سید ابراہیم ملک بیا اکادمے سیھن ، نوادہ ،بھار ایک تحقیقی ،تصنیفی , تعلیمی اور سماجی ادارہ
Sunday, October 24, 2010
Friday, October 22, 2010
سر سید مرحوم اور مولانا قاسم نانو توہیؒ، ایک دوسرے کی نظر میں:ڈاکٹر شمس الہدیٰ دریابادی
ہندوستان کی تعلیمی تاریخ میں سرسیّد مرحوم اور مولانا قاسم نانوتوی کے نام انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ 1857کے انقلاب اور ہنگامہ خیز واقعہ نے برصغیر کی سیاسی، سماجی اور معاشی صورت حال کو ایک نئی کروٹ دی۔ لوگوں کے اذہان بری طرح متاثر بلکہ مجروح ہوچکے تھے اور اس ناکامی کو قبول کرنے پر آمادہ نہ تھے، لیکن اسے کیا کہئے کہ مغل شہنشاہیت کے رعب و دبدبہ کا طلسم ٹوٹ گیا اور یہ حقیقت آشکارا ہوگئی کہ ’’حکم کمپنی بہادر کا‘‘ نافذ ہوچکا ہے۔ انگریزوں کے ظلم و تشدد اور ہر موڑ پر عتاب کا نشانہ بننے والے خصوصاً ہی تھے، جنہیں گوروں نے اقتدار سے محروم کردیا تھا۔ یہی نہیں انہیں ہر جگہ امتیاز کا سامنا کرنا پڑا۔ مسلمانوں کو پسماندگی، افسردگی اور احساس محرومی سے نجات دلانے کے لیے مصلحین نے قدم اٹھایا اور بڑے خلوص و تندہی سے اپنے اپنے طور پر حالات کو درست اور اسباب کو دور کرنے میں اپنے آپ کو وقف کردیا۔ ایسے ہی لوگوں میں سرسید مرحوم اور مولانا قاسم نانوتوی کے نام نہ صرف قابل ذکر ہیں، بلکہ ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیمی تاریخ کی نشاۃ ثانیہ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہے۔
سرسید مرحوم مسلمانوں کے تمام مسائل کے حل کی درستگی جدید تعلیم میں تلاش کرتے ہیں، جب کہ مولانا قاسم نانوتوی اس کے لیے احیائے علوم دین کو ضروری سمجھتے ہیں۔ اول الذکر انگریزوں سے تعلقات کو استوار کرنے کے خواہاں ہیں، جب کہ آخر الذکر انگریزوں سے کسی بھی طرح کی معاونت کو مضر گردانتے ہیں۔ سید صاحب نئے علوم کے ساتھ جدید تہذیب کو بھی اختیار کرنے کی دعوت دیتے ہیں تاکہ معیار زندگی بلند ہو اور احساس کمتری سے نجات ملے، اس کے برعکس مولانا نانوتوی علوم دین کے ساتھ اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے کو سود مند کہہ رہے ہیں، حقیقی معنوں میں یہی مسلمانوں کی بقا کا ضامن ہے،لیکن اس سے ہرگز یہ نہ سمجھ لینا چاہیے کہ نانوتوی کے رفقا نے سید صاحب کے تعلیمی مشن کی مخالفت کی یا سید صاحب نے نانوتوی کے نقطۂ نظر اور ان کی جدو جہد کو غیر ضروری سمجھا۔ ہاں سید صاحب کی مخالفت ہوئی، بلکہ شدید مخالفت ہوئی اور ان کی ذات کو مجروح کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی، لیکن ارباب دیوبند کا اس سے تعلق نہ تھا۔ مخالفت کرنے والوں میں دو نام قابل ذکر ہیں، ایک ڈپٹی کلکٹر حالیؔحیاتِ جاوید میں رقم طراز ہیں:’’مدرسۃ العلوم کے سب سے بڑے مخالف دو بزرگ تھے جو باجود ذی وجاہت اور ذی رعب ہونے کے علاوہ علومِ دینیہ سے بھی آشنا تھے، ایک مولوی امداد ڈپٹی کلکتہ کانپور اور دوسرے مولوی علی بخش خاں سب جج گورکھپور۔ اگرچہ دونوں حضرات مذہبی عقائدو خیال کے لحاظ سے ایک دوسرے کے ضد حقیقی تھے یعنی پہلے سخت وہابی اور دوسرے سخت بدعتی اور یہ ایسا اختلاف تھا کہ کسی بات پر دونوں کا اتفاق کرنا محال عادی معلوم ہوتا تھا باوجود اس کے مدرسۃ العلوم کی مخالفت پر دونوں ہم زبان اور متفق الکلمہ تھے۔‘‘
فتویٰ کی مہم انہیں دونوں حضرات نے چلائی تھی۔ دونوں لوگ فتوؤں کی آڑ میں سرسید کو خارج از اسلام کہتے تھے۔ یہ امر قابل لحاظ ہے کہ جن حضرات نے فتویٰ دیا ان کے سامنے سرسید کی ذات نہیں تھی، بلکہ جس دن عقائد فتویٰ جاری کیا جو استفتا میں درج ہے، لیکن ان دونوں حضرات نے فتوؤں کے ساتھ سرسید کے نام کو جوڑ کر ان کی ذات کو نشانہ بنایا۔
سرسید مرحوم اور مدرسہ دیوبند
سرسیدمرحوم کو کسی دینی درسگاہ سے بالکل اختلاف نہیں تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ جدید علوم کے ساتھ علوم دینیہ کی بھی اشاعت ہو، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مدرسۃ العلوم علی گڑھ میں اس کا شعبہ بھی قائم کیا۔ مدرسہ دیوبند کے وہ ہمیشہ حامی رہے ہیں اور اس کی کامیابی چاہتے تھے، چنانچہ جب مدرسہ دیوبند کے مہتمم مولانا رفیع الدین صاحب نے سرسید کے پاس مدرسہ کی سالانہ رپورٹ بھیجی، جس میں مدرسہ کی طرف سے مسلمانوں کی بے توجہی اور غفلت کا رونا رویا گیا تھا، اس کو پڑھ کر سرسید کے دل پر بہت اثرا ہوا، چنانچہ یکم جمادی الثانی ۱۲۹۰ھ کے تہذیب الاخلاق میں ’’عربی مدرسہ دیوبند اور مسلمانوں کا جھوٹا دعوۂ دین داری‘‘ کے عنوان سے تین صفحہ کا مضمون لکھا۔ یہ ایک درد بھری تحریر ہے، جس میں مسلمانوں کی بے حسی پر اظہار افسوس کیا ہے، وہ لکھتے ہیں: ’’اول بلحاظ مسلمانوں کے جوش مذہبی کو ہم سمجھتے تھے کہ جو مدرسہ ہم قائم کرنا چاہتے تھے، جس میں علوم انگریزی اور دیگر علوم دنیاوی بشمول علوم دینی پڑھائیںگے، اس پر متعصب دین دار اعتراض کرتے ہیں اور اس کو کرسٹانی مدرسہ ٹھہراتے ہیں اور اسی سبب سے لوگوں کو اس میں چندہ دینے سے منع کرتے ہیں تو عربی مدرسہ دیوبند جس میں بجز مسلمانی کے اور کچھ نہیں ہے، جس میں وہی پرانے علوم پڑھائے جاتے ہیں جن کو مسلمان چاہتے ہیں ۔ بڑے بڑے مسلمانوں نے ضرور مدد کی ہوگی۔ رپورٹ کو دیکھنے سے ہم کو نہایت مایوسی ہوئی… مسلمانوں پر نہایت افسوس ہے کہ ایسے مدرسہ میں جیسا کہ دیوبند کا عربی مدرسہ ہے اور جس میں مولوی محمد قاسم سا فرشتہ سیرت شخص نگران ہے اور مولوی محمد یعقوب صاحب سا شخص مدرس ہے، کچھ مدد نہ کریں۔‘‘
آگے طلبہ کی تعداد، صلاحیت اور انعامات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’قوم کا مسلمانی مدرسہ اور ایسی خراب اور محتاج حالت میں ہے۔ کہاں ہیں بڑے بڑے دین داری کا دعویٰ کرنے والے؟ اور کیوں مذہب اسلام کے مدرسہ کو ایسی حالت میں ڈال رکھا ہے… ہماری غرض اس تحریر سے مسلمانوں کو اس بات کی غیرت دلانا ہے کہ ان کے دونوں کام دین و دنیا سب خراب و ابتر ہیں، ان کو چاہیے کہ اس مدرسہ کی ایسی مددکریں اور ایسی اعلیٰ ترقی پر پہنچائیں جو اسلام کی رونق و شان کا نمونہ ہو۔‘‘
دونوں کی شخصیت ایک دوسرے کی نظر میں
جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے کہ سرسید کی ذات کو اربابِ دیوبند نے کبھی بھی طنز و تعریض اور ملامت کا نشانہ نہیں بنایا، بلکہ ان کے کام، خلوص اور مسلمانوں کے تئیں ہمدردی کو ہمیشہ سراہا ہے، لہٰذا مولانا نانوتوی سرسید کی تعریف میں ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں:’’سید صاحب کی اولوالعزمی اور دردمندیٔ اسلام کا معتقد ہوں اور اس وجہ سے ان کی نسبت اظہار محبت کروں تو بجا ہے۔‘‘
اس طرح سرسید مرحوم بھی مولانا نانوتوی کے دل سے معتقد تھے۔ مولانا قاسم نانوتوی کے انتقال پر بہت لوگوں نے تعزیتی تحریریں لکھیں، لیکن جو تحریر سرسید نے لکھی وہ بے مثال ہے۔ شاید کسی اور نے ایسی تعزیتی تحریر نہ لکھی ہو، یہ اس بات کی غماز ہے کہ سرسید مرحوم اور مولانا نانوتوی میں کس قدر تعلق تھا۔ یہ تحریر علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ 24اپریل1880کے 468صفحات پر شائع ہوئی اس کے چند اقتباسات نقل کرتا ہوں، سرسید لکھتے ہیں:’’افسوس ہے کہ جناب ممدوح(مولانا قاسم نانوتوی) نے 15اپریل1880کو ضیق النفس کی بیماری میں بمقام دیوبند انتقال فرمایا۔ زمانہ بہتوں کو رویا ہے اور آئندہ بھی بہتوں کو روئے گا، لیکن ایسے شخص کے لیے جس کے بعد اس کا کوئی جانشین نظر نہ آئے تو نہایت رنج و غم اور افسوس کا باعث ہوتا ہے۔‘‘
ان کے کمال بزرگی کا اعتراف کرتے ہوئے اسی مضمون میں آگے لکھتے ہیں:’’مولوی محمد قاسم مرحوم نے اپنی کمال نیکی اور دین داری اور تقویٰ اور ورع اور ملسکینی سے ثابت کردیا کہ اس دلی کی تعلیم و تربیت کی بدولت مولوی محمد اسحق صاحب کی مثل اور شخص کو بھی خدا نے پیدا کیا ہے، بلکہ چند باتوں میں ان سے زیادہ۔‘‘
مدرسہ دیوبند کو ان کی یادگار بتاتے ہوئے اس سے مکمل تعاون کی اپیل کرتے ہیں:’’دیوبند کا مدرسہ ان کی نہایت عمدہ یادگاری ہے اور سب لوگوں کا فرض ہے کہ ایسی کوششیں کریں کہ وہ مدرسہ ہمیشہ قائم اور مستقل رہے اور اس کے ذریعہ سے تمام قوم کے دل پر ان کی یادگاری کا نقش جما رہے۔‘‘
الغرض سرسید مرحوم اور مولانا نانوتوی میں بعض اختلافات کے باوجود مقصدیت میں بڑی حد تک یگانگت اور مماثلت پائی جاتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس نے ایک دوسرے کے لیے عزت و احترام اور توقیر کا جذبہ پیدا کیا اور ان دونوں کے خلوص و للہیت اور ہندوستان میں مسلمان اور اسلام کے مستقبل کی فکر نے ہی علی گڑھ اور دیوبند کو وہ مقام عطا کیا اور اس نے وہ خدمات انجام دیںکہ کوئی بھی ان دونوں کی ہمسری نہ کرسکا۔
Sunday, October 17, 2010
معاشرے کو آج بھی سر سید کی ضرورت ہے:اسفر فریدی
ریحانہ بستی والا کی رپورٹ کے مطابق پروفیسر سندیپ منوہر دیسائی غریب طلبا کی تعلیم کا انتظام کرنے کے لیے ممبئی کی لوکل ٹرینوں پر لوگوں سے چندہ مانگتے ہیں۔ اس طرح اب تک وہ چار لاکھ روپے جمع کر چکے ہیں اور ایک اسکول چلارہے ہیں۔رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ ممبئی کی لوکل ٹرین میں پورا ہندوستان سفر کرتا ہے۔اس میں ہر فرقہ، ہر قوم ، ہر ذات اور تقریباً ہر ریاست کے باشندے ممبئی میں رہائش پذیرہیں اور ان کے لیے ٹرین ہی سفر کا بہترین اورآسان ذریعہ ہے۔اس لیے سندیپ منوہر دیسائی صاحب نے لوکل ٹرین میں سفر کرتے مسافروں سے مددحاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔
’تعلیم کے لیے بھیک‘ کے عنوان سے شائع رپورٹ کے اس ابتدائی حصے کو پڑھنے کے بعد سرسیّد احمد خاں کے عظیم کارنامے کی اہمیت کا اندازہ لگانا بہت زیادہ مشکل نہیں ہونا چاہیے۔
سرسیّد احمد خاں 17اکتوبر کودنیا میں آئے اور علیگڑھ تحریک کے اس بانی مبانی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے دنیا کے طول وعرض میں پھیلی علیگ برادری اس دن کو ’سرسیّدڈے‘ کے طور پر مناتی ہے۔ علم کی شمع سے اپنی زندگی کو روشن کرنے والی علیگ برادری کا اپنے آپ میں یہ بہت بڑا کارنامہ ہے کہ اس نے اپنے محسن کو کبھی نہیں بھلایا۔ قابل غور ہے کہ سرسید پر الزامات کے تیر برسانے والوں میںسے کوئی بھی تعلیمی اداروںکو قائم کرنے کے معاملے میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی کی خاک تک نہیں پہنچ سکا۔یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ جس سرسید کو کافر اور مشرک کہا جاتا رہا، ان ہی کے قائم کردہ ادارے میں دین و مذہب کی تبلیغ واشاعت کے لیے قائدین کی فوج تیار کی جاتی ہے۔یہاں میرے لیے واضح کردینا ضروری ہے کہ سرسید کے خلاف کیے گئے متنازعہ تبصرے پر میں کوئی رائے نہیں دینا چاہتا، میں تو بس اس حقیقت کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں، جو مجھے اور دوسروں کو بھی نظر آرہی ہے۔
ظاہر میں تو سرسیّد نے صرف ہندوستان ہی میں علم کی شمع روشن کی، مگر دیکھا جائے تو اس کی روشنی سے پوری دنیا جگمگا رہی ہے۔ملک میں فروغ تعلیم کی عظیم ترین تحریک شروع کرنے والے سرسیّدکے قدوقامت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آج تک کسی دوسرے شخص کے ذریعے لگایا گیا علم کا پودا اتنا بڑا تناور درخت نہیں بن پایا۔
سرسیّد کے حوالے سے ایک اور اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو تقریباً ایک ہزار برس کے خواب غفلت سے بیدار کیا۔واضح ہو کہ بغداد میں خلافت عباسیہ کے خاتمے کے بعد علم کی قندیل کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے والے مسلمان خود جہالت کے اندھیرے میں ایسے گرتے گئے کہ سیکڑوں برس تک ان کی بڑی تعداد اسی اندھیرے میں گم رہی۔مسلمانوں کے ہاتھوں حکومت اور سلطنت کی باگ ڈور تو رہی مگر فرض ہونے کے باوجود وہ علم کو ترک کرتے چلے گئے۔حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ ان کے ہاتھوں میں کتاب قلم تھمانا ایک چیلنج بن گیا۔ ان حالات میں جبکہ ہندوستان کے مسلمانوں کے ہاتھوں سے حکومت کی طاقت بھی چلی گئی تھی اورملک کے نئے حاکم انگریز انہیں اجتماعی طور پر ظلم و ستم کا نشانہ بنارہے تھے، سرسید نے ایک راہ نجات کھوج نکالی۔
علم اور سیاست کے درمیان انتخاب کا جب موقع تھا تو سرسیّد نے علم کو سیاست پر مقدم جانا اور اس کی وجہ سے ’انگریزی حکومت کاحامی ہونے ‘ تک الزام اپنے سرپر اوڑھا۔مگر تاریخ شاہد ہے کہ ہاتھوں میں علم کا چراغ لے کر جگہ جگہ گھومنے والے اس ریش دار نے انگریزوں کواپنی تحریروں سے ایسے ایسے آئینے دکھائے جس کی اس دور میں کسی دوسرے نے ہمت نہیں دکھائی۔علم اور اقتدار میں سے علم کا انتخاب کرنا سرسیّد کا کتنا درست فیصلہ تھا اس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کے بہت سے ملکوں میں مسلمان حاکم توہیں مگر اے ایم یو جیسی کوئی درسگاہ نظر نہیں آتی۔پورے عالم اسلام میں سرسید کے بعد کوئی بھی دوسرا سرسیّد پیدا نہیں ہوا۔
علم کے ساتھ ساتھ سرسیّد نے سماجی تانے بانے کے تحفظ پر بھی زور دیا۔ آج ہندوستان میں جس طرح کی معاشرتی کشمکش جاری ہے،اس کے پیش نظر بھی ہمیں سرسیّد ہی نظر آتے ہیں جو ہندوستان کو دلہن اور ہندواور مسلمان کو اس دلہن کی دو خوبصورت آنکھیں مانتے تھے۔
ایسے پرآشوب دور میں جبکہ تعلیم تجارت کا ایک ذریعہ بن چکی ہے اور معاشرے میں بات بات پر نفرت کی دیواریں کھڑی ہوجاتی ہیں، سرسیّد اور ان جیسے مصلحین کی تعلیمات سے لوگوںکو آگاہ کرنا اپنے آپ میں ایک بڑا فریضہ ہے۔
بشکریہ چوتھی دنیا