تیس ستمبر دوپہر 3بجے کا وقت ،ہندوستان کے ہر شہر، ہر گلی، ہر محلہ میں سناٹا طاری۔ شہر ویران، گلیاں سنسان، ایسا لگ رہا تھا جیسے کہ خدانخواسہ کوئی بڑا طوفان آکر گزر گیا ہو، مگر یہ طوفان کے پہلے کا سناٹا تھا، جب کہ ہندوستان کی تاریخ کا سب سے بڑا فیصلہ آنے والا تھا۔ سبھی کی آنکھیں اس فیصلے کی منتظر تھیں۔ ہر دل کی دھڑکن اس فیصلے کی آہٹ پر کان لگائے ہوئے تھی۔ ایک خوف، ایک بے چینی کا عالم طاری تھا کہ دیکھئے یہ فیصلہ کس کے حق میں جاتا ہے۔ کسی بڑے فساد کا خوف سب کے دلوں میں سمایا ہوا تھا، اس لیے لوگ اپنے اپنے گھروں میں بند ہوگئے تھے۔ میڈیا نے ایسا ماحول بنادیا تھا کہ جیسے کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا اور اسی خوف نے لوگوں کو گھروں میں بند کردیا تھا اور آخر کار 4بجے کے قریب یہ تاریخی فیصلہ آیا اور 10منٹ تک تو ہر چینل پر کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی اور جب یہ فیصلہ اللہ اللہ کر کے پڑھا گیااور چینلز نے اپنے اپنے الفاظ میں اس کو دینا شروع کیا تو اپنی سماعت پر لمحہ بھر کو یقین نہیں آیا۔ اس لیے نہیں کہ مسلمان ہونے کے ناطے ہمارے کان صرف اور صرف اپنے حق میں فیصلہ سننے کے منتظر تھے، نہیں بلکہ ایک صحافی کی حیثیت سے جو ذمہ داری ہمارے کندھوں پر ہے اسی دیانت داری اور صحافتی ایمانداری کی کسوٹی پر بھی اس فیصلے کو جب رکھا گیا تو محسوس ہوا کہ یہ فیصلہ تو صرف اور صرف آستھا (عقیدت) کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ دس ہزار صفحات پر مشتمل اس فیصلے میں جسٹس شرما، جسٹس اگروال اور جسٹس خان تینوں نے ہی اس بات پر تو ایک ہی فیصلہ دیا کہ مسجد تھی یا نہیں، نماز ہوتی تھی یا نہیں۔ اس پر تینوں کا ہی ماننا تھا کہ نماز ہوتی تھی، مسجد تھی، مگر جب یہ سماعت ہوئی کہ مسجد کس کو دی جائے تو جسٹس شرما کا فیصلہ تھا کہ رام مندر کو اور باقی 2ججوں کا فیصلہ تھا کہ تینوں کو۔ اسی طرح جب یہ بات آئی کہ وہاں رام مندر توڑا گیا تھا تو جسٹس شرما کا کہنا تھا کہ ہاں مگر باقی 2ججوں کا کہنا تھا کہ نہیں۔ ایک اور دلچسپ سوال تھا کہ کسی اور مندر کو توڑ کر مسجد بنائی گئی تھی تو بھی شرما جی کا جواب ہاں میں تھا اور باقی دو میں سے جسٹس اگروال کا جواب تھا کہ ایسا ہوسکتا ہے اور جسٹس خان کا جواب نہیں میں تھا۔ کل ملا کر اس فیصلے میں جسٹس شرما کا کردار بالکل ایسا لگ رہا تھا جیسے کہ کوئی دھرم گرو فیصلہ کر رہا ہو اور کسی بڑے دھرم گرو یا مہنت کے ہاتھ میں فیصلہ دے دیا گیا ہو کہ ’لو جی تم اپنی عقیدت کی بنیاد پر فیصلہ کرو‘ اور اس شرما نام کے دھرم گرو نے باقاعدہ پورے ملک کی سا لمیت، پورے ملک کے سیکولر کردار اور تمام تاریخ دانوں کی رائے، شواہد و حقائق کو بالائے طاق رکھ کر فیصلہ سنادیا۔ باقی دونوں ججوں نے پھر بھی کافی حد تک اس فیصلہ کوبیلینس رکھنے کی کوشش کی، مگر اس کوشش میں پورا کا پورا فیصلہ ہی کنفیوژ فیصلہ بن گیا اور اس کنفیوژ فیصلہ کا اعتراف سبھی نے کیا ہے۔ لالو پرساد یادو کا یہ کہنا کہ یہ فیصلہ کنفیوژن پیدا کرنے والا ہے اور کچھ بھی کہہ پانا مشکل ہے، یقینا صحیح بیان ہے، اسی طرح کمیونسٹ رہنما سیتارام یچوری نے بھی اس کو ایک طرح سے کنفیوژ فیصلہ ہی کہا ہے۔ ہاں آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت جی کا بیان امید کے مطابق ہے کہ اس فیصلہ کو کامیابی اور ناکامی کا نام نہیں دینا چاہیے، بلکہ قومی مفاد میں اسے تسلیم کرلینا چاہیے۔ موہن بھاگوت جی کے اس بیان میں اگر ان سے یہ پوچھا جائے کہ قومی مفاد کا خیال اس لیے رکھا جائے کہ اب فیصلہ اکثریت کے حق میں ہے یا یہ بیان ان کا تب بھی ہوتا جب فیصلہ اقلیت کے حق میں جاتا۔ ایک بات اور یہاں بہت اہم ہے کہ بار بار یہ کہا گیا اور میڈیا نے بھی باربار یہ پروپیگنڈہ کیا کہ ملک میں امن و سلامتی برقرار رکھی جائے، سبھی فرقہ کے سبھی مذاہب کے سربراہان کی جانب سے بھی یہ اپیل بار بار کی گئی اور اقلیت کے ذہن میں بھی یہ خوف تھا کہ اگر فیصلہ ان کے حق میں آجاتا ہے تو پورے ملک میں آگ لگ جائے گی، کیا اس آگ لگ جانے اور فساد کے خوف سے یہ فیصلہ پورا کا پورا اکثریتی فرقہ کے حق میں دے دیا گیا؟ کیا کسی گھر کے ایک فرد کو کوئی موذی مرض لاحق ہوجائے تو اس خوف سے کہ کہیں سچائی جاننے پر گھر کے لوگ مر نہ جائیں۔ ڈاکٹر اس مرض کو نہیں بتاتا اور اس طرح مرنے والا مرجاتا ہے۔ فرقہ پرست طاقتوں نے اس بات کو پھیلانے اور اس کا پرپیگنڈہ کرنے کی کوشش کی کہ فیصلہ اگر وقف بورڈ کی حمایت میں آئے گا تو ہندو فساد کریںگے اور پورے ملک کو آگ میں جھونک دیںگے اور اگر ان کے حق میں آئے گا تو بھی وہ اپنی فتح کا جشن منائیںگے، جس سے کہ فساد ہوسکتا ہے۔ یعنی اقلیت کسی گنتی میں ہے ہی نہیں۔ اکثریت ہر طرح سے طاقتور ہے اور وہ جیسا چاہے گی ویسا ہی رد عمل ہوگا۔ ہاں اقلیت کی ان معنوں میں ضرور تعریف کرنی چاہیے کہ ان کے سبھی جماعتوں کے لیڈران اور سربراہان نے اس فیصلے کو چاہے قبول نہیں کیا اور سپریم کورٹ میں جانے کی بات کی، مگر اس فیصلے کے خلاف کوئی نعرہ بازی یا جلسے جلوس کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ فیصلے کے اگلے دن یعنی یکم اکتوبر کے ٹائمس آف انڈیا میں شائع ایک خبر یاد آرہی ہے، جس کو پڑھ کر اچھا لگا تھا کہ جب مسلم اکثریتی علاقے کے نوجوانوں سے یہ سوال کیا گیا کہ ان کو کیا لگ رہا ہے اور کیا فیصلہ ہونا چاہیے تھا تو زیادہ تر نوجوانوں نے یہ جواب دیا کہ متنازع جگہ پر اسپتال بنا دینا چاہیے۔ یہ ایک معصومانہ جواب تھا، مگر اس جواب میں وہ حقیقت تھی، وہ جذبہ تھا جو یہ نہیں چاہتا کہ اب اور ملک فساد کی نذر ہو۔ اسی طرح جب کچھ اور نوجوانوں سے سوال کیا گیا کہ کیا ہونا چاہیے تو زیادہ تر پڑھے لکھے نوجوان طبقے کی رائے تھی کہ اسکول یا کالج کا قیام عمل میں لانا چاہیے اور دونوں ہی فرقوں کے لیے اس اسکول یا کالج کا نام ایسا رکھ دینا چاہیے جس سے کہ یہ واضح ہو جائے کہ یہ دونوں کا مشترکہ سرمایہ ہے۔ یہ ہے آج کے نوجوان کی سوچ۔ اور سچ میں جب کہ اس وقت ملک مہنگائی، بدعنوانی، بھوک اور بیماریوں سے نبردآزما ہے، ایسے میں کیا بابری مسجد-رام مندر کا ایشو اتنا ہی اہم ہے، اس کے لیے پورے ملک کو آگ میں جھونک دیا جائے۔ ہاں یہ بھی ضروری ہے کہ اس فیصلے کا سبھی پارٹیاں سیاسی فائدہ اٹھانے کی بھر پور کوشش کریںگی۔
جیسا کہ ملائم سنگھ یادو نے بڑے ہی درد مندانہ انداز میں کہا ہے کہ فیصلہ میں آستھا کو قانون اور ثبوتوں سے اوپر رکھا گیا ہے اور اس فیصلہ سے مسلمان ٹھگا ہوا محسوس کر رہا ہے۔ملائم سنگھ کا یہ بیان کتنا سچا اور کھرا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا، شاید ووٹ بینک بنانے کا یہ بھی ایک حصہ ہو، مگر پھر بھی ڈوبتے کو تنکے کا سہارا۔ اس بیان سے کافی حد تک مسلمانوں کو تقویت ملی ہے۔ایک اور بات بڑی ہی عجیب لگی ، نو بھارت ٹائمز کا جب نیٹ ایڈیشن نظر سے گزرا تو ایک بلاگ پر ایک بڑا ہی اچھوتا قسم کا آرٹیکل دیکھنے کو ملا۔ جس کا عنوان تھا ’’کیا مسجد سے مندر کو چھوت لگ جائے گی‘‘۔ اتنا اچھوتا عنوان دیکھ کر پڑھنے کا تجسس ہوا تو اس میں لکھا تھا کہ بی جے پی کے لیڈر اس فیصلہ کے بعد میٹنگ کر کے باہر نکلے تو سب کے چہرے لٹکے ہوئے تھے جس کو دیکھ کر بڑا تعجب ہوا کہ ان کو تو خوش ہونا چاہئے تھا کہ فیصلہ ان کے حق میں آیا ہے۔لیکن لگا کہ کہیں ان کو یہ دکھ تو نہیں کہ اب یہ ووٹوں کو سیاست کس پر کریں گے اور یہ نعرہ کہ ’’قسم رام کی کھاتے ہیں مندر وہیں بنائیں گے‘‘نہیں لگا پائیں گے پر جلد ہی بات سامنے آ گئی کہ فیصلہ میں ایک تہائی حصہ جو مسلمانوں کو ملا ہے وہ اس کے بارے میں پریشان تھے، کیونکہ صحافی بار بار ان سے سوال کر رہے تھےاور کہہ رہے ہیں کہ رام مندر بنانے میں پورے ملک کو ساتھ دینا چاہئے تو کیا آپ اس ایک تہائی زمین پرمسجد بنانے میں مسلمانوں کا ساتھ دیں گے، مگر سبھی نے خاموشی اختیار کر لی۔ صرف اڈوانی جی نے جواب دیا کہNo question will be taken. یعنی سبھی کو اس بات کی خوشی کم تھی کہ مندر بنا سکتے ہیں اس بات کا دکھ زیادہ تھا کہ ایک تہائی پر بھی کیوں مسجد کی بات کہی گئی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ مسجد سے مندر کو کوئی چھوت لگ جائے گی۔ یہ رویہ ہے ہمارے سینئر لیڈران کا۔ پرعام آدمی کو کیا اس سے واقع کوئی مطلب ہے کہ مندر بنے یا مسجد۔ اس عام آدمی کو جو اس وقت آلو پیاز کے دام دیکھ کر اپنی جیب ٹٹولتا ہے۔وہ آدمی جسے سبزی ترکاری بھی میوئوں کے دام دے کر خریدنی پڑ رہی ہیں۔ اس عام آدمی کی بھی سوچئے، مندر مسجد بھی بنائیے، لیکن عام آدمی کو روز مرہ کی اشیا کی بڑھتی قیمتوں سے چھٹکارا بھی دلائیے، کیونکہ’’ بھوکے پیٹ بھجن نہ ہو‘‘ کی کہاوت عام ہے۔کیونکہ بھوکے پیاسے ہندو یامسلمان کو روٹی سے مطلب ہے مندر یا مسجد سے نہیں۔
سید ابراہیم ملک بیا اکادمے سیھن ، نوادہ ،بھار ایک تحقیقی ،تصنیفی , تعلیمی اور سماجی ادارہ
Friday, October 22, 2010
آستھا کی بھینٹ چڑھ گیا فیصلہ: وسیم راشد
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment