Thursday, October 21, 2010

طاقت کشمیر پر قابو پانے کا حل نہیں ہے: مولانا ارشد مدنی


طاقت کشمیر پر قابو پانے کا حل نہیں ہے

جمعیت علمائے ہند کے قومی صدر مولانا ارشد مدنی صاحب ملک کے مشہو رو معروف اسلامی دانشور ہیں اور اپنے بے باک تبصروں کے لیے جانے جاتے ہیں۔گزشتہ دنوں چوتھی دنیا اردو کی ایڈیٹر وسیم راشد اور چوتھی دنیا ہندی کے کو آرڈی نیٹر ایڈیٹر ڈاکٹر منیش کمار نے مولانا ارشد مدنی صاحب سے بابری مسجد سے متعلق الہٰ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ،کشمیر کے تازہ حالات، مسلمانوں کی سیاسی ،سماجی، تعلیمی اور اقتصادی صورتحال سمیت مختلف نکات پر سیر حاصل گفتگو کی۔پیش ہیں گفتگو کے اہم اقتباسات۔

س: موجودہ وقت میں کشمیر بری طرح جل رہا ہے۔ آپ لوگ اس میں مداخلت کیوں نہیں کرتے، جبکہ کشمیر کے لوگ آپ کی بات سنتے ہیں۔
ج: ایسا نہیں ہے کہ کشمیری ایک پلیٹ فارم کے نیچے جمع ہیںبلکہ کشمیر میں مختلف نظریات کے لوگ ہیں۔جمعیت علما نے ہمیشہ اپنے آپ کو مسئلہ کشمیر سے الگ رکھا ہے۔ کشمیر کے سلسلہ میں وزیر اعظم کا بیان پہلی مرتبہ ایسا آیا ہے کہ جس میں وہ اعتراف کر رہے ہیں کہ کشمیریوں کو ان کے جائز حقوق نہیں ملے ہیں۔ یا کشمیریوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ نہیں ہونا چاہئے تھا۔ یہ بات خوش آئند ہے۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلے میں نے ہی وزیر اعظم کو مبارکباد دی تھی۔ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کے اس بیان کے مضمرات میں یہ چیز شریک ہے کہ مسئلہ کا حل طاقت کی بنیاد پر نہیں ہو سکتا۔ 60سال سے جو کیا جا سکتا تھا وہ کیا جا رہا ہے اور حکومت نے کشمیر کو فوجی چھائونی بنا ڈالا ہے، لیکن نتیجہ توکچھ بھی نہیں نکلا ۔ کشمیر تو ایک آگ کا شعلہ بنا ہوا ہے۔اس وقت اس کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ وزیر اعظم کے بیان کے جو مضمرات ہیں کہ کشمیروں کو پیار محبت سے گلے لگایا جائے اور ان کے اندر جو تحریک چل رہی ہے شکوے اور شکایت کی اور علیحدگی پسندی کی اس کے اوپر قابو پانے کا حل تلاش کیا جائے۔یہ بات یقینی طور پر درست ہے کہ کشمیر کے نا گفتہ بہ حالات پر قابو پانے کا حل طاقت نہیں ہے۔
س: مسلمانوں نے تحریک آزادی میں بہت ہی اہم رول ادا کیا تھا بلکہ وہ اس میں پیش پیش رہے تھے، لیکن کشمیر کی کچھ جماعتیں پاکستان کی حمایت کرتی ہیں اور وہ کشمیر کو پاکستان میں دیکھنا چاہتی ہیں۔ اس حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے۔
