Showing posts with label بابری مسجد. Show all posts
Showing posts with label بابری مسجد. Show all posts

Tuesday, October 26, 2010

قانونی بے انصافی کا حل قانونی چارہ جوئی: ذیشان مصباحی



بابری مسجد متنازع اراضی کاطویل ترین ۰۶سالہ مقدمہ ۰۳ستمبر۰۱۰۲ءکو فیصل ہوگیا-اس فیصلے پر ”کھودا پہاڑ نکلی چوہیا“ کی مثل پورے طور پر صادق آرہی ہے- اس مقدمے کو فیصل کرنے کے لیے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے لکھنو بنچ نے تین ججز جسٹس دھرم ویر شرما، جسٹس صبغت اللہ خان اور جسٹس سدھیر اگروال کو مقرر کیا تھا- فیصلے کا خلاصہ یہ ہے کہ بابری مسجد کے وسطی گنبد کے مقام کو جس کے بارے میں متعینہ طور پر بھگوان رام کی جائے ولادت ہونے کا ہندو فریق کی طرف سے دعویٰ کیا گیا تھا، وہ درست ہے، اس لیے وہاں پر جو رام کی مورتیاں رکھی گئی تھیں، وہیں رہیں گی، پوجا پاٹ بھی جاری رہے گا، البتہ بابری مسجد اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے گا- ایک حصہ ہندوؤں کو، دوسرا نرموہی اکھاڑا کو اور تیسرا مسلمانوں کو یا بلفظ دیگر دو حصے ہندوں کواور ایک حصہ مسلمانوں کو دے دیا جائے گا- اس مقدمے کے چار بنیادی سوالات تھے، جن کی تحقیقات ہونی تھی، وہ سوالات اور جج صاحبان کے جوابات حسب ذیل ہیں:

۱- کیا بھگوان رام اس مقام پر پیدا ہوئے تھے

جسٹس شرما: ہاں! یہی وہ جگہ ہے جہاں وہ پیدا ہوئے تھے-

جسٹس اگروال: ہندؤں کا عقیدہ و ایمان یہی ہے کہ رام یہاں پیدا ہوئے تھے-

جسٹس خان: ہندو ایک زمانے سے یہ مانتے رہے ہیں کہ بشمول متنازع زمین کے اجودھیا کے اس وسیع خطے میں کہیں نہ کہیں رام پیدا ہوئے تھے- البتہ ۹۴۹۱ءسے چند عشرے قبل سے ہندو یہ ماننے لگے کہ وسطی گنبد کی جگہ ہی اصل رام جنم بھومی ہے-

۲- کیا متنازع عمارت ایک مسجد تھی؟ اگر ہاں تو اس کی تعمیر کس نے اور کب کی تھی؟

جسٹس شرما: یہ عمارت بابر کے ذریعے بنائی گئی تھی- یہ اسلامی تعلیمات کے برخلاف تعمیر ہوئی تھی- اس لیے مسجد نہیں تھی-

جسٹس اگروال: یہ ثابت نہیں ہوسکا ہے کہ عمارت بابر کے ذریعے بنائی گئی تھی یا اس کے عہد حکومت میں بنائی گئی تھی-ویسے مسلمان ہمیشہ اسے مسجد سمجھتے رہے اور اس میں نماز پڑھتے رہے-

جسٹس خان: یہ واضح نہیں ہے کہ اس کی تعمیرکب ہوئی تھی، البتہ یہ یا تو بابر کے ذریعے تعمیر ہوئی تھی یا اس کے حکم سے تعمیر ہوئی تھی اور یہ عمارت مسجد تھی-

۳- کیا اس کی تعمیر کے لیے کسی ہندو مندر کو منہدم کیا گیا تھا؟

جسٹس شرما: اس کی تعمیر ایک پرانی عمارت کو منہدم کر کے ہوئی تھی، جس کے بارے میں آرکیلوجیکل سروے آف انڈیا نے یہ پروف کردیا ہے کہ وہ کوئی بڑی ہندو عمارت تھی-

جسٹس اگروال: اس کی تعمیر ایک غیراسلامی مذہبی عمارت، جو ایک ہندو مندر تھی، کو منہدم کرنے کے بعد ہوئی تھی-

جسٹس خان: یہ ہندو مندروں کے ملبے پر تعمیر ہوئی تھی، جو ملبے ایک زمانے سے وہاں پڑے ہوئے تھے- ملبے سے کچھ میٹریل دوران تعمیر استعمال بھی ہوئے تھے-

۴-مورتیاں کب رکھی گئیں؟

جسٹس شرما اور جسٹس اگروال: وسطی گنبد کے نیچے ۲۲ اور ۳۲ دسمبر ۹۴۹۱ءکی درمیانی شب میں رکھی گئی تھیں-

جسٹس خان: وسطی گنبد کے نیچے ۳۲ دسمبر ۹۴۹۱ءکے ابتدائی گھنٹوں میں رکھی گئی تھیں-

ان بنیادوں پر جو فیصلہ صادر ہوا ہے، اس میں جسٹس سدھیر اگروال اور جسٹس صبغت اللہ خان ایک طرف ہیں اور جسٹس دھرم ویر شرما ایک طرف- جسٹس اگروال اور جسٹس خان کا اکثریتی فیصلہ یہ ہے کہ متنازع اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے گا- ایک حصہ رام للا کو، دوسرا نرموہی اکھاڑا کو اور تیسرا مسلمانوں کے حوالے کردیا جائے گا- اس تقسیم میں اس بات کا خیال رکھا جائے گا کہ وسطی گنبد کی جگہ جسے رام جنم بھومی تسلیم کیا گیا ہے، اسے ہندوں کے حوالے کردیا جائے- اسی طرح رام چبوترا، سیتا رسوئی اور بھنڈارے کی جگہ کو نرموہی اکھاڑا کے حوالے کردیا جائے گا- متنازع اراضی جو2.77 ایکڑ کو محیط ہے، اس کا مکمل ون تھرڈ حصہ مسلمانوں کو ضرور دیا جائے گا- حتمی تقسیم کے لیے متعلقہ فریقین تین مہینے کے اندر اپنی عرضی ہائی کورٹ میں داخل کریںگے-

جسٹس دھرم ویر کا فیصلہ ذرا مختلف ہے، وہ پوری زمین رام للا اور اس کے نمائندوں کے حوالے کرنے کو کہتے ہیں- ان کے مطابق ہندوں کے علاوہ دوسرے فریق ہمیشہ کے لیے اس زمین سے الگ ہوجائیں اور کوئی Interfareیا Objectionنہ کریں اور نہ ہی رام جنم بھومی مندر کی تعمیر میں کوئی رکاوٹ پیدا کریں-

فیصلہ بابری مسجد پر ایک نظر:- بابری مسجد پر جو فیصلہ آیا ہے، وہ کئی اعتبار سے محل نظر ہے- سب سے اہم تبصرہ جو اس پر کیا گیا، وہ یہ ہے کہ یہ فیصلہ قانونی نہیں، پنچایتی ہے- گرام پنچایتوں میں اس وقت ایسا ہی فیصلہ آتا ہے جب مقدمے کا ایک فریق پنچایت کرنے والوں پر بھاری ہو اور دوسرا فریق کو ئی خستہ بے جان ہو- یہ فیصلہ مکمل طور پر یک طرفہ ہوا ہے- اس میں قانون کو نظرانداز کر کے ایک فریق کے آستھا کا احترام کیا گیا ہے، جب کہ دوسرے فریق کے جذبات کا بالکل ہی خیال نہیں رکھا گیا ہے- خصوصاً ایسی صورت میں جب کہ دوسرا فریق ہندوستانی جمہوریہ کے اقلیتی طبقے سے ہے اور صرف ہندوستانی عدلیہ اور سیکولر جمہوریہ پر اعتماد کے سہارے ہی اپنی زندگی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہے، اس کے جذبات کا بالکل خیال نہ رکھنا اس کے اندر مہجوری اور بے اعتمادی کے احساسات جگاتا ہے- اس فیصلے نے جہاں تاریخ اور قانون کو نظرانداز کر کے مسلمانوں کے موقف کو کمزور کیا ہے، وہیں ان کی ہمت، ارادہ اور اعتماد کو بھی بری طرح ٹھیس پہنچایا ہے- وہ خود کو قانونی عدم تحفظ کا شکار محسوس کررہے ہیں-

اس فیصلے کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ اگر آستھا کی بنیاد پر ہونے والے اس فیصلے کو تسلیم کرلیا گیا تو یہ مستقبل میں ہندوستانی عدلیہ کے لیے ایک بری نظیر بن کر سامنے آئے گا اور قانون وانصاف کی بجائے آستھا پر فیصلے دینا اس نظیر کی بنیاد پر جائز ہوجائے گا- اس سے مستقبل میں کب کب اور کہاں کہاں انصاف کے خون کا جواز نکل آئے گا، اس کا صرف تصور ہی کیا جاسکتا ہے-

اس فیصلے میں وسطی گنبد کی جگہ کو متعینہ طور پر بھگوان رام کا جنم استھان تسلیم کرلیا گیا ہے، جب کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ رام کی انسانی شخصیت تاریخی طور پر تسلیم شدہ نہیں ہے- خود فیصلے کے اندر بھی رام کو ایک دیوتا کے طور پر پیش کیا گیا ہے، ایسی صورت میں کسی متعینہ مقام کو ان کا جنم استھان کہنا منطقی طور پر احمقانہ بات ہے- دوسری بات یہ ہے کہ اگر دیوتا کے لیے جنم استھان کو ماننا جائز بھی ٹھہرے تو اس متعینہ مقام کو رام جنم بھومی قرار دینا کھلے طور پر انصاف کا خون ہے، کیوںکہ ہندو روایت میں بھی اس متعینہ جگہ کو رام جنم بھوم نہیں کہا گیا ہے- ۹۴۹۱ءسے کچھ سالوں پہلے سے ہندوں نے محض عقیدت کی بنیاد پر یہ دعویٰ کرنا شروع کیا اور ایک سو سال سے کم کی اس عقیدت کا احترام کرتے ہوئے اس دعوے کو تسلیم کرلیا گیا، جب کہ بہت ممکن ہے کہ آستھا کا یہ ڈھونگ شرپسند عناصر صرف مسجد کو منہدم کرنے یا اسے مندر میں تبدیل کرنے کے لیے رچے ہوں-

اس فیصلے کو بندر بانٹ فیصلہ کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا، فرق صرف یہ ہے کہ بندر بانٹ کی تمثیل میں دونوں فریق اپنے حصے سے محروم ہوجاتے ہیں، جب کہ اس تقسیم میں صرف ایک فریق محروم ہورہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو جی بہلانے کے لیے دو ججز نے ایک تہائی زمین دینے کا فیصلہ تو کیا ہے، مگر ایک جج دھرم ویر شرما نے پوری زمین ہندوں کے حوالے کردینے کی بات کہی ہے اور ویسے بھی مختلف ہندو قائدین نے مسلمانوں سے اپنے حصے سے دست بردار ہونے کا اخلاقی مطالبہ کرنا شروع کردیا ہے، دوسری طرف ہندو تنظیمیں قانونی طور پر مکمل ملکیت کے لیے سپریم کورٹ جانے کی بات کر رہی ہیں، خود مسلمان بھی تھک ہار کر یہی سوچنے پر مجبور ہوجائیںگے کہ جب مسجد کی جگہ رام مندر بن ہی جائے گا تو ایک تہائی زمین لے کر آخر ہم کیا بوئیںگے؟ اس لیے آج نہیں تو کل نام نہاد دانشوران ملت اس وسعت ظرفی کے لیے ضرور تیار ہوجائیںگے اور نتیجہ میں مسلمانوں کو صفر ملے گا-

آستھا کی بنیاد پر ہونے والایہ فیصلہ پوری دنیا کے سامنے ہندوستانی عدلیہ میں قانون کی زیر دستی کا اشتہار بن کر سامنے آیا ہے- اس سے ہندوستانی جمہوریہ کی سیکولر ساکھ بھی متاثر ہوگی اور دنیا کی سب سے بڑی اس جمہوریہ میں اقلیتوں کے حقوق کی پامالی بھی مشتہر ہوگی- اس جمہوریہ کی پیشانی سے گجرات میں حکومت کی زیر نگرانی اقلیتی فرقے کے قتل عام سے جو داغ لگا تھا، وہ ابھی دھل بھی نہ سکاتھا کہ آستھا کو بنیاد بنا کر اقلیتی فرقے کو اس کے حقوق سے محروم قرار دے کر اس پیشانی کو مزید بدنما بنادیا گیا- اس کے برخلاف اگر قانون کے مطابق فیصلہ آیا ہوتا تو اس سے گجرات سانحہ کے داغ کو بہت حد تک مٹایا جاسکتا تھا اور اس موقع پر مسلمانوں کے سینے پر جو زخم آیا تھا، بڑی حد تک اس کا مداوا بھی ہوجاتا، مگر یہ کیا کہ آستھا کے اس احترام نے تو ان کے زخم کو مزید کرید کر رکھ دیا اور ان کے اندر خوف، حرماں، مایوسی، قانونی عدم تحفظ، عدالتی بے انصافی اور اقلیت اور کمزور ہونے کے احساسات کو مزید جگادیا-اس فیصلے کا ایک منفی اثر یہ بھی ہے کہ اس نے متنازع زمین کو ہمیشہ کے لیے مقفل کرنے یا کسی اور صورت پر مصالحت کرنے کے امکان کو تقریباً ختم کردیا ہے- اس لیے کہ اس فیصلے سے جیسے ہندو فریق کے منہ میں خون لگ گیا ہے اور صلح کے بجائے قبضہ پر اس کا اصرار بڑھ گیا ہے-اس فیصلے کو بعض مبصرین سیاسی فیصلہ بھی کہہ رہے ہیں- ان کا اشارہ کانگریس کی اس میٹھی چھری کی طرف ہے، جس سے وہ ہمیشہ مسلمانوں کی قربانی کا نیک فریضہ انجام دیتی رہی ہے-

فیصلے پر رد عمل:اس فیصلے کا ہندوستانیوں کو شدت سے انتظار تھا- آخری وقت تک عدلیہ کے انصاف اور ہندوستانی عوام کی طرف سے فساد کی توقع لگائی جاتی رہی، لیکن نتیجہ دونوں صورت میں خلاف توقع نکلا- عدلیہ نے اپنے سیکولر کردار کو مشکوک قرار دے دیا، جب کہ ہندوستانی عوام نے اپنے بالغ نظری، تعلیمی ذہن، پختہ شعور اور سنجیدہ مزاج کا ثبوت فراہم کردیا- اس ضمن میں سب سے قابل تعریف کردار ہندوستانی مسلمانوں کا رہا- ان کے خلاف فیصلہ آنے کے باوجود ان کی طرف سے پورے ملک میں کوئی ایک بھی خلاف قانون قدم نہ اٹھایا جانا، ان کی سنجیدگی، مثبت طرز عمل اور بالغ شہریت کا کھلا اشاریہ ہے- مسلمانوں کی طرف سے اس پر جو بیانات آئے وہ بھی بہت ہی مثبت اور درست تھے- تقریباً تمام مسلم تنظیموں، نمائندوں اور افراد نے متفقہ طور پر یہی بات کہی کہ اس کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی جائے گی اور قانونی جنگ جاری رہے گی- اس ذیل میں استثناکے طور پر بعض ”دانشوران ملت“ کے بیانات ایسے آئے جو سیکولر اسٹیٹ کے کسی پختہ ذہن سے متوقع نہیں ہوسکتے- ان میں ایک معروف اسکالر مولانا وحیدالدین خان اور دوسرے معروف صحافی جناب عزیز برنی سرفہرست ہیں-فیصلہ آنے کے بعد ایک ٹیلی ویژن چینل کے نمائندے نے جب مولانا وحیدالدین خان سے یہ دریافت کیا کہ اسلامی قانون کے مطابق مسجد کی تعمیر کہاں ہونی چاہیے؟ اس پر خاں صاحب نے حسب توقع اپنا جواب مرحمت فرمایا: ”مسجد غصب کی ہوئی زمین پر نہیں بنائی جاسکتی- ویسے یہ معاملہ اتنا پیچیدہ ہوگیا ہے کہ اس کا فیصلہ اسلامی قانون سے نہیں دیاجاسکتا- یہ معاملہ حکومت کے حوالے کردینا چاہےے- حکومت ہی اس کا فیصلہ کرسکتی ہے-“ ظاہر ہے مولانا نے اپنے جواب میں سوال سے زیادہ اور غیرمتعلقہ باتوں کو شامل کرلیا- اس میں ایک طرف اس بات کا اشارہ اور اعتراف گناہ ناکردنی ہے کہ بابر نے زمین غصب کر کے مسجد کی تعمیر کی، جو بات اب تک کوئی ہندو نمائندہ بھی کہنے کی جرات نہیں کرسکا ہے، دوسری طرف اسلامی قانون سے بے وجہ دست برداری اور جدید حالات میں اس کی عدم نارسائی کی بات کی گئی ہے، جب کہ اسلامی شریعت میں تمام حالات کے لیے مسائل کاقابل انطباق حل موجود ہے،حتیٰ کہ اضطرار اور مجبوری کاحل بھی اسلامی شریعہ فراہم کرتی ہے- نہ اس ٹی وی نمائندے نے یہ سوال کیا تھا کہ اس مسئلے کا حل اسلامی شریعت میں کیا ہے؟ یا یہ کہ اسلامی شریعت سے اس مسئلے کا حل ممکن ہے یا نہیں؟ اس نے مسجد کی جائے تعمیر کے سلسلے میں ایک سادہ سوال کیا اور اس کی امید سے زیادہ حوصلہ افزا جواب عنایت فرما کر مولانا نے شاعر مشرق کے ان اشعار کی یاد تازہ کردی، جو دور غلامی میں مسلم ذہنیت کی تصویر کھینچتے ہیں:

از نگاہش دیدنی ہا در حجاب

قلب او بے ذوق و شوق انقلاب

سوز مشتاقی بکردارش کجا

نور آفاقی بگفتارش کجا

مذہب او تنگ چو آفاق او

از عشا تاریک تر اشراق او

زندگی بار گراں بر دوش او

مرگ او پروردہ آغوش او

۱- اس کی نگاہ سے تمام حسین مناظر اوجھل ہیں اور اس کا دل ذوق انقلاب سے محروم ہے-

۲- اس کے کردار سے اشتیاق و جستجو کی گرمی کہاں پیدا ہوسکتی ہے اور اس کی باتوں میں آفاقیت کا نور کہاں آسکتا ہے؟

۳- اس کا مذہب اس کی سوچ کی طرح تنگ ہے اور اس کی صبح اس کی رات سے بھی زیادہ تاریک ہے-

۴- زندگی اس کے کندھے پر ایک بھاری بوجھ ہے اور اس کی موت اسی کی آغوش کی پروردہ ہے-

فیصلے پر جناب عزیز برنی نے اپنے خلاف توقع اور استثنائی رد عمل کا اظہار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے اپنے طویل کالم میں ۲اکتوبر ۰۱۰۲ءکو ”کیا ضروری ہے سپریم کورٹ جانا- ذرا غور کریں!“ کے عنوان سے لکھا ہے- موصوف اس فیصلے کو ”تاریخ ساز“ قرار دیتے ہوئے رقم طراز ہیں: ”میں اپنی اس تحریر کی معرفت اپنے قارئین کی خدمت میں جو عرض کرنا چاہتا ہوں، وہ بھی میرے لیے اتنا ہی مشکل فیصلہ ہے، جتنا کہ اس تاریخ ساز فیصلہ کو انجام دینے والے جسٹس ایس یو خان، جسٹس دھرم ویر شرما اور جسٹس سدھیر اگروال کے لیے مشکل رہا ہوگا-“

اس کے بعد جو بات انہوں نے کہی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ فیصلہ تاریخ ساز اس لیے ہے کہ اگر اس کے خلاف، آستھا کو رد کرتے ہوئے قانون کی روشنی میں فیصلہ آتا تو ہندوستان کا امن و اتحاد غارت ہوجاتا- اگر ہم اس فیصلہ کو تسلیم کرکے ہندوں کے ساتھ مندر تعمیر میں تعاون کرتے ہوئے ہم خود اپنی مسجد تعمیر کرتے ہیں تو اس سے ایک اچھا تاثر جائے گا نیز ایک جگہ مسجد اور مندر کا وجود ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی علامت کے طور پر سامنے آئے گا- برخلاف اس کے اگر ہم سپریم کورٹ جاتے ہیں تو ایک تو فیصلے کے ساتھ ہماری عدم رضامندی کا اظہار ہوگا- ثانیاً ہم اگلی نسل کو پھر اسی مسئلے میں الجھا دیںگے اور پھر ایک لمبی مدت کے بعد اگر فیصلہ ہمارے حق میں آتا بھی ہے تو اس کے بعد جو صورت حال پیدا ہوگی، اس سے نمٹنا آسان نہ ہوگا- خون خرابہ یقینی ہوگا- امن غارت ہوگا اور مسلمانوں کا خون بہے گا- نیز فیصلے کا نفاذ بھی مشکل ہوگا- دونوں فریق میں کشیدگی الگ بڑھتی رہے گی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر فیصلہ وہاں سے بھی یہی آتا ہے یا اس سے بھی برا آتا ہے تو پھر ہم کہیں کے نہیں رہیںگے-

برنی صاحب نے جو کچھ کہا ہے، اس کے لیے ہم ان کی نیت پر شبہ نہیں کرسکتے- اپنی بات کو جن دلائل سے مستحکم کیا ہے، ان کی داد دیے بغیر بھی نہیں رہ سکتے، لیکن اس کے باوجود یہاں چند معروضات پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں، جو قابل نظرانداز نہیں ہیں-

۱-برنی صاحب جو بات آج کہہ رہے ہیں یہ تو انہیں سالوں پہلے کہنی چاہیے تھی- اس لیے کہ قانون کے مطابق فیصلہ آنے کی صورت میں جن خدشات کا اظہار فیصلے کے بعد کیا ہے، ان کا اظہار پہلے ہونا چاہیے تھا تاکہ ان خدشات کے مطابق متوقع فیصلے کے ضرر سے مسلمانوں کو بچایا جانا ممکن ہوجاتا اور مسلمان سالہا سال تک اپنی انرجی لاس کرنے سے بچ جاتے- زمین فریق مخالف کے حوالے کردیتے اور خود پر امن زندگی گزارتے-

سب کچھ لٹاکے ہوش میں آئے تو کیا کیے؟

۲- موصوف فیصلے کو تسلیم کرنے کی صورت میں جن خوش گوار خیالی مناظر سے خود کو لطف اندوز کر رہے ہیں انہیں کون بتائے کہ اگر مسلمان ان کا مشورہ تسلیم کربھی لیتے ہیں جب بھی ان مناظر کی زیارت سے ان کی آنکھیں محروم ہی رہیںگی- برنی صاحب کی یہ تحریر ۲ اکتوبر کو چھپی ہے جسے یقینی طور پر انہوں نے یکم اکتوبر کو لکھا ہوگا، مگر حیرت ہے کہ ان جیسے وسیع نظر صحافی سے یکم اکتوبر کے اخبار جو ۰۳ستمبر کے فیصلے کے فوراً بعد چھپا ہے، کی پہلے صفحے کی یہ خبر کیسے اوجھل رہ گئی؟

Though the Hindu side claimed to have won, it declared its intention to go in appeal to the Supreme Court, arguing that since Ram Janamasthan hav been accepted, the entire desputed site at Ayodhya should be handed over for the construction of a temple.(Times of India, New Delhi)

”گرچہ ہندو فریق نے فتح کا اعلان کردیا ہے، ساتھ ہی اس نے سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا اپنا عندیہ بھی ظاہر کردیا ہے تاکہ وہ یہ بات کہہ سکے کہ چوں کہ رام جنم استھان تسلیم کرلیا گیا ہے، اس لیے اجودھیا کی پوری متنازع زمین مندر تعمیر کے لیے حوالے کردینا چاہیے-“

خود برنی صاحب کے اخبار میں ان کے اس کالم کے ساتھ یہ خبر بھی چھپی ہے: ”اجودھیا کے مقدمہ میں ایک فریق ہندو مہاسبھا نے آج کہا کہ پوری متنازع زمین رام للا کی ہے اور یہاں مسجد کی تعمیر قابل قبول نہیں ہوسکتی ہندو مہاسبھا کو متنازع مقام کی تقسیم قبول نہیں ہے اور وہ سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرے گا-“

۳- برنی صاحب نے قانونی فیصلے کی صورت میں جن خدشات کا اظہارکیا ہے، وہ ممکن ضرور ہیں یقینی نہیں- پھر قیام امن کے لیے مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے جو تیاریاں کی تھیں، وہ بڑی حد تک اطمینان بخش تھیں- پھر یہ حکومت کی اپنی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنی عدالت کے قانونی فیصلے کو قانونی طور پر نافذ کرے اور اس کے خلاف شرپسندوں کی سازش کو ناکام بنائے- فیصلہ کرنے میں یا اس کو نافذ کرنے میں مسلمان کہیں سے کہیں تک نہیں تھے کہ انہیں مورد الزام ٹھہرانا درست ہو-

۴- سپریم کورٹ میں جانے کو صرف اس پہلو سے دیکھنا کہ اس سے عدالتی فیصلے سے عدم رضا مندی کا اظہار ہوتا ہے اور اگلی نسل کو اس مسئلے میں الجھانا ہے، یہ درست نہیں ہے- اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ مسلمان سیکولر ریاست میں اپنے قانونی حق کا استعمال جانتا بھی ہے اور کرتا بھی ہے اور ایسا کرنا اگلی نسل کو الجھانا نہیں ہے، بلکہ اسے انصاف کی لڑائی کے لیے ذہنی طور پر تیار کرنا ہے اور اس کے سامنے خود اپنی ذمہ داری سے سبک دوش ہونا ہے کہ اگلی نسل کہیں ہمیں بے وقوفی، جہالت اور بزدلی کا طعنہ نہ دے-

۵- فیصلے کے بعد جو ہندوستانیوں کا رد عمل آیا وہ ان کے شعور کی پختگی اور ان کی سنجیدگی کا واضح اشاریہ ہے- آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کی زبان سے بھی یہ الفاظ نکلے کہ ”اس فیصلے کو کوئی فتح و شکست کے طور پر نہ دیکھے اور نہ ہی کوئی ایسی بات کہے، جس سے دوسرے فریق کی دل آزاری ہو-“ یہ بات اس چیز کا واضح ثبوت ہے کہ ہندوستانی ذہن پہلے کی بہ نسبت زیادہ Mature، سنجیدہ اور حقیقت پسند ہوا ہے- اس لیے اگر مستقبل میں سپریم کورٹ سے قانون کی جیت ہوتی ہے تو اس کی وجہ سے ۶دسمبر کے دہرائے جانے کی توقع بہت ہی کم ہوگی- انتظام و انصرام کے حوالے سے حکومت کی حساسیت اس پر مزید ہے-

۶-ہر کیس میں اور ہر عدالت میں فتح و شکست دونوں امکانات ہوتے ہیں- یہی دونوں امکان سپریم کورٹ میں جانے کی صورت میں بھی ہیں- لہٰذا اس امکان کو بنیاد بنا کر سپریم کورٹ نہ جانے کی وکالت انتہائی حد تک سادہ لوحی ہے- یوں تو ہر شخص کو یہ مشورہ دینا پڑے گا کہ کسی بھی معاملے میں اور کسی بھی صورت میں تم عدالت کا رخ نہ کرو کہ اس سے تمہارے فریق سے کشیدگی بڑھے گی پھر یہ کہ ممکن ہے کہ تمہارے حق میں فیصلہ نہ ہو- پھر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سپریم کورٹ سے بہرحال قانون کی جیت متوقع ہے، لہٰذا وہاں جانا قطعا حماقت نہیں ہے- یہ سوچ کر رک جانا حماقت ہے کہ اگر فیصلہ ہمارے حق میں نہیں آیا تو کیا ہوگا؟

۷- برنی صاحب فیصلے کی دوسری صبح کے اپنے ہی اخبار کی یہ خبر بھی پڑھ لیں اور اپنی وسعت نظری کے تناظر میں کچھ اس کا حل بھی بتادیں:

”وشو ہندو پریشد نے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہاہے کہ کورٹ نے کروڑوں ہندوں کے عقیدے کا احترام کیا ہے اور یہ ہندوستانیوں کے لیے فخر کا موضوع ہے- آچاریہ گری راج کشور نے کہا ہے کہ مسلمان بھائیوں کے لیے اچھا موقع ہے کہ وہ ماضی کی باتیں بھول کر کاشی اور متھرا کا دعویٰ بھی چھوڑ دیں، جب کہ وی ایچ پی کے جنرل سکریٹری پروین توگڑیا نے کہا ہے کہ اس فیصلے سے ہندو سماج کو انصاف ملا ہے سنی وقف بورڈ کو ایک تہائی زمین دینے کے فیصلے پر تبصرے سے گریز کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلے فیصلے کے اس حصے کا مطالعہ کیا جائے گا، اس کے بعد پھر کوئی فیصلہ کیا جائے گا-“

(روزنامہ راشٹریہ سہارا، دہلی، یکماکتوبر ۰۱۰۲ئ)

۸- اس فیصلے کو اگر مسلمان بہ آسانی تسلیم کرلیتے ہیں تو آستھا پر کیا جانے والا یہ فیصلہ ایک نظیر بن جائے گا اور اس کی وجہ سے مستقبل میں مسلمانوں کو بہت سے حقوق اور عمارتوں سے دست بردار ہوجانا پڑے گا- برنی صاحب اس پہلو کو کمزور ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ”یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ شری رام جنم بھومی ایک ہی ہوسکتی ہے- ہم دیگر مساجد کے لیے اس معاملہ کو نظیر کیوں سمجھیں- پھر بھی اگر خدشہ ہو تو اس سمت میں مناسب پیش رفت کریں-“

(روز نامہ راشٹریہ سہارا، ۲ اکتوبر۰۱۰۲ئ)

برنی صاحب کے حضور اپنی طرف سے کچھ نہ کہہ کر ان کے اخبار کی اسی اشاعت میں چھپنے والے سنتوش بھارتیہ کے مضمون کا یہ اقتباس نذر کرتے ہیں:”اس فیصلے نے ایسے سوال کھڑے کیے ہیں، جن کا حل نکلنا ضروری ہے، وگرنہ ملک میں ایک نئے فرقہ وارانہ دور کی شروعات ہوجائے گی- جماعتیں عقیدت کے نام پر مسجدوں، بودھ مٹھوں اور جینیوں کے مندروں کے خلاف عدالت میں جائیںگی اور الٰہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو نظیر کی شکل میں استعمال کریںگی-“

زیر بحث فیصلے کی تین رکنی کمیٹی میں شامل جناب صبغت اللہ خان کاایک بیان ۲اکتوبر کے تقریباً تمام اخبارات نے چھاپا ہے، جس میں انہوں نے (اپنے) اس فیصلے کو صلح حدیبیہ سے تشبیہ دی ہے، جو صلح مسلمانوں کی طرف سے بظاہر دب کر ہوئی تھی اور دعوت اسلام کی وسیع اشاعت کا سبب اور بعد میں ظہور پذیر ہونے والی فتح مبین کا پیش خیمہ ثابت ہوئی تھی- جناب صبغت اللہ خان کے بقول یہ موقع ہے کہ مسلمان اپنی مظلومیت کو پیش کر کے دعوت اسلام کا زبردست کام کریں-

جسٹس صبغت اللہ خان نے مسلمانوں کے حضور اپنی صفائی کے لیے دراصل ایک درست واقعے سے ایک نادرست نتیجہ نکالنے کی غلطی کی ہے- اس واقعے کو صلح حدیبیہ کی نظیر اس لیے قرار نہیں دیاجاسکتا کہ صلح حدیبیہ سے جہاں دعوت اسلامی کی عام اشاعت اور مکة المکرمہ میں آمد و رفت کا آغاز ہو رہا تھا، وہیں مستقبل قریب میں پیش آنے والی فتح مبین کو نگاہ نبوت دیکھ رہی تھی- یہاں پر ایسا کوئی نیا امکان مسلمانوں کے لیے پیدا نہیں ہورہا ہے کہ اس فیصلے کو صلح حدیبیہ کی نظیر قرار دیا جائے، بلکہ اس کے برخلاف اس فیصلے کو نظیر بتا کر زندگی کا حصار ان کے گرد مزید تنگ سے تنگ کردیا جائے گا- آر ایس ایس، بجرنگ دل، وشوہندو پریشد اور اس طرح کی بی جے پی کی ذیلی شرپسند تنظیمیں ایک کیس کے بعد دوسرے کیس کے شور الرحیل بلند کرنے کے لیے ہمہ دم تیار ہیں- بس ایک صورت ہے کہ اس تناظر میں اس واقعے کو ایک حد تک صلح حدیبیہ سے تشبیہ دی جاسکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ان تنظیموں کی شرپسندی سے نجات کی ضمانت کو یقینی بنادیا جائے، جس طرح صلح حدیبیہ کے بعد اہل مدینہ اہل مکہ کی شرپسندی سے محفوظ ہوگئے تھے، مگر کیا یہ ممکن ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس کے بعد ہر سال ایک مسجد ہندوں کے حوالے کر کے مسلمانوں کو ایک نئی صلح حدیبیہ کرنی پڑے؟ صلح حدیبیہ کا نام لینے والے اس پہلو پر بھی سوچیں!

فیصلے کے بعدآنے والے چند ممتاز سیکولر ہندوں کے بیانات کو یہاں نقل کرنا فائدے سے خالی نہیں ہوگا-

ملائم سنگھ یادو:- اس فیصلہ میں قانون اور ثبوت پر عقیدت کو ترجیح دی گئی ہے اور اس فیصلہ سے مسلمان خود کو ٹھگا ہوا محسوس کر رہا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ مسلم طبقہ اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ جائے گا جہاں ثبوتوں اور قانون کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے گا، جس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا-

رام ولاس پاسوان:- اجودھیا میں بابری مسجد-رام جنم بھومی زمین کے مالکانہ حقوق کے تعلق سے کورٹ کے فیصلے سے مسلمانوں کو مایوسی ہوئی ہے، بی جے پی، آر ایس ایس، بجرنگ دل اور وی ایچ پی اسے اپنی جیت کے طور پر نہ دیکھیں- اس فیصلے سے مسلمانوں کو یقینا مایوسی ہوئی ہے، لیکن اسے وہ آخری فیصلہ نہ سمجھیں کیوں کہ فریق سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کی تیار کر رہی ہے-

پرشانت بھوشن(سینئر وکیل سپریم کورٹ):- سوال صرف عقیدے ہی کا نہیں ہے- یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے- اگر حکومت کو یہ فیصلہ کرنا ہوتا کہ کس کو کتنی جگہ دینی ہے تو وہ یہ فیصلہ ضرور کرسکتی تھی، لیکن کسی عدالت کو یہ اختیار نہیں ہے- یہ فیصلہ قانون کے نظریہ سے سپریم کورٹ میں نہیں ٹک سکتا- اگر عقیدے کی بنیاد پر فیصلے آنے لگے تو آگے چل کر ملک کے سیکولر تانے بانے کو بہت خطرہ لاحق ہوگا-

راجیو دھون(ماہر قانون):- یہ کچھ اس طرح کا فیصلہ ہے جیسا پنچایتیں سناتی ہیں-

مسلم قائدین اور بابری مسجد کیس کا مستقبل:- الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر تمام مکاتب فکر اور میدان زندگی سے وابستہ مسلم قائدین اور نمائندوں کا تقریباً متفقہ رد عمل یہ رہا کہ ہمیں انصاف کے لیے سپریم کورٹ کے دروازے پر دستک دینی چاہیے- یہ مسلمانوں کی طرف سے ہونے والا نہایت قابل تعریف اور مثبت رد عمل تھا- بابری مسجد کیس میں بالخصوص اور دیگر مشترکہ مسائل میں بالعموم اگر مستقبل میں مسلمانوں کا یہی رویہ رہتا ہے، جس کی توقع بھی ہے، تو ہندوستانی مسلمان حکومت و عدالت کے سامنے اپنا وزن اور وقار قائم رکھنے میں یقینی طور پر کامیاب رہیںگے اور سپریم کورٹ سے بابری مسجد معاملے میں انصاف کی امیدیں بھی مضبوط ہوجائیںگی-

قانونی جد و جہد کو جمہوری سیکولر ریاستوں میں بنیادی حق کے بطور تسلیم کیا گیا ہے- مسلمانوں کو اس حق کے دانش مندانہ استعمال میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے- پوری دنیا میں مسلمان کہیں حجاب کے لیے تو کہیں اسلامی سینٹرز اور مساجد کی تعمیر کے لیے قانونی جنگ لڑ رہے ہیں اور انہیں نہ تو کوئی بری نظر سے دیکھ رہا ہے اور نہ وہ احساس کمتری کا شکار ہیں- دنیا کی عظیم جمہوریہ ہندوستان کے مسلمانوں کو بھی اپنے اس حق کے استعمال میں جی جان سے اور فہم و فراست سے لگ جانا چاہیے- قانونی چارہ جوئی کوئی دہشت گردی یا تشدد نہیں، بلکہ بالغ شہریت کی علامت ہے اور جب قانونی چارہ جوئی ہی کی بات ہے تو سپریم کورٹ ہی کیا، اگر اس کے بعد بھی کوئی قانونی آپشن اور امکان باقی رہے تو مسلمانوں کو اس کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے- اس چیز کو بہت لوگ منفی طور پر لیتے ہیں کہ اس طرح تو سارے مسلمانوں کو ایک مسئلے میں ایک طویل مدت تک الجھائے رکھنا ہوگا- ایسے لوگوں سے گزارش ہے کہ وہ معاملات اور اصولوں کو مثبت طور پر دیکھنے کے عادی بنیں- یہ بات غلط ہے کہ اس میں سارے مسلمان الجھے رہیں گے- اس معاملے کو سنی وقف بورڈ اور مسلم پرسنل لابورڈ کے چند افراد دیکھیںگے، بلکہ وہ بھی ایک مشورہ کر کے معاملات کو وکلا کے حوالے کردیںگے جیسے دیگر قانونی مسائل میں ہوتا ہے- باقی ہندوستان کے تمام مسلمان اپنی اسی روز مرہ کی زندگی میں لگے رہیں گے- کسی کا کوئی کام معطل نہ ہوگا- یہ بہکاوے کی بات ہے کہ سارے مسلمان اس میں الجھے رہیں گے- اس سے مسلمانوں کی زندگی کا سفر رکے گا اور نہ ہی ان کے ارتقا کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوگی، پرابلم صرف منفی سوچنے والوں کے ذہن میں، ان کی خود ساختہ ہے-

ایسے افراد ذہنی طور پر احساس کمتری کا شکار ہیں- وہ خود کو بادشاہی دور سے محروم اور عہد غلامی میں محبوس محسوس کررہے ہیں- انہیں کون بتائے کہ آج کا مسلمان اگر ہندوستان کا بادشاہ نہیں ہے تو غلام بھی نہیں ہے- وہ سیکولر اسٹیٹ کا باشندہ ہے، جو من وجہٍ حکم راں اور شریک اقتدار ہے- سیکولر اسٹیٹ انہیں قانونی طور پر عدل و انصاف کی ضمانت دیتا ہے اور وہ پر امن جد و جہد اور احتجاج کے ذریعے انصاف اور حق پانے کے مجاز ہیں، اس میں دو رائے نہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ قانونی اور سیاسی سطح پر اب تک بہت سی ناانصافیاں ہوئی ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ انصاف کی جنگ بند کردیں یا وہ خود سپردگی پر آمادہ ہوجائیں- خودسپردگی کبھی بھی حل نہیں ہے- جو لوگ صلح حدیبیہ کو یک طرفہ طور سے خودسپردگی کا نام دیتے ہیں،وہ معاملات کو صرف ایک پہلو سے دیکھنے کے عادی ہیں-

ہندوستانی مسلمانوں کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ان کے ساتھ اب تک جو قانونی اور سیاسی ناانصافیاں ہوئی ہیں، ان میں اکثریتی فرقہ کے متعصبانہ برتاو کے علاوہ خود ان کے اندر معاملہ فہمی، اعلیٰ تعلیم، عزم و ارادہ، صحیح سمت میں کوشش، صحیح طرز فکر و عمل اور مخلصانہ جہد مسلسل کا فقدان بھی ایک بڑا سبب رہا ہے- جدید ہندوستان کے اکثریتی فرقے میں تعصب کم ہو رہا ہے، بہت سے ہندو مسلمانوں کو انصاف دینے کی باتیں کر رہے ہیں اور مسلمانوں کی نئی نسل اعلیٰ تعلیم کی تحصیل کے علاوہ سیکولر ریاست میں باوقار زندگی کے اسرار سے بھی واقف ہوگئی ہے- نئی نسل میں فکر و شعور اور عزم و ارادہ بھی بڑھا ہے- غلامانہ ذہنیت اور حاکمانہ غرور اس کے دماغ سے دور ہورہا ہے اور وہ آزادانہ اور منصفانہ غور و فکر کرنے لگی ہے، اس لیے حقوق کی بازیافت کے لیے قانونی چارہ جوئی وقت اور حالات کے عین مطابق ہے- حیرت ہے کہ ۲فیصد سکھ تو قانونی جنگ لڑ رہے ہیں، انہیں ان کا حق مل رہا ہے، وہ تعلیمی اور اقتصادی ترقیات سے بھی بہرہ ور ہو رہے ہیں اور۵۱ فیصد مسلمانوں پرخوف اور بزدلی ایسی طاری ہے کہ یا تو وہ قانونی جنگ سے بھاگنے کو تیار ہیں یا انہیں قانونی جنگ کا سلیقہ ہی نہیں معلوم- مسلمانوں کو یہ بات گرہ میں باندھ لینی چاہیے کہ سیکولر ریاست میں قانونی بے انصافی کا صرف ایک حل ہے اور وہ ہے قانونی چارہ جوئی- وہ جنگ نہ کریں، تشدد پر آمادہ نہ ہوں، لیکن پرامن احتجاج اور قانونی چارہ جوئی جو سیکولر ریاست انہیں حق کے طور پر عطا کرتی ہے اس سے کبھی بھی دست بردار نہ ہوں- یہ ایک ساتھ بزدلی بھی ہے اور حماقت بھی-

بابری مسجد معاملہ:مسلمانوں کا اگلا قدم کیا ہو؟:ڈاکٹر خواجہ اکرام


بابری مسجد معاملہ:مسلمانوں کا اگلا قدم کیا ہو؟

بابری مسجد کے فیصلے کے بعد عوامی سطح پر اس فیصلے کے بعد بحث و تمحیث کے کئی نئے گوشے وا ہو گئے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس فیصلے کے بعد کم از کم اتنا تو طے ہو گیا ہے کہ دنیا میں یہ واحد ایسا فیصلہ قرار پا یا ہے جس کی بنیاد حقائق کے بجائے اساطیری عقیدے پر ہے۔ اسی لیے ہر چہار جانب سے اس فیصلے پر گفتگو ہو رہی ہے ۔اس فیصلے کے حوالے سے دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس فیصلے کی آمد نے پورے ہندستان میں ایک سنسنی پھیلا دی تھی ، ریاستی اور مر کزی حکومت کے ساتھ ساتھ مختلف سماجی اور سیاسی تنظمیں ہر طرف سیکورٹی اور امن و امان کی دہائی دیتی نظر آرہی تھیں ۔ایودھیا سمیت تمام حساس شہر فوج کی چھاؤنی میں تبدیل ہو گیاتھا ۔ڈر یہ تھا کہ اس فیصلے سے امن و امان کی فضا خراب ہوسکتی تھی لیکن مقام شکر ہے کہ حکومت کی مستعدی نے ملک کی فضا کو خراب ہونے سے بچایا۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ یہ فیصلہ مسلمانوں کے توقعات کے بر خلاف تھا،اگر یہ فیصلہ اکثریتی فرقے کے خلاف ہوا ہوتا تو ملک میں سکون کا یہی ماحول ہوتا یا نہیں؟ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا ہے ۔ لیکن اس سے ایک نتیجہ جو نکل کر سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ حکومت اگر چاہ لے تو ملک میں کہیں بھی ، کسی بھی حالت میں اورکسی طرح کاہنگامہ نہیں ہوسکتا۔ اگر حکومت نے 1992ء میں بھی اس طرح کی مستعدی دیکھائی ہوتی تو شاید بابری مسجد شہید نہیں ہوتی۔جو احتیا ط حکومت کو اس وقت برتنی چاہیے تھی وہ تو نہیں کر سکی اور آج احتیاط کا یہ عالم کہ سچ بات کہنے سے بھی حکومت گریز کر رہی ہے۔ خیر یہ تو فیصلے کے حوالے سے چند پہلو تھے لیکن جہاں تک فیصلے کا تعلق ہے تو عدلیہ کے پورے احترام کے ساتھ یہ بر جستہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ فیصلہ کورٹ کا فیصلہ نہیں لگتا ۔ پورے مقدمے میں جو کہیں فریق نہیں یعنی ہندو مہا سبھا اس کو فریق بنا کر کورٹ نے زمین کے ٹکڑے کیسے دے دیئے اور صدیوں سے جہاں مسجد ہونے کے شواہد موجود ہیں اُسے نظر انداز کر کے ہندؤں کے آستھا کو نظر میں رکھتے ہوئے اور یہ بھی جانتے اور مانتے ہوئے کہ وہاں 1949 میں جبراً مورتی رکھی گئی تھی ، یہ فیصلہ کیسے سنا دیا گیا کہ وہاں رام کی جائے پیدائش ہے اور ٹھیک اسی جگہ، جہاں درمیانی گنبد تھا۔اے ایس آئی (ASI )کی رپورٹ جس کی بنیاد پر رام کے جنم استھان ہونے کی بات کہی گئی ہے وہ بھی بہت مبہم اور غیر واضح ہے ۔ اے ایس آئی کی رپورٹ میں کہیں کوئی ایسا واضح ثبوت نہیں ہے اور نہ کھدائی کے دوران وہاں سے کوئی مورتی بر آمد ہوئی ہے جس کی بنیاد پر یہ کہہ سکیں کہ شاید وہاں کوئی مندر رہا ہوگا۔ فیصلے کے بعد ملک کے تقریباً سو تاریخ دانوں نے تحریری طور پر اس پر اپنی آواز بلند کی ہے اور اے ایس آئی کی رپورٹ کی بنیاد پر مندر مانے جانے کی خلاف بات کی ہے ۔اس لیے اس رپورٹ کو جس طرح پیش کیا گیا اور جس انداز سے اس کی تشریح کی گئی ہے وہ سب قابل غور ہیں اسی لیے ہمیں آئینی طور پر یہ حق حاصل ہے کہ اس پر بات کریں ۔ اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں دوبارہ لے جانے کے حق کا مطلب یہی کہ ہم اس فیصلے پر بات کریں اور اپنے تحفظات کو آئینی اور قانونی طور پر پیش کریں ۔ ساٹھ سا ل کے طویل وقفے کے بعد جس طرح کا فیصلہ سنایا گیا ہے اس پر اعتراض اس لیے ہے کہ فیصلے میں جس طرح کے عینی اور تاریخی ثبوت کوبروئے کار لایا جانا چاہیے تھا وہ نہیں ہوا ۔خاص طور پر پوری زمین کا فیصلہ نہ کر کے صرف جس زمین پر مسجد تعمیر تھی ، اس کے متعلق فیصلہ سنانا اور باقی زمین کے حوالے سے خاموش رہ جانا ۔یہ تو بالکل پنچائیتی فیصلہ لگتا ہے کہ تم بھی خوش رہو اور تم بھی خوش رہو ، اگر ایسا ہی کرنا تھا تو بابری مسجد کی شہادت سے قبل فیصلہ کیوں نہیں سنا دیا گیا؟ میں ذاتی طور پر اس فیصلے سے مطمئین نہیں ہوں اور مجھے آئینی طور پر یہ حق حاصل ہے کہ اپنی بے اطمینانی کا اظہار کروں اور قانونی چارہ جوئی کی راہ ہموار کروں۔

اس فیصلے کے بعد ہندستانی مسمانوں پر کئی طرح کے اثرات مرتب ہورہے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے اس لیے ابھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن اب تک جو میں سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ 1857 ءکی پہلی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد انگریزوں کی حکمت عملی سے مسلمان نفسیاتی طور پر جو دباؤمحسوس کر رہے تھے ویسا ہی کچھ ان دنوں ہندستانی مسلمانوں کا حال ہے ۔ ذرا غور کریں کہ فیصلے کے قبل پورے ہندستان میں یہ فضا بنی ہوئی تھی کہ چاہے فیصلہ جو بھی آئے ہم اس کا احترام کریں گے۔ ضرور احترام کیا جانا چاہیے کیونکہ ہم دنیا کے ایک بڑے جمہوری ملک میں رہتے ہیں ۔لیکن وشو ہندو پریشد ، ہندو مہا سبھا کے لوگ کھلے عام یہ کہہ رہے تھے کہ فیصلہ ہمارے حق میں آیا تو مانیں گے وگرنہ نہیں مانیں گے ۔ مسلمانوں نے فیصلے سے قبل جو بات کی تھی ،خلاف توقع فیصلہ آنے کے بعد بھی اُسی پرقائم ہیں اور قائم رہیں گے ۔ مگراس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ قانونی طورپر جس کا جواز حاصل ہے اس پر بھی غور نہ کریں ، مگر ابھی مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ ابھی تک وہ یقین کی منزل سے نہیں نکل پائے ہیں یعنی ابھی تک انھیں یہ یقین بھی نہیں ہورہا ہے کہ ایسا فیصلہ بھی ہوسکتا ہے؟ دوسری جانب کسی تنظیمی پلیٹ فارم سے متحدہ طور پر کوئی مضبوط آواز بھی سامنے نہیں آرہی ہے اس لیے ایک سراسیمگی کی کیفیت ہے اور ہندستانی مسلمان ایک نفسیاتی جبر کے دور سے گزر رہے ہیں۔بات صرف مسلمانوں کی ہی نہیں ہے اس ملک کے غیر مسلم شہریوں کی بھی بڑی تعداد ہے جو اس فیصلے کو حقیقیت سے دور سمجھتے ہیں اور وہ بھی جمہوری ملک کے عدلیہ کو لے کر پریشان ہیں کہ اگر ایسے فیصلے مان لیے گئے تو اس ملک کا کیا ہوگا؟ وہ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے فیصلے جمہوری اقدار کو ٹھیس پہنچائیں گے۔

اس فیصلے سے مستقبل میں مسلمانوں کے لیےجس طرح کے قانونی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں وہ یہ کہ اب عدلیہ کی جانب جو نگاہیں اٹھیں گی وہ یہ سوچیں گی کہ فیصلہ شواہد کی بنیاد پر ہوگا یا آستھا کی بنیاد پر ۔ کیونکہ ایک تاریخی معاملے میں جب بات آستھا پر ہی آکر ٹھہری ہے تو کل آپ کا ذاتی مکان بھی کسی آستھا کے نذر ہوجائے گا تو آپ کیاکر سکتے ہیں ؟ کیونکہ آستھا کا کوئی جواز نہیں ہے۔ابھی تو میٹھی میٹھی سیاسی باتیں کر کے ہندو مہا سبھا ، وشو ہندو پریشد ، دھرم گرو سمیت بی جے پی کسی طرح اس قضیے کو سلجھا کر رام مندر تعمیر کر لیں گے لیکن اس کے بعد ؟ ابھی تو بنارس کی مسجد اور متھرا کی عید گاہ باقی ہے ! وہاں بھی تو ان کی آستھا ہے ۔ وہاں کیا کریں گے؟ اگر یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں بھی جوں کا توں رہتا ہے تو مسلمانوں پر کیا فرق پڑ ے گا؟ہمارے لیے تو ساری دنیا پڑی ہے کہیں بھی ہم سجدہ ریز ہو سکتے ہیں ۔ لیکن اس جمہوری ملک پر ایسی آنچ آئے گی جس کی تپش سے کوئی نہیں بچ سکے گا۔اس لیے سپریم کورٹ سے نظر ثانی کی امید کی جاسکتی ہے کیونکہ ہندستان دنیا کے چند بڑے جمہوری ملکوں میں سے ایک ہے جہاں جمہوری اقدار ہر فرداورہر ادارے پر فوقیت رکھتا ہے۔سپریم کورٹ سے بہر کیف یہ امید تو ہے کہ وہ حقائق کو سامنے رکھ کر فیصلہ سنائی گی۔

ساتھ ہی ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم قائدین سر جوڑ کر بیٹھیں اور پہلے عوام کو یہ یقین دلائیں کہ وہ ان کے سچے اور بے لوث قائد ہیں ۔ ابھی تک تو یہی واضح نہیں ہے کہ کیا مسلمانوں کے بھی کوئی قائد ہیں ؟ حیرت ہے اتنے بڑے فیصلے کے بعد بھی اب تک کوئی آواز نہیں اٹھ رہی ہے اور نہ ہی قانونی چارہ جوئی کے لیے مشترکہ کوشش ہورہی ہے۔اس لیے پہلے تو بکھرے ہوئے افراد او ر ادراے کو متحد ہونا چاہیے اور چونکہ ہم بھی اس ملک کے شہری ہیں اس لیے انصاف کے لیے ہر ممکنہ دروازے پر دستک دینے کی ضرورت ہے۔دانشمندی، اتفاق، اور دور اندیشی سے ہی کام لینے کی ضرورت ہے۔ایسے غیر مسلم لوگ جو اس فیصلے کو حقیقت پر مبنی تسلیم نہیں کرتے ان کو اپنے ساتھ ملانے کی ضرورت ہے اور ان کے ساتھ مل کر قانونی چارہ جوئی کی راہ تلاش کرنی چاہیے۔

Monday, October 25, 2010

جمہوری ہندوستان میں انصاف کا خون ,تیشہ فکر :عابد انور


جمہوری ہندوستان میں انصاف کا خون
تیشہ فکر عابد انور
ابومنصور سبکتگین(وفات اگست۹۹۷ء۔پیدائش۹۴۲ء) ۹۷۷ ء میں غزنی کا حکمراں بناتھا۔اپنی شجاعت و دلیری کی وجہ سے اپنی سلطنت میں توسیع کی۔ ہندوستان کے راجہ جے پال کو غزنی کے استحکام سے خطرہ محسوس ہوااور انہوں نے غزنی کو تباہ و برباد کرنے کیلئے اس پر حملہ کردیامگرانہیں شکست فاش ہوئی۔ ہرجانے کی شرط پر رہائی نصیب ہوئی لیکن وہ اپنی عادت سے مجبوراپنے عہد پر قائم نہیں رہ سکا اور سبکتگین سے جنگ کرنے لئے غزنی کا رخ کیا لیکن شکست ان کامقدر تھی۔سبکتگین کے بعد ان کا بیٹا سلطان محمود غزنوی (م ۳۰ اپریل ۱۰۳۰ء۔پ ۲ نومبر ۹۷۱ء) ۹۹۷ء میں تخت نشیں ہوا۔ جے پال نے پھر ایک بار معاہدہ کی خلاف ورزی کی اور محمود غزنوی سے ۱۰۰۱ء میں جے پال کی معرکہ آرائی ہوئی اور شکست کے بعد جے پال نے خود کو آگ کے حوالے کردیا۔ جے پال کی موت کے بعد اس کا بیٹا آنند پال تخت نشیں ہوا۔ انہوں نے اجین، گوالیار، کالنجار، قنوج، دہلی اور اجمیر کے ہندو راجاؤں کو شامل کرکے اتحاد تشکیل دیا اور محمود غزنوی سے مقابلہ کیامگر ان کی شجاعت جرات کے سامنے اتنے ہندو راجاؤں کی فوج ٹک نہیں سکی اور زبردست ہزیمت کی شکار ہوئی۔ محمود غزنوی نے ہندوستان پر ۱۷ مرتبہ حملہ کئے اورہر مرتبہ اپنے مفتوحہ علاقے ہندو راجاؤں کے حوالے کرکے غزنی واپس چلے جاتے تھے مگر سب سے بڑا مشہور حملہ جو ہر مورخ کے دماغ کے تاریک کونوں کو روشن کئے ہوئے ہے وہ سومناتھ مندر پر حملہ تھا۔ یہ حملہ دسمبر ۱۰۲۴ ء میں کیا گیا تھا۔ان سطور سے ان سوالوں کا جواب بہ آسانی مل جائے گا کہ مسلمانوں نے ہندوستان پر حملہ کیوں اور کس لئے کیا۔دوسری بات یہ ہے کہ سومناتھ مندر پر حملہ کی تاریخ ،مہینہ اورسال سب کچھ معلوم ہے لیکن اجودھیا میں رام مندر کے توڑے جانے کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے ، نہ دن، نہ تاریخ،نہ مہینہ اور نہ سال جبکہ بابری مسجد ۱۵۲۸ ء میں ظہیر الدین بابر کے سپہ سالار میر باقی نے تعمیر کرائی تھی اگر اس وقت توڑ کر مسجد کی تعمیر کرائی گئی ہوتی بہت شور ہوتا ، ہنگامہ آرائی ہوتی، لوگوں کے زبان پر رام مندر توڑے جانے کا ذکر ہوتا۔ تاریخ کی کتابوں میں ان کا ذکر ہوتا۔ اجودھیا میں رام مندر کا وجود ہوتا تو ہندوستان کی سیاحت کرنے والے فاہیان، ابن بطوطہ اور البیرونی کی تحریر وں میں اس کا ذکر ہوتا جن پر ہندوستانی تاریخ کی بنیاد ہے لیکن یہ سبھی لوگ خاموش ہیں ظاہر سی بات ہے کہ جس کا کوئی وجود ہی نہ ہو تو اس کاذکر کیوں کر کیا جائے گا ان سیاحوں نے ہندوستان کی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی چیزوں ، واقعات، تہذیب، رہن سہن اور تاریخی مقامات کا ذکر کیا ہے۔ تلسی داس کی رامائن سے قبل رام کاکوئی تاریخی وجود نہیں ملتا ہے۔ہندوستان کا کوئی بھی معتبر مورخ رام کے بارے میں حتمی رائے نہیں رکھتا جو بھی بات کہی جاتی ہے وہ صرف روایتوں، قصے کہانیوں اور ہندوستان میں کھیلے جانے والے ڈراموں کی بنیاد پر کہی جاتی ہے نہ کہ حقیقی بنیاد پر نہیں۔
ماہ ستمبر میں دو فیصلے ایسے آئے ہیں جن سے عدلیہ کی جڑیں ہلتی ہوئی محسوس ہورہی ہیں ایک کاتعلق امریکہ سے ہے تو دوسرا امریکہ کو سب سے زیادہ پسند کرنے والا ملک ہندوستان سے۔ امریکہ میں پاکستانی نیورو سائنس داں اور امریکی جیل میں محبوس ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا ہے جنہیں امریکی عدالت نے ۸۶ سال قید کی سزا سنائی ہے ۔ثبوت کے طور امریکی استغاثہ کے پاس ہٹ دھرمی اور من گھڑت بیان کے علاوہ کوئی بھی ثبوت نہیں ہے لیکن اس کے باوجود امریکی ججوں نے انہیں ۸۶ سال کی تاریخی سز ا دی ہے جو کہ ایک موضوع بحث ہے دوسرا فیصلہ مشہور مقدمہ اور ہزاروں لوگوں کی بلی لینے والا اجودھیا قضیہ کاہے ۔جس طرح یکم فروری کو کسی فریق کی بات سنے بغیرفیض آ باد کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے تالا کھلوانے حکم دیا تھا اسی طرح الہ آباد ہائی کورٹ کے لکھنوّ بینچ نے تمام ثبوتوں، دستاویزات ا ور شہادتوں کو پس پشت ڈال کر صرف عقیدے کی بنیاد پر فیصلہ سنا دیا ۔ججوں کے بارے میں کہا جاتاہے وہ صرف اور صرف ثبوت اور دلائل کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں خواہ حقائق انہیں معلوم کیوں نہ ہوں، آستھااور عقیدے کو اپنے اوپر کبھی بھی حاوی ہونے نہیں دیتے لیکن یہاں رام مندر کو تسلیم کرتے ہوےئے فیصلہ سنا دیا گیا اس پر کوئی دلیل نہیں دی گئی کہ رام مندر کیوں ہے ، اسے کب توڑا گیا۔اسے کس نے تعمیر کرایا تھا۔ ہندوستان میں رام تھے تو اجودھیا کے علاوہ پورے ملک میں کسی اور جگہ رام مندر کیوں نہیں ہے۔ چھوٹے موٹے دیوی دیوتا یہاں تک کہ رام کے بھکت ہنومان کے مندر موجود تھے اور ہیں رام تو ہندؤوں کا سب بڑا ہیرو ہیں لیکن رام کا مندرکہیں کیوں نہیں تھا اور کیوں نہیں ہے۔ دونوں فیصلوں میں بہت ہی یکسانیت اور مماثلت ہے دونوں ہی جگہ عدالت میں انصاف کا خون ہوا ہے ۔ دونوں جگہ ہی فیصلے پرجذبات حاوی ہیں ثبوتوں کی جگہ آستھا اور خواہشات کو جگہ دی گئی ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کو جب اقدام قتل کے مبینہ الزام میں ۸۶ سال کی سزا دی جاسکتی ہے تو امریکی شہریوں، جنرلوں اور حکمرانوں کو عراق اور افغانستان میں لاکھوں افراد کے قتل کے جرم میں کتنی سزا دی جانی چاہئے؟۔
ہندو تنظیمیں اجودھیا کے فیصلے پر خوشی منارہی ہیں مگر انہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ یہاں مسلمانوں کی صرف شکست نہیں ہوئی ہے بلکہ ہندوستان کی عظمت کی شکست ہوئی ہے . ہندوستان جو کثیر اور سب سے بڑا جمہوری ملک ہونے کا دعوی کرتا ہے اس کی شکست ہوئی ہے. جس گنگا جمنی تہذیب پر وہ فخر کرتا ہے اس کی شکست ہوئی ہے۔ہندوستان کی عدلیہ اور انصاف کی ہزیمت ہوئی ہے ۔ یہاں یہ راگ الاپتے نہیں تھکتے کہ قانون سب سے بالا اور عقید سے برترہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ سمجھ سے بالاتر ہے آخر کس بنیاد پر فیصلہ کیا گیاہے کیا ہندوستان میں قصے کہانیوں اور عقائد کو شواہد اور دستاویزات پر فوقیت دی جائے گی۔ آستھا کو قانون پر سربلندی حاصل رہے گی؟ یہ فیصلہ کتنا سنگین ہے شاید اس کا احساس ملک کے حکمرانوں کو مکمل طور پر نہیں ہے۔ یہ فیصلہ ملک کے مستقبل کو طے کرے گاکہ یہ ملک اب کس بنیاد پر چلے گا عقائد کی بنیاد پر یا قانون کی بنیاد پر۔ ملک کا قانون سیکولر رہے گا یا عقائد پر مبنی ہوگا یہ فیصلہ کسی چھوٹی موٹی عدالت کا فیصلہ نہیں ہے کہ اسے نظر انداز کردیا جائے یہ عدالت عالیہ کا فیصلہ ہے۔تین ججوں کے بینچ کافیصلہ ہے جہاں سے ناانصافی کی امید بہت کم جاتی ہے۔بابری مسجد کے موجود ہ فیصلے کو ۱۹۹۲ کے مسجد کی شہادت سے زیادہ خطرناک قرار دیا جانا چاہئے کیوں کہ اس دن مسجد کو گرائی گئی تھی لیکن اس دن تو عدالت نے ایک طرح سے ان کے غلط اقدامات کو صحیح ٹھہرادیا ہے۔
اس فیصلے میں مسلمانوں کی تلوار سے مسلمانوں کی گردن اڑائی گئی ہے۔ جسٹس دھرم ویر شرما نے قرآن و حدیث کے حوالے سے اپنے فیصلہ میں کہا ہے کہ کیوں کہ یہ مسجد مندر توڑ کر بنائی گئی تھی اس لئے یہاں نماز نہیں ہوسکتی اور نہ ہی مقبوضہ زمین پر مسجد کی تعمیر جائزہے۔انہوں نے مسجد کی تعمیر ہی کو غلط مانا ہے۔لیکن سوال یہ ہے آخر انہوں نے کس بنیاد پر یہ تسلیم کیا کہ بابری مسجد مندر توڑ کر بنائی گئی ہے۔اس کے لئے انہوں نے کوئی قطعی دلیل پیش نہیں کی صرف آستھاکا خیال رکھا۔ریٹائر ہونے کے بعد ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنے خیالات اور عقیدے کا کھل کر اظہار کیا تھا اس کی نشست کے پست میں رام للا کی مورتی کا فوٹو تھا۔ان کی باتوں سے کہیں نہیں لگ رہا تھا کہ انہوں نے کسی دلیل کو تسلیم کیاہے اور نہ ہی وہ کسی دلیل کی بات کر رہے تھے صرف عقید ے کی بات کر رہے ہیں اور اپنے فیصلے کو جائز ٹھہرانے کے لئے قرآن ، حدیث اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ دے رہے تھے۔انہوں نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ کسی ناجائز جگہ پر تعمیر کی گئی مسجد کو مسجد نہیں مانا گیا ہے اور نہ ہی اس میں نماز پڑھنا جائز ہے۔اس میں جو سب سے بڑا جھول ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک غلط چیز کو تسلیم کرلیا اور فیصلے کی پوری عمارت اس پر کھڑی کردی اور انہوں نے اس نقطے پر غور کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی کہ ۱۵۲۸ء سے دسمبر ۱۹۴۹ء تک مسجد میں جبراً مورتی رکھے جانے تک اس میں برابر نماز ہوتی رہی تھی۔
سب سے غلط چیز کا چلن جو اس فیصلے سے عام ہونے کااندیشہ ہے وہ یہ ہے کہ ایک غلط نظیر قائم ہوئی ہے اس نظیر کی بنیاد پر اس طرح کے فیصلے کئے جاتے رہیں گے۔ کسی مذہبی مقام پر قبضہ کرکے اور عقیدے کا حوالہ دے کر ناجائز قبضے ہونے شروع ہوجائیں گے اور عدالت آستھا کا حوالہ دے کر انصاف کرنے سے قاصر رہے گی۔سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس فیصلے کے بعد ملک میں کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہیں ہوا لیکن یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آخر امن کے دشمن اور ’’قسم رام کی کھاتے ہیں مندر وہیں منائیں گے‘‘، ’’عدالت کافیصلہ ہم نہیں مانیں گے یہ ہمارے آستھا کا سوال ہے‘‘۔ اسی طرح کی اشتعال انگیز باتیں کرنے والے امن کی باتیں کیوں کررہے تھے مسلمانوں کا ماتھا اسی وقت ٹھنک جانا چاہئے تھا۔ ہندوتو کے علبردار تمام لیڈران کو یہ معلوم تھا کہ فیصلہ کیا آنے والا ہے ۔ اس سے وابستہ وکلاء جس انداز میں اور جس اعتماد سے باتیں کررہے تھے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں معلوم تھا کہ کس طرح کا فیصلہ آئے گا۔جشن نہ منانے کی اپیل کرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی کے آفس میں جم کر جشن منایا گیا اور پٹاخے چھوڑے گئے ۔ اس کے علاوہ بھگوا بریگیڈ نے ملک کے دیگر حصوں میں بھی جشن منایا۔جس طرح بابری مسجد میں مورتیاں رکھوانے سے لے کر تالا کھلوانے اور شیلانیا س کرانے کا سہرا کانگریس کے سر ہے اسی طرح اس غیر مصنفانہ فیصلہ کا سہرا بھی کانگریس کے ہی سر جاتا ہے۔کانگریس نے یہ سوچا تھا کہ جس طرح بابری شہادت کا واقعہ بھول کر ۲۰۰۴ اور ۲۰۰۹ میں مسلمانوں نے کانگریس کا ساتھ دیا اور مسلم ووٹ کے سہارے وہ اقتدار سے لطف اندزو ہورہی ہے ۔ اسی طرح زمین ایک قطعہ د ے کر مسلمانوں کو خوش کردیں گے۔ کانگریسی حکومت اور ہندوستان کے تمام رہنماؤں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ ظلم و جبر کے سہارے حق کو کچھ دیر کے لئے تو دبایا جاسکتا ہے لیکن ہمیشہ کے لئے نہیں کیوں کہ حق کی آواز ایک دن بلند ہوکر رہتی ہے۔
مسلمانوں کے لئے اچھی بات یہ ہے کہ تمام صاحب فکر، سیکولر، صاف شفاف ذہن رکھنے والے اور حق و انصاف کی آواز بلند کرنے والے وکلاء نے اس فیصلے سے اتفاق نہیں کیا ہے ۔ سب نے ہی اسے فیصلہ نہیں بلکہ پنچایت قرار دیا ہے جہاں فیصلہ دلائل کی بنیاد پر نہیں رتبہ، دبدبہ،طاقت اور منہ دیکھ کر کیا جاتاہے۔الہ آباد ہائی کورٹ کے لکھنو بینچ میں بھی اسی طرح کا فیصلہ ہوا ہے جہاں انہوں نے دلائل کو ایک طرف رکھ ایک مفروضہ کو حقیقت کی شکل میں تسلیم کرتے ہوئے فیصلہ صادر کردیا ۔ مسلمانوں کو ان سب لوگوں ساتھ لے کر اور ان سے صلاح و مشورہ کرکے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے سے پہلے لائحہ عمل تیارکرنا چاہئے اور تمام دلائل، نظیر، دستاویزات، گزٹ اوروقف میں درج بابری مسجد کے حقائق کا گہرائی اور گیرائی کے ساتھ مطالعہ اور تجزیہ کرنا چاہئے۔
ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۲۵
9810372335
E-mails
abidanwaruni@gmail.com
abid.anwar@yahoo.co.in

بابری مسجد کا معاملہ ,ہندوستانی جمہوریت پر بدنماداغ,تیشہ فکر: عابد انور




بابری مسجد ہندوستانی جمہوریت، عدلیہ، مقننہ،انتظامیہ کی جانب داری، تعصب اور ہٹ دھرمی کاشکار رہی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور سنگھ پریوار نے اسے ہمیشہ لہلہاتے فصل کی شکل دیکھا اور جم کر کٹائی کی تو کانگریس نے ہمیشہ اس کی آبیاری کی اور سنگھ پریوار کو مسلمانوں کو ڈرانے، دھمکانے، دوسرے درجے کا شہری بنانے اور نفسیاتی شکست سے دوچار کرنے کے لئے موقع فراہم کرتی رہی۔بابری مسجد کی شہادت مسلمانوں کو ہراساں کرنے یا بابری مسجد کی شہادت کی تیاری کے لئے صرف سنگھ پریوار کو قصوروار ٹھہرانا ناانصافی ہوگی اس کے لئے کانگریس بھی اتنی ہی ذمہ دار ہے جتنی کہ سنگھ پریوار یا بی جے پی۔فسادات کی تمام جڑوں کا سرا کانگریس سے جا ملتا ہے۔بابری مسجد گزشتہ ساٹھ برسوں سے ناانصافی کا رونا رو رہی ہے لیکن ہندوستانی حکومت نے کبھی بھی اس کے درد کو سمجھنے اس کی کراہ کو محسوس کرنے اور اس کی تکلیف دیکھنے کی کوشش کی نہیں بلکہ وہ آنکھ موند کر سوتی رہی۔کبھی حالات کا بہانہ بناکر تو کبھی امن و قانون کا سہارا لے کر مسلمانوں پرظلم و ستم کا پہاڑ توڑنے کے لئے دروازہ کھولتی رہی۔
سپریم کورٹ نے میش چندر ترپا ٹھی کی عرضی خارج کرکے الہ آباد کورٹ کے لکھنو بینچ کو فیصلہ سنانے کی ہدایت دے دی۔بابری مسجد کا فیصلہ ۲۴ ستمبر کو آنے والا تھا لیکن پھر ایک بار اسے روکنے کی کو بھرپور تیاری کی گئی تھی۔بہانہ ملک کے حالات کوبنایا گیا، سیلاب، کامن ویلتھ گیمز اور کشمیر کے حالات کا حوالہ دیا گیااور یہ کہا گیا کہ بات چیت کا موقع دیا جائے تاکہ آپس اس مسئلے کو سلجھایا جاسکے۔بات چیت بری چیز نہیں ہے اور ہر مسئلے کا حل بات چیت اور مذاکرات کے ذریعہ ہی نکلتے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ بات چیت کس سے کی جائے، کس پربھروسہ کیا جائے، حکومت پر، سنگھ پریوار پر،بھارتیہ جنتا پارٹی یا کسی اورہندو گروپ پر، سب نے مسلمانوں کو دھوکہ ہی دیا ہے۔گزشتہ ۶۰ برسو ں میں مسلمانوں کو دھوکہ کے علاوہ اور کیا ملا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ۱۹۹۲ کے بعد گزشتہ ۱۸ برسوں کے دوران کسی سمجھوتے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی۔ ہندو رہنماؤں کی جانب سے کسی پہل کی گنجائش کیوں نہیں نکالی۔آخر وہ لوگ کس زعم میں تھے۔ ۱۹۹۲ تک ہندو رہنماؤں سے کئی دور کی بات چیت ہوئی ہے۔ سابق وزرائے اعظم وشوناتھ پرتاپ سنگھ اور چندر شیکھر نے اس ضمن میں کئی بار کوششیں کی لیکن ساری سعی لاحاصل رہی اور کوئی بات چیت منطقی انجام تک نہیں پہنچ پائی۔ وجہ ان کی ہٹ دھرمی تھی، اس کے پس پشت حکومت کی طاقت تھی، عدلیہ، مقنہ، انتظامیہ اور میڈیا کی حمایت حاصل تھی۔وہ ہر حال میں بابری مسجد کا نام و نشان اجودھیا سے مٹا دینا چاہتے تھے اور انہوں نے دن کے اجالے میں پوری دنیا کے میڈیا کے سامنے یہ کردکھایا، حکومت، عدالت، مقننہ اور انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہی۔کسی نے اس کی آہ کو محسوس کرنے کی کوشش نہیں کی۔ہندو رہنماؤں سے آخری مذاکرات بابری مسجد کی شہادت سے چھ ماہ قبل دہلی کے جامع مسجد کے موجود ہ شاہی امام مولا نا سید احمد بخاری کی قیادت والی بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے ساتھ ہوئی۔اس سے پہلے سید شہاب الدین کی کنوینر شپ والی بابری مسجد رابطہ کمیٹی نے ان لوگوں سے بات چیت کرنے سے انکار کردیا کیوں کہ انہیں اندازہ تھا کہ یہ صرف وقت کا زیاں ہے اور وہ لوگ جبراً بابری مسجد کو ہتھیانا چاہتے ہیں کیوں کہ جب بھی ثبوت دینے کی بات کی جاتی یا کسی موقف پر قائم رہنے کے لئے کہا جاتا وہ بدک جاتے اور انہوں نے اس ضمن میں مسلم مذاکرات کاروں کو کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا اور نہ ہی کسی بات پر قائم رہے ۔ مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر مسلمانوں کی مذہبی تنظیم جب بھی کسی موقف پر ٹھہرنے یا اس پر عمل کرنے کی بات تو مذاکرات کرنے والے ہندو رہنماؤں نے راہ فرار اختیار کی ۔ باآاخر انہوں نے بات چیت کرنے کے لئے شاہی امام سید احمد بخاری کا سہارا لیا تھا اور اس کے چھ ماہ بعد مسجد کی شہادت عمل میںآئی تھی۔مسجد کی شہادت اور آخری مذاکرات میں گہرا رشتہ ہونے کا شبہ ہے اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ شاہی امام ۲۰۰۴ میں بی جے پی کی کھلم کھلا حمایت کرچکے ہیں۔وہ ابھی بھی بی جے پی کے تئیں نرم گوشہ رکھتے ہیں ورنہ بی جے پی اقلیتی مورچہ والے کبھی بھی جامع مسجد سے گاندھی سمادھی تک امن مارچ کرنے کی ہمت نہیں کرتے۔انہوں نے امن مارچ کے لئے جھنڈے والان کو کیوں منتخب نہیں کیا۔وہاں سے مضبوط انداز میں پیغام جاتا اور میڈیا میں اس امن مارچ کوریج بھی بہت ملتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا کیوں کہ بی جے پی یہ پیغام ہندؤوں میں پہنچانا ہی نہیں چاہتی ہے ۔کہا جاتا ہے نا کہ دوست ہی دوست کے کام آتا ہے۔
نفرت کے سوداگر اور امن کے دشمنوں کو آخری امن مارچ کی ضرورت کیوں پیش آگئی وہ بھی جامع مسجد کے علاقے سے ،کیا بدامنی کا خطرہ صرف مسلمانوں سے ہے۔وہ تو رتھ یاترا کے ماہر ہیں آج تک انہوں نے کبھی امن مارچ نہیں کیا، ۲۰ برس قبل ،۲۵ ستمر۱۹۹۰ کو بی جے پی کے سینئر لیڈر ایل کے اڈوانی نے سومناتھ مندر سے خونی رتھ یاترا شروع کی تھی جسے بابری مسجد کی شہادت کاداغ بیل کہا جاسکتا ہے۔اس یاترا کے بارے میں لبراہن کمیشن نے بھی سخت ریمارکس کئے ہیں ۔ اس یاترا کے دوران جگہ جگہ فسادات ہوئے تھے آخر کاراس وقت کے بہار کے وزیر اعلی لالو پرساد یادو نے سمستی پور میں اس یاترا کا انت کردیا تھا جس کی قیمت وہ آج تک چکا رہے ہیں ۔ چارہ گھوٹالے کے الزام میں لالو پرساد یادو کو گرفتار کرنے کے لئے اس وقت کے سی بی آئی کے جوائنٹ ڈائرکٹر بسواس نے پٹنہ میں فوج کو بلالیا تھا۔کسی لیڈر کو گرفتار کرنے کے لئے فوج کو بلایا گیاہو ہندوستان کی تاریخ میں ایسی نظیرنہیں ملتی۔کیوں کہ وہ اڈوانی کو گرفتار کرنے کے ملزم تھے اس لئے انہیں ذلیل کرنے کی ہر سطح پر کوشش کی گئی۔مسٹر اڈوانی بابری مسجد کی شہادت سے قبل بھی ایسی ہی رتھ یاترا نکالی تھی۔
بابری مسجد کے معاملے کو الجھانے، بگاڑنے اور عملاً ایک مندر میں تبدیل کرنے کا آغاز پنڈت جواہر لال نہرو نے کیا تھا جس کا نقطہ انجام کانگریسی وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ کے زمانے میں پہنچا۔جواہر لال نہرو کے دور حکومت میں جب مرکز اور یوپی دونوں جگہ کانگریس پارٹی برسراقتدار تھی دسمبر ۱۹۴۹ کو رات کے اندھیرے میں بابری مسجد میں مورتی رکھ دی گئی اورجواہر لال نہرو اسے ہٹانے میں ناکام رہے جب کہ وہ اس وقت سب سے طاقتور وزیراعظم تھے اس وقت میں ہندؤوں اور مسلمانوں میں ہم آہنگی کی قدریں موجود تھیں۔اس کے علاوہ اور بھی کانگریسی وزیر اعظم نے اس میں اہم رول ادا کیا۔راجیو گاندھی کا نام اس معاملے میں خصوصی طور پر لیا جائے گا کیوں کہ ان کے زمانے میں بابری مسجد کا تالا کھولا گیا، انہوں نے اجودھیامیں رام مندر کا شیلانیاس کیا اور ۱۹۸۹ میں اپنی انتخابی مہم کا آغازبھی انہوں نے اجودھیا سے کیا تھا۔ ۶ دسمبر ۱۹۹۲ کو جب مسجد شہید کی جارہی تھی اس وقت مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی ا ور وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤاس اندوہناک منظر سے لطف اندوز ہورہے تھے۔
۲۴ ستمبر کوالہ آباد ہائی کورٹ کے لکھنو بینچ کا فیصلہ آنے والا تھا جسے رمیش چندر ترپاٹھی کی عرضی پر سپریم کورٹ نے اسٹے کردیا تھا۔سپریم کورٹ نے اس سمت میں صحیح فیصلہ کیا ہے ۔سوال یہ ہے کہ جو معاملہ گزشتہ ۶۰ برسوں میں بات چیت سے حل نہیں ہوسکا تو وہ چند دنوں میں کیسے ممکن ہے۔جس کا اظہار سپریم کورٹ کے ایک فاضل جج نے بھی کیا۔آخر فیصلہ روکنے سے کس کا بھلا ہوتا۔اس میں نہ تو عوام کا بھلاہوتا اور نہ ہی ملک کا۔عوام سانس روکے فیصلے کا انتظار کر رہے تھے اعصاب شکن اس انتظار سے عوام پہلے ہی کافی پریشان تھے اسے لٹکاکر عوام کو پھر پریشانی میں مبتلا کرنے کی کوشش جارہی تھی اس میں بھی کانگریس کسی نہ کسی حد تک دخیل ہوسکتی ہے۔مسلمان جب کہہ چکے ہیں عدالت کا جو بھی فیصلہ آئے گا اسے قبول ہوگا تو ہندو بھائیوں کو پھر کس چیز سے پریشانی ہے۔ہندو شدت پسند رہنما شروع سے ہی یہ کہتے آرہے ہیں کہ ا س پر فیصلہ کرنا عدالت کی بساط سے باہر کی چیز ہے۔یہ آستھا کا سوال ہے جس کاعدالت میں فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔آخر کس چیز کا خوف انہیں کھائے جارہا ہے کہ وہ کسی مرکز پرقیام کرنے کی گریز کرتے ہیں۔اجودھیا ایشو میں سب سے زیادہ جس چیزکو مثال کے طور پر اچھالا جاتا ہے وہ ہے شاہ بانو کیس کا معاملہ ۔ انہیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہونی چاہیے کہ شاہ بانو کا معاملہ مسلمانوں کا خالص معاملہ تھا اس میں کوئی دوسرا فریق شریک نہیں تھا اور حکومت ہند نے جو بھی لنگڑا لولا قانون بنایاہے اس سے کسی فرقہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا جب کہ اجودھیا کا معاملہ ایسا نہیں ہے ۔ یہ مالکانہ حق کامعاملہ ہے اسے تو صرف فیصلے یا بات چیت سے حل کیا جاسکتا ہے قانون بناکرنہیں۔ ہندوؤں کو اپنے سسٹم پر اعتماد ہونا چاہئے۔
خون خرابہ، انتہاپسندی، فساد، تشدد، مرنے مارنے اور دیکھ لینے کی بات کرنے والے اس بار امن کی بات کرتے دیکھے گئے۔یہ اچھی بات ہے کہ ۲۴ستمبر کو آنے والے فیصلے کے موقع پر تمام طبقوں نے اس سمت میں پہل کی اور کہا کہ ہم ہر حال میں امن قائم رکھیں گے۔درحقیقت گزشتہ کئی دہائیوں سے ملک کے عوام اس مسئلے سے تنگ آچکے ہیں اور سیاست دانوں کی عیاری، مکاری ، خود غرضی، مطلب پرستی او ر اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے عوام کو تشدد کی بھٹی میں جھونکنے کی سازش سے واقف ہوچکے ہیں۔خاص کر نوجوان طبقہ جو سنہری مستقبل کے منتظر ہیں، وہ ان لایعنی باتوں سے گریز کرتے ہیں۔انہیں اجودھیا مسئلہ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ان کے سامنے مسابقت کا چیلنج ہے وہ امن کی راہ پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں ان کو معلوم ہے کہ تشدد سے ان کا کوئی بھلا نہیں ہوگا بلکہ اس سے وہ پستی کی کھائی میں گریں گے۔اسی عوامی مزاج نے ہر لیڈر کو پریشان کردیا ہے اور وہ اب امن کی بات کرنے لگے ہیں۔
یہ اچھی بات ہے لکھنے پڑھنے والوں نے اس بار مثبت رخ اپنایا ہے ورنہ لکھنے پڑھنے والے ہی سب سے زیادہ زہر اگلتے تھے اور ایسی باتیں کہتے تھے جس سے اشتعال پھیلتا تھا۔ ہندوستان میں سب سے زیادہ فرقہ پرست اور متعصب پڑھے لکھے لوگ ہی ہوتے ہیں۔ انٹرنیٹ پرہونے مباحثے میں چند ایک کوچھوڑ کر بیشتر لوگوں نے امن کی باتیں کی ہیں اور مسجد مند ر دونوں کے حق میں اپنی رائے ظاہر کی ہے ا ور یہ کہا ہے جب متھرا میں مسجد مندر اور بنارس میں کاشی ناتھ مندر کے ساتھ مسجد ہوسکتی ہے تو اجودھیا میں کیوں نہیں۔ہندوستان کے مسلمان بھی مسجد کے ساتھ مندر بنانے کے مخالف نہیں ہیں لیکن یہ ضرور چاہتے ہیں کہ بابری مسجد ان کے حوالے کردی جائے کیوں کہ یہ مسجد ہے اور تمام دستاویزات سے مسجد ثابت ہے۔عدالت کے فیصلے لٹکانے کے پس پشت شایدیہی وجہ ہے اور فیصلے کو ٹالنا انصاف کا مزید خون کرنے کے مترادف ہوگا۔
ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۲۵
9810372335
E-mails
abidanwaruni@gmail.com
abid.anwar@yahoo.co.in

Friday, October 22, 2010

آستھا کی بھینٹ چڑھ گیا فیصلہ: وسیم راشد



تیس ستمبر دوپہر 3بجے کا وقت ،ہندوستان کے ہر شہر، ہر گلی، ہر محلہ میں سناٹا طاری۔ شہر ویران، گلیاں سنسان، ایسا لگ رہا تھا جیسے کہ خدانخواسہ کوئی بڑا طوفان آکر گزر گیا ہو، مگر یہ طوفان کے پہلے کا سناٹا تھا، جب کہ ہندوستان کی تاریخ کا سب سے بڑا فیصلہ آنے والا تھا۔ سبھی کی آنکھیں اس فیصلے کی منتظر تھیں۔ ہر دل کی دھڑکن اس فیصلے کی آہٹ پر کان لگائے ہوئے تھی۔ ایک خوف، ایک بے چینی کا عالم طاری تھا کہ دیکھئے یہ فیصلہ کس کے حق میں جاتا ہے۔ کسی بڑے فساد کا خوف سب کے دلوں میں سمایا ہوا تھا، اس لیے لوگ اپنے اپنے گھروں میں بند ہوگئے تھے۔ میڈیا نے ایسا ماحول بنادیا تھا کہ جیسے کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا اور اسی خوف نے لوگوں کو گھروں میں بند کردیا تھا اور آخر کار 4بجے کے قریب یہ تاریخی فیصلہ آیا اور 10منٹ تک تو ہر چینل پر کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی اور جب یہ فیصلہ اللہ اللہ کر کے پڑھا گیااور چینلز نے اپنے اپنے الفاظ میں اس کو دینا شروع کیا تو اپنی سماعت پر لمحہ بھر کو یقین نہیں آیا۔ اس لیے نہیں کہ مسلمان ہونے کے ناطے ہمارے کان صرف اور صرف اپنے حق میں فیصلہ سننے کے منتظر تھے، نہیں بلکہ ایک صحافی کی حیثیت سے جو ذمہ داری ہمارے کندھوں پر ہے اسی دیانت داری اور صحافتی ایمانداری کی کسوٹی پر بھی اس فیصلے کو جب رکھا گیا تو محسوس ہوا کہ یہ فیصلہ تو صرف اور صرف آستھا (عقیدت) کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ دس ہزار صفحات پر مشتمل اس فیصلے میں جسٹس شرما، جسٹس اگروال اور جسٹس خان تینوں نے ہی اس بات پر تو ایک ہی فیصلہ دیا کہ مسجد تھی یا نہیں، نماز ہوتی تھی یا نہیں۔ اس پر تینوں کا ہی ماننا تھا کہ نماز ہوتی تھی، مسجد تھی، مگر جب یہ سماعت ہوئی کہ مسجد کس کو دی جائے تو جسٹس شرما کا فیصلہ تھا کہ رام مندر کو اور باقی 2ججوں کا فیصلہ تھا کہ تینوں کو۔ اسی طرح جب یہ بات آئی کہ وہاں رام مندر توڑا گیا تھا تو جسٹس شرما کا کہنا تھا کہ ہاں مگر باقی 2ججوں کا کہنا تھا کہ نہیں۔ ایک اور دلچسپ سوال تھا کہ کسی اور مندر کو توڑ کر مسجد بنائی گئی تھی تو بھی شرما جی کا جواب ہاں میں تھا اور باقی دو میں سے جسٹس اگروال کا جواب تھا کہ ایسا ہوسکتا ہے اور جسٹس خان کا جواب نہیں میں تھا۔ کل ملا کر اس فیصلے میں جسٹس شرما کا کردار بالکل ایسا لگ رہا تھا جیسے کہ کوئی دھرم گرو فیصلہ کر رہا ہو اور کسی بڑے دھرم گرو یا مہنت کے ہاتھ میں فیصلہ دے دیا گیا ہو کہ ’لو جی تم اپنی عقیدت کی بنیاد پر فیصلہ کرو‘ اور اس شرما نام کے دھرم گرو نے باقاعدہ پورے ملک کی سا لمیت، پورے ملک کے سیکولر کردار اور تمام تاریخ دانوں کی رائے، شواہد و حقائق کو بالائے طاق رکھ کر فیصلہ سنادیا۔ باقی دونوں ججوں نے پھر بھی کافی حد تک اس فیصلہ کوبیلینس رکھنے کی کوشش کی، مگر اس کوشش میں پورا کا پورا فیصلہ ہی کنفیوژ فیصلہ بن گیا اور اس کنفیوژ فیصلہ کا اعتراف سبھی نے کیا ہے۔ لالو پرساد یادو کا یہ کہنا کہ یہ فیصلہ کنفیوژن پیدا کرنے والا ہے اور کچھ بھی کہہ پانا مشکل ہے، یقینا صحیح بیان ہے، اسی طرح کمیونسٹ رہنما سیتارام یچوری نے بھی اس کو ایک طرح سے کنفیوژ فیصلہ ہی کہا ہے۔ ہاں آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت جی کا بیان امید کے مطابق ہے کہ اس فیصلہ کو کامیابی اور ناکامی کا نام نہیں دینا چاہیے، بلکہ قومی مفاد میں اسے تسلیم کرلینا چاہیے۔ موہن بھاگوت جی کے اس بیان میں اگر ان سے یہ پوچھا جائے کہ قومی مفاد کا خیال اس لیے رکھا جائے کہ اب فیصلہ اکثریت کے حق میں ہے یا یہ بیان ان کا تب بھی ہوتا جب فیصلہ اقلیت کے حق میں جاتا۔ ایک بات اور یہاں بہت اہم ہے کہ بار بار یہ کہا گیا اور میڈیا نے بھی باربار یہ پروپیگنڈہ کیا کہ ملک میں امن و سلامتی برقرار رکھی جائے، سبھی فرقہ کے سبھی مذاہب کے سربراہان کی جانب سے بھی یہ اپیل بار بار کی گئی اور اقلیت کے ذہن میں بھی یہ خوف تھا کہ اگر فیصلہ ان کے حق میں آجاتا ہے تو پورے ملک میں آگ لگ جائے گی، کیا اس آگ لگ جانے اور فساد کے خوف سے یہ فیصلہ پورا کا پورا اکثریتی فرقہ کے حق میں دے دیا گیا؟ کیا کسی گھر کے ایک فرد کو کوئی موذی مرض لاحق ہوجائے تو اس خوف سے کہ کہیں سچائی جاننے پر گھر کے لوگ مر نہ جائیں۔ ڈاکٹر اس مرض کو نہیں بتاتا اور اس طرح مرنے والا مرجاتا ہے۔ فرقہ پرست طاقتوں نے اس بات کو پھیلانے اور اس کا پرپیگنڈہ کرنے کی کوشش کی کہ فیصلہ اگر وقف بورڈ کی حمایت میں آئے گا تو ہندو فساد کریںگے اور پورے ملک کو آگ میں جھونک دیںگے اور اگر ان کے حق میں آئے گا تو بھی وہ اپنی فتح کا جشن منائیںگے، جس سے کہ فساد ہوسکتا ہے۔ یعنی اقلیت کسی گنتی میں ہے ہی نہیں۔ اکثریت ہر طرح سے طاقتور ہے اور وہ جیسا چاہے گی ویسا ہی رد عمل ہوگا۔ ہاں اقلیت کی ان معنوں میں ضرور تعریف کرنی چاہیے کہ ان کے سبھی جماعتوں کے لیڈران اور سربراہان نے اس فیصلے کو چاہے قبول نہیں کیا اور سپریم کورٹ میں جانے کی بات کی، مگر اس فیصلے کے خلاف کوئی نعرہ بازی یا جلسے جلوس کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ فیصلے کے اگلے دن یعنی یکم اکتوبر کے ٹائمس آف انڈیا میں شائع ایک خبر یاد آرہی ہے، جس کو پڑھ کر اچھا لگا تھا کہ جب مسلم اکثریتی علاقے کے نوجوانوں سے یہ سوال کیا گیا کہ ان کو کیا لگ رہا ہے اور کیا فیصلہ ہونا چاہیے تھا تو زیادہ تر نوجوانوں نے یہ جواب دیا کہ متنازع جگہ پر اسپتال بنا دینا چاہیے۔ یہ ایک معصومانہ جواب تھا، مگر اس جواب میں وہ حقیقت تھی، وہ جذبہ تھا جو یہ نہیں چاہتا کہ اب اور ملک فساد کی نذر ہو۔ اسی طرح جب کچھ اور نوجوانوں سے سوال کیا گیا کہ کیا ہونا چاہیے تو زیادہ تر پڑھے لکھے نوجوان طبقے کی رائے تھی کہ اسکول یا کالج کا قیام عمل میں لانا چاہیے اور دونوں ہی فرقوں کے لیے اس اسکول یا کالج کا نام ایسا رکھ دینا چاہیے جس سے کہ یہ واضح ہو جائے کہ یہ دونوں کا مشترکہ سرمایہ ہے۔ یہ ہے آج کے نوجوان کی سوچ۔ اور سچ میں جب کہ اس وقت ملک مہنگائی، بدعنوانی، بھوک اور بیماریوں سے نبردآزما ہے، ایسے میں کیا بابری مسجد-رام مندر کا ایشو اتنا ہی اہم ہے، اس کے لیے پورے ملک کو آگ میں جھونک دیا جائے۔ ہاں یہ بھی ضروری ہے کہ اس فیصلے کا سبھی پارٹیاں سیاسی فائدہ اٹھانے کی بھر پور کوشش کریںگی۔
جیسا کہ ملائم سنگھ یادو نے بڑے ہی درد مندانہ انداز میں کہا ہے کہ فیصلہ میں آستھا کو قانون اور ثبوتوں سے اوپر رکھا گیا ہے اور اس فیصلہ سے مسلمان ٹھگا ہوا محسوس کر رہا ہے۔ملائم سنگھ کا یہ بیان کتنا سچا اور کھرا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا، شاید ووٹ بینک بنانے کا یہ بھی ایک حصہ ہو، مگر پھر بھی ڈوبتے کو تنکے کا سہارا۔ اس بیان سے کافی حد تک مسلمانوں کو تقویت ملی ہے۔ایک اور بات بڑی ہی عجیب لگی ، نو بھارت ٹائمز کا جب نیٹ ایڈیشن نظر سے گزرا تو ایک بلاگ پر ایک بڑا ہی اچھوتا قسم کا آرٹیکل دیکھنے کو ملا۔ جس کا عنوان تھا ’’کیا مسجد سے مندر کو چھوت لگ جائے گی‘‘۔ اتنا اچھوتا عنوان دیکھ کر پڑھنے کا تجسس ہوا تو اس میں لکھا تھا کہ بی جے پی کے لیڈر اس فیصلہ کے بعد میٹنگ کر کے باہر نکلے تو سب کے چہرے لٹکے ہوئے تھے جس کو دیکھ کر بڑا تعجب ہوا کہ ان کو تو خوش ہونا چاہئے تھا کہ فیصلہ ان کے حق میں آیا ہے۔لیکن لگا کہ کہیں ان کو یہ دکھ تو نہیں کہ اب یہ ووٹوں کو سیاست کس پر کریں گے اور یہ نعرہ کہ ’’قسم رام کی کھاتے ہیں مندر وہیں بنائیں گے‘‘نہیں لگا پائیں گے پر جلد ہی بات سامنے آ گئی کہ فیصلہ میں ایک تہائی حصہ جو مسلمانوں کو ملا ہے وہ اس کے بارے میں پریشان تھے، کیونکہ صحافی بار بار ان سے سوال کر رہے تھےاور کہہ رہے ہیں کہ رام مندر بنانے میں پورے ملک کو ساتھ دینا چاہئے تو کیا آپ اس ایک تہائی زمین پرمسجد بنانے میں مسلمانوں کا ساتھ دیں گے، مگر سبھی نے خاموشی اختیار کر لی۔ صرف اڈوانی جی نے جواب دیا کہNo question will be taken. یعنی سبھی کو اس بات کی خوشی کم تھی کہ مندر بنا سکتے ہیں اس بات کا دکھ زیادہ تھا کہ ایک تہائی پر بھی کیوں مسجد کی بات کہی گئی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ مسجد سے مندر کو کوئی چھوت لگ جائے گی۔ یہ رویہ ہے ہمارے سینئر لیڈران کا۔ پرعام آدمی کو کیا اس سے واقع کوئی مطلب ہے کہ مندر بنے یا مسجد۔ اس عام آدمی کو جو اس وقت آلو پیاز کے دام دیکھ کر اپنی جیب ٹٹولتا ہے۔وہ آدمی جسے سبزی ترکاری بھی میوئوں کے دام دے کر خریدنی پڑ رہی ہیں۔ اس عام آدمی کی بھی سوچئے، مندر مسجد بھی بنائیے، لیکن عام آدمی کو روز مرہ کی اشیا کی بڑھتی قیمتوں سے چھٹکارا بھی دلائیے، کیونکہ’’ بھوکے پیٹ بھجن نہ ہو‘‘ کی کہاوت عام ہے۔کیونکہ بھوکے پیاسے ہندو یامسلمان کو روٹی سے مطلب ہے مندر یا مسجد سے نہیں۔

بشکریہ چوتھی دنیا

Thursday, October 21, 2010

آستھا کے نام پر فیصلہ کرنے والے لوگ :روش کمار

بشکریہ روزنامہ صحافت دھلی

بابری مسجد کا فیصلہ، کس بنا پرمسلمانوں کے دعویٰ کو مستردکردیاگیا?:صفی علی اعظمی

بشکریہ روزنامہ منصف حیدرآباد

اگر یہ تنازعہ حل ہو گیا تو ؟ ڈاکٹر محمّد عابدالرحمان

بشکریہ روزنامہ صحافت دھلی

کیا بابر مندرشکن تھا؟: مولانا ندیم الواجدی

بشکریہ روزنامہ صحافت دھلی

بابری مسجد ملکیت کا فیصلہ ،حقائق نظر انداز :اقبال احمد انجینئر

بشکریہ روزنامہ منصف حیدرآباد

بابری مسجد ملکیت ، فیصلے کا التوا ؟ :اقبال احمد انجینئر

بابری مسجد کا مقدّمہ :ایک تجزیہ :محمّد مصطفیٰ علی سروری

سپریم کورٹ کے باہر ہو بابری مسجد کا فیصلہ،رام مندر کے لئے پوری زمین دی جائے تو کہیں بھی مسجد کی تعمیر ہم کریں گے:میٹنگ میں مشوره

بشکریہ روزنامہ صحافت دھلی