یہ تم نے کیا کہہ دیا!ایم ودودساجد16دسمبرکاواقعہ سب سے نمایاں واقعہ ثابت ہوالیکن ایسا نہیں ہے کہ ملک میں کہیں اور یاخود دہلی میں اس نوعیت یا اس شدت کاکوئی دوسرا واقعہ نہ ہوا ہو۔ایک رپورٹ کے مطابق دہلی میں ہی ہر روز نصف درجن سے زائد عصمت دری کے واقعات ہوتے ہیں۔عصمت دری کے بعد قتل کے واقعات بھی کچھ کم نہیں ہوتے ۔ بیشتر کی تورپورٹ ہی درج نہیں ہوپاتی۔پولس کا جورویہ ہے وہ سب کے سامنے ہے۔پنجاب کی ایک عصمت دریدہ لڑکی کو جب پولس کے ناقابل ذکر سوالات کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے خود کشی کرلی۔بہار میں ایک فوجی افسر کی شادی شدہ بیٹی کے ساتھ اس کے شوہر اور دوستوں نے جو کچھ کیا وہ تو دہلی کے واقعہ سے بھی زیادہ خوفناک ہے۔ یوپی کے ایک واقعہ میں پولس نے غمزدہ ماں باپ کو یہ کہہ کرتھانہ سے بھگادیا کہ تمہاری لڑکی اپنے یار کے ساتھ بھاگ گئی ہوگی۔ اگلے روز وہ لڑکی نیم برہنہ حالت میں مردہ ملی۔ اب تو ہر روز جس طرح پرانے واقعات کی تفصیل کھل کر سامنے آرہی ہے اس سے پولس اور معاشرہ کا اور زیادہ مکروہ چہرہ سامنے آیا ہے۔ان تمام حالات پر آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے ایک بیان دے کر بہت سوں کو اپنا مخالف بنالیاہے۔موہن بھاگوت کے بیان کے دو حصے ہیں۔انہوں نے کہا تھا کہ عصمت دری کے واقعات انڈیا میں ہوتے ہیں بھارت میں نہیں۔ان کا اشارہ شہری اوردیہی علاقوں کے جداگانہ طرزمعاشرت کی طرف تھا۔بیان کے دوسرے حصہ میں انہوں نے کہا تھا کہ شادی( نکاح) دراصل شوہر بیوی کے درمیان ایک مقدس معاہدہ ہے۔اس کی رو سے بیوی گھر کے تمام کام کاج کی ذمہ دار ہوتی ہے اور شوہر کے ذمہ بیرونی کام کاج اور کمانا ہوتاہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس معاہدہ کی رو سے عورت اس کے گھر کی آبرو رکھتی ہے اور مرد خود اس عورت کی آبرو کا محافظ ہوتا ہے۔میرے پیش نظر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ایک قول ہے‘ آپ نے فرمایا انظر الی ما قال‘لا تنظر الی من قال یعنی یہ دیکھو کہ کیا کہا گیا ہے‘یہ نہ دیکھو کہ کس نے کہا ہے۔اس فطری کشش رکھنے والے قول کے سامنے میں نہیں سمجھ پارہا ہوں کہ آر ایس ایس کے سربراہ کے بیان کی تائید کیوں کر نہ کی جائے؟بھاگوت کے اس بیان پر احباب نے مذمتوں کا جو سلسلہ شروع کیا ہے وہ حیرتناک ہے۔ایسے بیانات کو ’بے تکا‘اور نہ جانے کیا کیا کہا جارہا ہے۔سیاستداں تو سیاسی اسباب سے اس کی مخالفت کر رہے ہیں لیکن ہمارے اپنے احباب ‘ جو اخلاقی درس دیتے نہیں تھکتے ‘کس بنیاد پر اس بیان کی مخالفت کر رہے ہیں؟کیا صرف اسلئے اس بیان کی مذمت کی جانی چاہئے کہ وہ آر ایس ایس کے سربراہ نے دیا ہے؟کیا ہم اخلاقی اقدار اور اسکے تقاضوں کو اسلئے اختیار نہیں کریں گے کہ ہمارے سیاسی اور سماجی مخالفین بھی اس کا دم بھرتے ہیں؟ یہ طریقہ نامناسب اور غلط ہے۔معقول بات اگرشکستہ دیوار پر بھی لکھی ملے تو اسے قبول کرنا چاہئے۔ سونے کے محل پر لکھاہوا برا مشورہ آخر کس کام کا؟ ادھرگجرات کے روحانی گرو آسارام نے کہا ہے کہ عصمت دری کے خلاف مزید سخت قانون بنایا گیا تو اس کا ناجائز استعمال بھی ہوگا۔آسارام کی بات صحیح ہے۔آخرٹاڈا‘پوٹااور UAPA کے اس ملک میں اس کی کیا ضمانت ہے کہ خواتین کے تحفظ کے نام پر بنائے گئے سخت قانون کا ناجائز استعمال نہیں ہوگا؟آئیے اب تھوڑا آگے بڑھتے ہیں۔کانگریس پارٹی کے سینئر قائددگوجے سنگھ نے کچھ اور ہی فرمادیا۔انہوں نے بھاگوت کے بیان کی روشنی میں آر ایس ایس اور طالبان کو ایک ہی سکہ کے دو رخ بتایاہے۔مجھے اس موقعہ پر۲۰۱۰میں اپنے دورہ امریکہ کے دوران لاس اینجلس یونیورسٹی میں افغانستان کی ایک خاتون صحافی سے تفصیلی ملاقات یاد آتی ہے۔نوشین عرب زادہ ‘سوویت یونین کے تسلط کے دوران کابل میں پلی بڑھیں مگر جرمن اور ہسپانوی ادب میں ہیمبرگ اور کیمبرج یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔انہوں نے بی بی سی کیلئے بھی کام کیا اور اب امریکہ میں ریسرچ کر رہی ہیں۔امریکہ کے اس طویل سفر کی میرے پاس بڑی یادگاراور دلچسپ تفصیلات ہیں جن کو کتابی شکل میں لانے کی فرمائشوں کے سبب اب تک باضابطہ قلم بند کرنے کا موقعہ نہیں ملا۔لیکن یہاں موقع کی مناسبت سے وہ بتانا مقصود ہے جو نوشین نے اس ملاقات میں بتایاتھا۔اس نے بڑے فخر سے کہاتھا کہ" میں ایسی افغان لڑکیوں کو جانتی ہوں کہ جو کابل سے برقعہ اوڑھ کر امریکہ آئی تھیں لیکن اب وہ کابل میں جاکرDRINKکرتی ہیں‘ اب کابل یونیورسٹی میں جنسی استحصال اور تشدد بڑھ گیا ہے‘ طالبان کے زمانے میں کوئی بھی خاتون یا دوشیزہ رات کے کسی بھی حصہ میں اکیلیگھوم سکتی تھی‘طالبان سب کچھ تھے مگر بدعنوان نہیں تھے"۔نوشین کے بیان کو ہم یہیں روکتے ہیں۔اور اب دگوجے سنگھ سے پوچھتے ہیں کہ انہیں ہندوستان میں کون سا معاشرہ مطلوب ہے؟وہ معاشرہ جس میں ہندوستانی لڑکیاں یونیورسٹیوں‘بازاروں اور گھروں میں DRINKکریں؟یا وہ جس میں خواتین اپنے ماں باپ‘بہن بھائی‘اور اپنی اولاد اور شوہروں کے درمیان اخلاقی اقدار کا نمونہ بن کر رہیں؟وہ معاشرہ جس میں ہماری عورتیں گھر وں کی رونق بن کررہیں یا وہ جس میں ہماری عورتیں بازاروں میں سج سنور کر اتریں؟دگوجے صاحب! ہم نہیں جانتے کہ طالبان کون ہیں‘ہمیں ان کا دفاع بھی مقصود نہیں ہے۔ہمیں اپنے ملک اور اس کی اقدار کی فکر ہے۔لیکن آپ کے دماغ کا فتور یہ ہے کہ آپ کو ہر رنگ میں اسلام اور مسلمانوں کا تصور ستاتا ہے ‘لہذا آپ کے منہ سے یہ ’بے تکی‘ باتیں نکلتی ہیں۔یہاں موقع نہیں ہے لیکن اتنا سمجھ لیجئے کہ جس اسلام سے آپ بیزار ہیں خواتین کو اس سے زیادہ آزادی ‘برابری اور عزت کہیں اور نہیں ملی۔اگر ماں اپنے بچے کو دودھ پلانے سے انکار کردے تو شوہر شرعی طورپر اس کو مجبور نہیں کرسکتا۔یہ تو اس کی شدت محبت اور اس کا احسان ہے کہ وہ اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہے۔ آپ سے ایک سوال اور کرنا ہے۔عصمت دری کے واقعہ کے خلاف مظاہرہ میں بینروں پر لکھے اس نعرہ کے بارے میں کیا خیال ہے"ٹھیک ہے میرا سینہ چست ہے‘میری ٹانگیں کھلی ہوئی ہیں لیکن اس کایہ مطلب نہیں کہ میں ہر ایک کیلئے اپنی ٹانگیں پھیلادوں گی"۔کیا آپ ایساہی معاشرہ تشکیل دینا چاہتے ہیں؟کیونکہ ایک صالح معاشرہ آپ کو طالبانی معاشرہ نظرآتا ہے۔ غور کیجئے اور اقدار سے نفرت کے اس خناس کو ذہن سے نکالئے جس نے ہمارے وطن عزیز کو کہاں سے کہاں سے پہنچا دیا ہے۔عصمت دری کے زیربحث واقعہ پر ملک بھر کی سڑکوں پر مظاہرہ کرنے والوں سے بھی ایک سوال ہے کہ کیا گجرات کی بدنصیب بلقیس خاتون کا واقعہ دہلی کے واقعہ سے کم شرمناک اور خوفناک تھا؟۲۰۰۲میں پانچ سو سے زائد افراد کے ایک ہجوم نے اس کے آٹھ ماہ کے حمل سے ایک معصوم کو چیر پھاڑ کر نکالا اور پھر اس کو نذر آتش کردیا۔اس کے بعد خود بلقیس کی آبرو کو تارتار کیا گیا۔اس وقت نہ کسی دگوجے کوطالبان نظر آئے اور نہ کسی موہن بھاگوت کو بھارت کا یہ چہرہ نظرآیا۔یہ ہے بلقیس اور دامنی کا فرق۔کیااسی ہمالیائی فرق کی لرزہ براندام بنیادوں پرنئے انڈیا اور نئے بھارت کی تشکیل کرنا چاہتے ہو؟wadoodsajid@gmail.com
سید ابراہیم ملک بیا اکادمے سیھن ، نوادہ ،بھار ایک تحقیقی ،تصنیفی , تعلیمی اور سماجی ادارہ
Wednesday, January 16, 2013
یہ تم نے کیا کہہ دیا
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment