Monday, October 25, 2010

جمہوری ہندوستان میں انصاف کا خون ,تیشہ فکر :عابد انور


جمہوری ہندوستان میں انصاف کا خون
تیشہ فکر عابد انور
ابومنصور سبکتگین(وفات اگست۹۹۷ء۔پیدائش۹۴۲ء) ۹۷۷ ء میں غزنی کا حکمراں بناتھا۔اپنی شجاعت و دلیری کی وجہ سے اپنی سلطنت میں توسیع کی۔ ہندوستان کے راجہ جے پال کو غزنی کے استحکام سے خطرہ محسوس ہوااور انہوں نے غزنی کو تباہ و برباد کرنے کیلئے اس پر حملہ کردیامگرانہیں شکست فاش ہوئی۔ ہرجانے کی شرط پر رہائی نصیب ہوئی لیکن وہ اپنی عادت سے مجبوراپنے عہد پر قائم نہیں رہ سکا اور سبکتگین سے جنگ کرنے لئے غزنی کا رخ کیا لیکن شکست ان کامقدر تھی۔سبکتگین کے بعد ان کا بیٹا سلطان محمود غزنوی (م ۳۰ اپریل ۱۰۳۰ء۔پ ۲ نومبر ۹۷۱ء) ۹۹۷ء میں تخت نشیں ہوا۔ جے پال نے پھر ایک بار معاہدہ کی خلاف ورزی کی اور محمود غزنوی سے ۱۰۰۱ء میں جے پال کی معرکہ آرائی ہوئی اور شکست کے بعد جے پال نے خود کو آگ کے حوالے کردیا۔ جے پال کی موت کے بعد اس کا بیٹا آنند پال تخت نشیں ہوا۔ انہوں نے اجین، گوالیار، کالنجار، قنوج، دہلی اور اجمیر کے ہندو راجاؤں کو شامل کرکے اتحاد تشکیل دیا اور محمود غزنوی سے مقابلہ کیامگر ان کی شجاعت جرات کے سامنے اتنے ہندو راجاؤں کی فوج ٹک نہیں سکی اور زبردست ہزیمت کی شکار ہوئی۔ محمود غزنوی نے ہندوستان پر ۱۷ مرتبہ حملہ کئے اورہر مرتبہ اپنے مفتوحہ علاقے ہندو راجاؤں کے حوالے کرکے غزنی واپس چلے جاتے تھے مگر سب سے بڑا مشہور حملہ جو ہر مورخ کے دماغ کے تاریک کونوں کو روشن کئے ہوئے ہے وہ سومناتھ مندر پر حملہ تھا۔ یہ حملہ دسمبر ۱۰۲۴ ء میں کیا گیا تھا۔ان سطور سے ان سوالوں کا جواب بہ آسانی مل جائے گا کہ مسلمانوں نے ہندوستان پر حملہ کیوں اور کس لئے کیا۔دوسری بات یہ ہے کہ سومناتھ مندر پر حملہ کی تاریخ ،مہینہ اورسال سب کچھ معلوم ہے لیکن اجودھیا میں رام مندر کے توڑے جانے کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے ، نہ دن، نہ تاریخ،نہ مہینہ اور نہ سال جبکہ بابری مسجد ۱۵۲۸ ء میں ظہیر الدین بابر کے سپہ سالار میر باقی نے تعمیر کرائی تھی اگر اس وقت توڑ کر مسجد کی تعمیر کرائی گئی ہوتی بہت شور ہوتا ، ہنگامہ آرائی ہوتی، لوگوں کے زبان پر رام مندر توڑے جانے کا ذکر ہوتا۔ تاریخ کی کتابوں میں ان کا ذکر ہوتا۔ اجودھیا میں رام مندر کا وجود ہوتا تو ہندوستان کی سیاحت کرنے والے فاہیان، ابن بطوطہ اور البیرونی کی تحریر وں میں اس کا ذکر ہوتا جن پر ہندوستانی تاریخ کی بنیاد ہے لیکن یہ سبھی لوگ خاموش ہیں ظاہر سی بات ہے کہ جس کا کوئی وجود ہی نہ ہو تو اس کاذکر کیوں کر کیا جائے گا ان سیاحوں نے ہندوستان کی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی چیزوں ، واقعات، تہذیب، رہن سہن اور تاریخی مقامات کا ذکر کیا ہے۔ تلسی داس کی رامائن سے قبل رام کاکوئی تاریخی وجود نہیں ملتا ہے۔ہندوستان کا کوئی بھی معتبر مورخ رام کے بارے میں حتمی رائے نہیں رکھتا جو بھی بات کہی جاتی ہے وہ صرف روایتوں، قصے کہانیوں اور ہندوستان میں کھیلے جانے والے ڈراموں کی بنیاد پر کہی جاتی ہے نہ کہ حقیقی بنیاد پر نہیں۔
ماہ ستمبر میں دو فیصلے ایسے آئے ہیں جن سے عدلیہ کی جڑیں ہلتی ہوئی محسوس ہورہی ہیں ایک کاتعلق امریکہ سے ہے تو دوسرا امریکہ کو سب سے زیادہ پسند کرنے والا ملک ہندوستان سے۔ امریکہ میں پاکستانی نیورو سائنس داں اور امریکی جیل میں محبوس ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا ہے جنہیں امریکی عدالت نے ۸۶ سال قید کی سزا سنائی ہے ۔ثبوت کے طور امریکی استغاثہ کے پاس ہٹ دھرمی اور من گھڑت بیان کے علاوہ کوئی بھی ثبوت نہیں ہے لیکن اس کے باوجود امریکی ججوں نے انہیں ۸۶ سال کی تاریخی سز ا دی ہے جو کہ ایک موضوع بحث ہے دوسرا فیصلہ مشہور مقدمہ اور ہزاروں لوگوں کی بلی لینے والا اجودھیا قضیہ کاہے ۔جس طرح یکم فروری کو کسی فریق کی بات سنے بغیرفیض آ باد کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے تالا کھلوانے حکم دیا تھا اسی طرح الہ آباد ہائی کورٹ کے لکھنوّ بینچ نے تمام ثبوتوں، دستاویزات ا ور شہادتوں کو پس پشت ڈال کر صرف عقیدے کی بنیاد پر فیصلہ سنا دیا ۔ججوں کے بارے میں کہا جاتاہے وہ صرف اور صرف ثبوت اور دلائل کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں خواہ حقائق انہیں معلوم کیوں نہ ہوں، آستھااور عقیدے کو اپنے اوپر کبھی بھی حاوی ہونے نہیں دیتے لیکن یہاں رام مندر کو تسلیم کرتے ہوےئے فیصلہ سنا دیا گیا اس پر کوئی دلیل نہیں دی گئی کہ رام مندر کیوں ہے ، اسے کب توڑا گیا۔اسے کس نے تعمیر کرایا تھا۔ ہندوستان میں رام تھے تو اجودھیا کے علاوہ پورے ملک میں کسی اور جگہ رام مندر کیوں نہیں ہے۔ چھوٹے موٹے دیوی دیوتا یہاں تک کہ رام کے بھکت ہنومان کے مندر موجود تھے اور ہیں رام تو ہندؤوں کا سب بڑا ہیرو ہیں لیکن رام کا مندرکہیں کیوں نہیں تھا اور کیوں نہیں ہے۔ دونوں فیصلوں میں بہت ہی یکسانیت اور مماثلت ہے دونوں ہی جگہ عدالت میں انصاف کا خون ہوا ہے ۔ دونوں جگہ ہی فیصلے پرجذبات حاوی ہیں ثبوتوں کی جگہ آستھا اور خواہشات کو جگہ دی گئی ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کو جب اقدام قتل کے مبینہ الزام میں ۸۶ سال کی سزا دی جاسکتی ہے تو امریکی شہریوں، جنرلوں اور حکمرانوں کو عراق اور افغانستان میں لاکھوں افراد کے قتل کے جرم میں کتنی سزا دی جانی چاہئے؟۔
ہندو تنظیمیں اجودھیا کے فیصلے پر خوشی منارہی ہیں مگر انہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ یہاں مسلمانوں کی صرف شکست نہیں ہوئی ہے بلکہ ہندوستان کی عظمت کی شکست ہوئی ہے . ہندوستان جو کثیر اور سب سے بڑا جمہوری ملک ہونے کا دعوی کرتا ہے اس کی شکست ہوئی ہے. جس گنگا جمنی تہذیب پر وہ فخر کرتا ہے اس کی شکست ہوئی ہے۔ہندوستان کی عدلیہ اور انصاف کی ہزیمت ہوئی ہے ۔ یہاں یہ راگ الاپتے نہیں تھکتے کہ قانون سب سے بالا اور عقید سے برترہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ سمجھ سے بالاتر ہے آخر کس بنیاد پر فیصلہ کیا گیاہے کیا ہندوستان میں قصے کہانیوں اور عقائد کو شواہد اور دستاویزات پر فوقیت دی جائے گی۔ آستھا کو قانون پر سربلندی حاصل رہے گی؟ یہ فیصلہ کتنا سنگین ہے شاید اس کا احساس ملک کے حکمرانوں کو مکمل طور پر نہیں ہے۔ یہ فیصلہ ملک کے مستقبل کو طے کرے گاکہ یہ ملک اب کس بنیاد پر چلے گا عقائد کی بنیاد پر یا قانون کی بنیاد پر۔ ملک کا قانون سیکولر رہے گا یا عقائد پر مبنی ہوگا یہ فیصلہ کسی چھوٹی موٹی عدالت کا فیصلہ نہیں ہے کہ اسے نظر انداز کردیا جائے یہ عدالت عالیہ کا فیصلہ ہے۔تین ججوں کے بینچ کافیصلہ ہے جہاں سے ناانصافی کی امید بہت کم جاتی ہے۔بابری مسجد کے موجود ہ فیصلے کو ۱۹۹۲ کے مسجد کی شہادت سے زیادہ خطرناک قرار دیا جانا چاہئے کیوں کہ اس دن مسجد کو گرائی گئی تھی لیکن اس دن تو عدالت نے ایک طرح سے ان کے غلط اقدامات کو صحیح ٹھہرادیا ہے۔
اس فیصلے میں مسلمانوں کی تلوار سے مسلمانوں کی گردن اڑائی گئی ہے۔ جسٹس دھرم ویر شرما نے قرآن و حدیث کے حوالے سے اپنے فیصلہ میں کہا ہے کہ کیوں کہ یہ مسجد مندر توڑ کر بنائی گئی تھی اس لئے یہاں نماز نہیں ہوسکتی اور نہ ہی مقبوضہ زمین پر مسجد کی تعمیر جائزہے۔انہوں نے مسجد کی تعمیر ہی کو غلط مانا ہے۔لیکن سوال یہ ہے آخر انہوں نے کس بنیاد پر یہ تسلیم کیا کہ بابری مسجد مندر توڑ کر بنائی گئی ہے۔اس کے لئے انہوں نے کوئی قطعی دلیل پیش نہیں کی صرف آستھاکا خیال رکھا۔ریٹائر ہونے کے بعد ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنے خیالات اور عقیدے کا کھل کر اظہار کیا تھا اس کی نشست کے پست میں رام للا کی مورتی کا فوٹو تھا۔ان کی باتوں سے کہیں نہیں لگ رہا تھا کہ انہوں نے کسی دلیل کو تسلیم کیاہے اور نہ ہی وہ کسی دلیل کی بات کر رہے تھے صرف عقید ے کی بات کر رہے ہیں اور اپنے فیصلے کو جائز ٹھہرانے کے لئے قرآن ، حدیث اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ دے رہے تھے۔انہوں نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ کسی ناجائز جگہ پر تعمیر کی گئی مسجد کو مسجد نہیں مانا گیا ہے اور نہ ہی اس میں نماز پڑھنا جائز ہے۔اس میں جو سب سے بڑا جھول ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک غلط چیز کو تسلیم کرلیا اور فیصلے کی پوری عمارت اس پر کھڑی کردی اور انہوں نے اس نقطے پر غور کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی کہ ۱۵۲۸ء سے دسمبر ۱۹۴۹ء تک مسجد میں جبراً مورتی رکھے جانے تک اس میں برابر نماز ہوتی رہی تھی۔
سب سے غلط چیز کا چلن جو اس فیصلے سے عام ہونے کااندیشہ ہے وہ یہ ہے کہ ایک غلط نظیر قائم ہوئی ہے اس نظیر کی بنیاد پر اس طرح کے فیصلے کئے جاتے رہیں گے۔ کسی مذہبی مقام پر قبضہ کرکے اور عقیدے کا حوالہ دے کر ناجائز قبضے ہونے شروع ہوجائیں گے اور عدالت آستھا کا حوالہ دے کر انصاف کرنے سے قاصر رہے گی۔سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس فیصلے کے بعد ملک میں کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہیں ہوا لیکن یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آخر امن کے دشمن اور ’’قسم رام کی کھاتے ہیں مندر وہیں منائیں گے‘‘، ’’عدالت کافیصلہ ہم نہیں مانیں گے یہ ہمارے آستھا کا سوال ہے‘‘۔ اسی طرح کی اشتعال انگیز باتیں کرنے والے امن کی باتیں کیوں کررہے تھے مسلمانوں کا ماتھا اسی وقت ٹھنک جانا چاہئے تھا۔ ہندوتو کے علبردار تمام لیڈران کو یہ معلوم تھا کہ فیصلہ کیا آنے والا ہے ۔ اس سے وابستہ وکلاء جس انداز میں اور جس اعتماد سے باتیں کررہے تھے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں معلوم تھا کہ کس طرح کا فیصلہ آئے گا۔جشن نہ منانے کی اپیل کرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی کے آفس میں جم کر جشن منایا گیا اور پٹاخے چھوڑے گئے ۔ اس کے علاوہ بھگوا بریگیڈ نے ملک کے دیگر حصوں میں بھی جشن منایا۔جس طرح بابری مسجد میں مورتیاں رکھوانے سے لے کر تالا کھلوانے اور شیلانیا س کرانے کا سہرا کانگریس کے سر ہے اسی طرح اس غیر مصنفانہ فیصلہ کا سہرا بھی کانگریس کے ہی سر جاتا ہے۔کانگریس نے یہ سوچا تھا کہ جس طرح بابری شہادت کا واقعہ بھول کر ۲۰۰۴ اور ۲۰۰۹ میں مسلمانوں نے کانگریس کا ساتھ دیا اور مسلم ووٹ کے سہارے وہ اقتدار سے لطف اندزو ہورہی ہے ۔ اسی طرح زمین ایک قطعہ د ے کر مسلمانوں کو خوش کردیں گے۔ کانگریسی حکومت اور ہندوستان کے تمام رہنماؤں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ ظلم و جبر کے سہارے حق کو کچھ دیر کے لئے تو دبایا جاسکتا ہے لیکن ہمیشہ کے لئے نہیں کیوں کہ حق کی آواز ایک دن بلند ہوکر رہتی ہے۔
مسلمانوں کے لئے اچھی بات یہ ہے کہ تمام صاحب فکر، سیکولر، صاف شفاف ذہن رکھنے والے اور حق و انصاف کی آواز بلند کرنے والے وکلاء نے اس فیصلے سے اتفاق نہیں کیا ہے ۔ سب نے ہی اسے فیصلہ نہیں بلکہ پنچایت قرار دیا ہے جہاں فیصلہ دلائل کی بنیاد پر نہیں رتبہ، دبدبہ،طاقت اور منہ دیکھ کر کیا جاتاہے۔الہ آباد ہائی کورٹ کے لکھنو بینچ میں بھی اسی طرح کا فیصلہ ہوا ہے جہاں انہوں نے دلائل کو ایک طرف رکھ ایک مفروضہ کو حقیقت کی شکل میں تسلیم کرتے ہوئے فیصلہ صادر کردیا ۔ مسلمانوں کو ان سب لوگوں ساتھ لے کر اور ان سے صلاح و مشورہ کرکے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے سے پہلے لائحہ عمل تیارکرنا چاہئے اور تمام دلائل، نظیر، دستاویزات، گزٹ اوروقف میں درج بابری مسجد کے حقائق کا گہرائی اور گیرائی کے ساتھ مطالعہ اور تجزیہ کرنا چاہئے۔
ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۲۵
9810372335
E-mails
abidanwaruni@gmail.com
abid.anwar@yahoo.co.in

No comments:

Post a Comment