ج: میں یہ کہتا ہوں کہ آخر وہ کیوں کہتے ہیں کہ ہم پاکستان کے ساتھ جانا چاہتے ہیں، ان اسباب پر نظر ڈالنی چاہئے۔ وزیر اعظم کا بیان انہی اسباب کو بیان کر رہا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ نوجوانوں کے ساتھ جس طرح کا انصاف ہونا چاہئے تھا وہ نہیں ہوا۔ اس کا مطلب ہے کہ نو جوانوں کو ملازمتیں ملنی چاہئے تھیں، ان کو قومی دھارے میں شریک ہونے کے لیے مواقع ملنے چاہئے تھے۔ وزیر اعظم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ گورنمنٹ کی اسکیمیں یا تو وہاں تک پہنچی نہیں ہیں اور صحیح یہی ہے کہ وہاں تک نہیں پہنچی ہیں۔وزیر اعظم یہ کہتے ہیں کہ ان کی اقتصادیات تباہ ہو رہی ہیں۔میں بھی کہتا ہوں کہ یہ صحیح ہے کہ اقتصادیات تباہ ہو رہی ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ وزیر اعظم ان کے لیے اقتصادیات کے دروازے کھولنا چاہتے ہیں۔آج انھوں نے100کروڑ کا پیکیج ان کے لیے رکھا ہے اگرچہ یہ آٹے میں نمک کے برابر ہے،لیکن صحیح صورتحال یہی ہے کہ اگر گورنمنٹ اپنی اسکیموں کو کشمیر میں بھی اسی طرح رکھتی جس طرح اس نے دوسری ریاستوں میںرکھی ہیں تو آج یہ رجحان پیدا نہیں ہوتا۔ایسے مواقع ان کو ہماری کوتاہی کی وجہ سے ملے ہیں،آخر کیا وجہ ہے! آپ بہار میں جائیے، جھار کھنڈ میں جائیے چھوٹے چھوٹے صوبے ہیں، لیکن ایک ایک فیکٹری گورنمنٹ کی ایسی ہے جس میں20سے40ہزار آدمی ہر فیکٹری میں کام کرتے ہیں۔روزی روٹی کماتے ہیں۔ آپ یہاں سے لیکر پٹھان کوٹ تک چلے جائیے، آپ کو ایسا محسوس ہوگا کہ پنجاب اور ہریانہ میں ہی جاپان ہے، لیکن وہیں سے اٹھ کر آپ وادی میں اور کشمیر میں چلے جائیے تو وہاں آپ کو تنگ دستی ملے گی، مایوسی ملے گی، ٹوٹے پھوٹے مکانات ملیں گے، قتل و غارت گری ملے گی۔کیا اسباب ہیں، کیوں ہیں یہ سب۔ 60سال کے اندر آپ اس کے اوپر قابو نہیں پا سکے۔ میں مانتا ہوں کہ علیحدگی پسندی کی تحریک ہے، لیکن یہ بھی تو سوچنا چاہئے کہ کیوں ہے آخر۔کشمیر میںعلیحدگی پسندی کی تحریک کوئی نئی نہیں ہے۔ ہندوستان کے کئی دیگر علاقوں میں بھی یہ تحریک رہی ہے۔کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ پنجاب میں علیحدگی پسندی کی تحریک تھی۔ وہاں بھی فوج کو بھیج دیا گیا۔ پنجاب کو چھائونی بنا دیا گیا۔ بے شمار بچے اور جوان قتل کر دیے گئے، لیکن کتنے دن چلی وہ تحریک، تھوڑے دن چلی اور اس کے بعد پھر گلے لگایا گیا۔ یہ کیا وجہ ہے کہ علیحدگی پسندی کی تحریک60سال سے جنم لیے ہوئے ہے اور وہ دبتی نہیں ہے۔کچھ اسباب ہیں ان اسباب ہی کو تلاش کرنا ہے۔ میں یہی کہتا ہوں کہ وزیر اعظم کے اس بیان کے اندر انہی اسباب کی جستجو ہے کہ انہیں تلاش کیا جائے اور اس چیز کا اعتراف ہے کہ ہمیں جو کرنا چاہئے تھا وہ ہم نہیں کر سکے ہیں۔
س:مدنی صاحب اس سے قبل مسلۂ کشمیر کے حوالہ سے آپ کی یا جمعیت کی اتنی واضح الفاظ میں رائے نہیں آئی،جبکہ مذکورہ باتیں آپ کو بہت پہلے کہہ دینی چاہئے تھیں۔
ج:ہمیں یہ بات کہتے ہوئے تکلف ہوتا تھا، لیکن آج جب ہندوستان کے وزیر اعظم نے پہلی مرتبہ اپنے قصور کا اعتراف کیا ہے، تو ہمارے اندر یہ بات کہنے کی ہمت پیدا ہوئی ہے تو ہم کہہ رہے ہیں۔ قصور وہاں نہیں ہے، قصور یہاں ہے۔دنیا یہ کہہ رہی ہے کہ قصور وہاں ہے ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ قصور وہاں نہیں ہے قصور یہاں ہے۔
س:مرکزی حکومت کی مدرسہ بورڈ کی تجویز کی مسلمان مخالفت کیوں کر رہے ہیں، جس میں آپ بھی شامل ہیں؟
ج: دیکھئے اس ملک کے اندر بورڈ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ یو پی میں الہ آباد بورڈ کے نام سے مدرسہ بورڈ بنا ہوا ہے، بہار کے اندر شمس الہدیٰ بورڈ بنا ہوا ہے اور تقسیم سے پہلے سے آسام اور بنگال کے اندر عالیہ نام کا بورڈ بنا ہوا ہے اور مدارس ان کے اندر جاتے رہے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ جن مدارس نے بورڈ سے اپنا الحاق کرا لیا ہے وہ پریشان ہیں۔ بورڈ یہ کہتا ہے کہ ہم اس کے نظام میں نصاب تعلیم میں دخل نہیں دیں گے، لیکن جتنے مدارس بورڈوں کے اندر گئے ہیں ہر بورڈ نے اس کے نصاب تعلیم میں بھی دخل دیا، اس کے نظام تعلیم میں بھی دخل دیا۔کوئی بورڈ یہ نہیں کہہ سکتا۔ ہمارا یہ ماننا ہے کہ گورنمنٹ لاکھوں اور کروڑوں کی امداد دے اور امداد دیکر باہر کھڑی ہو جائے بے بس یہ نہیں ہو سکتا۔آج تک ہوا نہیں ہے تو کل کیسے ہو جائے گا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے ہمیں اس ملک کے اندر سیاسی میدان میں اپاہج بنا دیا، اقتصادی میدان میں آپ نے ہمیں تباہ کر دیا۔ ہمارے نوجوانوں کو ملازمت نہیں ملتی۔آپ نے تعلیمی میدان سے ہمیں نکال کر باہر کھڑا کر دیا۔ہم اپنے مسلمان بچوں کو لیکر یہ کہتے تھے کہ دنیا بھی سیکھو دین بھی سیکھو۔آپ اس میں بھی ہمیں گھسیٹ کر برباد کرنا چاہتے ہیں۔ہم اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہم اس ملک کے اندر مسلمان کو مسلمان کی حیثیت سے زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔جو چاہے بنو ڈاکٹر بنو ، انجینئر بنو جو چاہے پڑھو اور بنو۔ہماری طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ اگر کوئی بچہ دین کو سمجھنا چاہتا ہے تو آپ یہ نہ کہیں کہ پڑھوگے وہ جو ہم پڑھانا چاہتے ہیں۔ہم یہ کہتے ہیں کہ نہیں ہم جو پڑھانا چاہتے ہیں اپنی اولاد کو ہم وہ پڑھائیں گے۔یہ جمہوری ملک ہے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ جو چاہیں گے ہم اپنے بچے کو وہ پڑھانے کے لیے مجبور ہیں۔
-3آپ لڑکیوں کو تعلیم کے لئے کیوں منع کر تے ہیں؟
ج: ہم منع نہیں کرتے ہیں۔ کون منع کرتا ہے؟ہم تو خود بچیوں کے اسکول بناتے ہیں، ہم لوگوں سے کہتے ہیں کہ بچیوں کے اسکول بنائو۔ یہ پروپیگنڈہ ہے اور ہم اس پر کوئی توجہ نہیں دیتے۔
س: سیاست میں خواتین کی شمولیت کی آپ کیوں مخالفت کرتے ہیں؟جمعیت نے بھی خواتین کو 33فیصد ریزرویشن دیے جانے کی حکومت کی تجویز کی مخالفت کی تھی۔
ج: ہم کہتے ہیں کہ آپ خواتین کو33فیصد ریزرویشن دے رہے ہیں ۔ ہماری نمائندگی جب ملک آزاد ہوا تھا تو لوک سبھا کے اندر52-53کی نمائندگی تھی جو اب کم ہو کر29 کی رہ گئی ہے۔ آپ خواتین کو ریزرویشن دے دیجئے یہ10-15پر آکر ٹک جائے گی۔ ہمارا ماننا یہ ہے کہ اگر آپ ریزرویشن دیتے ہیں تو ہمیں ریزرویشن دیجئے، مسلمانوں کو ریزرویشن دیجئے۔ ریزرویشن کے اندر ہمیں ریزرویشن ملے تاکہ ہماری نمائندگی تو محفوظ رہے۔ بی جے پی اس بل کی تائید کیوں کر رہی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ بی جے پی اس بل کی تائید اس لیے کر رہی ہے، کیونکہ وہ جان رہی ہے کہ یہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے ایک ذریعہ ہے ۔لہٰذا نقصان پہنچائو۔میرا ماننا ہے کہ ملک کے لیے یہ بڑی بد قسمتی کی بات ہے کہ کانگریس بل پاس کر رہی ہے اور بی جے پی کی حمایت سے پاس کر رہی ہے۔
س:مسلمانوں کے پاس قومی سطح کی نہ کوئی اپنی سیاسی جماعت ہے اور نہ ہی لیڈر جبکہ مسلمان اس ملک کی دوسری بڑی اکثریت ہیں، ایسا کیوں؟
ج:میں نہیں مانتا، جمعیت علما نے کبھی اس کو قبول نہیں کیا۔ ہم نے ملک کو آزاد کرایا ہے۔ کانگریس کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر آزاد کرایا ہے بلکہ دو قدم آگے رہ کر آزاد کرایا ہے اور جب ملک آزاد ہو گیا تو جمعیت علما نے یہ فیصلہ کیا کہ اب کسی جماعت کی ضرورت نہیںہے، جس طرح ہم ملک کی آزادی سے پہلے ہندو مسلم مل کر لڑ رہے تھے ،ہم آج ہندو مسلم اس ملک کی ترقی کے لیے مل کر کام کریں گے۔اس لیے جمعیت علما نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ ہم مسلمان کی حیثیت سے الگ کوئی جماعت بنائیں اور جن لوگوں نے بنائی ہے انھوں نے ٹھوکر کھائی ہے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
س: آپ ایسی کوئی مہم کیوں نہیں چلاتے ،جس سے مسلمانوں کو ان کے جائز حقوق دلانے کے لئے حکومت کو مجبور کیا جا سکے؟
ج:ہم روز چلاتے ہیں۔ ہم روزانہ فرقہ پرست ذہنیت کی مذمت کرتے ہیں۔ ہم روزانہ سیکولر ذہنیت کی تائید کرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک اس ملک کا حل یہی ہے کہ سیکولر ا زم کو فروغ دیا جائے۔ اس ملک میں ایک مسلم اقلیت ہی تو نہیں ہے۔سکھ اقلیت ہے، عیسائی اقلیت ہے، جینی اقلیت ہے، دلت بھی کہتا ہے کہ ہماری الگ اقلیت ہے تو مان لیا ہم لوگوں نے بنالی جماعت اور لوگوں نے بھی بنا لی تو ملک کا بنے گاکیا۔ملک تو زندہ ہی جب رہ سکتا ہے کہ مذہب سے اوپر اٹھ کر اپنے ملک کی خدمت کے لیے بغیر کسی تفریق کے اس ملک کی ترقی کے لیے قربانی دی جائے۔جیسے قربانی دیتے رہے ہیں ملک کی آزادی سے پہلے۔مسئلہ کا حل اس ملک میں اس کے بغیر نہیں نکلے گا۔
س: کیا آپ کو لگتا ہے کہ کوئی ہندو جماعت بھی اس طرح کی بات کہہ سکتی ہے جو آپ کہہ رہے ہیں۔
ج: یہی تو پریشانی ہے۔ فرقہ پرستی نے ملک کو جکڑ رکھا ہے۔میں کہتا ہوں کہ60 برسوں میں کوئی بھی وزیر اعظم یہ بات نہیں کہہ سکا اگر کہہ سکا تو اقلیت کا وزیر اعظم ہی کہہ سکا۔ میں نے تو اسی دن ان کا شکریہ ادا کیا تھا،کہ جو بات کہی ہے با الکل صحیح کہی ہے آپ نے ۔یہی مضبوط موقف ہے اور اسی اسٹینڈ پر چل کر کشمیر کے مسئلہ کا حل نکل سکتا ہے۔
س: دیو بند سے اس طرح کے فتاویٰ جاری ہوتے ہیں، جن کے سبب ملک بھر میں ہائے توبہ مچ جاتی ہے۔ بعد میں دیو بند کوو ضاحت کرنی پڑتی ہے اور فتوے کے متنازع نکات کو واپس لینا پڑتا ہے ۔ تو پہلے ہی سوچ سمجھ اور غورو فکر کر کے فتوے کیوں نہیں دیے جاتے؟
ج: دیکھئے کوئی بھی شخص دیو بند سے بیٹھ کر فتویٰ دے دیتا ہے تو کہتے ہیں کہ دیو بند سے فتویٰ جاری ہوا ہے۔دیو بند میں تو ایک مرکز ہے دارالعلوم دیو بند۔ جب وہاں کوئی فتوے کے لیے جاتا ہے تو وہ لوگ بیٹھتے ہیں ،دیکھتے ہیں اور غورو فکر کرتے ہیں۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اس کا مقصد کیا ہے۔ دیکھا یہ جاتا ہے کہ فتویٰ پوچھنے والا پوچھ کیا رہا ہے۔وہ جو پوچھ رہا ہے اس پر فتویٰ دے دیا جاتا ہے۔ اس پر کوئی عمل کرے یانہ کرے اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا دیو بند کا۔ وہ یہ پوچھتا ہے کہ اس میں اسلام کا حکم کیا ہے۔مفتی اسلام کا حکم بتا دیتا ہے۔ جو بتایا گیا ہے اس پر عمل وہ کرے یا نہ کرے اس سے کوئی سروکار مفتی کو نہیں ہوتا۔اس میں مفتی کی کوئی خطا نہیں ہے ۔
س:جمعیت علمائے ہند اتنی بڑی جماعت ہے، لیکن اس نے عوامی فلاح کا کوئی کام نہیں کیا۔ نہ کوئی اسپتال، نہ کوئی اسکول، آخر کیوں؟
ج: جمعیت علما ہمیشہ سے اسکول، اسپتال اور رفاہی کاموں کے لیے مسلمانوں کو یہ کہتی ہے کہ تم بنائو ۔ اس جانب ان کی توجہ دلاتی ہے، لیکن خود یہ کام نہیں کرتی ہے اس لیے کہ ہمارا میدان پورے ہندوستان میںہے۔ پھر آپ یہ دیکھیں کہ ان لوگوں کے سامنے مسائل نہیں ہیں۔ جمعیت علما کے سامنے اتنے مسائل ہیں کہ ہمیں اس کا موقع نہیں مل پاتا۔آپ دیکھئے کہ ملک کے اندر20ہزار سے زیادہ فسادات ہوئے ہیں۔ یہاں تقریباً50ہزار مسلمان قتل ہو گئے ہیں۔احمد آباد کے فساد سے پہلے تو ہم روزانہ صبح کو اخبار اٹھاتے تھے تو یہ دیکھتے تھے کہ کہاں بم پھٹ گیا، کہاں فساد ہو گیا اور ہمیں ریلیف کے لیے روزانہ دوسرے میدان میں پہنچنا پڑتا تھا۔ہم کو اتنی مہلت نہیں ملی ہے ملک کے حالات سے کہ ہم تن تنہا ملک کے اندر گھس کر کوئی کام کرتے۔ اس لیے جمعیت علما نے اپنا ایک نظریہ قائم کیا کہ ہم مسلمانوں سے کہیں کہ تم اسکول بنائو۔مسلمانوں سے کہیں کہ رفاہی کام کرو ، لیکن ہم خود میدان میں نکل کر نہیں آ سکتے، کیونکہ ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔دوسری تنظیموں کے پاس موقع ہے، ہمارے پاس موقع نہیں ہے۔ہم نے تو اپنی ساری زندگی مشکلات کے اندر کھپا رکھی ہے اور آپ دیکھیں گے کہ ہر روز کوئی نہ کوئی مشکل مسلمان کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے۔
س: اکشر دھام معاملہ پر آپ نے سی بی آئی تفتیش کا مطالبہ کیا ہے۔ آخر یہ مسئلہ کیا تھا؟
ج:اکشر دھام پر حملہ ہوا۔ اس حملہ کے سبب شاید 39کے قریب لوگوں کی جان چلی گئی۔ اس کے اندر جو علما تھے، مفتی تھے ان کو پکڑ کر یہ کہہ دیا گیا کہ حملہ آور یہی لوگ تھے۔کشمیر کا آئی جی ڈی آئی جی کہہ رہا تھا کہ اکشر دھام حملہ کے ملزم ہمارے پاس جیل میں بند ہیں۔ کچھ نہیں سنا گیا ان لوگوں کو اٹھا کر جیل میں بند کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ جو لوور کورٹ نے فیصلہ کیا تھا وہی اپر کورٹ نے بھی فیصلہ سنا دیا اور یہ کہہ دیا کہ یہی ملزم ہیں ان میں سے کچھ کو پھانسی دے دی جائے،انہیں عمر قید کی سزا دی جائے اور اسے10سال کی سزا دی جائے۔ہم جانتے تھے کہ یہ کیس جھوٹا ہے۔ اسی طرح اور بہت سے کیس بھی جھوٹے ہیں۔ان میں سے عبداللہ نام کے جو مفتی ہیں ان کا میرے پاس خط آیا کہ ہم تو ان حالات سے گزر رہے ہیں۔ ہمارے پاس امکانات نہیں ہیں کہ ہم سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا سکیں۔ہم نے کہا کہ بھئی ہم تمہاری مدد کریں گے، جب ہم نے یہاں سے لیکر کشمیر تک حقائق معلوم کیے تو ہمیں معلوم ہوا کہ یہ تو باالکل بے قصور ہیں۔ہم اس کیس کو لیکر عدالت کے اندر پہنچ گئے۔عدالت نے اس کے اوپر عارضی اسٹے دے دیا اور خود عدالت نے یہ کہا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس کیس کو سی بی آئی کے حوالہ کیا جانا چاہئے۔ ہم تو اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ وہ تو بے قصور تھے، ہم نے ان کے لیے کام کیا ہے اور جب تک ممکن ہوگا ہم کام کرتے رہیں گے۔
س: بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کے حوالہ سے کیا آپ نے کوئی کام کیا ہے؟
ج:اس سلسلہ میں تو ہم نے بہت کام کیا ہے۔ ہم نے احتجاجی مظاہرے کیے۔کانفرنس منعقد کیں اور حکومت کو یہ باور کرایا کہ مسلم نوجوانوں کی اس طرح کی جا رہی گرفتاریاں فرقہ پرستی کا ننگا ناچ ہیں۔ان پر روک لگائی جائے اور مسلمانوں کو بھی آزاد ماحول میں زندگی بسر کرنے کا موقع دیا جائے۔
س: بہار میں اسمبلی الیکشن کے حوالہ سے آپ کی کیا رائے ہے؟
ج:دیکھئے میں تو یہ سمجھ رہا ہوں کہ نتیش کی حکومت بی جے پی کی حکومت ہے۔ اس میں تو کوئی دو رائے ہے ہی نہیں۔اس لیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ سیکولر ذہنیت کو ملک کے اندر ترقی ملنی چاہئے۔میرا تو مدعیٰ ہمیشہ سے یہی رہا ہے اور جمعیت علما کا بھی۔ میں اس ملک کی بقا سیکولر ذہنیت کے اندر سمجھتا ہوں۔نتیش اگر اپنا لبادہ بدل کر آ جائیں تو اس سے سیکولر ذہنیت کو تقویت نہیں ملے گی بلکہ نقصان پہنچے گا۔وہ اپنے لوگوں کو حساس سے حساس مقامات پر رکھیں گے اور کل کو اگر نتیش ہٹ بھی جائیں تو وہ لوگ تو گورنمنٹ کے ملازم ہیں اس لیے وہ جہاں بیٹھیں گے وہ وہی کام کریں گے جو نتیش نے چاہا ہوگا۔اس لیے میں تو ایک بات کہتا ہوں کہ اس ملک کی ترقی کے لیے سیکولو کردار بڑا اہم اور ضروری ہے۔

س: بابری مسجد کے حوالہ سے کورٹ کے فیصلہ کو آپ کس طرح سے دیکھتے ہیں۔
ج:دیکھئے مسلمانوں کے لیے یہ بات قطعی اہمیت کی حا مل نہیں ہے کہ فیصلہ کیا آیا یا فیصلہ آج آئے یا کل آئے۔مسلمان تو فیصلہ کا60برسوں سے انتظار کر رہے تھے۔ میں اسے دوسرے نظریے سے دیکھتا ہوں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ وہاں مسجد تھی۔مسجد کے اندر تالا لگا دیا گیا، مورتی رکھ دی گئی، گویا کہ مسجد کو مندر بنا دیا گیا۔شیلا نیاس شروع کرا دی گئی پھر اس کے بعد تالا بھی کھول دیا گیا۔پھر اس کے بعد وہ مسجد کی صورت رہی کہ یا پھر کچھ اور۔ مسلمان یہ کہتے تھے کہ یہ مسجد ہے اور ہندو کہتے تھے کہ یہ مندر ہے۔اس کے بعد اس کی صورت کو بھی ختم کر دیا گیا اور حکومتیں اپنی جگہوں پر بیٹھی رہیں۔پہلے دن سے جب یہ قضیہ شروع ہوا تھا جمعیت علما کورٹ کے اندر گئی تھی۔جمعیت علما کورٹ کے اند سب سے پہلے جانے والی پارٹی تھی، اس میںکچھ تکنیکی کمزوریاں تھیں، اس لیے جمعیت علما ہی وقف بورڈ کو کھینچ کر لائی۔مسلمان 60برسوں سے انتظار کر رہا تھا کہ کیا فیصلہ آنا ہے، ہندو انتظار نہیں کر رہا تھا۔ وہ تو وہاں مندر بنائے ہوئے ہے اسے تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، جو کچھ توقعات کورٹ سے وابستہ تھیں وہ مسلمان کو تھیں۔ وہی فرقہ پرست پارٹیاں جنھوں نے کل مسجد کو مندر بنایا تھا یہ کوشش کرنے لگیں کہ فیصلہ کو ٹالو۔وہ کہتی ہیں کہ آپسی بات چیت کے ذریعہ مسئلہ حل کرو۔ ارے بابا آپسی بات چیت کیا ہوگی، وہاں مسجد تھی تم نے مسجد کو توڑ کر مندر بنایا ہے۔مسجد کے وہاں سے آثار تک کو مٹا دیا ہے، اب ہم سے کہتے ہو کہ ہم طاقتور ہیں، ہم سے صلح کرو۔ کس چیز کی صلح کریں ، ہم صلح نہیں کرتے۔ہم ملک کے قانون کا احترام کرتے ہیں، کیونکہ ملک ہمارا ہے، قانون ہمارا ہے اور عدالتیں ہماری ہیں۔

بشکریہ چوتھی دنیا

No comments:

Post a Comment