سید ابراہیم ملک بیا اکادمے سیھن ، نوادہ ،بھار ایک تحقیقی ،تصنیفی , تعلیمی اور سماجی ادارہ
Tuesday, October 26, 2010
عصری تعلیم ، مسلمان اور پسماندگی :عابد انور
عصری تعلیم کی معنویت ہر دور میں رہی ہے۔ وقت بدلتا رہا لیکن اس تعلیم کی اہمیت کبھی کم نہیں ہوئی۔ کچھ لوگوں کا کہنا کہ عصری تعلیم سے دین او ر اسلام کا کوئی تعلق نہیں تو یہ ایک مفروضہ ہے جو سراسر غلط ہے ۔ اسلام کی چودہ سو سالہ سے زائدکی تاریخ میں ایک سے بڑھ کر ایک سائنس داں، فلسفی، حکماء ااور طبیب پیدا ہوئے۔مسلم دور حکومت میں اس موضوع پر کافی توجہ دی گئی اور اس وقت اس پر تحقیق و جستجو کا سلسلہ شروع کیا گیا جب پوری دنیا گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ امریکی خلائی تحقیق تنظیم ناسا اس وقت خلائی تحقیق میں سب سے نمایاں اور آگے ہے اور پوری دنیا میں دھوم مچا رہی ہے اور خلائی تحقیق کے ہر باب میں تاریخ رقم کی ہے ۔ لیکن تاریخ پر نظر ڈالیں تو اس تحقیق کی ابتدا خلفاء عباسیہ کے خلیفہ مامون رشید کے دور حکومت میں ہوچکی تھی اور انہوں نے سائنس ، منطق اور فلسفہ پر بڑے پیمانے پر ریسرچ کاکام شروع کرایا تھااس کے لئے باضابطہ ایک ادارہ کی بنیاد ڈالی تھی اور پوری دنیا سے ماہرین علوم و فنون اور مترجم بلائے گئے تھے۔ خلفیہ مامون نے خلائی تحقیق کے لئے ایک رصدگاہ بھی قائم کیا تھا۔ اس پر کافی تحقیق ہوئی تھی جو آگے چل کر مغرب کے کام آیا اور مغرب اسی علوم فنون تحقیق کے سہارے آج ہم پر حکومت کررہا ہے۔ کیوں کہ ہم پڑھنا ترک کردیا تھا۔بڑے بڑے جہاز بنانے چھوڑ دئے تھے۔ مہم جوئی ہم سے جدا ہوگئی تھی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت دیگر زبانیں سیکھنے کے لئے صحابہ کرام کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ صحابہ کرام اس دور میں عبرانی اور دیگر زبان سیکھتے تھے۔ اسلام نے عصری تعلیم کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے اور علوم کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ایک علم الادیان دوسرا ہے علم الابدان۔ یعنی پہلے دین کا علم اور دوسرا بدن کا علم یعنی طب اور میڈیکل۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم دور حکومت میں بہت بڑے بڑے حکماء، فلسفی اور طبیب پیدا ہوئے اوریہ اسپین کی مسلم حکومت کوہی اس کا سہرا جاتاہے کہ سب سے پہلے انہوں نے انجکشن دینے کا طریقہ رائج کیا اور پانی کو اوپر چڑھانے کا طریقہ ایجاد کیا ۔ اس کے علاوہ بہت سی ایسی چیزیں ایجاد کیں یا فارمولہ پیش کیا جسے اپنا کر مغرب کے سائنس دانوں نے بڑی سے بڑی چیزیں ایجاد کیں اور دنیا پر اپنا سکہ جمایا۔
مسلم دور حکومت میں یوں تو بہت سارے سائنس داں پیدا ہوئے ان میں سے چند کا نام بطور مثال پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں خالد بن یزدی، ابراہیم الفزاری، الخوارزمی، الفرغانی، الفارابی، ابوسعید الجرجانی، ابونصر منصور ، ابن الحیثم، عمرخیام، الخزینی، شمس الدین سمرقندی، جابر ابن حیان،ناصرالدین طوسی، ابن خلدون، الجبرا کے بانی الخوارز می، ابن سینا، الکندی، ابوریحان البیرونی، الحاجز، اور ابوالحسن الطبری وغیرہ شامل ہیں۔
