Monday, October 25, 2010

بابری مسجد کا معاملہ ,ہندوستانی جمہوریت پر بدنماداغ,تیشہ فکر: عابد انور




بابری مسجد ہندوستانی جمہوریت، عدلیہ، مقننہ،انتظامیہ کی جانب داری، تعصب اور ہٹ دھرمی کاشکار رہی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور سنگھ پریوار نے اسے ہمیشہ لہلہاتے فصل کی شکل دیکھا اور جم کر کٹائی کی تو کانگریس نے ہمیشہ اس کی آبیاری کی اور سنگھ پریوار کو مسلمانوں کو ڈرانے، دھمکانے، دوسرے درجے کا شہری بنانے اور نفسیاتی شکست سے دوچار کرنے کے لئے موقع فراہم کرتی رہی۔بابری مسجد کی شہادت مسلمانوں کو ہراساں کرنے یا بابری مسجد کی شہادت کی تیاری کے لئے صرف سنگھ پریوار کو قصوروار ٹھہرانا ناانصافی ہوگی اس کے لئے کانگریس بھی اتنی ہی ذمہ دار ہے جتنی کہ سنگھ پریوار یا بی جے پی۔فسادات کی تمام جڑوں کا سرا کانگریس سے جا ملتا ہے۔بابری مسجد گزشتہ ساٹھ برسوں سے ناانصافی کا رونا رو رہی ہے لیکن ہندوستانی حکومت نے کبھی بھی اس کے درد کو سمجھنے اس کی کراہ کو محسوس کرنے اور اس کی تکلیف دیکھنے کی کوشش کی نہیں بلکہ وہ آنکھ موند کر سوتی رہی۔کبھی حالات کا بہانہ بناکر تو کبھی امن و قانون کا سہارا لے کر مسلمانوں پرظلم و ستم کا پہاڑ توڑنے کے لئے دروازہ کھولتی رہی۔
سپریم کورٹ نے میش چندر ترپا ٹھی کی عرضی خارج کرکے الہ آباد کورٹ کے لکھنو بینچ کو فیصلہ سنانے کی ہدایت دے دی۔بابری مسجد کا فیصلہ ۲۴ ستمبر کو آنے والا تھا لیکن پھر ایک بار اسے روکنے کی کو بھرپور تیاری کی گئی تھی۔بہانہ ملک کے حالات کوبنایا گیا، سیلاب، کامن ویلتھ گیمز اور کشمیر کے حالات کا حوالہ دیا گیااور یہ کہا گیا کہ بات چیت کا موقع دیا جائے تاکہ آپس اس مسئلے کو سلجھایا جاسکے۔بات چیت بری چیز نہیں ہے اور ہر مسئلے کا حل بات چیت اور مذاکرات کے ذریعہ ہی نکلتے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ بات چیت کس سے کی جائے، کس پربھروسہ کیا جائے، حکومت پر، سنگھ پریوار پر،بھارتیہ جنتا پارٹی یا کسی اورہندو گروپ پر، سب نے مسلمانوں کو دھوکہ ہی دیا ہے۔گزشتہ ۶۰ برسو ں میں مسلمانوں کو دھوکہ کے علاوہ اور کیا ملا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ۱۹۹۲ کے بعد گزشتہ ۱۸ برسوں کے دوران کسی سمجھوتے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی۔ ہندو رہنماؤں کی جانب سے کسی پہل کی گنجائش کیوں نہیں نکالی۔آخر وہ لوگ کس زعم میں تھے۔ ۱۹۹۲ تک ہندو رہنماؤں سے کئی دور کی بات چیت ہوئی ہے۔ سابق وزرائے اعظم وشوناتھ پرتاپ سنگھ اور چندر شیکھر نے اس ضمن میں کئی بار کوششیں کی لیکن ساری سعی لاحاصل رہی اور کوئی بات چیت منطقی انجام تک نہیں پہنچ پائی۔ وجہ ان کی ہٹ دھرمی تھی، اس کے پس پشت حکومت کی طاقت تھی، عدلیہ، مقنہ، انتظامیہ اور میڈیا کی حمایت حاصل تھی۔وہ ہر حال میں بابری مسجد کا نام و نشان اجودھیا سے مٹا دینا چاہتے تھے اور انہوں نے دن کے اجالے میں پوری دنیا کے میڈیا کے سامنے یہ کردکھایا، حکومت، عدالت، مقننہ اور انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہی۔کسی نے اس کی آہ کو محسوس کرنے کی کوشش نہیں کی۔ہندو رہنماؤں سے آخری مذاکرات بابری مسجد کی شہادت سے چھ ماہ قبل دہلی کے جامع مسجد کے موجود ہ شاہی امام مولا نا سید احمد بخاری کی قیادت والی بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے ساتھ ہوئی۔اس سے پہلے سید شہاب الدین کی کنوینر شپ والی بابری مسجد رابطہ کمیٹی نے ان لوگوں سے بات چیت کرنے سے انکار کردیا کیوں کہ انہیں اندازہ تھا کہ یہ صرف وقت کا زیاں ہے اور وہ لوگ جبراً بابری مسجد کو ہتھیانا چاہتے ہیں کیوں کہ جب بھی ثبوت دینے کی بات کی جاتی یا کسی موقف پر قائم رہنے کے لئے کہا جاتا وہ بدک جاتے اور انہوں نے اس ضمن میں مسلم مذاکرات کاروں کو کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا اور نہ ہی کسی بات پر قائم رہے ۔ مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر مسلمانوں کی مذہبی تنظیم جب بھی کسی موقف پر ٹھہرنے یا اس پر عمل کرنے کی بات تو مذاکرات کرنے والے ہندو رہنماؤں نے راہ فرار اختیار کی ۔ باآاخر انہوں نے بات چیت کرنے کے لئے شاہی امام سید احمد بخاری کا سہارا لیا تھا اور اس کے چھ ماہ بعد مسجد کی شہادت عمل میںآئی تھی۔مسجد کی شہادت اور آخری مذاکرات میں گہرا رشتہ ہونے کا شبہ ہے اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ شاہی امام ۲۰۰۴ میں بی جے پی کی کھلم کھلا حمایت کرچکے ہیں۔وہ ابھی بھی بی جے پی کے تئیں نرم گوشہ رکھتے ہیں ورنہ بی جے پی اقلیتی مورچہ والے کبھی بھی جامع مسجد سے گاندھی سمادھی تک امن مارچ کرنے کی ہمت نہیں کرتے۔انہوں نے امن مارچ کے لئے جھنڈے والان کو کیوں منتخب نہیں کیا۔وہاں سے مضبوط انداز میں پیغام جاتا اور میڈیا میں اس امن مارچ کوریج بھی بہت ملتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا کیوں کہ بی جے پی یہ پیغام ہندؤوں میں پہنچانا ہی نہیں چاہتی ہے ۔کہا جاتا ہے نا کہ دوست ہی دوست کے کام آتا ہے۔
نفرت کے سوداگر اور امن کے دشمنوں کو آخری امن مارچ کی ضرورت کیوں پیش آگئی وہ بھی جامع مسجد کے علاقے سے ،کیا بدامنی کا خطرہ صرف مسلمانوں سے ہے۔وہ تو رتھ یاترا کے ماہر ہیں آج تک انہوں نے کبھی امن مارچ نہیں کیا، ۲۰ برس قبل ،۲۵ ستمر۱۹۹۰ کو بی جے پی کے سینئر لیڈر ایل کے اڈوانی نے سومناتھ مندر سے خونی رتھ یاترا شروع کی تھی جسے بابری مسجد کی شہادت کاداغ بیل کہا جاسکتا ہے۔اس یاترا کے بارے میں لبراہن کمیشن نے بھی سخت ریمارکس کئے ہیں ۔ اس یاترا کے دوران جگہ جگہ فسادات ہوئے تھے آخر کاراس وقت کے بہار کے وزیر اعلی لالو پرساد یادو نے سمستی پور میں اس یاترا کا انت کردیا تھا جس کی قیمت وہ آج تک چکا رہے ہیں ۔ چارہ گھوٹالے کے الزام میں لالو پرساد یادو کو گرفتار کرنے کے لئے اس وقت کے سی بی آئی کے جوائنٹ ڈائرکٹر بسواس نے پٹنہ میں فوج کو بلالیا تھا۔کسی لیڈر کو گرفتار کرنے کے لئے فوج کو بلایا گیاہو ہندوستان کی تاریخ میں ایسی نظیرنہیں ملتی۔کیوں کہ وہ اڈوانی کو گرفتار کرنے کے ملزم تھے اس لئے انہیں ذلیل کرنے کی ہر سطح پر کوشش کی گئی۔مسٹر اڈوانی بابری مسجد کی شہادت سے قبل بھی ایسی ہی رتھ یاترا نکالی تھی۔
بابری مسجد کے معاملے کو الجھانے، بگاڑنے اور عملاً ایک مندر میں تبدیل کرنے کا آغاز پنڈت جواہر لال نہرو نے کیا تھا جس کا نقطہ انجام کانگریسی وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ کے زمانے میں پہنچا۔جواہر لال نہرو کے دور حکومت میں جب مرکز اور یوپی دونوں جگہ کانگریس پارٹی برسراقتدار تھی دسمبر ۱۹۴۹ کو رات کے اندھیرے میں بابری مسجد میں مورتی رکھ دی گئی اورجواہر لال نہرو اسے ہٹانے میں ناکام رہے جب کہ وہ اس وقت سب سے طاقتور وزیراعظم تھے اس وقت میں ہندؤوں اور مسلمانوں میں ہم آہنگی کی قدریں موجود تھیں۔اس کے علاوہ اور بھی کانگریسی وزیر اعظم نے اس میں اہم رول ادا کیا۔راجیو گاندھی کا نام اس معاملے میں خصوصی طور پر لیا جائے گا کیوں کہ ان کے زمانے میں بابری مسجد کا تالا کھولا گیا، انہوں نے اجودھیامیں رام مندر کا شیلانیاس کیا اور ۱۹۸۹ میں اپنی انتخابی مہم کا آغازبھی انہوں نے اجودھیا سے کیا تھا۔ ۶ دسمبر ۱۹۹۲ کو جب مسجد شہید کی جارہی تھی اس وقت مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی ا ور وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤاس اندوہناک منظر سے لطف اندوز ہورہے تھے۔
۲۴ ستمبر کوالہ آباد ہائی کورٹ کے لکھنو بینچ کا فیصلہ آنے والا تھا جسے رمیش چندر ترپاٹھی کی عرضی پر سپریم کورٹ نے اسٹے کردیا تھا۔سپریم کورٹ نے اس سمت میں صحیح فیصلہ کیا ہے ۔سوال یہ ہے کہ جو معاملہ گزشتہ ۶۰ برسوں میں بات چیت سے حل نہیں ہوسکا تو وہ چند دنوں میں کیسے ممکن ہے۔جس کا اظہار سپریم کورٹ کے ایک فاضل جج نے بھی کیا۔آخر فیصلہ روکنے سے کس کا بھلا ہوتا۔اس میں نہ تو عوام کا بھلاہوتا اور نہ ہی ملک کا۔عوام سانس روکے فیصلے کا انتظار کر رہے تھے اعصاب شکن اس انتظار سے عوام پہلے ہی کافی پریشان تھے اسے لٹکاکر عوام کو پھر پریشانی میں مبتلا کرنے کی کوشش جارہی تھی اس میں بھی کانگریس کسی نہ کسی حد تک دخیل ہوسکتی ہے۔مسلمان جب کہہ چکے ہیں عدالت کا جو بھی فیصلہ آئے گا اسے قبول ہوگا تو ہندو بھائیوں کو پھر کس چیز سے پریشانی ہے۔ہندو شدت پسند رہنما شروع سے ہی یہ کہتے آرہے ہیں کہ ا س پر فیصلہ کرنا عدالت کی بساط سے باہر کی چیز ہے۔یہ آستھا کا سوال ہے جس کاعدالت میں فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔آخر کس چیز کا خوف انہیں کھائے جارہا ہے کہ وہ کسی مرکز پرقیام کرنے کی گریز کرتے ہیں۔اجودھیا ایشو میں سب سے زیادہ جس چیزکو مثال کے طور پر اچھالا جاتا ہے وہ ہے شاہ بانو کیس کا معاملہ ۔ انہیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہونی چاہیے کہ شاہ بانو کا معاملہ مسلمانوں کا خالص معاملہ تھا اس میں کوئی دوسرا فریق شریک نہیں تھا اور حکومت ہند نے جو بھی لنگڑا لولا قانون بنایاہے اس سے کسی فرقہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا جب کہ اجودھیا کا معاملہ ایسا نہیں ہے ۔ یہ مالکانہ حق کامعاملہ ہے اسے تو صرف فیصلے یا بات چیت سے حل کیا جاسکتا ہے قانون بناکرنہیں۔ ہندوؤں کو اپنے سسٹم پر اعتماد ہونا چاہئے۔
خون خرابہ، انتہاپسندی، فساد، تشدد، مرنے مارنے اور دیکھ لینے کی بات کرنے والے اس بار امن کی بات کرتے دیکھے گئے۔یہ اچھی بات ہے کہ ۲۴ستمبر کو آنے والے فیصلے کے موقع پر تمام طبقوں نے اس سمت میں پہل کی اور کہا کہ ہم ہر حال میں امن قائم رکھیں گے۔درحقیقت گزشتہ کئی دہائیوں سے ملک کے عوام اس مسئلے سے تنگ آچکے ہیں اور سیاست دانوں کی عیاری، مکاری ، خود غرضی، مطلب پرستی او ر اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے عوام کو تشدد کی بھٹی میں جھونکنے کی سازش سے واقف ہوچکے ہیں۔خاص کر نوجوان طبقہ جو سنہری مستقبل کے منتظر ہیں، وہ ان لایعنی باتوں سے گریز کرتے ہیں۔انہیں اجودھیا مسئلہ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ان کے سامنے مسابقت کا چیلنج ہے وہ امن کی راہ پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں ان کو معلوم ہے کہ تشدد سے ان کا کوئی بھلا نہیں ہوگا بلکہ اس سے وہ پستی کی کھائی میں گریں گے۔اسی عوامی مزاج نے ہر لیڈر کو پریشان کردیا ہے اور وہ اب امن کی بات کرنے لگے ہیں۔
یہ اچھی بات ہے لکھنے پڑھنے والوں نے اس بار مثبت رخ اپنایا ہے ورنہ لکھنے پڑھنے والے ہی سب سے زیادہ زہر اگلتے تھے اور ایسی باتیں کہتے تھے جس سے اشتعال پھیلتا تھا۔ ہندوستان میں سب سے زیادہ فرقہ پرست اور متعصب پڑھے لکھے لوگ ہی ہوتے ہیں۔ انٹرنیٹ پرہونے مباحثے میں چند ایک کوچھوڑ کر بیشتر لوگوں نے امن کی باتیں کی ہیں اور مسجد مند ر دونوں کے حق میں اپنی رائے ظاہر کی ہے ا ور یہ کہا ہے جب متھرا میں مسجد مندر اور بنارس میں کاشی ناتھ مندر کے ساتھ مسجد ہوسکتی ہے تو اجودھیا میں کیوں نہیں۔ہندوستان کے مسلمان بھی مسجد کے ساتھ مندر بنانے کے مخالف نہیں ہیں لیکن یہ ضرور چاہتے ہیں کہ بابری مسجد ان کے حوالے کردی جائے کیوں کہ یہ مسجد ہے اور تمام دستاویزات سے مسجد ثابت ہے۔عدالت کے فیصلے لٹکانے کے پس پشت شایدیہی وجہ ہے اور فیصلے کو ٹالنا انصاف کا مزید خون کرنے کے مترادف ہوگا۔
ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۲۵
9810372335
E-mails
abidanwaruni@gmail.com
abid.anwar@yahoo.co.in

No comments:

Post a Comment