سرسیداحمد خاں کے بارے میں کچھ لکھنے سے پہلے ریحانہ بستی والا کی ایک طویل رپورٹ کا ابتدائی حصہ آپ کے حوالے کرتا ہوں۔ امید ہے ریحانہ بستی والا کو اعتراض نہیں ہوگا۔بی بی سی اردو ڈاٹ کام پر یہ رپورٹ درج ہے۔ اس کی سرخی ہے: تعلیم کے لیے ’بھیک‘۔
ریحانہ بستی والا کی رپورٹ کے مطابق پروفیسر سندیپ منوہر دیسائی غریب طلبا کی تعلیم کا انتظام کرنے کے لیے ممبئی کی لوکل ٹرینوں پر لوگوں سے چندہ مانگتے ہیں۔ اس طرح اب تک وہ چار لاکھ روپے جمع کر چکے ہیں اور ایک اسکول چلارہے ہیں۔رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ ممبئی کی لوکل ٹرین میں پورا ہندوستان سفر کرتا ہے۔اس میں ہر فرقہ، ہر قوم ، ہر ذات اور تقریباً ہر ریاست کے باشندے ممبئی میں رہائش پذیرہیں اور ان کے لیے ٹرین ہی سفر کا بہترین اورآسان ذریعہ ہے۔اس لیے سندیپ منوہر دیسائی صاحب نے لوکل ٹرین میں سفر کرتے مسافروں سے مددحاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔
’تعلیم کے لیے بھیک‘ کے عنوان سے شائع رپورٹ کے اس ابتدائی حصے کو پڑھنے کے بعد سرسیّد احمد خاں کے عظیم کارنامے کی اہمیت کا اندازہ لگانا بہت زیادہ مشکل نہیں ہونا چاہیے۔
سرسیّد احمد خاں 17اکتوبر کودنیا میں آئے اور علیگڑھ تحریک کے اس بانی مبانی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے دنیا کے طول وعرض میں پھیلی علیگ برادری اس دن کو ’سرسیّدڈے‘ کے طور پر مناتی ہے۔ علم کی شمع سے اپنی زندگی کو روشن کرنے والی علیگ برادری کا اپنے آپ میں یہ بہت بڑا کارنامہ ہے کہ اس نے اپنے محسن کو کبھی نہیں بھلایا۔ قابل غور ہے کہ سرسید پر الزامات کے تیر برسانے والوں میںسے کوئی بھی تعلیمی اداروںکو قائم کرنے کے معاملے میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی کی خاک تک نہیں پہنچ سکا۔یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ جس سرسید کو کافر اور مشرک کہا جاتا رہا، ان ہی کے قائم کردہ ادارے میں دین و مذہب کی تبلیغ واشاعت کے لیے قائدین کی فوج تیار کی جاتی ہے۔یہاں میرے لیے واضح کردینا ضروری ہے کہ سرسید کے خلاف کیے گئے متنازعہ تبصرے پر میں کوئی رائے نہیں دینا چاہتا، میں تو بس اس حقیقت کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں، جو مجھے اور دوسروں کو بھی نظر آرہی ہے۔
ظاہر میں تو سرسیّد نے صرف ہندوستان ہی میں علم کی شمع روشن کی، مگر دیکھا جائے تو اس کی روشنی سے پوری دنیا جگمگا رہی ہے۔ملک میں فروغ تعلیم کی عظیم ترین تحریک شروع کرنے والے سرسیّدکے قدوقامت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آج تک کسی دوسرے شخص کے ذریعے لگایا گیا علم کا پودا اتنا بڑا تناور درخت نہیں بن پایا۔
سرسیّد کے حوالے سے ایک اور اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو تقریباً ایک ہزار برس کے خواب غفلت سے بیدار کیا۔واضح ہو کہ بغداد میں خلافت عباسیہ کے خاتمے کے بعد علم کی قندیل کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے والے مسلمان خود جہالت کے اندھیرے میں ایسے گرتے گئے کہ سیکڑوں برس تک ان کی بڑی تعداد اسی اندھیرے میں گم رہی۔مسلمانوں کے ہاتھوں حکومت اور سلطنت کی باگ ڈور تو رہی مگر فرض ہونے کے باوجود وہ علم کو ترک کرتے چلے گئے۔حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ ان کے ہاتھوں میں کتاب قلم تھمانا ایک چیلنج بن گیا۔ ان حالات میں جبکہ ہندوستان کے مسلمانوں کے ہاتھوں سے حکومت کی طاقت بھی چلی گئی تھی اورملک کے نئے حاکم انگریز انہیں اجتماعی طور پر ظلم و ستم کا نشانہ بنارہے تھے، سرسید نے ایک راہ نجات کھوج نکالی۔
علم اور سیاست کے درمیان انتخاب کا جب موقع تھا تو سرسیّد نے علم کو سیاست پر مقدم جانا اور اس کی وجہ سے ’انگریزی حکومت کاحامی ہونے ‘ تک الزام اپنے سرپر اوڑھا۔مگر تاریخ شاہد ہے کہ ہاتھوں میں علم کا چراغ لے کر جگہ جگہ گھومنے والے اس ریش دار نے انگریزوں کواپنی تحریروں سے ایسے ایسے آئینے دکھائے جس کی اس دور میں کسی دوسرے نے ہمت نہیں دکھائی۔علم اور اقتدار میں سے علم کا انتخاب کرنا سرسیّد کا کتنا درست فیصلہ تھا اس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کے بہت سے ملکوں میں مسلمان حاکم توہیں مگر اے ایم یو جیسی کوئی درسگاہ نظر نہیں آتی۔پورے عالم اسلام میں سرسید کے بعد کوئی بھی دوسرا سرسیّد پیدا نہیں ہوا۔
علم کے ساتھ ساتھ سرسیّد نے سماجی تانے بانے کے تحفظ پر بھی زور دیا۔ آج ہندوستان میں جس طرح کی معاشرتی کشمکش جاری ہے،اس کے پیش نظر بھی ہمیں سرسیّد ہی نظر آتے ہیں جو ہندوستان کو دلہن اور ہندواور مسلمان کو اس دلہن کی دو خوبصورت آنکھیں مانتے تھے۔
ایسے پرآشوب دور میں جبکہ تعلیم تجارت کا ایک ذریعہ بن چکی ہے اور معاشرے میں بات بات پر نفرت کی دیواریں کھڑی ہوجاتی ہیں، سرسیّد اور ان جیسے مصلحین کی تعلیمات سے لوگوںکو آگاہ کرنا اپنے آپ میں ایک بڑا فریضہ ہے۔
بشکریہ چوتھی دنیا
No comments:
Post a Comment