اس کے بعد بھی اسلامی دور حکومت اس پر کام مسلسل جاری رہا لیکن مسلم حکومتوں کی انتشار اور خلفشار کی وجہ سے سائنس کے میدانوں میں جو کام ہوا تھا وہ آگے نہیں بڑھ سکا اور اسے مغرب کے سائنس دانوں نے اپنا لیا اور عربی کتابوں کا مطالعہ کرکے ان سے فارمولے لے لئے اور اسے اپنا فارمولہ اور اپنا نظریہ بناکر پیش کیا جس میں علامہ عراقی کا نظریہ کشش ثقل بھی شامل ہے ۔ نظریہ کشش ثقل کے کھوج کا سہرا مشہور سائنس داں نیوٹن کو دیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مشہور عربی سائنس داں علامہ عراقی اپنی تصنیف ’’غایتہ الامکان فی درایتہ المکان‘‘ میں ا س نظریہ کو پیش کرچکے تھے۔
ہندوستانی مسلمانوں کی زبوں حالی مختلف رپورٹوں اور کمیشنوں کے حوالے سے بیان کی جاتی رہی ہے حالیہ برسوں میں سچر کمیٹی اور رنگناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ سامنے آچکی ہے جس میں تعلیمی ، معاشی، معاشرتی اور دیگر سطحوں پر مسلمانوں کی پسماندگی سامنے آچکی ہے اور دونوں کمیٹیوں کو کانگریس کی قیادت والی ترقی پسند اتحاد حکومت نے قائم کیاتھا۔ لیکن اس پر صدق دل سے عمل نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کو اس کا فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے۔
مسلمانوں کو آج اعلی تعلیمی اداروں اور پیشہ وارانہ کورسیز میں داخلہ نہیں مل رہا ہے۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جن اداروں کو مسلمانوں نے اپنے پیسے سے قائم کیا تھا ان اداروں میں مسلم طلباء کے لئے دروازے بندکئے جارہے ہیں۔ حکومت نے ان مسلمانوں کو وہاں ایسے عہدوں پر بٹھایا ہے جو مسلمانوں کی جڑ کاٹنے میں کسی طرح کی رو رعایت سے کا م نہیں لیتے۔بلکہ حکومت ہند مسلمانوں سے متعلق اداروں میں تقرری کے تعلق سے لارڈ میکالے کے اس نظریہ پر عمل کرتی ہے (تھوڑی تبدیلی کے ساتھ) ’’رنگ ونسل کے لحاظ سے تو وہ مسلمان ہوں لیکن کام کاج کے لحاظ وہ مسلمانوں کے بدترین دشمن ہوں‘‘۔ اگر کسی نے سہواً مسلمانوں کا کوئی کام کردیا تو وہ اپنے انجام کو پہنچ گیا۔
مسلمان آزاد ہندوستان میں دلت سے بھی بدتر زندگی گزارنے کو مجبور ہیں اور ان کے ساتھ ہر سطح پر تعصب سے کام لیا جاتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ حکومت کی مسلمانوں کے تعلق سے اسکیموں کے نفاذ کے لئے ایسے مسلمانوں کو تعینات کیا جائے جو درحقیقت مسلمان ہوں نام نہاد نہیں۔وہ آزادانہ اور فراخدلانہ مسلمانوں سے تعلق رکھنے والے اسکیموں کو نافذ کرے۔
آزاد ہند کے صرف 63 سال میں ہندوستان کی اس حکمراں قوم کا مقام ملک کے درج فہرست قبائل اور درج فہرست ذاتوں کے مماثل ہوگیا ہے رنگناتھ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں میں 60 سال سے زیادہ عمر کے افراد کی تعداد تمام طبقات میں اقل ترین یعنی 5.75 فیصد ہے جبکہ قومی اوسط 7.5 فیصد ہے ۔ گھرانوں کی جسامت 3.5 فیصد ، خواندگی کی سطح 59.1 فیصد ، گریجویشن سطح کے تعلیم یافتہ افراد 3.6 فیصد ہے جو اقل ترین ہے ۔ تغذیہ کی صورتحال بدترین ہے ۔ مسلمانوں کی صرف 23.76 فیصد تعداد پکے مکان رکھتی ہے جو ملک کی اقل ترین تعداد ہے جبکہ کچے مکان رکھنے والوں کی تعداد ملک بھر میں سب سے زیادہ یعنی 34.63 فیصد اور کرایہ کے مکانوں میں زندگی گذارنے والے مسلمانوں کی تعداد بھی ملک بھر میں 43.74 فیصد ہے ۔ برقی و آبی سربراہی اور بیت الخلاء جیسی بنیادی سہولتیں صرف 22 فیصد مسلمانوں کو حاصل ہیں اور یہ اقل ترین تعداد ہے ۔ شہروں میں خط غربت کی سطح سے نیچے زندگی گذارنے والے مسلمانوں کی تعداد دیگر تمام طبقات سے زیادہ یعنی 36.92 فیصد ہے جبکہ قومی اوسط 25 فیصد ہے ۔ اس طرح مسلمان جو ہندوستان پر 800 سال سے زیادہ عرصہ حکومت کرچکے ہیں۔ آزادی کے بعد صرف 63 سال میں درج فہرست قبائل اور طبقات سے بھی زیادہ پسماندہ ہوچکے ہیں ۔ آخر کیوں ؟ یہ ایک لمحہ فکر یہ ہے ۔
مسلمان جب تک ہندوستان میں حکمراں رہے اس وقت مسلمان تعلیمی، معاشی، اور معاشرتی اعتبار سے بہتر رہے لیکن جیسے ان کے سر سے تاج چھنا ان کی حالت بدتر سے بدتر ین ہوتی چلی گئی۔ انگریزوں نے اپنے حریف ہونے کی پاداش میں مسلمانوں کو تہ و بالا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور رہی سہی کسر آزادی کے بعد ہندوستانی حکومت نے پوری کردی۔ آج مسلمان سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق دلت سے بدتر اور مہادلت ہیں یقیناًاس کا سہرا کانگریس کی حکومت کو جاتا ہے جنہوں نے ایسی پالیسی وضع کی کہ مسلمان ہر شعبہ میں حاشیہ پر چلے گئے۔ ان پر تعلیمی ، معاشی اور ترقی کے دروازے بند کردئے گئے۔ حکومت نے اس طرح سے اپنے آپ کو پیش کیا کہ جو بظاہر مسلمانوں کا مسیحا نظر آئے لیکن اندرون خانہ انہوں نے وہ کام کیا جو بدترین دشمن بھی نہیں کرسکتے تھے۔ اولاً جہاں جہاں مسلمانوں کا گھریلو صنعت یا علاقائی صنعت پر ذرا سا اختیار تھا وہاں منظم طور پر فسادات کرائے گئے اور اس بہانے مسلمانوں کی فیکٹریوں اور کارخانوں کو لوٹا گیا، آگ لگادی گئی اور برباد کردیا گیا۔ ان فسادات میں جہاں مسلمانوں کی افرادی قوت کا خاتمہ ہواتھا وہیں صنعتی اعتبار سے انہیں قعر معزلت میں دھکیل دیا گیا۔ گزشتہ ۶۰ برسوں میں یہی ہوتا آرہا ہے۔ مثال طور پر مرادآباد، بھاگلپور، بھیونڈی اور ہندوستان کے دیگر مقامات کے نام لئے جاسکتے ہیں جہاں مسلمان فیکٹریوں کے مالک تھے وہ کاری گر بننے پر مجبور ہوگئے۔
تعلیمی اعتبار سے حکومت نے یہ کیا کہ جہاں جہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ تھی وہاں اسکول ، کالج کومسلمانوں سے دور رکھا گیا تاکہ مسلم بچے ان پڑھ رہیں۔ پیشہ وارانہ کالج اور تکنکی ادارے وہاں نہیں کھولے گئے ۔ اس کے علاوہ ترقی کا رخ ہمیشہ ان علاقوں سے موڑا گیا جہاں مسلمان کثیر تعداد میں رہتے ہوں۔ اس طرح انہوں نے مسلمان اور مسلم علاقوں کو بہت خوبصورتی کے ساتھ نظر انداز کیا۔ آج جس مسلم علاقے میں جائیں وہاں آپ کو اسکول ، کالج اور تکنکی ادارے نہیں ملیں گیاالبتہ کوڑے کرکٹ اور غلاظت کا ڈھیر ضرور نظر آئے گا۔ حکومت نے اس طرح کی پالیسی اپنائی کہ مسلمان ترقی کے عام دھارے سے دور ہوتے چلے اور حکومت اعداد و شمار کے کھیل سے عوام کو گمراہ کرتی رہی۔ کسی محلے اور کسی علاقے میں تھوڑی بہت خوش حالی نظر آتی ہے توبیشتر وہ لوگ ہیں جو گلف میں رہتے ہیںیا ان کا کوئی رشتہ دار اور اعزاء بیرون ملک میں رہتا ہے یا کام کرتا ہے اور دن رات محنت کرکے وہ رقم بھیجتا ہے جس سے وہ لوگ پرسکون زندگی گزارتے ہیں۔
لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جہاں مسلمانوں کی جہالت، تعلیمی پسماندگی،معاشی ابتری اور معاشرتی زوال کے لئے جہاں حکومت ذمہ دار ہے وہیں مسلمانوں کی لیڈر شپ بھی کم ذمہ دار نہیں ہے۔ مسلم لیڈر شپ نے مسلمانوں کی ترقی کے بارے میں کبھی بھی سوچا ہی نہیں۔وہ تو خود کو سنوارنے اور اپنے آپ کو سیکولر ثابت کرنے کے لئے اپنے بچوں کی شادی غیر مسلموں میں کرکے ہی خوش ہوتے رہے مسلمانوں کا کبھی خیال تک نہیں آیا۔ ایک مسلمان اس وقت ملک کے آئینی عہدے پر فائز ہے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب بھی مسلمانوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کے تعلق سے ان کے سامنے شکایات پیش کی جاتیں وہ تو برملا کہتے کہ میں مسلمانوں کا چیرمین نہیں ہوں میں ادارے کا چیرمین ہوں (حالانکہ انہیں مسلمانوں (اقلیتوں) کی شکایات کے ازالہ کے لئے ہی چیرمین بنایا گیا تھا) اسی طرح سابقہ یو پی اے حکومت کے ایک مسلم وزیرکا تو یہ حال تھا کہ مسلمانوں کے نام سے بدک جاتے تھے جب کہ وہ مسلم ووٹ سے چن کر آئے تھے لیکن ۲۰۰۹ کے لوک سبھا انتخابات میں انہیں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ جو لوگ انہیں گھیرے رہتے تھے اور جن لوگوں کا وہ کام کرتے تھے ان ہی علاقے میں وہ بری طرح ہار گئے۔ اسی طرح ایک مسلم لیڈر نے وزارت حاصل کرنے کے لئے دہلی وقف بورڈ کے قبرستان کو حکومت دہلی کو پارک بنانے کے لئے دے دیا۔ جب کہ دہلی کے مسلمان قبرستان کے لئے پریشان ہیں انہیں اپنے مردوں کو دفن کرنے لئے جگہ تنگ پڑ رہی ہے۔ یہ تو صرف آٹے میں نمک کے برابر مثال ہے ورنہ تقریباً تمام مسلم لیڈروں کو آپ ایسا ہی پائیں گے۔ ان میں سرکاری علماء بھی شامل ہیں۔
آئیے اب ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال پر نظر ڈالتے ہیں۔ ۲۰۰۱ کی مردم شماری مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی خود بیان کرتی ہے اور مسلمانوں کے تعلق سے برتے جانے والے سوتیلے سلوک کا انکشاف کرتی ہے کہ تعلیمی لحاظ مسلمان سب سے پچھڑی ہوئی اور پسماندہ قوم ہے۔ ملک کی ۴۵ کروڑ غیر مسلم خواتین میں سے ۴۶ فیصد خواندہ ہیں جب کہ چھ سات کروڑ مسلم خواتین میں صرف ۴۱ فیصدخواندہ ہیں اور جس طرح تعلیمی سطح اعلی مدراج کی طرف بڑھتی ہے شرح خواندگی کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ ابتدائی سطح پرمسلم خواتین کا تناسب غیر مسلم خواتین سے ۱۱ فیصد کم ہے اور مڈل کی سطح پر یہ فاصلہ مزید بڑھ جاتا ہے۔ ۱۹ اور ۳۵ کے درمیان پہنچ جاتا ہے۔ مسلمانوں کی تعلیمی بدحالی اس اعداد و شمار سے بھی نمایاں ہوتی ہے کہ ہندوستان مسلم علی تعلیم یافتہ کی تعداد صرف ۶ء۳ فیصد ہے۔ ایک تجزیہ کار اور ماہرین تعلیم کے مطابق جنہوں نے مسلم خواتین کے تعلق سے ملک کے بہت اضلاع کاتعلیمی سروے کیا تھا مسلم خواتین کی ناخواندگی کا تناسب ۷۵ فیصد تک پہنچ گئی ہے جب کہ شمالی ہندوستان میں اس کی صورت حال اور بھی بھیانک ہوسکتی ہے۔ ہندوستان میں مسلم لڑکیوں کا اسکول میں رجسٹریشن کی فیصد ۶ء۴۰ فیصد تھی جب کہ مسلم غریب لڑکیوں کی فیصد صرف ۱۶ فیصد تھی۔ ان میں ۹۸ فیصد مسلم لڑکیاں سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتی ہے۔ دو فیصد لڑکیاں مدرسوں میں تعلیم حاصل کرتی ہیں کیوں کہ وہ اسکول کا خرچ برداشت کرنے کے قابل نہیں ہوتیں۔
سچر کمیٹی نے بھی مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی ابتری کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کمیٹی نے جب ۱۹۶۵ سے ۲۰۰۱ کے درمیان گاؤں اور شہروں میں لڑکیوں اور لڑکوں کے اسکولوں میں داخلے کا جائزہ لیا تو یہ بات ابھر کر سامنے آئی کہ مسلمان درج فہرست ذاتوں اور قبائل سے بھی بہت پیچھے ہیں۔ مثال کے طور پر شہروں میں ۱۹۶۵ میں درج فہرست ذات و قبائل لڑکیوں کا تناسب صرف ۴۰ فیصد جو ۲۰۰۱ میں بڑھ کر ۸۳ فیصد ہوگیا۔ اسی طرح میں ۱۹۶۵ میں لڑکیوں کا تناسب ۵۳ فیصد تھا جو ۲۰۰۱ میں بڑھ کر ۸۰ فیصد ہوگیا یعنی پسماندہ طبقات سے ۳ فیصدی کم۔
مسلم خواتین کی شرح خواندگی کی کمیت کا اندازہ ان ریاستوں کی شرح خواندگی سے لگایا جاسکتا ہے۔ چند ریاستوں میں مسلم خواتین کی شرح خواندگی پر نظر ڈالتے ہیں۔ ہریانہ میں مسلم خواتین ۵ء۲۱ فیصد، بہار میں ۵ء۱۳ فیصد، اترپردیس میں۳۷ فیصد ، جموں و کشمیر میں ۹ء۳۴ فیصد، ناگالینڈ میں ۳ء۳۳ فیصد، پنجاب میں ۴ء۴۳ فیصد، کیرالہ میں سب سے زیادہ مسلم خواتین خواندہ ہیں وہاں کی اس کی شرح خواندگی ۵ء۸۵ فیصد ہے جب کہ ہندو خواتین کی ۷ء۸۶ فیصد ہے، ایک فیصد سے زائد، تمل ناڈو میں مسلم خواتین ہندوستان خواتین سے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں مسلم خواتین کیِ شرح خواندگی ۹ء۸۲فیصد ہے جب کہ ہندو خواتین کی ۷۲ فیصد ہیں۔
بجٹ اجلاس کے موقع پر مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے حکومت کی جانب سے صدر جمہوریہ پرتبھا دیوی سنگھ پاٹل نے کہا تھا کہ اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لئے ۸۰ ہزار کروڑ روپے خرچ کئے گئے ہیں۔ حکومت یہ تو بتائے وہ پیسے کہاں خرچ کئے، کہاں اسکول کھولے گئے، کتنے مسلمانوں کو نوکریاں دی گئی ہیں، کتنے تعلیمی وظائف دئے گئے اور کتنے مسلمانوں کو بھلا ہوا۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ سب الفاظ اور اعداد شمار کی شعبدہ بازی ہے۔ حقیقت کا اس سے دور کا تعلق نہیں ہے۔ اگر اس رقم کا ایک چوتھائی حصہ بھی مسلمانوں پر خرچ کیا جاتا تو مسلمانوں کی حالت ابتر نہ ہوتی۔
یہ اعداد و شمار مسلمانوں کی تعلیمی، معاشی اور سماجی زبوں حالی بیان کرنے کے لئے کافی ہے۔ ان اعداد و شمار کی روشنی میں یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کو قومی اور ترقی کے دھارے میں لانے کے لئے ہر سطح پر ریزرویشن ضروری کیوں ہے۔ مسلمانوں کے تعلق سے اتنے سارے کمیشن اور کمیٹیاں اور ان کے سفارشات مسلمانوں کو ان کی اوقات دکھانے کے لئے ہے یا درحقیقت ان کی پسماندگی اور پچھڑے پن کے ازالے کے لئے۔ اگر حکومت ہند ان سفارشات پر صدق دلی سے عمل کرتی ہے تو یہ سمجھا جائے گا کہ وہ مسلمانوں کی بدتر صورت حال کو بدلنا چاہتی ہے ورنہ یہ سمجھا جائے گا کہ مسلمانوں کو اپنی اوقات میں رہنی چاہئیے ۔ گزشتہ ۶۰ سالوں میں ہم نے تمہیں کہاں سے کہاں تک پہنچا دیا اگر زیادہ بڑبڑانے کی کوشش کی تو مزید پستی کے کھائی میں دھکیل دیں گے جہاں تمہیں وجود کے لالے پڑیں گے۔
عابد انور
D-64/10 Abul Fazal Enclave Jamia Nagar, New Delhi- 110025
Mob. 9810372335,
abidanwaruni@gmail.com
abid.anwar@yahoo.co.in
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment