سید ابراہیم ملک بیا اکادمے سیھن ، نوادہ ،بھار ایک تحقیقی ،تصنیفی , تعلیمی اور سماجی ادارہ
Monday, October 25, 2010
ترکی میں نئی صبح کے آثار: عابد عبدالواسع
ترکی میں نئی صبح کے آثار
عابد عبدالواسع
پبلک ریلیشنز آفیسر
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد
’’میں ہر سال اپنی آمدنی کا تقریباً 50 فیصد حصہ خدمت خلق میں خرچ کرتا ہوں۔ بفضل تعالیٰ دولت مجھے ورثہ میں ملی ہے۔ مساجد کی تعمیر کے ذریعہ تسکین قلب حاصل کرسکتا تھا لیکن میری خواہش ہے کہ اسکولوں کے قیام کے ذریعہ ایسے بچوں کی مدد کی جائے جو معاشی طور پر کمزور ہیں۔‘‘ ان خیالات کا اظہار ترکی کے ایک صنعت کار اور کنٹراکٹر احمد اکایا نے انقرہ میں گذشتہ جمعہ کو حیدرآباد سے آئے مہمان وفد کے ہمراہ بات چیت کے دوران کیا۔ احمد اکایا سے وفد کے ایک رکن ڈاکٹر اے گوپال کرشنن نے دریافت کیا تھا کہ وہ ہر سال اپنی آمدنی کا کس قدر حصہ خدمت خلق پر خرچ کرتے ہیں۔ ترک تاجر کے جواب پر وفد میں شامل لگ بھگ تمام افراد حیرت زدہ رہ گئے۔ کیونکہ سبھی اس بات سے واقف تھے کہ اسلام میں سالانہ ڈھائی فیصد زکوٰۃ کی ادائیگی کا لزوم ہے۔ لیکن موجودہ ترکی میں آپ کو ایسے کئی تاجر‘ صنعت کار اور متمول افراد مل جائیں گے جو اپنی آمدنی کا بڑا حصہ نہایت خاموشی کے ساتھ راہ للہ خرچ کر کے رضائے الٰہی کے طلبگار ہیں۔
’’انڈیالاگ‘‘ فاؤنڈیشن نامی ادارے نے جو 2005ء سے ہندوستان میں بین مذہبی و تہذیبی مذاکرات اور قیام امن سرگرمیوں میں مصروف ہے 24 تا 31؍ مئی 2010ء اس خصوصی دورے کا اہتمام کیا تھا۔ حیدرآباد سے 12 منتخب افراد کو مدعو کیا گیا جن کا زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق ہے۔ ’’بین مذہبی و بین تہذیبی سفرِ مذاکرات ۔ ترکی 2010ء‘‘ کے زیر عنوان اس دورے میں آندھرا پردیش اسمبلی کے سابق اسپیکر جناب سریش ریڈی‘ جناب نریندر لوتھر (سابق چیف سکریٹری آندھرا پردیش)‘ ریٹائرڈ آئی اے ایس آفیسر جناب تراب الحسن (ڈاکٹر عابد حسین‘ سابق سفیر ہند برائے امریکہ کے برادر محترم) ‘ پروفیسر خالد سعید (صدر شعبۂ اردو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی)‘ ڈاکٹر اے گوپال کرشنن (سابق صدر نشین اٹامک انرجی ریگولیٹری بورڈ‘ حکومت ہند)‘ ڈاکٹر ستیہ پرکاش (اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ کمیونکیشن‘ یونیورسٹی آف حیدرآباد)‘ ڈاکٹر سنجے سبودھ (اسوسیئٹ پروفیسر شعبہ تاریخ‘ یونیورسٹی آف حیدرآباد)‘ جناب وٹھل راؤ (صدر آریہ پرتینیدھی سبھا‘ آندھرا پردیش)‘ محترمہ سنگا مترا ملک (اعزازی سکریٹری‘ اپنا وطن)‘ محترمہ بندی لوتھر (شریک حیات‘ جناب نریندر لوتھر)‘ ڈاکٹر قرۃ العین حسن (کنسلٹنٹ ڈپارٹمنٹ آف جینیٹکس اینڈ مالیکیولر میڈیسن‘ کامنینی ہاسپٹل)‘ ڈاکٹر دلنواز برجور بھلاڈوالا (صدر شعبہ نیورو سرجری‘ کامنینی ہاسپٹل) کے علاوہ راقم الحروف بھی شامل تھا۔ انڈیالاگ فاؤنڈیشن دراصل بین تہذیبی‘ بین الاقوامی و بین مذہبی مذاکرات کو فروغ دینے کے لیے اس طرح کے دوروں کا اہتمام کرتا رہتا ہے۔ ہمیں اس دورے نے ترکی اور وہاں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع فراہم کیا۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ اقبال نے جس ترکی کو یوروپ کا مرد بیمار کہا تھا وہ اب بڑی تیزی کے ساتھ روبہ صحت ہو رہا ہے۔ ترکی ایک طویل عرصے تک بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ رہنے کے بعد اپنے وجود کو منوانے میں لگا ہے۔ ترکی‘ ناٹو کا واحد مسلم رکن ہے اور یوروپی یونین کا امیدوار رکن بھی ہے۔ ترکی معاشی طور پر ترقی یافتہ ہے۔ اس کی کرنسی لیرا کہلاتی ہے جو ہندوستان کے 30 روپئے کے برابر ہے۔ فی کس مجموعی ملکی پیداوار کا سالانہ تخمینہ 12,000 امریکی ڈالر ہے۔ جبکہ ہندوستان میں یہ تناسب سالانہ 2800 ڈالر ہے۔ ترکی میں گداگر کم ہی نظر آتے ہیں۔ قدرت نے اسے کئی قسم کی دولتوں سے نوازا ہے۔ حسن کی دولت سب سے نمایاں ہے۔ ترکی میں ہمیں استنبول‘ کونیا اور انقرہ جیسے شہروں میں مختلف افراد سے ملاقاتوں اور تبادلۂ خیال کا موقع فراہم کیا گیا۔
پیر 24؍ مئی 2010ء کی صبح 10:20 بجے ایمیریٹس ایئر لائنس کی پرواز کے ذریعہ ہمارا گروپ براہ دبئی استنبول روانہ ہوا۔ استنبول کے اتاترک انٹرنیشنل ایئر پورٹ سے جب ہم باہر نکلے تو شام کے تقریباً 7 بج چکے تھے لیکن غروب آفتاب کے آثار نہیں تھے۔ ترکی‘ بالخصوص استنبول چونکہ جغرافیائی طور پر یوروپ کا حصہ ہے اسی لیے یہاں غروب آفتاب کافی دیر سے ہوتا ہے۔ ہمارے قیام کے دوران مغرب کی اذان رات 8:30 بجے ہوا کرتی تھی۔ یہ موسم گرما کے ابتدائی دن تھے۔ موسم کی شدت کے دوران اس وقت میں مزید توسیع ہوجاتی ہے۔ انڈیالاگ فاؤنڈیشن کے مقامی کو آرڈنیٹر نور الدین‘ وفد کے ہمراہ تھے۔ ایئر پورٹ پر جناب سریش ریڈی وفد میں شامل ہوگئے۔ (وہ پہلے ہی دبئی پہنچ چکے تھے۔) ایئر پورٹ کے باہر میزبان گروپ کے نمائندوں نے گرمجوشانہ خیر مقدم کیا اور بس کے ذریعہ ہمیں ہوٹل ’’کایا‘‘ پہنچادیا گیا۔ جو استنبول کے یوروپی حصے میں واقع ہے۔ اسی رات انڈو۔ترکش بزنس گروپ نے خلیج باسفورس کے ساحل پر واقع ریستوراں میں ڈنر کا اہتمام کیا۔ وہیں ہماری ملاقات دہلی سے آئے مزید دو مہمانوں سے ہوگئی۔ ڈاکٹر خواجہ اکرام (اسوسیئٹ پروفیسر اردو‘ جواہر لال نہرو یونیورسٹی) اور ڈاکٹر رضوان الرحمن (اسسٹنٹ پروفیسر عربی‘ جے این یو) ایک بین الاقوامی ورکشاپ میں شرکت کے سلسلے میں ترکی آئے ہوئے تھے۔ ہمارے میزبانوں نے انہیں کچھ دن کے لیے حیدرآبادی وفد کے ساتھ جوڑ دیا۔ اس طرح ہمارا گروپ ایک قومی نوعیت کا نمائندہ وفد بن گیا۔
منگل 25؍ مئی کی صبح ہوٹل میں ناشتے کے بعد ترکی کے ایک مشہور و مقبول ٹیلی ویژن گروپ ’’سمان یولو‘‘ کے ہیڈ کوارٹر پہنچے۔ اس گروپ کے تحت جملہ 6 چینل چلائے جاتے ہیں۔ اکین امرے کراغولے (انٹرنیشنل نیوز ایڈیٹر) نے استقبال کیا اور وفد کے ساتھ تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ گروپ میں شامل ڈاکٹر اے گوپال کرشنن‘ پیشے کے اعتبار سے نیوکلیئر سائنسداں ہیں اور امریکہ کی مشہور یونیورسٹی ہاورڈ میں وزیٹنگ پروفیسر رہ چکے ہیں۔ ایران کے نیوکلیئر تنازعے کے پس منظر میں ترکی کے اہم رول پر ان کی بڑی گہری نظر ہے۔ تبادلہ خیال کے دوران جب ہمارے میزبان سے ڈاکٹر گوپال کرشنن کا تفصیلی تعارف ہوا تو انہوں نے نیوز چینل کے لیے انٹرویو کی فرمائش کردی۔ اسی دو پہر ہم استنبول کے ایشیائی حصے میں واقع ’’ویو پوائنٹ‘‘ پہنچے جہاں سے خلیج باسفورس اور شہر کے یوروپی حصے کا نہایت دلفریب نظارہ دیکھنے کو ملا۔ استنبول دراصل ترکی کا سب سے بڑا اور بہ لحاظ آبادی دنیا کا چوتھا بڑا شہر ہے۔ اس تاریخی شہر میں 12.8 ملین لوگ بستے ہیں۔ اس طرح یہ آبادی کے اعتبار سے یوروپ کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ اسے ترکی کے تہذیبی‘ معاشی اور مالیاتی مرکز کا بھی اعزاز ہے۔ یہ شہر صوبہ استنبول کے 39 اضلاع کا احاطہ کرتا ہے اور آبنائے باسفورس کے دہانے پر آباد ہے۔ قدرتی بندرگاہ جسے ’’گولڈن ہارن‘‘ (قرنِ طلائی) اسی کا حصہ ہے۔ دو بر اعظموں پر محیط دنیا کا یہ واحد شہر ہے۔ استنبول نے اپنی طویل تاریخ میں سلطنت روم‘ بازنطینی سلطنت‘ لاطینی سلطنت اور سلطنت عثمانیہ (1453-1922ء) کے پایۂ تخت کی حیثیت سے شہرت حاصل کی۔ سنہ 2010ء کے لیے استنبول کو یوروپ کا مشترکہ تہذیبی دارالحکومت منتخب کیا گیا ہے۔ استنبول کے تاریخی مقامات 1985ء میں یونیسکو کی ورلڈ ہیریٹیج لسٹ میں شامل کیے گئے۔ ویو پوائنٹ سے خلیج باسفورس کے نظارے کے بعد دو پہر میں کشتی کے سفر کا پروگرام تھا۔ تیز ہواؤں کے بیچ خلیج باسفورس کی یہ سیر نہایت خوشگوار اور یادگار ثابت ہوئی۔ ہوا اس قدر تیز تھی کہ کشتی کے عرشے پر چلنا یا ٹھہرنا دشوار تھا۔ لیکن دونوں جانب کے خوبصورت نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے لیے 4 تا 6 افراد عرشے پر ہی بیٹھے رہے۔
آبی گزرگاہ کی دونوں جانب استنبول کے یوروپی اور ایشیائی حصوں کا نظارہ نہایت دلفریب ہے۔ بالخصوص گنجان آبادی کے درمیان اپنے سر ابھارے مساجد کے مینار اس ملک میں مسلمانوں کی زبردست اکثریت کا ثبوت ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ مساجد کی کثرت کے باوجود مصلیوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ اسی دن ہم کو استنبول کے ایک اور تاریخی مقام ’’میدان ٹاور‘‘ کی بھی سیر کرائی جو گرلز ٹاور کے نام سے بھی مشہور ہے۔ یہ ٹاور خلیج باسفورس میں یوروپ اور ایشیاء کے نکتہ اتصال پر واقع چھوٹے سے جزیرہ پر ہے۔ اسے استنبول کی ڈھائی ہزار سالہ تاریخ کا گواہ تصور کیا جاتا ہے۔ ٹاور کے تعلق سے کئی دلچسپ داستانیں تاریخ کا حصہ ہیں۔ منگل کی شام گروپ کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا کیونکہ دو مختلف مقامات پر ترک خاندانوں نے ضیافت کا اہتمام کیا تھا۔ ہم جس گروپ میں تھے‘ اس کی ضیافت ایک ایسے خاندان کے سپرد کی گئی جہاں میاں‘ بیوی دونوں وکیل تھے۔ وحدت عروج اور ان کی بیگم نے نہایت پر تپاک انداز میں خیر مقدم کیا اور ذائقہ دار ترک پکوان کے ساتھ تواضع کی۔ یہ بات قابل غور ہے کہ وحدت عروج کی بیگم‘ ایڈوکیٹ ہونے کے باوجود اپنے مکان میں مہمانوں کے روبرو اسکارف باندھے ہوئے اور سر تا پا ایک خوبصورت کوٹ میں ملبوس تھیں۔ اس خاندان میں دو ننھے بچے بھی تھے۔ وفد کے تمام ارکان ترک خاندان کی ضیافت اور خلوص سے بے حد متاثر ہوئے۔ جناب وٹھل راؤ کے لیے خصوصی طور پر وجیٹیرین ڈش تیار کی گئی تھی۔ چہارشنبہ 26؍ مئی کی صبح استنبول کی مشہور ’’فاتح انٹر نیشنل یونیورسٹی‘‘ کے دورے کا موقع ملا۔ شعبۂ تاریخ کے سربراہ پروفیسر طوفان بزپینار اور کیمسٹری کے پروفیسر نے تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے بتایا کہ فاتح انٹرنیشنل یونیورسٹی ایک خانگی یونیورسٹی ہے جس کا قیام 1996ء میں عمل میں آیا۔ پروفیسر طوفان کے بموجب سلطان محمد دوم فاتح استنبول کو ترک عوام چونکہ اپنا محسن مانتے ہیں اسی لیے بیشتر ادارے ان سے منسوب ہیں۔ ترکی میں جہاں خواندگی کی شرح تقریباً 90 فیصد ہے سرکاری یونیورسٹیز کی تعداد 100 ہے۔ جبکہ خانگی جامعات جنہیں فاؤنڈیشن یونیورسٹی کہا جاتا ہے 50 کے قریب ہیں۔ پروفیسر حضرات نے اعتراف کیا کہ موجودہ دور میں سوشیل سائنسیس کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔ سماجی علوم کے محققین کو یونیورسٹی بھاری امداد فراہم کرتی ہے۔ جامعہ سے فارغ ہونے والے 98 فیصد طلبہ کو روزگار مل جاتا ہے۔ فاتح انٹرنیشنل یونیورسٹی نے یوروپ کی کئی جامعات کے ساتھ معاہدے کیے ہیں۔ حیدرآباد کی عثمانیہ یونیورسٹی کے ساتھ بھی یادداشت مفاہمت ہو چکی ہے۔ 11 ہزار طلبہ میں 700 غیر ملکی ہیں۔ ترکی میں 13 سال کی عمر تک تعلیم سب کے لیے لازمی ہے۔ سرکاری جامعات‘ اعلیٰ سطح پر مفت تعلیم فراہم کرتے ہیں۔ جبکہ خانگی یونیورسٹیز میں انٹرنس ٹسٹ کی بنیاد پر داخلہ دیا جاتا ہے۔
فاتح یونیورسٹی کے دورے کے بعد ترکی کے کثیر الاشاعت اخبار روزنامہ ’’زمان‘‘ کے دفتر کا معائنہ اور سینئر ایڈیٹرس کے ساتھ تبادلہ خیال مقرر تھا۔ اخبار کے انتظامیہ نے اس ملاقات سے قبل پر تکلف ظہرانہ ترتیب دیا۔ بعد میں زمان اخبار کے فارن نیوز ایڈیٹر جلیل صغیر اور مشہور کالم نگار محمد کریم نے مہمان وفد کے ساتھ تفصیلی گفتگو کی۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ترکی گذشتہ کئی دہائیوں کے انتشار کے بعد اب بتدریج مستحکم ہو رہا ہے۔ 1990ء کی دہائی تک ترکی میں سیاسی انتشار اور عدم استحکام تھا۔ لیکن اب صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ جو ان کے خیال میں ترک معاشرے میں بڑھتی ہوئی مذہبی بیداری کا نتیجہ ہے۔ دونوں سینئر صحافیوں نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ کمال اتاترک کے سیکولر طرز حکومت نے ترک معاشرے کو زبردست نقصان پہنچایا۔ چونکہ سیکولرزم کے نام پر بعض مذہب بیزاروں نے تنگ نظری اور تعصب کی انتہاء کردی تھی۔ زمان میڈیا گروپ کے تحت ترک روزنامہ ’’زمان‘‘ شائع کیا جاتا ہے جس کی تعداد اشاعت 9 لاکھ ہے جو ترکی کا سب سے بڑا اخبار ہے۔ ’’ٹو ڈے زمان‘‘ نامی انگریزی اخبار گذشتہ 3 برس سے کامیابی کے ساتھ شائع کیا جارہا ہے جو ترکی کا سب سے بڑا انگریزی اخبار ہے۔ بین الاقوامی شہرت کی حامل نیوز ایجنسی ’’جیہان‘‘ اسی گروپ کی ملکیت ہے۔ ’’عکسیان‘‘ نیوز ویکلی کی تعداد 5 لاکھ ہے۔ زمان گروپ یکم ؍ اکتوبر 2010ء سے ایک بین الاقوامی ماہنامہ شائع کر رہا ہے۔ محمد کریم نے دعویٰ کیا کہ زمان گروپ اپنی سماجی ذمہ داری بخوبی سمجھتا ہے اور اسے نبھارہا ہے۔ انہوں نے ہندوستان کے کثیر مذہبی ورثہ کی ستائش کی اور وضاحت کی کہ وہ مذہب پسند ضرور ہیں لیکن اخبار و صحافت سیکولر ہیں۔ ترک سیاستدان بڑی حد تک روادار ہیں۔ لیکن فوج کا رویہ سخت گیر ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ ترکی میں مذہبی بیداری کے نتیجے میں ’’سیکولر بنیاد پرستی‘‘ کا بتدریج خاتمہ ہو رہا ہے۔ ملک میں 1989ء تک خانگی ٹیلی ویژن اور ریڈیو چینلس کے قیام پر پابندی تھی۔ زمان گروپ کے دونوں سینئر صحافیوں نے بتایا کہ ترک عوام میں افقی اور عمودی تحریک پیدا ہوئی ہے۔ دیہی علاقوں سے عوام بڑی تعداد میں شہر منتقل ہوئے ہیں۔ ممتاز عالم دین‘ دانشور اور امن کے علمبردار فتح اللہ گُلین کی تحریک نے سیاسی و دانشورانہ فکر کی تحریک میں اہم رول ادا کیا ہے۔ ترک خارجہ پالیسی کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ اندرون ملک معمول کے حالات کی بحالی کے ساتھ پڑوسی ممالک سے روابط میں بہتری اولین ترجیح ہے۔ ترکی ایک ایسا ملک ہے جس کے پڑوسیوں کی تعداد 8 ہے۔ ترکی میں اب فوج کی سیاسی اہمیت نہیں رہی۔ خارجہ پالیسی کو مزید محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ قومی مفادات ایک طرف ہیں تو دوسری طرف حلیف ممالک کا مفاد ہے۔ سینئر ترک صحافیوں نے مصطفی کمال اتاترک کے دور میں اور ان کے انتقال کے بعد طویل عرصے تک موجود طرز حکمرانی پر تبصرہ کرتے ہوئے ریمارک کیا کہ اتاترک کو ’’خدا‘‘ اور حکمران جماعت کو مخصوص مفادات کا نگہبان بنادیا گیا تھا۔
تہذیبی ٹکراؤ کی نہیں‘ تہذیبوں کے اتحاد کی ضرورت
’’زمان‘‘ کے دفتر سے ہم سیدھے رائٹرس اینڈ جرنلسٹس فاؤنڈیشن کے دفتر پہنچے جہاں اسماعیل طس اور احمد محرم نے استقبال کیا۔ اسماعیل طس‘ ڈائیلاگ یوریشیا کے جنرل سکریٹری ہیں جبکہ احمد محرم میڈیالاگ کے سکریٹری جنرل ہیں۔ تبادلہ خیال کے دوران احمد محرم نے ان کے ادارے کی مساعی کو تہذیبوں کے اتحاد کی ادنیٰ کوشش سے تعبیر کیا۔ اس کے ذریعہ مختلف مذاہب اور تہذیبوں کے ماننے والوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع فراہم کیا جارہا ہے۔ جناب احمد محرم نے ریمارک کیا کہ مذاکرات‘ زندہ رہنے کا واحد راستہ ہیں۔ ساری دنیا ایک کنبہ کی مانند ہے۔ اس موقع پر ڈاکٹر ستیہ پرکاش نے ’’ہندوستان میں ذرائع ابلاغ‘‘ کے موضوع پر پاور پوائنٹ پرزنٹیشن دیا۔ جو نہایت معلوماتی رہا۔ جناب سریش ریڈی نے فتح اللہ گُلین اور ان کی تحریک کی ستائش کی اور کہا کہ ایسی ہی تنظیمیں اور غیر سرکاری ادارے امن اور مذاکرات کے لیے حقیقی کوششیں کر رہے ہیں۔ چہارشنبہ کی رات بھی وفد دو گروپس میں منقسم ہوکر استنبول کے علیحدہ حصوں میں ترک خاندانوں کی ضیافت سے محظوظ ہوتا رہا۔
جمعرات کی صبح استنبول کے عالمی شہرت یافتہ تاریخی مقامات کی سیر کے لیے نکل پڑے۔ سب سے پہلے قصر توپ کاپی کا رخ کیا۔ ترک زبان میں اسے توپ کاپی سرائے کہتے ہیں۔ محل کو سرائے سے تعبیر کرنا دنیا کے عارضی پن کی دلالت کرتا ہے۔ توپ کاپی دراصل سلطنت عثمانیہ کے حکمرانوں کی تقریباً 400 برس تک سرکاری قیامگاہ تھا۔ اب اسے میوزیم بنادیا گیا ہے۔ یہی وہ میوزیم ہے جہاں حضور ﷺ کے آثار مبارک ساری دنیا کے مسلمانوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ حضور صلعم کی تلوار ‘ زرہ بکتر اور پائے مبارک کے نشان بھی یہاں محفوظ ہیں۔ چاروں خلفائے راشدین کی تلواروں کے علاوہ حضرت موسیٰؑ کا عصا‘ حضرت یوسفؑ کا عمامہ اور اسلامی تاریخ کا ایک بیش بہا خزانہ یہاں محفوظ ہے۔ توپ کاپی کی تعمیر فاتح استنبول سلطان محمد دوم کے حکم پر 1459ء میں شروع ہوئی۔ سترہویں صدی میں عثمانی فرمانروا یہاں سے باسفورس کے ساحل پر تعمیر کردہ نئے محلوں میں منتقل ہوگئے۔ توپ کاپی میوزیم میں سیاحوں کا ہجوم تھا۔ وہاں سے نکل کر ایک اور تاریخی عمارت ’’آیا صوفیہ‘‘ پہنچے۔ جو ماضی میں عیسائی گرجا گھر اور مسجد رہ چکا ہے۔ 360 تا 1453ء آیا صوفیہ‘ قسطنطنیہ کا سب سے بڑا گرجا گھر تھا۔ 29؍ مئی 1453ء تا 1934ء اسے مسجد میں تبدیل کردیا گیا۔ 1935ء میں اسے میوزیم بنادیا گیا۔ آیا صوفیہ اپنے زبردست گنبد کے لیے مشہور ہے جو بازنطینی فن تعمیر کی سب سے بہترین مثال سمجھا جاتا ہے۔ باور کیا جاتا ہے کہ اس عمارت نے فن تعمیر کی تاریخ کو بدل کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ تقریباً ایک ہزار سال تک اسے دنیا کے سب سے بڑے گرجا گھر کا اعزاز حاصل رہا۔ آج بھی آیا صوفیہ کی گنبد کے اندرونی حصے پر عیسائی مذہبی تصاویر کے علاوہ اللہ‘ محمدؐ اور خلفائے راشدینؓ کے ناموں کے بڑے کتبے موجود ہیں۔ 1453ء میں جب عثمانی ترک اور سلطان محمد دوم نے قسطنطنیہ فتح کیا تو آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ کئی عیسائی مذہبی علامتوں کو ہٹاتے ہوئے محراب‘ منبر اور بیرونی حصے میں چار میناروں کا اضافہ کیا گیا۔ آیا صوفیہ کی سیر کے بعد خلیج باسفورس کے دونوں کناروں کو جوڑنے والے ایک پل کے نیچے بنی ریستوراں میں لنچ کیا ۔ اس علاقہ میں جہاں دونوں طرف سمندر کا نیلگوں پانی نظر آتا ہے‘ استنبول کے کئی نہایت مشہور ریستوراں ہیں۔ جہاں مچھلیوں کی مختلف اقسام پر مشتمل ڈشس تیار کی جاتی ہیں۔ جس وقت ہم بندرگاہ سے گزر رہے تھے تب وہاں 16 مختلف ممالک سے آئے 23 تاریخی جہازوں کا ایک بیڑہ وہاں پہنچا۔ وہ ایک بین الاقوامی Regatta کے حصے کے طور پر آبنائے باسفورس میں لنگر انداز تھا۔ لنچ کے بعد استنبول کی علامت سمجھی جانے والی سلطان احمد مسجد (نیلی مسجد) پہنچ گئے۔ یہ مسجد سلطان احمد اول کے دور میں 1609ء اور 1616ء کے درمیان تعمیر کی گئی تھی۔ یہاں ساری دنیا سے آنے والے سیاحوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ آج بھی مسجد میں پنج وقتہ نمازوں کا اہتمام ہوتا ہے۔ ترکی مساجد میں خواتین کیلئے خصوصی گوشہ ہوتا ہے۔ نماز کے دوران سیاحوں کی آمد بند کردی جاتی ہے۔
حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے روضہ پر حاضری
دہلی سے آنے والے مہمانوں ڈاکٹر خواجہ اکرام اور ڈاکٹر رضوان الرحمن نے ہمیں پہلے ہی دن بتادیا تھا کہ مدینہ منورہ میں میزبان رسولؐ حضرت ابو ایوب الانصاریؓ کا روضۂ مبارک استنبول میں موجود ہے۔ اس کی زیارت کے بغیر استنبول کا سفر بے معنی ہے۔ نتیجتاً جمعرات کی شام جب وفد کے دیگر افراد خریداری میں مصروف ہوگئے تو ہم نے اپنے میزبان نور الدین کے ہمراہ حضرت ابو ایوب کے روضہ پر حاضری دی۔ قارئین اس بات سے واقف ہوں گے کہ یہ وہی صحابئ رسولؐ ہیں جنہیں حضور صلعم کی مدینہ ہجرت کے بعد ان کی میزبانی کی سعادت حاصل ہوئی تھی۔ حضورﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد حضرت ابو ایوب انصاریؓ نے اپنی زندگی اسلام کی تبلیغ اور اس کے پیام کے دفاع میں لگادی۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے دور میں جب اسلامی فوج نے شام‘ فلسطین اور مصر فتح کیا تو وہ فوج کا حصہ تھے۔ انہوں نے حضرت عثمانؓ کے دور میں قبرص کی فتح میں بھی حصہ لیا تھا۔ حضرت علیؓ نے عراق میں اپنے قیام کے دوران حضرت ابو ایوبؓ کو مدینہ منورہ میں اپنا نائب صدر مقرر کیا تھا۔ انہیں مسجد نبویؐ کی امامت کا بھی اعزاز حاصل رہا۔ ضعیف العمری کے باوجود حضرت ابو ایوبؓ سال میں کم از کم ایک مرتبہ جہاد میں حصہ لیتے۔ 49ھ میں استنبول کے محاصرے کے دوران جب ان کی عمر 80 سال سے زائد تھی انہوں نے جام شہادت نوش کیا۔ میزبان رسولؓ سے جب وہ زخموں سے چور ہوچکے تو ان کے ساتھیوں نے آخری خواہش دریافت کی تو حضرت ابو ایوبؓ نے کہا کہ انہیں استنبول شہر کی فصیل کے نزدیک سپرد لحد کیا جائے۔ بازنطینی شہنشاہ نے جب مسلم فوج کی بڑی تعداد کو جنازے میں شریک دیکھا تو اس نے اپنے جاسوس بھیجے۔ اسے بتایا گیا کہ صحابی رسولؓ شہید ہوئے ہیں اور انہیں وصیت کے مطابق فصیل شہر کے قریب سپرد لحد کیا جارہا ہے۔ بازنطینی شہنشاہ کانسٹنٹینوس چہارم نے مسلمانوں کے لشکر کو پیام بھیجا کہ ان کی فوج کی واپسی کے بعد وہ حضرت ابو ایوبؓ کی قبر کی بے حرمتی کرے گا۔ جس پر مسلم فوج کے سپہ سالار نے وارننگ دی کہ اگر ایسی کوئی حرکت کی گئی تو مسلمان علاقوں میں عیسائیوں کو بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ انتباہ کارگر ثابت ہوا اور بازنطینی فرمانروا اپنے ناپاک ارادے سے باز آگیا۔ کئی صدیاں گزرنے کے بعد حضرت ابو ایوبؓ کی قبر کا نشان مٹ گیا تھا۔ حضرت ایوبؓ کی شہادت کے تقریباً 800 سال بعد سلطان فاتح محمد نے استنبول کا محاصرہ کرلیا۔ سلطان اس بات سے واقف تھا کہ حضرت ابو ایوبؓ نے اسی علاقے میں جامِ شہادت نوش کیا تھا۔ اس نے صحابیؓ رسول کی قبر کی بازیافت کا تہیہ کرلیا۔ تاہم شہر کے محاصرے نے اسے مہلت نہیں دی۔ ممتاز ترک شاعر یحییٰ کمال کے مطابق جب محاصرہ طویل اور صبر آزما ہوگیا تو سلطان کے پیر و مرشد شمس الدین نے کشف کے ذریعہ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی قبر مبارک کا پتہ چلا لیا۔ عثمانی فوج میں جیسے ہی یہ خبر پھیلی سپاہیوں کے حوصلے بلند ہوگئے اور استنبول مسلمانوں نے فتح کرلیا۔ ترکوں کے لیے حرمین شریفین اور مسجد اقصیٰ کے بعد حضرت ابو ایوبؓ کی مزار مبارک اور اس سے متصل ایوب سلطان مسجد چوتھا مقدس ترین مقام ہے۔ ترک عوام‘ حضرت ابو ایوبؓ کو ایوب سلطانؓ کے نام سے یاد کرتے ہیں اور انہیں استنبول کی روح قرار دیا جاتا ہے۔ ترک عوام کے خیال میں حضور ﷺ نے حضرت ابو ایوبؓ کو استنبول کے لیے تحفے کے طور پر بھیجا تھا۔
کونیا میں آدھا دن
جمعرات کی شب استنبول سے سڑک کے راستے اناطولیہ کے شہر کونیا روانہ ہوئے جو مشہور صوفی شاعر و فلسفی مولانا جلال الدین رومی کا مرکز ہے۔ یہیں ان کا مزار بھی ہے جہاں مختلف ممالک کے عقیدتمند حاضری دیتے ہیں۔ کونیا شہر دراصل سلجوق خاندان کا پایۂ تخت رہا ہے۔ یہ نہایت صاف ستھرا شہر ہے۔ فضاؤں میں پاکیزگی اور روحانیت کی مہک ہے۔ ہمیں توقع تھی کہ استنبول سے کونیا کا سفر مختصر ہوگا لیکن جب سورج چڑھنے کے باوجود کونیا کے آثار نظر نہیں آئے تو وفد کے ارکان نے ڈرائیور سے فاصلہ دریافت کیا۔ تب ہمیں پتہ چلا کہ یہ 800 کلو میٹر کا سفر ہے۔ تاہم سرسبز وادیوں اور خوبصورت نظاروں نے سفر کی طوالت اور تھکان کا احساس بڑی حد تک دور کردیا۔ ترکی میں معاشی خوشحالی کا یہ عالم ہے کہ قومی شاہراہ کے آس پاس چھوٹے چھوٹے قریہ میں بھی جہاں 10 تا 15 مکانات ہوں عالیشان ’’ولا‘‘ تعمیر کیے گئے ہیں۔ کچے مکانات دیہی علاقوں میں بھی نظر نہیں آتے۔ ایک اور خوبی یہ ہے کہ ہر چھوٹی بڑی آبادی میں مساجد نمایاں طور پر نظر آتی ہیں۔ جمعہ کا دن تھا تقریباً 12 بجے کونیا پہنچے اور سیدھے مولانا یونیورسٹی کا رخ کیا۔ یہ جامعہ‘ مولانا جلال الدین رومی سے معنون ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر بہا الدین آدم وائس چانسلر اور سرہاد تیکی لیوغلو جنرل سکریٹری نے خیر مقدم کیا۔ یہ یونیورسٹی حال ہی میں قائم ہوئی ہے۔ گُلین تحریک سے وابستہ ایک تاجر نے عارضی طور پر ایک وسیع عمارت جو شاپنگ مال کے لیے تعمیر کی گئی تھی‘ یونیورسٹی کے استعمال کے لیے بلا معاوضہ دے دی ہے۔ مستقل عمارت کی عنقریب تعمیر ہوگی۔ وائس چانسلر نے بتایا کہ ابتدعاً سائنس اور انجینئرنگ کے کورسس شروع کیے گئے ہیں۔ انہوں نے تعلیم کے فروغ میں گُلین تحریک اور اس سے وابستہ افراد کے رول اور بے لوث خدمات کا حوالہ دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ یونیورسٹی ٹرسٹ کے ارکان جب کبھی کسی اجلاس میں شرکت کرتے ہیں تو وہ ناشتہ کی قیمت تک اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں تو وفد کے ارکان اپنی حیرت چھپانہ سکے۔ پروفیسر خالد سعید نے اس موقع پر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کا تعارف پیش کرتے ہوئے پروفیسر محمد میاں وائس چانسلر کی وساطت سے مولانا رومی یونیورسٹی کے ساتھ یادداشت مفاہمت کی خواہش کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر بہاء الدین اور جناب سرہاد نے اس تجویز پر خوشنودی ظاہر کرتے ہوئے گہری دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ پروفیسر خالد سعید نے چار مینار کا یادگار تحفہ بھی میزبان جامعہ کے عہدیداروں کو پیش کیا۔ گیسٹ ہاؤز میں کچھ دیر سستانے کے بعد مولانا رومی کی مزار پر حاضری دینے روانہ ہوگئے۔ جمعہ کی شام مولانا جلال الدین رومیؒ مغرب میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے مسلمان شاعر ہیں۔ کیونکہ انہوں نے خالق کے لیے مخلوق سے محبت پر زور دیا۔ مولانا جلال الدین رومی کے مزار پر فاتحہ خوانی کے بعد متصل میوزیم کا معائنہ کیا جہاں قرآنِ مجید کے نہایت نادر نسخے رکھے ہیں۔ ان میں حیدرآباد کے 8 ویں نظام نواب میر برکت علی خان کے عطیہ کردہ نادر نسخے بھی شامل ہیں۔ مولانا رومی کے مزار سے نکلنے کے بعد وسیع صحن میں ہمارے میزبان نور الدین نے تصوف کے موضوع پر بحث چھیڑ دی۔ انہوں نے بتایا کہ تصوف کے معنی یہ نہیں کہ آدمی شریعت اور شرعی قوانین سے بے بہرہ ہوجائے۔ مولانا رومی کے آستانے سے ہم سیدھے ایک اسکول پہنچے۔ یہ اسکول بھی گُلین تحریک سے وابستہ گروپ چلا رہا ہے جس کا شمار ترکی کے نہایت معیاری مدارس میں ہوتا ہے۔ اسکول کی ہمہ منزلہ نہایت خوبصورت عمارت کو دیکھنے سے میڈیکل یا انجینئرنگ کالج کا گماں ہوتا ہے۔ چونکہ شام کا وقت تھا۔ جماعتوں کو چھٹی ہوچکی تھی لیکن چوتھی منزل پر ننھے بچے ثقافتی پروگرام پیش کر رہے تھے۔ کونیا کے تاجر مولود شیران کی خوبصورت قیامگاہ پر رات کے کھانے کے بعد ہمارا گروپ ترکی کے دارالحکومت انقرہ روانہ ہوگیا۔ مشہور سوشیل نیٹ ورکنگ سروس ’’Orkut‘‘ تیار کرنے والے سافٹ ویئر انجینئر اورکت بایوککوکتین کا تعلق کونیا ہی سے ہے۔
انقرہ کے شب و روز
انقرہ ترکی کا دوسرا بڑا شہر اور دارالحکومت ہے۔ یہ اناطولیہ علاقہ کا وسیع حصہ ہے۔ اسی شہر میں تمام غیر ملکی سفارتخانے بھی ہیں۔ کونیا سے انقرہ پہنچتے پہنچتے صبح ہوگئی۔ یہاں ہمیں ایک عمدہ گیسٹ ہاؤز میں ٹھہرایا گیا۔ ہم نے ہندوستان میں ہمہ پہلو سیکیوریٹی Multi layer security دیکھی تھی لیکن پاکی اور صفائی کا ہمہ پہلو نظام ترکی میں دیکھنے کو ملا۔ گیسٹ ہاؤز میں داخل ہوتے ہی جوتے اتارنے پڑے۔ کپ بورڈ میں رکھی مخصوص چپل پہننے وک دی گئی۔ بیت الخلاء میں استعمال کیلئے ایک علیحدہ ربر سے بنایا ہاف شو رکھا ہوا تھا۔ خاص بات یہ تھی کہ گیسٹ ہاؤز کے تمام کمروں میں باتھ روم تو اٹیچ تھا لیکن بیت الخلاء کمروں سے دور فاصلے پر تھے۔ مزید یہ کہ بیت الخلاء ہندوستانی طرز کے تھے۔ ویسٹرن اسٹائل سے گریز کیا گیا تھا۔ سمان یولو اسکول کے ہاسٹل میں بھی صفائی کا یہی نظم ہے۔ ناشتے کا اہتمام ترک تاجر اسماعیل سرغان کی قیامگاہ پر کیا گیا۔ ہمارا گیسٹ ہاؤز سمان یولو ہائی اسکول (انقرہ) کی شاندار عمارت سے متصل تھا لیکن سینچر ہونے کے باعث اسکول بند تھا۔ دو پہر میں جدید ترکی کے معمار مصطفی کمال اتاترک کے مقبرے پر پہنچے۔ جسے انقرہ میں سیاحتی مرکز کے طور پر فروغ دیا گیا ہے۔ اتاترک کی آخری قیامگاہ رومن طرز تعمیر کی یاد دلاتی ہے۔ اتاترک کے کئی ’’کارناموں‘‘ میں ترکی کو سیکولر جمہوریت میں تبدیل کرنے کے علاوہ ترک زبان کے رسم الخط کی تبدیلی بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ترکی میں خواندگی کی زبردست شرح کے باوجود عوام کی بڑی اکثریت عربی اور فارسی رسم الخط سے نابلد ہے۔ ترکوں کو یہ جان کر بڑی حیرت ہوتی ہے کہ لفظ اردو‘ ترک زبان کی دین ہے۔ دو پہر میں ’’کوجا تی پے‘‘ مسجد پہنچے جسے مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی مسجد کہا جاتا ہے۔ ہفتہ کی دوپہر انقرہ کے مشہور اناطولین سیویلائیزیشن میوزیم کی بھی سیر کی۔ جہاں قدیم ترک تاریخ کے آثار محفوظ کیے گئے ہیں۔ واپسی میں انقرہ کے قدیم شہر کا بھی نظارہ کیا۔
اتوار کی صبح انقرہ میں 8 ویں انٹرنیشنل ترک اولمپیاڈ میں ثقافتی نمائش کا معائنہ کیا۔ تقریباً 120 ممالک شریک تھے۔ ہم جس وقت وہاں پہنچے ثقافتی پروگرام نہیں ہو رہے تھے لیکن مختلف ممالک کے اسٹالس پر زبردست رونق تھی۔ عراق کا اسٹال سب سے زیادہ پرہجوم تھا۔ ہندوستان کے اسٹال کے باہر دہلی کے ایک اسکول کی لڑکی الیزا‘ ترک خواتین کے ہاتھوں پر مہندی کے ڈیزائن ڈال رہی تھی۔ پاکستان کے اسٹال پر بھی یہی منظر تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اولمپیاڈ میں شامل تمام اسکول وہی ہیں جو مختلف ممالک میں ترکی اور گُلین تحریک نے قائم کیے ہیں۔ دو پہر میں ترک پارلیمنٹ کے ڈپٹی اسپیکر نوزاد پکدیل نے ہوٹل میں مہمان وفد کے اعزاز میں پر تکلف ظہرانے کا اہتمام کیا۔ انہوں نے ہندوستانی جمہوریت اور کثرت میں وحدت کے جذبے کی ستائش کی۔ اس موقع پر جناب نریندر لوتھر نے ہند ۔ ترکی تعلقات اور بالخصوص نظام حیدرآباد کے ترک روابط پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ ساتویں نظام میر عثمان علی خان نے اپنے دونوں صاحبزادوں کی شادی سلطنت عثمانیہ کے آخری فرمانروا سلطان عبدالمجید کی صاحبزادی اور بھتیجی سے پیرس میں کی تھی۔ جناب نوزاد اگرچہ حکمراں جماعت کے ایک سینئر لیڈر ہیں لیکن ان کے ساتھ کوئی سیکیوریٹی نہیں تھی۔ مہمان وفد کے ساتھ تبادلہ خیال سے وہ اس قدر متاثر ہوئے کہ بعد میں انقرہ کے ایک ہاسپٹل کے ہمارے دورے میں شامل ہوگئے۔
فتح اللہ گُلین کون ہیں؟
قارئین کو یقیناًاس بات کی جستجو ہوگی کہ محمد فتح اللہ گُلین آخر کون ہیں جن کا ہم بار بار تذکرہ کرچکے ہیں۔ انہی کی تحریک سے وابستہ گروپ انڈیالاگ نے ہمارے دورے کا اہتمام کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ ترکی میں جتنے اسکول‘ میڈیا اداروں‘ جامعات‘ دیگر اداروں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے ہماری ملاقات کروائی گئی ان کا تعلق اسی تحریک سے تھا۔ باور کیا جاتا ہے کہ گُلین کے حامی اور پیرو‘ ترکی کے موجودہ مذہب پسندانہ کردار میں اہم رول ادا کر رہے ہیں۔ فتح اللہ گُلین 1941ء میں اناطولیہ کے موضع میں ایک نہایت مذہبی خاندان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اسلامی علوم کے ساتھ ساتھ حفظ قرآن‘ تفسیر‘ حدیث‘ فقہ اور تصوف پر دسترس حاصل کی۔ 1959ء میں انہیں محکمہ مذہبی امور نے مبلغ کی سند عطا کی۔ 18 سال کی عمر میں وہ ایک مسجد کے امام مقرر کیے گئے۔ ترک دانشور‘ فلسفی اور امن کے علمبردار فتح اللہ گُلین نے ملک اور بین الاقوامی سطح پر انسانی شخصیت پر مرکوز ایک سماجی سیول تحریک کا آغاز کیا ہے۔ وہ اعلیٰ انسانی اقدار اور امن عالم کے علمبردار ہیں۔ فتح اللہ گُلین نے زائد از 20 برس تک مختلف مساجد میں خطیب و امام کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اسی دور میں ان کے رفقاء کی بڑی تعداد تیار ہوگئی۔ حالیہ عرصے میں مختلف مذاہب کے ماننے والے ان کا ساتھ دینے لگے۔ گُلین اپنی تحریک کو رضاکاروں کی برادری قرار دیتے ہیں جنہوں نے دوسروں کی خدمت کے لیے خود کو وقف کر رکھا ہے۔ وہ خود کو قائد نہیں کہتے۔ اسلامی یا مذہبی تحریک کا لیبل لگانے کے بجائے وہ اعلیٰ انسانی اقدار اور انسانی شخصیت سازی پر اپنے کام اور مساعی کو مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ گُلین تحریک کے زیر اثر نہ صرف ترکی بلکہ ساری دنیا کے 100 سے زائد ممالک میں ترک انتظامیہ کے اسکول قائم ہیں۔ وسطی ایشیاء اور آفریقہ میں اس گروپ نے زبردست تعلیمی خدمات انجام دی ہیں۔ ہمارے رابطہ کار نور الدین‘ جن کا تعلق کرغزستان سے ہے‘ اسی تحریک کے قائم کردہ اسکول سے فارغ ہیں۔ قارئین کو یہ جان کر شاید تعجب ہوگا کہ حیدرآباد میں بھی اس تحریک کی ضمنی تنظیم نے Learnium کے نام سے 3 اسکول قائم کیے ہیں۔ فتح اللہ گُلین اور ان کی تحریک کے بارے میں ہمارا مشاہدہ اور مطالعہ فی الحال محدود ہے اس تعلق سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے (قارئین ویب سائٹ www.fgulen.com پر مزید معلومات حاصل کرسکتے ہیں جہاں اردو لنک بھی دستیاب ہے) ۔ ترکی کے دورے میں ہم نے ایک ایسے مسلم ملک کا مشاہدہ کیا جو خواب غفلت سے بیدار ہو رہا ہے۔ جہاں کا معاشرہ خود غرضی اور نفسا نفسی کے بجائے بے لوث خدمت کے جذبے پر پختہ یقین رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تہذیبوں کے تصادم کی گوج کے دور میں ترکی کی سرسبز وادیوں سے تہذیبوں کے اتحاد کے نعرے کی صدا سنائی دے رہی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اس طرح کی کوششیں جو کہ غیر سرکاری سطح پر کی جارہی ہیں بارآور ثابت ہوں گی۔
وطن سے دور ہم وطنوں سے شناسائی
ترکی کے دورے کا دلچسپ پہلو یہ تھا کہ 12 رکنی وفد کے بیشتر ارکان ایک دوسرے سے شخصی طور پر ناواقف تھے۔ لیکن اس کے باوجود یہ سفر سب کے لیے نہ صرف یادگار ثابت ہوا بلکہ وطن سے دور ہمیں اپنے برادران وطن کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع بھی ملا۔ ہمیں اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ ہم اپنے معاشرے میں کس قدر الگ تھلگ ہو کر رہ گئے ہیں۔ ایک دوسرے سے تعارف اور شناسائی کے لیے شاید اب سات سمندر پار کرنے کی ضرورت ہے۔ وفد میں جناب سریش ریڈی جیسے سینئر سیاست دان کے علاوہ جناب تراب الحسن اور جناب نریندر لوتھر کی شکل میں دو بزرگ ریٹائرڈ آئی اے ایس عہدیدار بھی تھے۔ ڈاکٹر اے گوپال کرشنن نے جو انگریزی اخبارات کے کالم نگار بھی ہیں‘ بین الاقوامی مسائل پر اپنی گہری نظر کے ذریعہ نہ صرف میزبانوں کو بلکہ وفد میں شامل دیگر ارکان کو بھی متاثر کیا۔ اُردو ادب اور درس و تدریس کے حلقوں میں پروفیسر خالد سعید کا نام محتاج تعارف نہیں۔ ڈاکٹر سنجے سبودھ ہندوستان کی عہد وسطیٰ کی تاریخ کے ماہر ہیں ۔ ڈاکٹر ستیہ پرکاش نوجوان اور معلومات سے لیس اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ ڈاکٹر قرۃ العین حسن اور ڈاکٹر دلنواز ہمیشہ وفد میں Live Wire کا کام کرتیں۔ جناب نریندر لوتھر کی شریک حیات‘ محترمہ بندی لوتھر کو جب بھی موقع ملتا ملک کی تقسیم سے قبل پاکستان میں عمر کے ابتدائی حصے کو یاد کرتیں اور حالیہ عرصے میں دورۂ پاکستان کے قصے سناتیں۔ محترمہ سنگا مترا ملک ایک سماجی کارکن ہونے کے ساتھ ساتھ اچھی گلوکارہ بھی ہیں۔ دوران سفر انہوں نے کئی مرتبہ سریلے نغمے چھیڑ کر سماں باندھ دیا۔ ڈاکٹر قرۃ العین حسن، جنہیں گھر والے اور قریبی دوست عینی کہتے ہیں‘ ہمیشہ اپنے والد محترم جناب تراب الحسن کی فکر میں رہتیں۔ تاہم ’’بابا‘‘ (تراب الحسن صاحب) کے جوش کا یہ عالم تھا کہ پانچویں منزل پر لفٹ کے بغیر منٹوں میں پہنچ جاتے۔ جبکہ ان سے کافی کم عمر افراد بھی سیڑھیاں چڑھنے میں تردد کا مظاہرہ کرتے تھے۔ جناب نریندر لوتھر نہایت نرم خو اور سلجھی ہوئی شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ بھی پاکستان میں پیدا ہوئے ۔ ملک کی تقسیم سے قبل پنجاب کے اُس علاقے میں پیداہوئے جو اب پاکستان کا حصہ ہے۔ اردو کے علاوہ عربی اور فارسی جانتے ہیں۔ ان کے والد محترم عربی اور فارسی کے عالم اور قرآن کے مترجم تھے۔ انہوں نے قرآن مجید اور بھگوت گیتا میں پائے جانے والے مشترکہ نکات قلمبند کیے تھے۔ وفد میں جناب وٹھل راؤ کی شخصیت بھی نہایت متاثر کن تھی۔ سادہ لباس اور سادہ مزاج شخصیت کے مالک وٹھل راؤ نہایت کٹر سبزی خور ہیں۔ ساتھیوں کے کام آنا ان کی عین فطرت ہے۔ پیر 31؍ مئی کی صبح 8 بجے انقرہ سے بذریعہ بس ہم استنبول روانہ ہوئے۔ سنگا مترا ملک نے مکیش کے مشہور گیت سہانہ سفر اور یہ موسم حسیں۔۔۔ کے ذریعہ اس حسین سفر کی بخوبی ترجمانی کی۔ پروفیسر خالد سعید نے جو ایک اچھے شاعر بھی ہیں‘ منتخب اشعار سناکر سب کو محظوظ کیا لیکن ہماری حیرت کی اس وقت کوئی انتہاء نہیں رہی جب خالد سعید صاحب نے بس میں موجود مائک تھام کر محمد رفیع کے چند یاد گار گیت نہایت سلیقے سے پیش کیے۔ اس طرح شام 4 بجے استنبول کے اتاترک ہوائی اڈے سے ہم دوبئی روانہ ہوئے۔ ترکی کے دورے کی ڈھیر ساری یادیں سمیٹے منگل یکم ؍ جون 2010ء کی صبح 9 بجے شمس آباد انٹرنیشنل ایئر پورٹ پہنچنے کے بعد ہمارا یہ سفر اختتام کو پہنچا۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment