسجد کئی سو سال پُرانی تھی اس لیے وہاں مرمت کا کام چل رہا تھا۔ لیکن نمازیوں کو کوئی تکلیف نہ ہو اس لیے عمدہ قسم کے شامیانے سے ایک عارضی مسجد بنائی گئی تھی۔ مجھے حیرت ہوئی کہ اس عارضی مسجد میں بھی تمام طرح کی سہولیات تھیں اوریہ عارضی مسجد بھی باضابطہ ایک مسجد تھی۔ اس پر اتنے پیسے خرچ کیے گئے ہوں گے کہ ہم اتنے میں ایک نئی مسجد بنا سکتے ہیں۔ خیر یہ ترکوں کی دریا دلی کا ثبوت ہے۔ البتہ یہاں مردوں او ر عورتوں کے لیے الگ لاگ عارضی مسجد تھی۔نماز کے بعد ہم مزار پر فاتحہ کے لیے حاضر ہوئے۔رات دیر گئے ہم گیسٹ ہاؤس واپس آئے۔علی الصباح قونیا کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ راستہ بھی ویسا ہی پُر بہار تھا ۔ راستے میں ہم نے دیکھا کہ ہر طرف سر سبز وشادب کھیتی کی زمینیں تھیں اور بیچ بیچ میں چھوٹے چھوٹے گاؤں تھے۔ لیکن شاید انھیں گاؤں کہنا مناسب نہیں ہوگا کیونکہ ان کے مکانات بھی ویسے ہی خوبصورت تھے اور آنے جانے والی سڑکیں بھی نہایت عمدہ تھیں۔ چھوٹی سی آبادی کے بیچ بھی ایک مسجد ضرور تھی۔

قونیا پہنچ کر مولانا روم یونیورسٹی گئے۔ پروفیسر بہا ءالدین آدم وائس چانسلر اور سرہادتیکی لیوغلو جنرل سکریٹری سے ملاقا ت ہوئی انھوں نے اس یونیورسٹی کے قیام کے بارے میں ہمیں بتا یا کہ یہ ابھی ایک سال پُرانی یونیورسٹی ہے۔ اس یونیورسٹی کے تعلیمی منصوبے کے بارے میں بتایا اور جب اس کی عمارت کی بات کی تو ہماری حیرت کی انتہا نہیں رہی۔ اس یونیورسٹی میں ابھی تعمیر کا کام چل رہا تھا۔ انھوں نے یہ بتایا کہ یہ پوری عمارت اس سے پہلے ایک شاپنگ مال تھا۔ جسے ایک صاحب خیر نے یونیورسٹی کے نام پر وقف کر دیا ہے۔ یہ جان کر واقعی حیرت انگیز خوشی ہوئی کہ ایسے بھی لوگ ہیں جن کے اندر ایسا دینی جذبہ موجود ہے۔ اس کے بعد ہم نے جمعہ کی نماز سے فارغ ہوکر کھانا کھایا اور کچھ دیر بعد مولانا روم کے مزار پر حاضری کے لیے روانہ ہوئے۔ مولانا روم جن کو بار بار پڑھا اور تصوف کے حوالے سے جن کا ذکر بار بار سُنا ان کے دربار میں حاضری کی خوشی تھی ہم چاہ رہے تھے جلد پہنچ جائیں۔ بس میں بیٹھے دور سے ہی اس گنبد کو دیکھنا چاہتے تھے مگر سڑکوں پر ہر جگہ ہرے بھرے درخت تھے اس لیے دور سے گنبد نہیں دیکھائی دیا۔ جب ہماری بس رکی تو سامنے وہ گبند بھی تھا اور اس مولانا روم کے مزار کے احاطے کی وسیع و عریض مسجد کی دیواریں۔ ہم اندر داخل ہوئے۔اور پہلے مزار پر حاضری کے لیے پہنچے۔ اندر داخل ہوتے ہی مارہرہ مطہرہ کہ یاد آگئی۔ ایک ہی چھت کے نیچے بہت سارے مزار تھے۔ ہماری بائیں جانب کے مزارت پر سفید رنگ کی پگڑی اور دائیں جانب کے مزارت کے سرہانے سبز رنگ کی پگڑی بندھی تھی۔ ہم نے جب دریا فت کیا تو معلوم ہو کہ جو ان کے خاندان کے بزرگ ہیں ان کے مزار کے سرہانے سفید رنگ کی پگڑی ہے اور جو ان کے سلسلے کے بزرگ ہیں ان کے سرہانے سبز رنگ کی پگڑی ہے۔ اور دائیں جانب بالکل آخری حصے میں مولانا روم کا مزار تھا۔

یہ مزار تقریباً چھ فٹ اونچا اور آٹھ فٹ لمبا تھا۔ مزارپر قرآنی آیات لکھے ہوئے سبز رنگ کی چادر تھی اور سرہانے مزار پر ایک گول سا حصہ نکلا ہو ا تھا جس پر سفید رنگ کی پگڑی بندھی ہوئی تھی۔ زمین میں یہاں سے وہاں تک مزار سے بالکل متصل قالین بچھا ہوا تھا۔ یہاں فاتحہ پڑھنے کے بعد اسی احاطے میں آگے مولانا روم کے تبرکات تھے۔کچھ ان کے کپڑے، جبہ ،ٹوپی کے علاوہ ایک بہت ہی لمبی تسبیح تھی جو لکڑیوں سے بنی ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ نئے ( بانسری نما آلہءموسیقی) مضراب اور دف۔ کچھ ہی دور کے فاصلے پر قرآن پاک کے کئی نادر نسخے اور مثنوی مولانا روم کے کئی نسخے تھے۔ فاتحہ پڑھنے کے بعد ہم دوسرے کنارے پر ایک بڑے ہال میں داخل ہوئے جہاں انسانی شکل کے کئی لوگوں کی شبیہ بنائی گئی تھی۔ ایک گول میز کے کنارے مولانا روم اور ان کے شاگرد تھے اور دوسری جانب ان کے خدام اور مطبخ تھا۔یہ دیکھ کر مجھے سمجھ میں نہیں آیا کہ ایسا کیوں بنایا گیا ہے۔ کسی نے اس کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تو میں نے یہ قیاس کیا کہ شاید اس لیے ہو کہ یہاں ہمیشہ پوری دنیا سے لوگ مولانا روم کے مزار پر آتے ہیں اور مسلمانوں سے زیادہ غیر ملکی اور یوروپی آتے ہیں۔آج کے زمانے میں تصوف پر یوں بھی بہت زور ہے تو جو شخص بھی تصوف کے بارے میں کچھ جاننا یا پڑھنا چاہتا ہے تو وہ مولانا روم کو ضرور پڑھتا ہے۔ اس لیے شاید ان کی سمجھ کے لیے میوزیم کی طرز پر اس کو ڈیولپ کیا گیا ہو۔

قونیا کا صوفی رقص جو پوری دنیا میں مشہور ہے ، اسے وہاں دیکھنے کا موقع تو نہیں ملا مگر اس رقص کی تصویریں پورے قونیا شہر میں دیکھنے کو ملی۔مزار سے متصل ایک بازار ہے جہاں سے کئی چیزیں خریدیں اور حیرت اس بات پر ہوئی کہ ہمارے یہاں نظام الدین اولیا یا خواجہ غریب نواز کے مزار پر فاتحہ کے لیے جو لقم دانہ ملتا ہے ، ویسا ہی لقم وہاں ہر طرف بِک رہا تھا۔ لیکن وہاں کے لقم کا جو مزہ ہے وہ یہاں نہیں ہے۔ ترکی میں بھی اسے لقم ہی بولا جاتا ہے۔ وہاں کسی مزارپر پھول چڑھانے یافاتحہ کے لئے کچھ اندر لے جانے کی اجازت نہیں۔ مولانا روم کا مزار چونکہ ایک بڑی مسجد کے احاطے میں ہے اس لیے ان کے مزار کی چھت پر سبز رنگ کا ایک مینار بنا ہواہے۔ شام کو ہمارے میزبان جناب عصمت کھانے کے لیے ایک شاندار ریسٹراں لے گئے اور کہا کہ چلیں آج قونیا اور ترکی کی ایک مشہور ڈش کھلاتے ہیں۔ انھوں نے ترکی پیز ا کا آڈر دیا۔ کچھ ہی دیر میں پیز ا کے ساتھ لذیذ چٹنی ہمارے سامنے تھی۔ یہ پیز ا نان کی طرح تھا جس پر گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے تھے واقعی بڑ ا لذیذ تھا۔ کھانے کے درمیان عصمت صاحب نے بتایا کہ اس پیزے کا ڈیمانڈ اب یوروپ میں بھی ہونے لگا ہے اور ترکی کے لوگ مغربی طرز کا پیزا کم ہی کھاتے ہیں۔ رات کے پُر لطف کھانے کے بعد ہم نے اگلے دن کے سفر کی فکر کیونکہ دوسرے دن ہی ہمیں شام کی فلائٹ سے دہلی کے لیے روانہ ہونا تھا۔ ہم نے سوچا رات ہی کو بس سے استنبول کے لیے روانہ ہو جائیں۔ لیکن ہم کافی تھک چکے تھے اس لیے یہ مشورہ ہوا کہ صبح کی فلائٹ سے استنبول جائیں گے۔

لہٰذا جب ہم نے اپنے دوست عثمان اولانا کو جہاز کے ٹکٹ بک کرنے کی گزارش کی۔انھوں ٹکٹ بک کر کے پی این آر نمبر ایس ایم ایس کر دیا۔ اس کے بعد فون پر ہمیں بتا یا کہ جہاز کا ٹکٹ بس سے سستا ہے۔ بس کا کرایہ 80 ترکی لیرا تھا اور جہاز کا صرف 59 لیرا۔ یہ ہمارے لیے حیرت کی بات تھی۔ لیکن معلوم ہو اکہ لوگ بس سے زیادہ سفر کرتے ہیں اور دور کی بسیں بہت آرام دہ اور جہاز کی طرح چائے پانی کے علاوہ لنچ وغیرہ کا بھی باضابطہ اہتمام کرتے ہیں۔ خیر ہم صبح کی فلائٹ سے گیارہ بجے استنبول پہنچ گئے۔بھائی عثمان اولانا ہمار انتظار کررہے تھے۔ ان کے ساتھ انٹر نیشل ائیر پورٹ جانا تھا۔ لیکن ہمارے پاس وقت ابھی بہت تھا اس لیے وہ ہمیں ترکی کے مشہور اسپائس بازار لے گئے جو سلطان فاتح بریج جو یوروپی حصے پر واقع ہے۔ یہاں ہمیں کچھ پاکستانی لوگ اردو بولتے ہوئے ہمیں کچھ خریدنے کی دعوت دے رہے تھے۔ ہم نے پہلی دفعہ یہاں کسی کو اردو بولتے ہوئے سُنا۔ اس لیے ان سے رغبت ہوئی اور ان کی دوکانوں سے بچوں کے لیے کچھ تحائف خریدے۔ بھائی عثمان نے بھی ترکی کی مشہور چائے کی پیالی ( فنجان ) خرید کر تحفے میں ہمیں پیش کیا۔ اور 4 بجے ہم انٹرنیشنل ائیر پورٹ پہنچ گئے۔ ترکی کو الوداع کہتے ہوئے تکلیف ہورہی تھی مگر اس دعا کے ساتھ جہاز پر روانہ ہوئے کہ خد ا پھر سبیل پید اکرے اور ہم ترکی کی خوشگوار فضااور خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہوسکیں۔
عالمی اخبار

No comments:

Post a Comment